سرسام
طبری نے کہا ہے کہ "سرسام" فارسی نام ہے اور اس کے معنی" سر کا مرض" ہیں، کیونکہ "سر" راس (یعنی سر) کو کہتے ہیں اور سام کے معنی ان کے نزدیک "مرض" کے ہیں اور شیخ کا بیان ہے کہ سرسام کے معنی "ورم سر" کے ہیں، اس لیے "سام" کے معنی "ورم" کے ہیں، شاید یہ معنی پرانی فارسی میں ہوں اور اس کا استعمال متروک ہو چکا ہو.
اسی طرح برسام بھی ہے، اس لیے کہ بر کے معنی” سینہ“ کے ہیں (مذکورہ بالا معنی کے لحاظ سے) سرسام کا نام اس کی ذات اور حقیقت کے مطابق رکھا گیا ہے (کیونکہ اس کے لغوی معنی بھی ورم سر یا مرض سر کے ہیں اور اصطلاحی طور پر بھی اس کے معنی یہی ہیں)۔
{سرسام ورم ہے} خواہ ورم گرم ہو یا سرد، لیکن بعض اطباء نے سرسام کو ورم گرم کے ساتھ مخصوص کیا ہے اور ورم ایک غیر طبعی زیادتی ہے جو مادہ فضلیہ سے پیدا ہوتی ہے اور عضو میں ایسا تمدد پیدا کر دیتی ہے جو اس کے افعال میں ضرر پہنچانے لگتا ہے، {جو دماغ کی دونوں جھلیوں میں سے کسی ایک جھلی میں ایک ساتھ پیدا ہوتا ہے} دونوں جھلیوں میں سے ایک تو وہ باریک جھلی ہے جو دماغ سے لپٹی ہوئی ہے (ام رقیق) اور دوسری وہ موٹی جھلی ہے جو کھوپڑی کے اندرونی جانب لگی ہوئی ہے (ام غلیظ، غشاء صلب)۔{یا خاص دماغ میں پیدا ہوتا ہے} دماغ میں ورم پیدا ہونے کی رائے شیخ، ابو سہل مسیحی، صاحبِ کامل اور اکثر متاخرین کی ہے، لیکن جالینوس نے بعض قدماء کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”ورم انھیں اعضاء میں پیدا ہو سکتا ہے جو نرمی اور سختی میں متوسط درجے کے ہیں۔ لیکن جو اعضاء زیادہ نرم ہیں جیسا کہ دماغ یا جو اعضاء زیادہ سخت ہیں جیسا کہ ہڈیاں ان میں ورم نہیں پیدا ہو سکتا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ نرم اعضاء میں ان کی ررمی کے باعث فضلات نہیں ٹھہر سکتے اور زیادہ سخت اعضاء میں ان کی سختی کے باعث فضلات نفوذ نہیں کر سکتے۔“[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ ترجمہ شرح اسباب مع حاشیہ شریف خاں و معمولات مطب (از حکیم خواجہ رضوان احمد) جلد اول صفحہ 52 طبع 1935