لغوی معنی قدم نزدیک نزدیک رکھنا۔ اور مونڈھوں کو ہلانا۔ یہ حج کی سنت ہے یہ صرف مردوں کے لیے ہے عورتیں مستثنیٰ ہیں۔

ایک طواف میں سات چکر ہوتے ہیں،پہلے طواف میں تین چکروں میں سینہ تان کر اکڑتے ہوئے بہادری دکھاتے ہوئے چلنا(رمل کہلاتا ہے)،بقیہ چار چکروں میں معمولی رفتار پر چلنا سنت ہے۔[1] اس کی وجہ علامہ ابن کثیر یہ لکھتے ہیں

ایک روایت میں ہے کہ آپ نے حجۃ الوداع میں بھی اسی طرح طواف کے تین پھیروں میں رمل کیا یعنی دلکی چال چلے۔ بخاری مسلم میں ہے کہ اصحاب رسول کو مدینے کی آب و ہوا شروع میں کچھ ناموافق پڑی تھی اور بخار کی وجہ سے یہ کچھ لاغر ہو گئے تھے، جب آپ مکہ پہنچے تو مشرکین مکہ نے کہا یہ لوگ جو آ رہے ہیں انہیں مدینے کے بخار نے کمزور اور سست کر دیا اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے اس کلام کی خبر اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کردی۔ مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ حجر اسود سے لے کر رکن یمانی تک طواف کے تین پہلے پھیروں میں دلکی چال چلیں اور رکن یمانی سے حجر اسود تک جہاں جانے کے بعد مشرکین کی نگاہیں نہیں پڑتی تھیں وہاں ہلکی چال چلیں پورے ساتوں پھیروں میں رمل کرنے کو نہ کہنا یہ صرف بطور رحم کے تھا، مشرکوں نے جب دیکھا کہ یہ تو سب کے سب کود کود کر پھرتی اور چستی سے طواف کر رہے ہیں تو آپس میں کہنے لگے کیوں جی انہی کی نسبت اڑا رکھا تھا کہ مدینے کے بخار نے انہیں سست و لاغر کر دیا ہے؟ یہ لوگ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ چست و چالاک ہیں

[2]

طواف کعبہ کرتے وقت پہلے تین پھیروں میں مرد رمل کرتا ہے یعنی جلد جلد چھوٹے قدم رکھتا، شانے ہلاتا جیسے قوی و بہادر لوگ چلتے ہیں، نہ کُودتا نہ دوڑتا، جہاں زیادہ ہجوم ہو جائے اور رمَل میں اپنی یا دوسرے کی ایذا ہو تو اتنی دیر رمَل ترک کرے مگر رَمَل کی خاطر رُکے نہیں بلکہ طواف میں مشغول رہے پھر جب موقع مل جائے، تو جتنی دیر تک کے لیے ملے رَمَل کے ساتھ طواف کرے۔[3]

رَمَل صرف تین پہلے پھیروں میں سنت ہے ساتوں میں کرنا مکروہ لہٰذا اگر پہلے میں نہ کیا تو صرف دوسرے اور تیسرے میں کرے اور پہلے تین میں نہ کیا تو باقی چار میں نہ کرے، اگر بھیڑ کی وجہ سے رَمَل کا موقع نہ ملے تو رَمَل کی خاطر نہ رکے، بلا رَمَل طواف کرلے اور جہاں جہاں موقع ہاتھ آئے اُتنی دور رمل کرلے اور اگر ابھی شروع نہیں کیا ہے اور جانتا ہے کہ بھیڑ کی وجہ سے رَمَل نہ کرسکے گا اور یہ بھی معلوم ہے کہ ٹھہرنے سے موقع مل جائے گا تو انتظار کرے۔[4]

رَمَل اس طواف میں سنت ہے جس کے بعد سعی ہو، لہٰذا اگر طوافِ قدوم کے بعد کی سعی طوافِ زیارت تک مؤخر کرے تو طوافِ قدوم میں رَمَل نہیں۔[5]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد چہارم صفحہ179،مفتی احمد یار خان نعیمی،نعیمی کتب خانہ گجرات
  2. تفسیر ابن کثیر سورہ الفتح آیت27
  3. بہار شریعت حصہ ششم،امجد علی اعظمی صفحہ1097
  4. الدرالمختار و ردالمحتار، کتاب الحج، مطلب فی طواف القدوم
  5. الفتاوی الھندیۃ، کتاب المناسک، الباب الخامس في کیفیۃ اداء الحج