سورۂ یوسف میں قصہ یوسف علیہ السلام دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا: ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کا ثبوت، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے، اور ان کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کردیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعے علم ہوتا ہے۔ اس مقصد کو آیات 3، 7 میں صاف صاف واضح کردیا گیا ہے اور آیات 102-103 میں بھی پورے زور کے ساتھ اس کی تصریح کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ سرداران قریش اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان اس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادران یوسف اور یوسف علیہ السلام کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کررہے ہو جو یوسف کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخر کار اسی بھائی کے قدموں میں آرہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہوسکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ مقصد بھی سورت کے آغاز میں صاف صاف بیان کردیا گیا ہے چنانچہ فرمایا "یوسف اوراس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں" مکمل مضمون