قرآن مجید کی 12 ویں سورت جس میں حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی۔

یوسف
فائل:Yusuf 13 14 Century Muhaqqaq Script.jpg
یوسف
دور نزولمکی
زمانۂ نزولاخیرِ مکی زندگی
اعداد و شمار
عددِ سورت12
عددِ پارہ12 اور 13
تعداد آیات111
الفاظ1,795
حروف7,125
گذشتہھود
آئندہالرعد

زمانۂ نزول و سببِ نزول

اس سورت کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانۂ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو قتل کر دیں یا جلاوطن کریں یا قید کر دیں۔ اس زمانے میں کفار مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا۔ چونکہ اہل عرب اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں روایات میں نہ پایا جاتا تھا اور خود نبیصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انھیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے یا اس وقت ٹال مٹول کرکے کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا۔ لیکن اس امتحان میں انھیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالٰیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف علیہ السلام کا پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کر دیا، بلکہ مزید برآں اس قصے کو قریش کے اس معاملے پر چسپاں بھی کر دیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرتصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ کر رہے تھے۔

مقاصد نزول

اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا: ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا ثبوت اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے اور ان کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعے علم ہوتا ہے۔ اس مقصد کو آیات 3، 7 میں صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے اور آیات 102-103 میں بھی پورے زور کے ساتھ اس کی تصریح کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ سرداران قریش اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادران یوسف اور یوسف علیہ السلام کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہو جو یوسف کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخر کار اسی بھائی کے قدموں میں آ رہے جس کو انھوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمھاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے گی اور ایک دن تمھیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ مقصد بھی سورت کے آغاز میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے چنانچہ فرمایا "یوسف اوراس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں"

حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے قصے کو محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور قریش کے معاملے پر چسپاں کرکے قرآن مجید نے گویا ایک صریح پیش گوئی کردی تھی جسے آئندہ دس سال کے واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کرکے دکھادیا۔ اس سورت کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گذرے ہوں گے کہ قریش والوں نے برادرانِ یوسف کی طرح محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو مجبوراً ان سے جان بچا کر مکہ نکلنا پڑا۔ پھر ان کی توقعات کے بالکل برخلاف آپ کو بھی جلا وطنی میں ویسا ہی عروج و اقتدار نصیب ہوا جیسا یوسف علیہ السلام کو ہوا تھا۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پیش آیا جو مصر کے پایۂ تخت میں یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں کی آخری حضوری کے موقع پر پیش آیا تھا۔ وہاں جب برادرانِ انتہائی عجز و درماندگی کی حالت میں ان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ "ہم پر صدقہ کیجیے، اللہ صدقہ کرنے والوں کو نیک جزا دیتا ہے" تو یوسف علیہ السلام نے انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود انھیں معاف کر دیا اور فرمایا

"آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمھیں معاف کرے، وہ سب پر رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے"۔

اسی طرح یہاں جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے شکست خوردہ قریش سرنگوں کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے ایک ایک ظلم کا بدلہ لینے پر قادر تھے تو آپ نے ان سے پوچھا "تمھارا کیا خیال ہے کہ میں تمھارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟" انھوں نے عرض کیا "آپ ایک عالی ظرف بھائی ہیں اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں"۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ

"میں تمھیں وہی جواب دیتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تمھیں معاف کیا"۔

مباحث و مسائل

یہ دو پہلو تو اس سورت میں مقصدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس قصے کو بھی قرآن مجید قصہ گوئی و تاریخ نگاری کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے قاعدے کے مطابق وہ اسے اپنی اصل دعوت کی تبلیغ میں استعمال کرتا ہے۔ وہ اس پوری داستان میں یہ بات نمایاں کرکے دکھاتا ہے کہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کا دین وہی تھا جو محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ہے اور اسی چیز کی طرف وہ بھی دعوت دیتے تھے جس کی طرح آج محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دے رہے ہیں۔ پھر وہ ایک طرف حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کے کردار اور دوسری طرف برادرانِ یوسف، قافلۂ تجار، عزیز مصر، اس کی بیوی، بیگمات مصر اور حکام مصر کے کردار ایک دوسرے کے مقابلے میں رکھ دیتا ہے اور محض اپنے اندازِ بیاں سے سامعین و ناظرین کے سامنے یہ خاموش سوال پیش کرتا ہے کہ دیکھو، ایک نمونے کے کردار تو وہ ہیں جو اسلام، یعنی خدا کی بندگی اور حسابِ آخرت کے یقین سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے نمونے کے کردار وہ ہیں جو کفر و جاہلیت اور دنیا پرستی اور خدا و آخرت سے بے نیازی کے سانچوں میں ڈھل تیار ہوتے ہیں۔ اب تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ وہ ان میں سے کس نمونے کو پسند کرتا ہے۔ پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہوکر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر ماردیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹادیا۔ مگر فی الواقع انھوں نے یوسف کو اُس بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لا کھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انھوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انھیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کو قید خانے میں بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروائے ملک کی مربیہ کہلانے کی بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانی پڑی۔ یہ محض دو چار مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اوریقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے، اللہ اسی تدبیر سے اس کے اٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے اور ان لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنھوں نے اسے گرانا چاہتا تھا اور اسی طرح اس کے برعکس خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں الٹی پڑتی ہیں اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اس حقیقت حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر، دونوں میں ان حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانون الٰہی میں اس کے لیے مقرر کردی گئی ہیں۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہوگا اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقیناً رسوا ہوگا ہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے۔ دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے۔ جو لوگ حق و صداقت کے لیے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انھیں مٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انھیں اس سے غیر معمولی تسکین حاصل ہوگی اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعاً ہراساں نہ ہوں گے بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے جائیں گے۔ مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کر سکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے، 17 برس کی عمر، تن تنہا، بے سر و سامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے ہیں۔ تاریخ کے اس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگاکر انھیں جیل بھیج دیا گیا جس کی میعاد سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرادیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کر لیتے ہیں۔

تاریخی و جغرافیائی حالات

اس قصے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصراً اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافیائی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں: حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے، حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑ پوتے تھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق (جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے) حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے چار بیویوں میں سے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے چھوٹے بھائی بنیامین ایک بیوی سے اور باقی دس دوسری بیویوں سے تھے۔ فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام حبرون (موجودہ الخلیل) کی وادی میں تھی جہاں حضرت اسحاق اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب کی کچھ زمین سکم (موجودہ نابلس) میں بھی تھی۔ بائبل کے علما کی تحقیق اگر درست مانی جائے تو حضرت یوسف کی پیدائش 1906 قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں ہوئی اور 1890 ق م کے زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصے کی ابتدا ہوتی ہے یعنی خواب دیکھنا اور پھر کنویں میں پھینکا جانا۔ اس وقت حضرت یوسف کی عمر سترہ برس تھی۔ جس کنویں میں وہ پھینکے گئے وہ بائبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سکم کے شمال میں دوتن (موجودہ دُثان) کے قریب واقع تھا اور جس قافلے نے انھیں کنویں سے نکالا وہ جلعاد (موجودہ اردن) سے آ رہا تھا اور مصر کی طرف عازم تھا۔ (جلعاد کے کھنڈر اب بھی دریائے اردن کے مشرق میں وادی الیابس کے کنارے واقع ہیں) مصر پر اس زمانے میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چرواہے بادشاہوں ( HIKSOS Kings ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جاکر 2 ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں سلطنت مصر پر قابض ہو گئے۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے "عمالیق" کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب انھیں وہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہی سبب ہوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے گئے اور ان کو وہاں بڑا اثر و رسوخ حاصل ہوا کیونکہ وہ ان غیر ملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے۔ پندرہویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملاً بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا۔ اسی دور کی طرف سورۂ مائدہ آیت 20 میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی جس نے ہکسوس اقتدار کا تختہ الٹ دیا۔ ڈھائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیے گئے۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان بر سر اقتدار آ گیا اور اس نے عمالقہ کے زمانے کی یادگاروں کو چن چن کر مٹادیا اور بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے۔ مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چرواہے بادشاہوں نے مصری دیوتاؤں کو تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے دیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم عصر بادشاہ کو "فرعون" کے نام سے یاد نہیں کرتا۔ کیونکہ فرعون مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے۔ لیکن بائبل میں غلطی سے اس کو بھی فرعون ہی کا نام دیا گیا ہے۔ شاید اس کے مرتب کرنے والے سمجھتے ہوں گہ کہ مصر کے سب بادشاہ فراعنہ ہی تھے۔ موجودہ زمانے کے محققین جنھوں نے بائبل اور مصری تاريخ کا تقابل کیا ہے، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چرواہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس ملتا ہے، وہی حضرت یوسف کا ہم عصر تھا۔ مصر کا دار السلطنت اس زمانے میں ممفس (منف) تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں 14 میل کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام 17،18 سال کی عمر میں وہاں پہنچے۔ دو تین سال عزیز مصر کے گھر رہے۔ آٹھ نو سال جیل میں گزارے۔ 30 سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا ہوئے اور 80 سال تک بلا شرکت غیر ے مصر پر حکومت کرتے رہے۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال انھوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلا لیا اور اس علاقے میں آباد کیا جو دمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے۔ بائبل میں اس علاقے کا جُشَن یا گوشن بتایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔ بائبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسف نے ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے کر جانا۔ یوسف علیہ السلام کے قصے کی جو تفصیلات بائبل اور تلمود میں بیان کی گئی ہیں ان سے قرآن کا بیان بہت کچھ مختلف ہے۔ مگر قصے کے اہم اجزا میں تینوں متفق ہیں۔