سریہ اوطاس

ایک ابتدائی جنگ جس میں پیغمبر اسلام اور مسلم فوجیں شامل تھیں۔

حنین ایک وادی کا نام ہے جو مکہ مکرمہ سے شمال مشرقی جانب طائف کے راستہ میں واقع ہے اس کو وادی اوطاس بھی کہا جاتا ہے حنین کی شکست کے بعد اک گروہ اوطاس میں قلعہ بند ہو گیا رسول اللہ نے ابو عامر اشعری کی ماتحتی میں تھوڑی سی فوج اوطاس کی طرف بھیج دی۔ وہاں ان کا مقابہ دس مشرک بھائیوں کے ساتھ ہوا ہر ایک کو اسلام کی دعوت دی ان کے انکار پر نو جب قتل ہو چکے دسویں کو بھی دعوت دی لیکن دسویں نے کہا میں اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی شہادت تو نہیں دے رہا آپ نے چھوڑ دیا بعد میں یہی شخص مسلمان ہوا اور اچھا مسلمان بن کر رہا[1] درید بن الصمہ کئی ہزار کی فوج لے کر نکلا ابوموسٰی اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبیﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو آپﷺنے ابوعامر کو ایک لشکر کا سردار بنا کر قوم اوطاس کی جانب بھیجا ان کا مقابلہ درید بن صمہ سے ہوا درید مارا گیا اور اس کے ساتھیوں کو اللہ نے شکست دی ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ آنحضرت نے مجھے بھی ابوعامر کے ساتھ بھیجا تو ابوعامر کے گھٹنہ میں ایک تیر آکر لگا جو ایک چشمی آدمی نے پھینکا تھا وہ تیر ان کے زانو میں اتر گیا میں ان پاس گیا اور پوچھا، چچا جان! آپ کے کس نے تیر مارا ہے؟ انھوں نے ابوموسیٰ کو اشارہ سے بتایا کہ میرا قاتل وہ ہے جس نے میرے تیر مارا ہے تو میں اس کی تاک میں چلا جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگا۔ میں نے اس کا پیچھا کیا اور اس سے کہتا جا رہا تھا اوبے غیرت اوبے غیرت ٹھہرتا کیوں نہیں؟ وہ ٹھہر گیا میں اور وہ ایک دوسرے پر تلواروں سے حملہ آور ہوئے اور میں نے اسے قتل کر دیا پھر میں نے ابوعامر سے کہا کہ اللہ نے آپ کے قاتل کو ہلاک کر دیا ہے انھوں نے کہا میرا یہ پیوست شدہ تیر تو نکالو میں نے وہ تیر نکالا تو اس (زخم) سے پانی نکلا انھوں نے کہا برادر زادہ نبی سے میرا سلام کہنا اور آپ سے عرض کرنا کہ میرے لیے دعائے مغفرت کریں ابوعامر نے مجھے اپنی جگہ امیر لشکر نامزد کیا تھوڑی دیر زندہ رہ کر شہید ہو گئے میں واپس لوٹا اور نبی کے پاس حاضر ہوا آپ اپنے مکان میں ایک بانوں والی چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے اور اس پر (برائے نام ایسا) فرش تھا کہ چارپائی کے بانوں کے نشانات آپ کی پشت اور پہلو میں پڑ گئے چنانچہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے اور ابوعامر کے حلات کی اطلاع دی اور (میں نے کہا کہ) انھوں نے آپ سے یہ عرض کرنے کو کہا ہے کہ میرے لیے دعائے مغفرت کیجئے آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر اپنے ہاتھ اٹھا کر فرمایا اے اللہ ! عبید ابی عامر کی مغفرت فرما اور (آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ اتنے اونچے تھے کہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بغلوں کی سفیدی میں دیکھ رہا تھا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ! اسے قیامت کے دن اپنی اکثر مخلوق پر فضیلت عطا فرما میں نے عرض کیا کہ میرے لیے بھی دعائے مغفرت فرمائیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے اللہ! عبد اللہ بن قیس کے گناہوں کو بخش دے اور قیامت کے دن اسے معزز جگہ داخل فرما ابوبردہ کہتے ہیں کہ ان میں سے ایک دعا ابوعامر کے لیے تھی اور دوسری ابوموسیٰ کے لیے۔[2] اس میں شہدا کی تعداد 4 ہے ایمن ابن ام ایمن جو عبید کے بیٹے اور آنحضرت کے غلام تھے زید بن زمعہ بن اسود بن مطلب سراقہ بن مالک بن حارث بن عدی انصاری جن کا تعلق بنو عجلان سے تھا اور ابو عامر اشعری جنہیں رسول اللہ نے امیر لشکر بنایا تھا[3]

حوالہ جات ترمیم

  1. البدایہ والنہایہ جلد چہارم صفحہ 265نفیس اکیڈمی لاہور
  2. صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1515
  3. البدایہ والنہایہ جلد چہارم صفحہ 265 نفیس اکیڈمی لاہور