سریہ خبط
اس سریہ کوامام بخاری نے غزوہ سیف البحر کے نام سے ذکر کیا ہے۔ رجب 8ھ میں حضورﷺ نے ابوعبیدہ بن الجراح کو تین سو صحابہ کرام کے لشکر پر امیر بناکر ساحل سمندر کی جانب روانہ فرمایاتاکہ یہ لوگ قبیلہ جہینہ کے کفار کی شرارتوں پر نظر رکھیں اس لشکر میں خوراک کی اس قدر کمی پڑ گئی کہ امیرلشکر مجاہدین کو روزانہ ایک ایک کھجور راشن میں دیتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ گیا کہ یہ کھجوریں بھی ختم ہوگئیں اور لوگ بھوک سے بے چین ہوکر درختوں کے پتے کھانے لگے یہی وجہ ہے کہ عام طور پر مؤرخین نے اس سریہ کا نام سریۃ الخبط یا جیش الخبط رکھا ہے۔ خبط عربی زبان میں درخت کے پتوں کو کہتے ہیں۔ چونکہ مجاہدین اسلام نے اس سریہ میں درختوں کے پتے کھاکر جان بچائی اس لیے یہ سریۃ الخبط کے نام سے مشہور ہو گیا۔[1] جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو عبیدہ کو امیر بنا کر تین سو آدمیوں کا ایک لشکر ساحل کی طرف بھیجا ہم چل پڑے ہم راستہ ہی میں تھے کہ زاد راہ ختم ہو گیا ابو عبیدہ نے تمام لشکر کے توشے حکم دے کر جمع کر لیے تو وہ کھجور کے دو تھیلے ہوئے ابو عبیدہ ہمیں روز تھوڑا تھوڑا دیتے یہاں تک کہ وہ بھی ختم ہو گیا اب ہمیں ایک ایک کھجور ملنے لگی تو میں نے جابر سے کہا ایک کھجور سے کیا پیٹ بھرتا ہوگا جابر نے کہا اس ایک کھجور کے ملنے کی حقیقت جب معلوم ہوئی کہ جب وہ بھی ختم ہو گئی یہاں تک کہ ہم (ساحل) سمندر پر پہنچ گئے تو دیکھا کہ ایک مچھلی پہاڑی کی طرح موجود ہے اس لشکر نے وہ مچھلی اٹھارہ دن تک کھائی پھر ابو عبیدہ نے اس مچھلی کی دو پسلیاں کھڑی کرائیں اور ایک سواری کو اس کے نیچے سے گزارا تو بغیر اس کے لگے ہوئے سواری نیچے سے صاف نکل گئی۔[2]
سریہ خبط | |
---|---|
عمومی معلومات | |
| |
متحارب گروہ | |
مسلمان | |
نقصانات | |
درستی - ترمیم |