زرتشت نے کہا ((جرمنی: Also sprach Zarathustra: Ein Buch für Alle und Keinen)‏ فلسفیانہ ناول ہے، جو جرمنی کے مشہور فلسفی نطشے نے جرمنی زبان میں 1883ء سے 1885ء کے درمیان چار حصوں میں ترتیب دیا، جسے اس نے 1883ء سے 1891ء کے درمیان شائع کرایا۔[1] نطشے کی کتابوں میں، اس کتاب کو سب سے اہم تصنیف تسلیم کیا جاتا ہے۔[2] اس میں نطشے کی ساری فلسفیانہ فکر یکجا ہے۔ اپنے تخلیقی اور ادبی اسلوب کی حیثیت سے بھی اس کا شمار دنیا کے محدودے چند کتابوں میں ہوتا ہے۔[2] نطشے نے خود ہی اپنی آخری تصنیف میں اس کتاب کے عنوان میں زرتشت کے نام شامل کرنے اور زرتشت کی زبانی اس کتاب کو لکھنے، کا مقصد بیان کیا ہے۔

زرتشت نے کہا
Also sprach Zarathustra
پہلا اشاعت کا سرورق
مصنففریڈرک نطشے
اصل عنوانAlso sprach Zarathustra: Ein Buch für Alle und Keinen
ملکجرمنی
زبانجرمن
ناشرارنسٹ سچمیتزنر
تاریخ اشاعت
1883–1891
قسم ذرائع ابلاغمجلد، paperback
سابقہThe Gay Science
اگلیBeyond Good and Evil

مجھ سے یہ پوچھا نہیں گيا حالانکہ یہ سوال کیا جانا چاہیے تھا۔ کہ زرتشت کا یہ نام میرے نزدیک کیا مطالب و مفاہیم رکھتا ہے۔ زرتشت پہلا مفکر اور انسان تھا تھا جس نے خیر اور شر کی کش مکش کو دیکھا۔ اور یہ وہی کش مکش ہے جو انسانی زندگی میں اعمال کے پس منظر میں پہیے کی طرح گردش کرتی ہے۔ اس نے اخلاقیات کو مابعدالطبعیات کی مملکت تک پہنچا دیا۔ میرے لیے جو چيز بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ زرتشت دوسرے تمام مفکرین کے مقابلے میڑ زیادہ راست باز ہے۔ وہ اس میدان میں اکیلا ہے۔ اس کی تعلیمات سچائی کا پرچم اٹھائے ہوئے ہیں۔[2]

تاریخ تصنیف

ترمیم

زرتشت نے کہا، کا خیال، نطشے کو جنس کی سائنس لکھنے کے دوران آیا، اس نے مختصر سا جملہ (نوٹ) یادہانی کے لیے لکھا، "انسان اور وقت سے باہر 6,000 پاؤں" اس کے ثبوت کے طور پر۔[3] نطشے نے کتاب، اسلس ماریا کے مقام پر لکھی، جو یورپ میں اپرانگا ڈائن کا ایک بلند مقام ہے۔ نطشے کا ارادہ کتاب کو تین حصوں میں لکھنے کا تھا، نطشے کو ناشر کی طرف سے کتاب کی اشاعت میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا، 1883ء سے 1885ء تک پہلے تین حصے چھپے، مگر چوتھا حصہ، جس کا اسلوب، باقی تینوں حصوں سے الگ تھا، جسے نطشے نے بعد میں لکھا تھا، ناشر نے شائع کرنے انکار کر دیا، اس حصے کے چند نسخے ہی شائع ہو سکے، جن کا خرچ خود، نطشے نے برداشت کیا۔[4]

خاکہ/خلاصہ

ترمیم

تین حصوں میں نطشے نے تین اہم عنوانات پر لکھا، فوق الانسان یا فوق البشر، خدا کی موت، خیر اور شر

حوالہ جات

ترمیم
  1. پہلے 2 حصے 1883ء میں شائع کرائے، تیسرا حصہ 1884ء میں اور چوتھا؛ آخری حصہ 1891ء میں۔
  2. ^ ا ب پ ستار طاہر (1986ء)۔ دنیا کی سو عظیم کتابیں۔ ملتان: کاروان ادب۔ صفحہ: 469 
  3. Gutmann, James. "The "Tremendous Moment" of Nietzsche's Vision". The Journal of Philosophy, Vol. 51, No. 25. American Philosophical Association Eastern Division: Papers to be presented at the Fifty-First Annual Meeting, Goucher College, December 28–30, 1954. pp. 837–842.
  4. ول ڈیورانٹ (2012ء)۔ داستان فلسفہ۔ ترجمہ بقلم سید عابد علی عابد۔ لاہور: فکشن ہاؤس۔ صفحہ: 528