عاصم بن ثابت
عاصم بن ثابت قبیلہ اوس کے مشہور صحابی ہیں۔
عاصم بن ثابت | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | عاصم بن ثابت |
مقام پیدائش | مدینہ منورہ |
کنیت | ابو سلیمان |
والد | ثابت بن ابی الاقلح بن عصمہ |
والدہ | الشموس بنت ابی عامر بن صیفی الضبیعیہ الاوسیہ |
رشتے دار | بہن: جمیلہ بنت ثابت بھتیجا: عاصم بن عمر بن الخطاب |
عملی زندگی | |
طبقہ | صحابہ |
نسب | الضبیعی الاوسی |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوہ بدر غزوہ احد سریہ مرثد بن ابو مرثد |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیمعاصم نام، ابو سلیمان کنیت، قبیلۂ اوس سے ہیں،نسب نامہ یہ ہے، عاصم بن ثابت بن قیس ابی الاقلح بن عصمہ بن نعمان بن مالک بن امتہ بن ضبیعہ بن زید بن مالک بن عوف بن عمرو بن عوف بن مالک بن اوس
اسلام
ترمیمہجرت سے قبل اسلام لائے۔
غزوات میں شرکت
ترمیمبدر میں شریک تھے، آنحضرتﷺ نے پوچھا کیونکر لڑوگے؟ تیر وکمان لے کر اٹھے اورکہا کہ جب 200 ہاتھ کا فاصلہ ہوگا تو تیر ماروں گا ،اس سے قریب ہوں گے تو نیزہ اور نزدیک تر ہوں گے تو تلوار کا وار کروں گا، آنحضرتﷺ نے فرمایا لڑائی کا یہی قاعدہ ہے تم لوگ اسی طرح لڑنا۔[1]صفر 3ھ میں آنحضرتﷺ نے ان کی ماتحتی میں دس آدمی دیکر جاسوسی کے لیے روانہ کیا، عسفان اور مکہ کے درمیان ہدہ ایک مقام ہے وہاں پہنچے تو بنو لحیان کو خبر ہو گئی اس نے سو تیر انداز بھیجے کہ مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روک دیں، ،صحابہؓ کے پاس مدینہ کے خرمے تھے، ان کی گٹھلیاں راستہ میں پڑی تھیں، تیر اندازوں نے کہا یہ ضرور یثرب کے چھوہارے ہیں عاصم کو ان کی آمد کا پتہ چلا، تو اپنے ساتھیوں کو لے کر ایک پہاڑی پر چڑھ گئے ان لوگوں نے آکر محاصرہ کر لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ تو جان بخشی کی جائے گی، عاصم نے کہا مسلمانو! میں کسی کافر کے ذمہ نہ رہوں گا، پھر فرمایا خدایا! رسول اللہ ﷺ کو ہماری خبر کر دے۔
شہادت
ترمیمکفار نے یہ دیکھ کر تیر برسانا شروع کیے جس سے عاصم نے سات آدمیوں کے ساتھ شہادت پائی۔[2]
قریش کو ان کے قتل ہونے کی خبر ہوئی تو نہایت خوش ہوئے کہ عقبہ بن ابی معیط کا قاتل دنیا سے اٹھ گیا، آدمی بھیجے کہ ان کے جسم کا کوئی حصہ لا کر دکھائیں مصنف استیعاب کا بیان ہے کہ ان کے جسم کو جلا کر قریش اپنی آتشِ انتقام کو سرد کرنا چاہتے تھے۔
عقبہ کے ساتھ طلحہ کے دو بیٹوں کو بھی انھوں نے قتل کیا تھا، ان دو لڑکوں کی ماں نے جس کا نام سلافہ تھا منت مانی تھی کہ عاصم کا سر ملے گا تو کھوپڑی میں شراب پیوں گی! قریش کو تجارت کا موقع ملا کہ اس کے ہاتھ عاصم کا سر فروخت کریں۔
عاصم نے خدا سے دعا کی تھی کہ مجھے کوئی مشرک نہ چھوئے اور نہ میں ان میں سے کسی کو مس کروں گا یہ لوگ وہاں پہنچے، تو کثرت سے شہد کی مکھیاں دیکھیں، لاش کے اٹھانے میں کامیابی نہ ہوئی تو مشورہ کیا کہ رات کو جب مکھیاں نہ ہوں گی، اس وقت سر کاٹیں گے، اتفاق یہ کہ خوب بارش ہوئی اور اس نے سیلاب کی شکل اختیار کر لی اور عاصم کا جسم اطہر اسی میں بہہ گیا۔[3]
اولاد
ترمیملڑکے کا نام محمد تھا، عرب کا مشہور شاعر ا حوص انہی کا بیٹا تھا۔ حضرت عاصمؓ کی بہن جمیلہ حضرت عمرؓ کو منسوب تھیں،عاصم بن عمر انہی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔
اخلاق
ترمیمجوش ایمان، حب رسول، پاکبازی اوربہادری کے عظیم الشان اوصاف حضرت عاصمؓ کی سیرت کے جلی عنوانات ہیں، ان تمام باتوں کی تفصیل اوپر گذرچکی ہے۔