سرسوتی چندرا (گجراتی: સરસ્વતીચંદ્ર) گجراتی ناول ہے جسے گووردھن رام تریپاٹھی نے لکھا ہے۔ یہ ابتدائی بیسویں صدی تک گجرات، بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف تھے۔ بیسویں صدی کے بھارت کے جاگیردارانہ نظام پر مبنی[1] یہ ناول وسیع تر پڑھا جانے والا گجراتی ادب شہ پارہ ہے۔[2]

سرسوتی چندرا
سرسوتی چندرا کی تصغیری اشاعت کا سرورق
مصنفگووردھن رام تریپاٹھی
اصل عنوانસરસ્વતીચંદ્ર
مترجمتریدیب سوہرود
ملکبھارت
زبانگجراتی
سرسوتی چندرا[[زمرہ:مضامین جن میں gu زبان کا متن شامل ہے]] بہ گجراتی ویکی مآخذ

اس ناول کو 15 سال کے طویل عرصے میں لکھا گیا ہے، جس کی پہلی جلد 1887 میں چھپی اور چوتھی جلد 1902 میں چھپی۔[3]

ہندی فلم سرسوتی چندرا' جو 1968 میں جاری ہوئی، اسی ناول پر بنی ہے۔[1][3] اس کے علاوہ 2013 کی اسی نام سے ٹی وی سیریز اسٹار پلس پر 2013–14 میں نشر ہوئی تھی۔

کہانی کا خلاصہ ترمیم

یہ کہانی دو گجراتی برہمن خاندانوں پر مرکوز ہے۔ لکشمی نندن کا خاندان ممبئی میں آباد ہے، جن کا زودرواں کاروبار ہے اور وہ مالدار ہیں۔ سروسوتی چندرا، جو آگے چل کر متبحرعلم کے مناہج کو طے کرنے والا نوجوان بننا ہے، وہ لکشمی نندن اور چندرا لکشمی کے یہاں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے آگے روشن کام کا مستقبل ہے کیونکہ وہ سنسکرت اور انگریزی کلاسیکی ادب کی مہارت رکھتا ہے، وہ تعلیمی اعتبار سے بیرسٹر ہے اور خاندان کے کاروبار کو سنبھالنے کی اس کی کوشش بھی کامیاب رہتی ہے۔ دوسرا خاندان ودیا چتُور کا ہے، جو رتناگیری (خیالی) راج شاہی حکومت کے راجا مُنی راج کا وسیع العلم وزیر اعظم رہتا ہے۔ اسے اور اس کی ہمہ صفت بیوی گُناسندری کو دو بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں، کُومُودسُندری (بڑی) اور کُسُم سُندری۔ سرسوتی چندرا کی ماں گذر جاتی ہے اور لکشمی نندن گُمن سے شادی کرتا ہے جو ایک سازشی خاتون ہے اور اپنے سوتیلے بیٹے کو وہ نفرت اور شک کی نظروں سے دیکھتی ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ سرسوتی چندرا اور کُومُودسُندری کے بیچ سگائی ہوجاتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے ملے بغیر خطوں کے تبادلے سے ہی عشق کرنے لگتے ہیں۔ کُومُودسُندری سرسوتی چندرا کے وسیع علم اور عمدہ صفات سے متاثر تھی، جبکہ سرسوتی چندرا کومود کی نزاکت اور ایک جیسی پسند سے متاثر تھا۔

کہانی میں تبدیلی اس وقت رونما ہوتی ہے جب سرسوتی چندرا یہ محسوس کرتا ہے کہ خود اس کا اپنا باپ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی دلچسپی صرف خاندان کی دولت میں ہے۔ اس کی وجہ سے وہ گھر چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس کا قریبی دوست چندراکانت اس کے سامنے ہر ممکن طریقے سے اسے اس فیصلے پر عمل کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر سرسوتی چندرا کسی جواز کو سننے تیار نہیں تھا اور نہ صرف گھر بار چھوڑتا ہے، بلکہ جواں سال کمود کو بھی بے یارومددگار چھوڑ دیتا ہے۔ وہ سمندر کے راستے سورناہور (خیالی) پہنچتا ہے۔ جب تک کہ وہ وہاں پہنچتا ہے، کومود پرمود دھن سے بیاہی جاتی ہے، جو بودھی دھن کا قابل رشک بیٹا ہے اور سورناہور کا امکانی وزیر اعظم ہے۔

اس طرح کہانی میں ایک تیسرے خاندان کو متعارف کیا جاتا ہے۔ بودھی دھن ایک بنیا (وانیا) ہے اور وہ حکمت و فراست سے کام لیتا ہے، اسی کے ذریعے وہ سورناپور کے حکمران جڈ سنگھ اور اس کے ناظمین دُشٹ رائے اور شٹھ رائے کا تختہ پلٹنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اس کا راجپوت دوست بھوپ سنگھ راجا بنتا ہے اور وہ اس کا وزیر اعظم بنتا ہے۔ سرسوتی چندرا بودھی دھن کے محل میں رہتا ہے اور خود کو نوین چندرا کے نام سے لوگوں اپنی پہچان بتاتا ہے۔ وہ تمام سیاسی اتھل پتھل کو غور سے دیکھتا ہے۔ بالآخر، وہ کومود سے کچھ مواقع پر ربط کرتا ہے، جو اس گھر کی بہو ہے۔ ان دونوں کے بیچ پھر سے محبت پروان چڑھتی ہے، وہ گھر کی بیٹی کی کم معروف سہیلی اس موقع کا فائدہ اٹھاکر پرمود دھن کو اس کی بیوی کے خلاف اکساتی ہے۔

جس دن بودھی دھن وزیر اعظم کا عہدہ حاصل کرتا ہے، سرسوتی چندرا اس کے گھر کو چھوڑ دیتا ہے کیونکہ کومود کے ساتھ اس کے ربط و تعلق سے کافی تناؤ پھیل چکا تھا۔ وہ من میں کسی منزل کے بنا ہی روانہ ہوتا ہے۔ وہ رتناگیری میں منوہرپوری کے لیے روانہ کے سواری پر چڑھتا ہے۔ اس دوران میں کومود بھی محافظین کی معیت میں اپنی ماں سے ملنے منوہرپوری روانہ ہوتی ہے۔ سرسوتی چندرا کی سواری پر ڈاکو حملہ کرتے ہیں جو اسے جنگل میں زخمی حالت میں چھوڑ دیتے ہیں۔ کومود پر بھی ڈاکو حملے کا منصوبہ بناتے ہیں، جسے دیکھتے ہوئے اس کے دادا نے ڈاکوؤں سے لڑنے کے لیے ایک جتھا روانہ کرتا ہے۔ یہ جتھا ڈاکوؤں سے مڈبھیڑ کر کے ان کے منصوبوں کو ناکام بناتا ہے۔ یہ جتھے کا رہنما پکڑ لیا جاتا ہے۔ تاہم کومود شرم اور بدنامی کے ڈر سے سُبھدرا ندی میں کود کر جان دے دیتی ہے۔ سبھی لوگ یہ مانتے ہیں کہ کومود مر چکی ہے اور وہ اس کے بنا ہی لوٹ جاتے ہیں۔

سرسوتی چندرا کو اس دوران میں سادھوؤں کا ایک جتھا بچا لیتا ہے۔ یہ لوگ اسے اپنے آشرم میں لے جاتے ہیں جو پاس کی سندرگیری پہاڑیوں میں واقع تھا۔ یہاں سرسوتی چندرا سادھوؤں کے صدر وشنو داس کو اپنے تبحر علمی سے متاثر کرتا ہے اور آخرکار وسنو داس اسے ہی اپنا وارث قرار دیتا ہے۔ کومود بچ نکلتی ہے اور اس کے بے ہوش جسم کو ایک خاتون سادھو (سادھوی) چندراولی اور اس کی مصاحبات تھام لیتی ہیں۔ یہ جتھا کومود کو وشنو داس کے آشرم لے جاتا ہے اور وہاں کومود اور سرسوتی چندرا ایک دوسرے کی موجودگی سے باخبر ہوتے ہیں۔

آشرم کے سادھوؤں پر ان دونوں کی سابقہ زندگیاں آشکارا ہوتی ہیں۔ وہ لوگ ان دونوں کو ایک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی کوشش کے تحت یہ لوگ ان دونوں کو جیرنجیوی شرونگ چوٹی پر لے جاتے ہیں۔ یہاں چار دن اور راتوں کو ایک ساتھ گزارنے کے بعد ان دونوں پر ایک روحانی کیفیت طاری ہے جس سے وہ مطمئن ہوتے ہیں کہ انھیں پھر سے ایک ہونا چاہیے۔ ایک اہم رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ سماج ان کے دوبارہ ملنے کو کس نظر سے دیکھے گا۔ اس پر یہ لوگ تین متبادلات پر غور کرتے ہیں۔

اس پورے عرصے میں لکشمی نندن اپنے بیٹے کے غیاب میں اپنا دماغ کھو دیتا ہے۔ چندراکانت قسم کھاتا ہے کہ وہ اپنے دوست کو ڈھونڈ نکالے گا اور وہ ودیا چتُور کے پاس ایک لمبے وقت سے رہتا ہے۔ رتناگیری کی پولیس اور سراغ رساں یہ پتہ لگاتے ہیں کہ سرسوتی چندرا اور کومود کہاں ہیں۔ آخرکار، اس کا سارا خاندان، بہ شمول لکشمی نندن اور گُمن سندرگیری پہنچنا طے کرتے ہیں، وشنو داس سے بات کرتے ہیں کہ کس طرح ان دونوں کو 'دنیا میں واپس لانا' ممکن ہو سکتا ہے: سرسوتی چندرا کو کومود سے شادی کرنا ہوگا، اسے بمبئی لوٹنا ہو گا اور پھر سے خاندان کا کاروبار سنبھالنا ہوگا۔

تنقید، ترجمہ اور تمثیلی شکلبندی ترمیم

سرسوتی چندرا کا انگریزی زبان میں ترجمہ سابرمتی آشرم کے ناظم تریدیپ سوہرود نے چار جلدوں میں کیا۔ اس کام کا آغاز 2015 میں ہوا تھا۔[4]

اس ناول کو کئی ناٹکوں، ریڈیو ڈراموں، فلموں اور ٹی وی سیریز کی شکل میں پیش کیا گیا۔ ایک ناٹک کی شکلبندی تریپاٹھی کی زندگی میں ہوئی۔ اسی طرح ایک ناٹک کو ناڈیاڈ کے رگھوناتھ برہم بھٹ نے پیش کیا تھا، جو بے حد مقبول ہوا۔ یہ ریڈیو پر بھی پیش ہوا۔ اسے گجراتی فلم کی شکل میں بھی پیش کیا گیا۔

ہندی فلم سرسوتی چندرا' جو 1968 میں جاری ہوئی، اسی ناول پر بنی ہے۔ اسے چار ٹی وی سیریلوں میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ 2013 کی اسی نام سے ٹی وی سیریز اسٹار پلس پر 2013–14 میں نشر ہوئی تھی۔[5]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب "Saraswatichandra (1968)"۔ جنوری 21, 2010۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ فروری 8, 2013 
  2. "Govardhanram Madhavaram Tripathi"۔ govardhanramtripathi.com۔ فروری 7, 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  3. ^ ا ب "Saraswatichandra-Not a love story"۔ livemint.com۔ 2013-03-30۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 نومبر 2013 
  4. Paul John (2015-08-11)۔ "'Saraswatichandra' in English after 128 years"۔ The Times of India۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اگست 2015 
  5. "ધારાવાહિક : ૧૪ આનાનો ગુજરાતી વૈભવ"۔ www.gujaratsamachar.com (بزبان گجراتی)۔ 11 دسمبر 2016۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2017