امیر علی سائیں نانگا کا تعلق ڈھونڈ قریش خاندان سے تھا۔ آپ امام بری سرکار کے بہت بڑے عقیدت مند تھے۔


امیر علی سائیں نانگا
ذاتی
پیدائش
ہلی والا گاؤں ڈیریال اسلام آباد
وفات(18 محرم 1350ھ بمطابق 16 جون 1930ء)
نور پور شاہاں اسلام آباد
مذہباسلام
والدین
  • حیات علی (والد)
سلسلہقادریہ
مرتبہ
مقامنور پور شاہاں اسلام آباد

تعارف

ترمیم

سائیں نانگا ہلی والا کا اصل نام امیرعلی تھا۔ آپ کے والد ماجد کا نام حیات علی تھا۔ آپ نور پور شاہاں سے تقریباً 12 میل دور شمال کی جانب تحصیل کے ایک گاؤں ڈیریال کے علاقہ ہلی والا میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا تعلق ڈھونڈ قریشی قبیلے سے تھا۔

پرورش

ترمیم

سائیں نانگا ابھی کمسن ہی تھے کہ والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد کی وفات کے بعد آپ کے چچا اعتبارعلی نے آپ کی پرورش کی جو سرائے خربوز تحصیل ہری پور کے رہنے والے تھے۔

امام بری کے حضور

ترمیم

امیر علی اپنے چچا کے گھر میں ہی مقیم تھے کہ آپ کی ملاقات ایک بزرگ سے ہوئی۔ انھوں نے آپ کو مغرب کی جانب جانے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ آپ سرائے خربوزہ سے نکلے اور سیر وسیاحت کرتے ہوئے ہوئے نور پور شاہاں ضلع اسلام آباد میں سید عبد اللطیف شاہ قادری المعروف امام بری سرکار کی خدمت میں جا پہنچے۔ پھر وہیں کے ہو کے رہ گئے۔

امام بری سرکار کا حکم

ترمیم

امیر علی سائیں نانگا کا 12 سال تک یہی معمول رہا کہ دن بھر جنگل میں رہتے اور رات کی تاریکی میں برہنا سر اور برہنا پاؤں مزار سید عبد اللطیف شاہ قادری پر حاضر ہوتے تھے۔ مزار پر حاضر ہو کر مزار اقدس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے۔ صبح کا اجالا پھیلنے سے قبل ہی جنگل میں واپس چلے جاتے اور حال یہ تھا کہ کسی سے بات تک نہ کرتے تھے۔ اگر جنگل میں کوئی آدمی نظر آ جاتا تو آپ چھپ جاتے تھے۔ 12 سال بعد آپ نے مستقل طور پر امام بری کے مزار شریف پر قیام کیا۔ اس کے بعد کی حالت یہ تھی کہ صبح و شام، دن و رات اور گرمی و سردی میں ہر وقت ہاتھ باندھے مزار شریف کے سامنے کھڑے رہتے اور کبھی کبھی فرش پر لیٹ جاتے۔ ایک دن سید عبد اللطيف شاہ قادری المعروف امام بری قادری سرکار اپنے مزار کے ایک مجاور کو خواب میں حکم فرمایا کہ سائیں نانگا کو فلاں جگہ بٹھا دیا جائے۔ چنانچہ حسب الحکم مجاور آپ کو مزار شریف سے ملحق صدر دروازے کے سامنے جو مکانات تھے، ان میں آپ کو بیٹھا دیا گیا

رشد و ہدایت

ترمیم

امام بری سرکار کے حکم کے بعد سائیں نانگا نے بات چیت کرنا شروع کر دی۔ آپ نے لنگر بھی جاری فرمایا۔ بروقت روحانی تکمیل اور نیابت شاہ لطیف بری کا دور تھا۔ آپ نے کئی برس تک یہیں قیام کیا اور ظاہری باطنی فیض جاری کیا۔ جب آپ کی شہرت کا چرچا عام ہوا اور لوگ جوق در جوق آپ کی خدمت میں حاضر رہنے لگے تو کچھ حاسدین کو یہ سلسلہ پسند نہ آیا اور وہ حسد کرنے لگے۔ جب آپ کو ان کے حسد کا علم ہوا تو آپ نے نور پور شاہاں چھوڑنے کا ارادہ کیا تو امام بری سرکار نے باطنی طور پر آپ کو وہاں سے جانے سے منع فرمایا۔ امام بری سرکار نے فرمایا کہ جب ہم تمھیں یہاں بٹھا رہے ہیں تو اٹھا کون سکتا ہے؟ چنانچہ آپ نے ارادہ ملتوی کر کے وہیں پر مستقل رہنے کا پروگرام بنالیا اور تا دم آخر وہیں رہے۔

امام بری سے عقیدت

ترمیم

سائیں نانگا کو اپنے پیر و مرشد سید عبدالطیف شاہ قادری المعروف امام بری سرکار قادری سے اس قدر عقیدت ومحبت تھی کہ اگر کوئی دعا کے لیے حاضر ہوتا تو پہلے امام بری سرکار کے مزار پر حاضری کا حکم دیتے اور فرماتے تھے کہ فیض جو میرے پاس ہے وہ سرکار (امام بری سرکار) کا ہے۔

خلفاء کی تربیت

ترمیم

سائیں نانگا سرکار کا معمول تھا کہ آپ کے پاس اگر کوئی مرید ہونے کے لیے آتا تو آپ اس کو شربت دم کر کے دیتے۔ اس کو عبادت و ریاضت اور احکام شریعت کی اتباع کا حکم دیتے تھے۔ آپ نہ خود کسی قسم کا نشہ کرتے تھے اور نہ مریدین کو کرنے دیتے بلکہ سختی سے منع فرماتے تھے۔ آپ کے اٹھارہ خلفاء تھے۔

وصال

ترمیم

سائیں نانگا کا وصال 18 محرم 1350ھ بمطابق 16 جون 1930ء کو نور پور شاہاں اسلام آباد میں ہوا۔ آپ کی تدفین اسی مقام پر کی گئی جہاں امام بری سرکار نے بٹھایا تھا۔ آپ کا خوبصورت مزار بنا ہوا ہے جو امام بری سرکار کے روضے کے مشابہ ہے۔ آپ کا عرس سال میں دو مرتبہ 18 محرم اور 16 جون کو منایا جاتا ہے۔ [1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 46 تا 49