سری لنکائی خانہ جنگی جزیرہ سری لنکا ملک میں ایک مسلح تنازع تھا۔ جو 23 جولائی 1983ء کو تامل ٹائیگرزکی جانب سے حکومت کے خلاف ایک متنازع بغاوت کی صورت میں شروع کی گئی۔ اس بغاوت کا مقصد ملک کے شمال مشرقی حصہ میں ایک آزاد تامل ریاست قائم کرنا تھا۔ یہ خانہ جنگی 26 سال جاری رہی اور آخر کار مئی 2009ء کو سری لنکا فوج نے تامل ٹائیگرز کو شکست دے دی جس کے بعد یہ خانہ جنگی ختم ہو گئی[1]۔

سری لنکن خانہ جنگی
ශ්‍රී ලාංකික සිවිල් යුද්ධය
இலங்கை உள்நாட்டுப் போர்

سری لنکا کا وہ خطہ جہاں تامل ٹائیگرز نے اپنا تامل وطن قائم کئے رکھا اور اسی علاقہ میں زیادہ لڑائی ہوئی۔
تاریخ23 جولائی 1983 – 18 مئی 2009[1]
(لوا خطا ماڈیول:Age میں 521 سطر پر: attempt to concatenate local 'last' (a nil value)۔)
مقامسری لنکا
نتیجہ

سری لنکا حکوت کی کامیابی

  • باغی گروپ تامل ٹائیگرز ناکامی
  • سری لنکن حکومت کا پورے جزیرے پر قبضہ
سرحدی
تبدیلیاں
Government regains total control of former LTTE-controlled areas in the North and East of the country.
مُحارِب

سری لنکا کا پرچم سری لنکا


بھارت کا پرچم [بھارتی امن فوج]] (1987–1990)
تامل ٹائیگرز
کمان دار اور رہنما

سری لنکا کا پرچم جیا دردنے (1983–1989)
سری لنکا کا پرچم رانا سنگھے پریماداسہ   (1989–1993)
سری لنکا کا پرچم ویجے ٹنگا (1993–1994)
سری لنکا کا پرچم چندریکا Kumaratunga (1994–2005)
سری لنکا کا پرچم مہیندا راجا پاکسے (2005–2009)


بھارت کا پرچم وینکانترا من (1987–1989)
بھارت کا پرچم راجیو گاندھی (1987–1989) 
پرابھاکرن  (1983–2009)
Balraj
کرونا امان (1983–2004)
KP
ماہاتیا  Executed
پوٹو امان
شنکر 
سوسائی 
طاقت

سری لنکا کا پرچم سری لنکا افواج:
95,000 (2001)
118,000 (2002)
158,000 (2003)
151,000 (2004)
111,000 (2005)
150,900 (2006)[2]
210,000 (2008)[3]


بھارت کا پرچم Indian Peace Keeping Force:
100,000 (peak)
تامل ٹائیگرز
(excluding Auxiliary forces):
6,000 (2001)
7,000 (2003)
18,000 (2004)[2][4]
11,000 (2005)
8,000 (2006)
7,000 (2007)[2][5]
(including Auxiliary forces):
25,000 (2006)
30,000 (2008)[6]
ہلاکتیں اور نقصانات

سری لنکا کا پرچم 28,708 اموات 40,107 زخمی [7]

بھارت کا پرچم 1,200 killed
(Indian Peace Keeping Force)[8]
27,000+ اموات[9][10][11]
11,644 گرفتاریاں[12]
100,000+ کل اموات (estimate)[13]
800,000 displaced at peak in 2001[14]
16 مئی 2009: سری لنکا حکومت کی جانب سے تامل ٹائیگرز کی شکست کا اعلان[15]
17 مئی 2009: تامل ٹائیگرز کا شکست تسلیم کرلیان۔.[16]
19 May 2009: صدر مہیندرا راجا پکسے نے سرکاری طور پر خانہ جنگی کے اختتام کا اعلان کیا۔

25سال سے زائد برسوں سے جاری جنگ کی وجہ سے ملک کی آبادی، ماحول اور معیشت کو خاصا نقصان اٹھانا پڑا، ابتدائی اندازے کے مطابق اس عرصہ کے دوران 80ہزار سے ایک لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔2013 ءمیں، اقوام متحدہ کے پینل نے جنگ کے آخری مرحلے کے دوران اضافی موت کی توقع کی ہے[13]۔ "تقریبا 40،000 افراد ہلاک ہوئے جبکہ دیگر آزادانہ رپورٹوں کا اندازہ لگایا گیا کہ شہریوں کی تعداد 1،00،000 سے زیادہ ہے[17]۔" تنازع کے ابتدا کے دوران، سری لنکا فورسز نے تامل ٹائیگرز کی طرف سے قبضے کیے علاقوں کو واپس لینے کی کوشش کی۔حکومتی فورسز  کے خلاف تامل ٹائیگرز کی کارروائیوں کی وجہ سے  32 ریاستوں نے تامل ٹائیگرز کو  دہشت گرد کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر لیاان ریاستوں میں امریکا، بھارت، کینیڈا اور یورپی یونین کے رکن ممالک شامل ہیں[18]۔سری لنکا کی حکومتی فورسز پر  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں  کا الزام لگایا گیا[19]۔

دو دہائیوں کے لڑائی کے دوران چار دفعہ امن  مذاکرات ناکام  رہے، بشمول بھارتی فوج تعیناتی  کی ناکامی ، 1987ء تا 1990ء تک بھارتی  امن فورس کی ناکام  تعیناتی  اور 2001ء میں بین الاقوامی ثالثی  کونسل کی جانب سے جنگ بندی  کی کوشش کی گئی اسی طرح 2002ء میں عالمی ثالث کی ناکام کی کوشش کی گئی[20]۔تاہم  2005ء کے آخر میں محدود جنگجوؤں اور تنازع  میں اضافہ ہوا جو حکومت کی جانب سے جولائی 2006 میں تامل ٹائیگرز کے خلاف بہت بڑی فوجی کارروائی کانقطہ آغاز بنا جس کا مقصد تامل ٹائیگرز کو جزیرہ کے مشرقی حصہ سے باہر نکالنا تھا۔ اس فوجی کارروائی کے بعد تامل ٹائیگرز نے اعلان کیا کہ ،ْوہ اپنی آزاد ریاست  حاصل کرنے کے لیے اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں گے[21][22]۔ٗ

2007 ء میں حکومت نے ملک کے شمال میں اپنی  فوجی جارحیت کا آغاز کر دیا اور رسمی طور پر 2 جنوری 2008 کو جنگ بندی  کے معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا،حکومت نے  الزام لگایا گیا کہ تامل ٹائیگرز نے 10000 سے زائد مرتبہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے[23]۔ اس کے بعد  تامل ٹائیگرز سے تعلق رکھنے    اسمگل شدہ بحری جہازوں کی تباہی  اور عالمی سطح پر تامل ٹائیگرز کی فنڈنگ  پر کریک ڈاؤن کے ان کی کمر توڑ دی گئی۔   تامل ٹائیگرز کے دار الحکومت کلوینوچی، اہم فوجی اڈے مولیٹیوو اور پورے A9 شاہراہ سمیت تامل ٹائیگرز کے تمام علاقوں پر حکومت نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ لہٰذا 17 مئی 2009 کو   تامل ٹائیگرز نے باقاعدہ شکست تسلیم کر لی[24]۔ ان کی شکست کے بعد تامل ٹائیگرز کی حمایتی تامل قومی اتحاد نے اپنے منشور سے تامل کے علاحدہ وطن کا مطالبہ ترک دیا۔مئی 2010 ءمیں، سری لنکا کے صدر مہندا راجپکسا نے 2002 ء میں تائج سیکھنا اور مصالحت کمیشن (ایل ایل آر سی) مقرر کیا جس کو مقصد 2002ء میں جنگ بندی کے معاہدے اور 2009ء تامل ٹائیگرز کی شکست کے درمیانی مدت کاجائزہ لینا ہے[25]۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "LTTE defeated; Sri Lanka liberated from terror"۔ Ministry of Defence۔ 18 May 2009۔ 21 مئی 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مئی 2009 
  2. ^ ا ب پ International Institute for Strategic Studies, Armed Conflicts Database. آرکائیو شدہ 11 مئی 2006 بذریعہ وے بیک مشین
  3. "Sri Lanka Army - Troop Strength"۔ globalsecurity.org۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018 
  4. [1].
  5. Opposition leader rebutts [sic] Sri Lankan government claims
  6. "Humanitarian Operation – Factual Analysis, July 2006 – May 2009" (PDF)۔ Ministry of Defence (Sri Lanka)۔ 1 August 2011۔ 04 مارچ 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  7. "Sri Lanka Database – Casualties of Terrorist violence in Sri Lanka"۔ channelnewsasia۔ 3 June 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مئی 2018 
  8. Nakkawita, Wijitha (3 June 2009)۔ "LTTE killing spree"۔ Daily News۔ 11 جنوری 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 اپریل 2012 
  9. Eelam War IV: Imminent End آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ southasianoutlook.com (Error: unknown archive URL).
  10. Tamils mark 25-years of Tiger sacrifice Tamilnet .
  11. 4073 LTTE cadres killed in ongoing battle.
  12. "Sri Lankan experience proves nothing is impossible"۔ The Sunday Observer۔ 5 June 2011۔ 08 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جون 2011 
  13. ^ ا ب "Up to 100,000 killed in Sri Lanka's civil war: UN"۔ ABC Australia۔ 20 May 2009۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2018 
  14. "UNHCR Overview: IDPs in Sri Lanka"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 نومبر 2018 
  15. Krista Mahr۔ "Sri Lanka to Start Tally of Civil-War Dead"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2018 – world.time.com سے 
  16. See here for related references.
  17. "International Commission of Jurists Submission to the Universal Periodic Review of Sri Lanka" (PDF)۔ International Commission of Jurists۔ April 2012۔ 25 نومبر 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 جولا‎ئی 2012 
  18. "Ceasefire raises Sri Lankan peace hopes"۔ The Guardian۔ London۔ 22 February 2002۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 09 اپریل 2010 
  19. "Sri Lanka's war seen far from over"۔ Amal Jayasinghe۔ Agence France-Presse۔ 14 July 2007 
  20. "Sri Lankan Government Finds Support From Buddhist Monks"۔ The New York Times۔ 26 February 2007۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2018 
  21. "Government takes policy decision to abrogate failed CFA"۔ Ministry of Defence۔ 2 January 2008۔ 05 جنوری 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 02 جنوری 2008 
  22. Charles Haviland (13 March 2010)۔ "Sri Lanka Tamil party drops statehood demand"۔ BBC۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2011 
  23. Amrith Rohan Perera۔ "Report of the Commission of Inquiry on the Lessons Learnt and Reconciliation" (PDF)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 دسمبر 2018