حاتم طائی
عرب کے جاہلی دور کا نامور شاعر۔ غیر معمولی شجاعت و سخاوت کی وجہ سے مشہور ہے۔ عربی زبان میں کسی کی سخاوت و فیاضی بڑھا چڑھا کر بیان کرنی ہو تو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص حاتم سے بھی زیادہ سخی ہے۔ اردو میں بھی اسی طرح کہا جاتا ہے۔ عہد اسلام سے کچھ عرصہ قبل مرا۔ اس کی بیٹی سفانہ عروج اسلام کے زمانے میں گرفتار ہو کر دربار نبوت میں پیش ہوئی۔ تو اس نے نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے سامنے اپنے باپ کی فیاضی اور جود و کرم کا تذکرہ کیا۔ رسول اللہ صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے اس کو رہا کرنے کا حکم دیا اور ارشاد فرمایا کہ حاتم اسلامی اخلاق کا حامل تھا۔ حاتم کا دیوان پہلی بار رزق اللہ حسون نے لندن سے 1876ء میں شائع کیا۔ 1897ء میں دیوان کا ترجمہ جرمن زبان میں چھپا۔حاتم کے بیٹے عدی بن حاتم نے اسلام قبول کر لیا تھا۔
حاتم طائی | |
---|---|
(عربی میں: حاتم الطائي) | |
معلومات شخصیت | |
وفات | سنہ 578ء حائل |
اولاد | عدی بن حاتم ، سفانہ بنت حاتم |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمحاتم ابن عبد اللہ بن سعد بن أخزم بن أبي أخزم الطائی کا والد بچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا۔ اس کی ماں نے اس کی پرورش کی وہ بڑی دولتمند خاتون تھی اور نہایت فیاض تھی۔ اپنی تمام ملکیتی چیز سخاوت کردیتی تھی۔ ایک دفعہ اس کے بھائیوں نے اس کا تمام مال روک لیا اور اسے ایک سال تک قید رکھا۔ انھوں نے سوچا کہ اسے فاقہ کا مزا چکھائیں اور مال و دولت کی قدر و قیمت بتائیں اور جب اسے چھوڑا تو اس کے مال میں سے تھوڑا سا حصہ دیا۔ اتنے میں بنو ہوازن کی ایک تنگ دست خاتون اس کے پاس فریاد لے کر آئی تو اس نے وہ سارا مال اسے دے دیا اور کہنے لگی جب میں نے بھوکا رہ کر اس کی تکلیف دیکھی ہے، اس وقت سے میں نے قسم کھالی کہ کسی سائل سے کوئی چیز نہ چھپاؤں گی ۔
اس سخی ماں نے حاتم کی تربیت کی اور اس عادت کا اسے وارث بنایا اور اسے سخاوت کا دودھ پلایا۔ وہ جوان ہو کر بڑا سخی بنا۔ وہ سخاوت سے ہی دل بہلاتا اور اس میں اس قدر مبالغہ کرنے لگا کہ جنون کی حد تک پہنچ گیا۔ یہ اپنے دادا کے پاس رہتا تھا، چھوٹی سی عمر تھی، اپنا کھانا لے کر باہر نکل جاتا، اگر کوئی کھانے والا ساتھ مل جاتا تو ساتھ مل کر کھالیتا، ورنہ اپنا کھانا پھینک آتا۔ حاتم کا دادا ایسی سخاوت کو ناپسند کرتا۔ چنانچہ دادا نے اسے اونٹوں کی نگرانی پر لگا دیا۔ ایک دن عبید بن الا برص، بشیر بن ابی حازم اور نابغہ ذبیانی نعمان کے پاس جاتے ہوئے اس کے پاس سے گذرے اور اس سے مہمانی کا مطالبہ کیا۔ اس نے ہر ایک کے لیے ایک ایک اونٹ ذبح کیا، حالانکہ وہ انھیں جانتا بھی نہیں تھا۔ جب انھوں نے اپنے نام بتائے تو سارے اونٹ ان میں تقسیم کر دیے، وہ تقریباً تین سو تھے اور خوشی خوشی گھر آیا دادا کو مبارک باد دی کہنے لگا میں نے دائمی عزت و مجد کا ہار آپ کے گلے میں ڈال دیا ہے، پھر جو کچھ ہوا پورا قصہ سنایا اور دادا نے یہ معاملہ سن کر کہا ’اب تو میرے ساتھ نہیں رہ سکتا‘ حاتم نے کہا مجھے اس کی کوئی پروا نہیں پھر یہ اشعار کہے ۔ میں تنگ دستی و ناداری میں لوگوں سے اجتناب کرتا ہوں اور مالداری کی حالت میں ان کے ساتھ مل جل کر سکتا ہوں اور اپنے سے غیر آہنگ شکل ترک کردیتا ہوں ۔
میں اپنے مال کو اپنی عزت و آبرو کے لیے ڈھال بنالیتا ہوں اور جو بچ رہتا ہے مجھے اس کی پروا نہیں ۔
مجھے اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا کہ سعد (دادا) اپنے اہل و عیال کو لے کر چلا گیا اور مجھے گھر تنہا چھوڑ دیا کہ میرے ساتھ میرے گھر والے نہیں ہیں ۔
حاتم کی سخاوت کے چرچے گھر گھر عام ہو گئے اور اس کی سخاوت و فیاضی کی داستانیں ضرب المثل بن گئیں اور اس ضمن میں بڑے بڑے عجیب و غریب قصے بیان کیے جاتے ہیں۔ جن میں اکثر صرف زیب داستان کے لیے بڑھا چڑھا دیے گئے ہیں۔ حاتم کی سخاوت کے قصے اسی طرح بنائے گئے ہیں، جس طرح امیہ کے اشعار دین کے بارے میں، عنترہ کے فخر و حماسہ میں ابو العتاہیہ کے زہد میں اور ابو نواس کے فحش و بے حیائی میں گھڑ لیے گئے ہیں۔ پہلے وہ کسی مقصد کے لیے شعر کہتے ہیں پھر وہ جس کے مضامین اور اسلوب سے مطابقت رکھتے ہوئے اس شاعر سے منسوب کر دیتے ہیں ۔
ابن اعرابی کے مطابق حاتم ہر میدان میں کامیاب ہوتا ہے، جب جنگ کرتا تو وہ غالب آجاتا ہے، جب وہ مقابلہ کرتا ہے تو سبقت لے جاتا ہے، جب وہ جوا کھیلتا ہے تو وہی جیتا ہے، جب ماہ رجب کا چاند نظر آتا (زمانہ جاہلیت میں خاندان مضر رجب کے مہینہ کو بہت باعزت اور محترم گردانے تھے) حاتم ہر روز دس اونٹ ذبح کرتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا اور لوگ اس کے پاس جمع ہوجاتے تھے ۔
حاتم نے نوار نامی عورت سے شادی کی پھر یمن کے بادشاہ کی بیٹی ماویہ بنت عفرز سے نکاح کیا۔ ان دونوں بیویوں سے اس کے تین بچے عبد اللہ، سفانہ اور عدی پیدا ہوئے۔ آخری دونوں نے اسلام کا زمانہ پایا اور اسلام سے فیض یاب ہوئے ۔
حاتم اس طرح لوگوں کو کھانا کھلاتا رہا اور مال لٹاتا رہا اور وہ 578 عیسوی میں اس دار فانی سے رخصت ہو گیا ۔
اخلاق و عادات
ترمیمحاتم ایسے اعلیٰ اخلاق کا مالک تھا، جس کی نظیر زمانہ جاہلیت میں نہیں ملتی ہے، وہ نہایت خاموش طبع، نرم دل اور حد درجہ بامُرَوَّت تھا، اس سلسلے میں وہ کہتا ہے۔
میری عمر کی قسم؛ میں نے کتنے اِکلوتے بیٹوں کو پناہ دی پھر نہ انھیں قتل کیا اور نہ قید کیا اور میں نے کبھی اپنے چچا زاد پر ظلم نہیں کیا کہ میرے بھائی موجود ہوں اور اس کے بھائیوں کو زمانے نے ختم کر دیا ہو۔
حاتم کی بیٹی سفانہ جب قیدیوں میں قید ہو کر آئی تو رسول اکرام ﷺ کے سامنے کھڑی ہو کر رہائی درخواست کرتے ہوئے کہنے لگی ’میرا باپ قیدیوں کو آزاد کراتا تھا، حقوق کی حفاظت کرتا تھا، مہمان نواز تھا اور مصیبت زدہ کی پریشانیوں کو دور کرتا تھا، کھانا کھلاتا تھا، اس نے ضرورت مند کو کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹایا‘ تو رسول اللّٰه ﷺ نے فرمایا یہ صفات مومن کی ہیں ’تیرا باپ اگر مسلمان ہوتا تو ہم ضرور اس پر رحمت بھیجتے‘ اور فرمایا اس کو چھوڑ دو کیوں کہ اس کا باپ مکارم اخلاق کو پسند کرتا تھا۔
شاعری
ترمیمیقیناً زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے اور شاعری احساسات کا آئینہ ہوتی ہے۔ مذکورہ تفصیل میں حاتم کے جو اخلاق و عادات کا ذکر کیا ہے وہی اس کی شاعری میں اثر انداز اور رواں دواں نظر آتے ہیں۔ اس کے الفاظ آسان و نرم، اس کا اسلوب پختہ و محکم اور اس کا موضع اعلیٰ اور برتر ہے، جس کی مثال بدوی شعرا میں بھی نہیں ملتی ہے۔ اس بنا پر ابن اعرابی نے کہا تھا ’اس کی سخاوت اس کی شاعری کے مشابہ ہے‘ اس کے کہنے کا مطلب ہے کہ اس کی شاعری ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے، جس میں جود و سخاوت اور اس کے متعلق ملامت کرنے کے موضوعات پر امثال و حکم کا بیش بہا خزانہ جوش مارتا رہا ہے، اس میں لافانی شہرت اور دائمی ذکر کا تذکرہ بہت خوبصورت انداز میں اختلاف اور تضاد نظر آتا ہے، وہ اس لیے کہ اس کے کلام میں بہت سا ایسا کلام داخل کر دیا گیا جو غلط طور پر اس سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ یہ دوسرے طبقہ کا شاعر ہے۔ اس کا مجموعہ کلام دیوان کی شکل لندن اور بیروت سے شائع ہو چکا ہے ۔[1] نمونہ شاعری
أماویّ إن المالَ غادٍ ورائحٌ | وَیبَقَی مِنَ المالِ الأحادیثُ والذکر | |
أماویّ إنی لا أقولُ لسائلٍ | إذا جاء یوماً: حلَّ فی مالنا نَذرُ | |
أماویّ إمّا مانعٌ فَمُبَیّن | و إما عطاءٌ لا یُنهَنْهُهُ الزَّجرُ | |
أماویّ ما یُغنی الثراءُ عن الفتی | إذا حَشْرَجَتْ یوماً وَضَاقَ بها الصَدرُ | |
أماویّ إن یُصبحْ صدایَ بقفرةٍ | من الأرض لا ماءٌ لدیَّ ولا خَمرُ | |
تَرَی أنَّ ما أنفقتُ لم یکُ ضَرَّنی | وَ أن یدی مما بخلتُ لہ بہ صِفرُ | |
وقد علم الأقوامُ لو أنَّ «حاتماً» | أرادَ ثراءَ المالِ کانَ لَهُ وَفرُ |
حوالہ جات
ترمیم- ↑ احمد حسن زیات۔ تاریخ ادب عربی۔ ترجمہ، محمد نعیم صدیقی۔ شیخ محمد بشیر اینڈ سنز سرکلر روڈ چوک اردو بازار لاہور