قلعہ میر چاکر
سیوی قلعہ :سبی شہر کے مغرب میں سبی۔ ہرنائی ریلوے لائن کے قریب واقع ایک قلعہ شاہ بیگ ارغون کے نام سے منسوب ہے۔
تین قلعے
ترمیممیرچاکر کے اس علاقے میں تین قلعے تھے۔ پہلا سوران، دوسرا بھاگ کے قریب گدڑ کے مقام پر اور تیسرا ڈھاڈر قلعہ جو میر چاکر قلعہ کہلاتا ہے سوران اور بھاگ دونوں قلعے زلزلوں میں منہدم ہو کر کھنڈر کی شکل اختیار کر چکے۔ جب کہ سبی قلعہ اب بھی موجود ہے، مگر منہدم ہونے کے قریب ہے۔ قلعہ میر چاکر بلوچستان کے تاج میں نگینے کی طرح جڑا ہوا ہے
قلعے کے آثار
ترمیمجنوب کی طرف مرکزی دروازے کے آثار موجود ہیں جو بارہ فٹ چوڑا ہے۔ اس کے اوپر دو بڑے برجوں کے نشان ہیں جن میں تیر انداز فروکش ہوتے تھے۔ پہلے برج پر چڑھنے کے لیے قریب ہی سیڑھیاں ہیں۔ وہ ایک دریچے پر ختم ہوتی ہیں۔ اس دریچے سے ملحق ایک گودام میں اناج ڈالا جاتا تھا۔ اس قلعے کی ہر چیز شاندار ہے لیکن اناج کے دو گودام لائق توصیف ہیں۔ پہلے گودام کی لمبائی 80 فٹ اور دوسرے کی 70 فٹ ہے، جبکہ ان کی کشادگی 30 فٹ تھی۔ یہ پختہ اینٹوں سے بنائے گئے۔ نچلے حصے میں ایک دروازہ ہوتا تھا جہاں سے بوقت ضرورت اناج نکالا جاتا۔ اس کے قریب ایک اور ویسا ہی برج ہے جس کے دائیں طرف چند سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ اس حصے میں نہایت موٹی فصیل واقع ہے۔ دھپال اقوام نے قلعہ کے اندر کمرے تعمیر کیے جو یہاں کچھ بوسیدہ کمرے مورچوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ یہ دراصل فوجیوں کی رہائش گاہیں تھیں۔ وہیں سے قلعے کی حفاظت ہوتی‘ حملہ آور لشکر کی نگرانی اور بوقت ضرورت دشمن کے لشکر پر تیراندازی کی جاتی تھی۔ نیچے نظر دوڑائیں تو سبی کے خوبصورت شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ قلعے کے وسیع آنگن میں ایک خوبصورت باغ تھا‘ اب وہ بھی اجڑ چکا۔ وہاں خود رو جھاڑیاں، ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کے ڈھیر‘ چاروں طرف پھیلی بلند و بالا فصیل اور اس کے ہیبت ناک برج عالم گریہ میں ہیں۔
سیوی قلعے کے دوسرے کونے پر بھی ویسا ہی برج واقع ہے۔ اس کے ساتھ کمروں کے آثار ہیں۔ ان کمروں کی دیواریں خوب چوڑی اور دروازے نہایت ہی مضبوط ہیں۔ کمروں کی چھتیں ڈھل چکیں۔ کمروں کی یہ قطار قلعے کے تیسرے کونے تک چلی گئی ہے۔ کی نجی رہائش گاہ قلعے کی مغربی فصیل کے اندرونی جانب شاہ بیگ ارغون کی نجی رہائش گاہ واقع تھی۔ اس کی حفاظت کے لیے دو چھوٹی چوکیاں بنائی گئی تھیں۔ نزدیک ایک تہ خانے کے نشانات بھی ملتے ہیں۔ تہ خانے سے زیر زمین ایک راستہ شمالی چوکی کو جاتا تھا۔ ایک پرانی مسجد کے آثار بھی ہیں جو شہید ہو چکی۔ مسجد کے ساتھ کئی حجروں کے کھنڈر نظر آتے ہیں۔ فصیل کے آخری کونے میں منہدم دیواریں ایک وسیع اصطبل کی ہیں، جہاں اعلیٰ نسل کے اسپ تازی رکھے جاتے تھے۔ فصیل کے ساتھ ساتھ آگے جائیں تو آخری برج پر پہنچ جائیں گے۔ یہ برج دوسرے برجوں کے مقابلے میں قدرے چھوٹا ہے۔ ساتھ ہی سیڑھیاں ہیں۔ ان پر چڑھیں تو فصیل پہ پہنچ جائیں گے۔
فصیل کے ساتھ کئی کمرے نظر آئیں گے۔ بارش اور طوفانوں کی وجہ سے اب یہ اپنی اصل شکل و صورت کھو چکے۔ آپ قلعہ کی فصیل پر چڑھتے جائیں تو دروازے پر پہنچ جائیں گے۔ قلعے کے درمیان چند سیدھی دیواریں منہدم حالت میں ملتی ہیں۔ ہو سکتا ہے اُس زمانے میں ان پر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی ہو۔ قلعے کے تینوں جانب فصیل کے نشانات موجود ہیں۔ قدیم زمانے میں فصیل یا دیواریں دفاع کے مقبول ترین انداز تھے۔ قلعہ کی بیرونی فصیل قریباً کئی ایکڑوں پر محیط ہے۔ یہ پرانی چونگی تک چلی گئی ہے۔ یہ دھپال چونگی کی بیرونی آمدروفت اور ناکہ (وصولی) کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ اس فصیل کے آثار خجک روڈ کے ساتھ ساتھ تقریباً آدھے کلومیٹر تک اب بھی موجود ہیں۔ یہ فصیل 8 سے 10 فٹ چوڑی ہے۔
چھوٹا شہر
ترمیمقلعے کے سامنے چھوٹے سے شہر کے بھی آثار نمایاں ہیں۔ وہاں دوران موسم گرما دور دراز علاقوں سے کثیر تعداد میں قبائل کی آمد کی وجہ سے قلعہ کے باہر میدان میں خیموں کا شہر آباد ہو جاتا تھا۔ لوگوں کی مختلف ضروریات پوری کرنے کے واسطے منڈی میں خوجوں کی بڑی بڑی دکانیں کھل جاتی جن میں ہرات کا مخمل اور عطر، تبریز کے عجائبات، دمشق و قاہر ہ کے اسلحے موجود ہوتے۔ ان دکان داروں نے سبی کے قریہ قریہ میں اپنے کارندے متعین کر رکھے تھے۔ وہ سرداروں اور معززین کی مانگ پر سبی آ کر انھیں چیزیں فراہم کرتے۔
اسی میدان کے ایک حصے میں اعلیٰ نسل کے مویشیوں کی وسیع منڈی لگتی۔ دوسرے حصے میں اہم ترین میلے کا انعقاد ہوتا۔ واضح رہے کہ رندو لاشار قبائل کی تیس سالہ جنگ کا موجب بھی یہی میلا بنا تھا جس میں چاکر کے بیٹے‘ ریحان اور گہرام کے بیٹے‘ رامین نے گھڑ دوڑ میں حصہ لیا۔ اس میں جیت و ہار پر تنازع پیدا ہوا جو بعد میں بلوچ حاکمیت کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بن گیا۔۔[1]
سیوی قلعہ
سیوی قلعہ صوبہ بلوچستان کے شہر سبی کے مضافات میں واقع ہے- اس قلعے کی تاریخ 15ویں صدی سے جا ملتی ہے- دھپال اقوام کی اراضی پر قدیم سیوی قلعہ موجود ہے اس کی تاریخ بہت قدیم ہے 15 صدی عیسوی میں شاہ بیگ ارغون نے سلطان پیرولی برلاس کی اولاد کو شکست دے کر سیوی قلعہ فتح کیا اور اس کی تعمیر کی گنبند نما ارغون طرز تعمیر کے آثار نمایاں ہیں ۔ تحصیل سبی دفتر کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق دھپال پنی قبیلہ قلعہ میں ٰعرصہ دراز سے آباد رہا اور اس قلعہ کے اندر بے شمار کمرے تعمیر کیے تھے۔ یہ قلعہ اونٹوں کے قافلوں کے لیے روایتی رہائش گاہ کے طور پر بھی اپنی خدمات سر انجام دیتا رہا ہے-
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور جون 2014ء