سفانہ بنت حاتم حاتم طائی کی بیٹی اور عدی بن حاتم مشہور صحابی کی بہن اور صحابیہ تھیں۔

سفانہ بنت حاتم
(عربی میں: سفانة بنت حاتم بن عبد الله بن سعد بن الحشرج بن امرئ القيس بن عدي بن أخزم بن أبي أخزم بن ربيعة بن جرول بن ثعل بن عمرو بن الغوث بن طيء. ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
والد حاتم طائی   ویکی ڈیٹا پر (P22) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی

نام و نسب

ترمیم

سفانہ نام، جب اسلامی لشکر قبیلہ طے میں پہنچا تو اس وقت عدی بن حاتم قبیلہ سردار تھے، وہ اپنے اہل و عیال کو لے کر اپنی مسیحی برادری کے پاس شام چلے گئے [1] لیکن اتفاق سے سفانہ وہیں رہ گئیں اور وہ مسلمانوں کے ہاتھ آگئیں، عام قیدیوں کے ساتھ وہ مدینہ لائی گئیں اور ایک خاص مقام پر رکھی گئیں، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ادھر سے گذر ہوا تو سفانہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! میرے والد کا انتقال ہو چکا ہے اور ان کے علاوہ جو چھڑانے والا ہے وہ اس وقت موجود نہیں ہے، مجھ پراحسان کیجئے، خدا آپ پراحسان کریگا، حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا: چھڑانے والا کون؟ عرض کیا عدی بن حاتم، فرمایا وہی تو نہیں جس نے خدا اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے فرار اختیار کر لیا، دوسرے دن پھر آپ کا گذر ہوا، اسیر خاتون نے پھر وہی درخواست کی اور پھر وہی جواب ملا، تیسری مرتبہ انھوں نے علی المرتضیٰ کے مشورہ سے درخواست کی، اس مرتبہ قبول ہو گئی اور رہا کر دی گئیں؛ لیکن چونکہ بڑے گھر کی عورت تھیں اس لیے ان کے رتبہ اور اعزاز کے پیشِ نظر ارشاد ہوا کہ ابھی جانے میں جلدی نہ کرو، جب تمھارے قبیلہ کا کوئی معتبر آدمی مل جائے تو مجھے خبر کرو؛ چند دنوں کے بعد قبیلہ بلی اور قضاعہ کے کچھ لوگ ملے، سفانہ نے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو اطلاع دی، آپ نے ان کے شایانِ شان سواری لباس اور اخراجاتِ سفر کا انتظام کر کے بحفاظت تمام ان کو روانہ کر دیا؛ یہاں سے یہ براہِ راست عدی بن حاتم کے پاس شام پہنچیں اور ان کو بہت ملامت کی کہ تم سے زیادہ قاطع رحم کون ہو گا؟ اپنے اہل و عیال کو تولے آئے اور مجھ کو تنہا چھوڑ دیا، عدی نے ندامت اور شرمساری کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور چند دنوں کے بعد عدی نے اُن سے پوچھا: کہ تم ہوشیار اور عاقلہ ہو، تم نے اس شخص (محمد) کے متعلق کیا رائے قائم کی؛ انھوں نے کہا: میری یہ رائے ہے جس قدر جلد ممکن ہو اُن سے ملو؛ اگر وہ نبی ہیں تو اُن سے ملنے میں سبقت کرنا شرف و سعادت ہے اور اگر بادشاہ ہے توب ہی یمن کا ایک باعزت فرمانروا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔[2]

اسلام

ترمیم

اسلام کے بارے میں صاحب اصابہ لکھتے ہیں: وكانت أسلمت وحسن إسلامها۔[3] ترجمہ:وہ اسلام لائیں اور حسن وخوبی سے اسے نباہا۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. سیرت ابن ہشام:2/368
  2. سیرت ابن ہشام:جلد 2 صفحہ 370
  3. الإصابة في معرفة الصحابة:4/6