سریہ رجیع قریش کی خبروں سے آگاہی کے لیے مکہ میں جاسوس بھیجے گئے ان میں سے ایک کو سریہ رجیع کہا جاتا ہے۔

پس منظر ترمیم

عضل اور قارہ کے چند لوگوں نے جناب رسول اللہ کی خدمت اقدس میں آ کر عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے یہاں مسلمان ہیں آپ چند صحابہ کو ہمارے ہمراہ بھیج دیجئے تاکہ وہ دین کی باتیں ہم کو سکھائیں حضور نے خبیب بن عدی انصاری اور مرثد بن ابی مرثد غنوی اور خالد بن بکر اور معطب بن عبید اور عبد اللہ بن طارق اور زید بن دثنہ کو بھیج دیا اور عاصم بن ثابت انصاری کو ان کا امیر مقرر کیا جنہیں ابن ابو افلح بھی کہتے ہیں۔

واقعات ترمیم

عسفان و مکہ کے درمیان ایک مقام کا نام رجیع ہے۔ اس لیے یہ واقعہ سریۂ رجیع کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دردناک سانحہ بھی میں پیش آیا۔ جب یہ مقدس قافلہ مقام رجیع پر پہنچا تو غدار کفار نے بدعہدی کی اور قبیلۂ بنو لحیان کے کافروں نے دو سو کی تعداد میں جمع ہو کر ان دس مسلمانوں پر حملہ کر دیا مسلمان اپنے بچاؤ کے لیے ایک اونچے ٹیلہ پر چڑھ گئے۔ کافروں نے تیر چلانا شروع کیا اور مسلمانوں نے ٹیلے کی بلندی سے سنگ باری کی۔ کفار نے سمجھ لیا کہ ہم ہتھیاروں سے ان مسلمانوں کو ختم نہیں کر سکتے تو ان لوگوں نے دھوکا دیا اور کہا کہ اے مسلمانو! ہم تم لوگوں کو امان دیتے ہیں اور اپنی پناہ میں لیتے ہیں اس لیے تم لوگ ٹیلے سے اتر آؤ عاصم بن ثابت نے فرمایا کہ میں کسی کافر کی پناہ میں آنا گوارا نہیں کر سکتا۔ یہ کہہ کر خدا سے دعا مانگی کہ یا اللہ ! تو اپنے رسول کو ہمارے حال سے مطلع فرما دے۔ پھر وہ جوش جہاد میں بھرے ہوئے ٹیلے سے اترے اور کفار سے دست بدست لڑتے ہوئے اپنے چھ ساتھیوں کے ساتھ شہید ہو گئے۔ چونکہ عاصم نے جنگ ِ بدر کے دن بڑے بڑے کفار قریش کو قتل کیا تھا اس لیے جب کفار مکہ کو عاصم کی شہادت کا پتہ چلا تو کفار مکہ نے چند آدمیوں کو مقام رجیع میں بھیجا تا کہ ان کے بدن کا کوئی ایسا حصہ کاٹ کر لائیں جس سے شناخت ہو جائے کہ واقعی عاصم قتل ہو گئے ہیں لیکن جب کفار آپ کی لاش کی تلاش میں اس مقام پر پہنچے تو اس شہید کی یہ کرامت دیکھی کہ لاکھوں کی تعداد میں شہد کی مکھیوں نے ان کی لاش کے پاس اس طرح گھیرا ڈال رکھا ہے جس سے وہاں تک پہنچنا ہی نا ممکن ہو گیا ہے اس لیے کفارِ مکہ ناکام واپس چلے گئے۔ باقی تین اشخاص خبیب و زید بن دثنہ و عبد اللہ بن طارق کفار کی پناہ پر اعتماد کرکے نیچے اترے تو کفار نے بدعہدی کی اور اپنی کمان کی تانتوں سے ان لوگوں کو باندھنا شروع کر دیا، یہ منظر دیکھ کر عبد اللہ بن طارق نے فرمایا کہ یہ تم لوگوں کی پہلی بدعہدی ہے اور میرے لیے اپنے ساتھیوں کی طرح شہید ہو جانا بہتر ہے۔ چنانچہ وہ ان کافروں سے لڑتے ہوئے شہید ہو گئے۔[1]

نتائج ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الرجیع۔..الخ، الحدیث:4086، ج 3، ص 46