سلسلہ شطاریہ تصوف کے سلاسل میں ایک سلسلہ ہے۔

ابتدا

ترمیم

صوفیا کا ایک سلسلہ ستاریہ ہے جو ایران میں ہے اسے ایران میں سلسلہ عشقیہ اور روم میں بسطامیہ کہلاتا ہے ستار کا معنی ہے تیز چلنے والا ان کے تیز چلنے یا تیز پھیلنے کی وجہ سے سلسلہ شطاریہ کہلایا۔

ہندوستان آمد

ترمیم

ہندوستان میں شطاریہ سلسلہ کے بانی شاہ عبد اللہ شطاری المتوفی 1572ء ہیں، جوپندرہویں صدی میں ایران سے ہندوستان تشریف لائے۔

آپ شیخ شہاب الدین سہروردی کی اَولاد میں سے تھے۔[1]

اکابرین سلسلہ

ترمیم

اس سلسلہ کے بزرگوں کو ہندوستان میں شاہ عبد اللہ شطاری،کے علاوہ شیخ حافظ جونپوری کی خدمات کا بھی فیض پہنچا ہے۔ ان کے علاوہ جونپور کے ہی شیخ بدھن ،اور بدولی کے شیخ ولی شطاری، نے بھی سلسلے کو آگے بڑھانے میں اور لوگوں تک اس کا فیض عام کرنے کی کوشش کی۔ خواجہ گنج شکر ،کی نسل سے امیر سید علی قوام،شیخ زکریا ،کے برادر زادہ شیخ حاجی ابن شیخ علم الدین نے بھی شطاری سلسلے کو کافی ترقی دی۔ جب شاہ عبد اللہ شطاری نے سفرِ آخرت اختیار فرمایا تو اُن کا خرقۂ خلافت شیخ محمد علی یعنی شیخ قاضن کو ملا۔ اور ان کے بعد شیخ ابوالفتح ہدایت اللہ سرمست کو حاصل ہوا اور ان کے بعد شیخ ظہور حاجی حضور کی خدمت میں پہنچا۔ ان کے بعد منصب ہدایت و اجازت اور مژدۂ قطب الاقطابی شیخ محمد غوث گوالیاری کو پہنچا۔[2]

دس اصول

ترمیم

1توبہ: اللہ کے علاوہ ہر شے سے خروج کا نام توبہ ہے۔

2زہد: زہد نام ہے دنیا، اس کی محبت اس کے سامان اور اس کی خواہشات کو ترک کرنے کا۔

3 توکل: توکل اسباب ِدنیا سے کنارہ کشی کو کہتے ہیں۔

4قناعت: خواہشات ِنفسانیہ کے ترک کو قناعت کہتے ہیں۔

5عزلت: خلق سے میل جول کے ترک کو کہتے ہیں۔

6توجہ الی الحق: یہ ہر اس چیز کے چھوڑنے کا نام ہے جو غیر ِ حق کی طرف داعی ہو۔ یہ وہ منزل ہے جہاں خداوند قدوس کے علاوہ کوئی مطلوب، محبوب اور مقصود باقی نہیں رہتا۔

7صبر: یہ انسان کا مجاہدہ کے ذریعے لذتوں کو چھوڑنا ہے۔

8رضا: اللہ کی رضا میں داخل ہو کر نفس کی رضا سے نکلنے کا نام ہے۔ اس طرح کہ احکام ازلیہ کو تسلیم کرے اور خود کو بغیر کسی اعراض کے مصلحت خدا وندی کے حوالے کر دے۔

9ذکر : یہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ تمام مخلوق کے ذکر کا ترک ہے۔

10مراقبہ: یہ اپنے وجود اور قوت سے نکلنے کا نام ہے۔

مراقبہ کے متعلق شیخ بہاؤ الدین شطاری فرماتے ہیں: کہ قرآن کریم کی وہ تمام آیات و کلمات جن سے توحید کا مفہوم سمجھا جاتا ہے یہ سب اسمائے مراقبہ ہیں، یعنی جب مراقبہ کرنے کااِرادہ ہوتو ان آیات و کلمات کو پڑھاجائے اور وہ کلمات یہ ہیں۔ وھو معکم اینما کنتم، اینما تولو فثم وجہ اللہ، الم یعلم بان اللہ یری، نحن اقرب الیہ من حبل الورید، ان اللہ بکلّ شی محیط، وفی انفسکم افلا تبصرون، ان معی ربی سیھدین، اسی طرح اللہ حاضری اللہ ناظری اللہ شاھدی اللہ معی اور ذات باری کا مراقبہ یاحیی یاقیوم کا مراقبہ انیس کا مراقبہ، تمام اسمائے حسنیٰ کا مراقبہ، قرآن کریم کی تلاوت کا مراقبہ، اپنے فنا ہوجانے کا مراقبہ، مراقبہ کے یہ چندرموز تحریر کردیے گئے تا کہ ان میں سے کسی کو پسند کرکے مراقبہ شروع کر دیں اور فائدہ حاصل کریں۔ اور مراقبہ دراصل نام ہے اپنی ہستی اور تمام کائنات کو مٹادینے اور اللہ کی ذات کو تمام احوال میں ثابت رکھنے کا اور بس، پس ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ جہاں کہیں بھی (بشرطیکہ کوئی شرعی مانع نہ ہو) وہ اللہ کا ذکر کرے اور اس کے ذریعہ اپنے دل کی پاکیزگی حاصل کرے۔

مراقبہ کی وجہ تسمیہ: یہ ہے کہ مراقبہ کا اصل مادہ ہے رقیب، جس کے معنی محافظ اور نگرانی کرنے والے کے ہیں، یعنی جب تک مرید مراقبہ میں مشغول ہے تو وہ خواہشات نفسانیہ، شیطانی وساوس اور جسمانی شواغل خواطر قلبیہ خناسیہ سے محفوظ ہوکر اللہ ﷯کی جانب متوجہ ہوتاہے۔ اسی لیے مشہور ہے کہ فکر افضل ہے ذکرسے، اس لیے کہ فکر تو ایک باطنی شغل ہے جس کی کسی کو خبر نہیں، یعنی مراقبہ اس کو کہتے ہیں کہ دل کی نگہبانی کرکے اللہﷻ کی جانب متوجہ کرنا اور جو چیز خدا کے ماسوٰی ہے اس کو دل میں جگہ نہ دینا، سو ایسے آدمی کو صوفیا کی اصطلاح میں اہل دل کہتے ہیں۔ [3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. قادری شطاری۔ "قادری شطاری سلسلے کی ابتداء"۔ سلسلہ قادریہ شطاری۔ اخذ شدہ بتاریخ September 2020 
  2. حیات قطب عالمؒ | مدثرحسین آفشل
  3. (تذکرہ مشائخِ قادریہ رضویہ: 282)