سردار سلطان احمد خان چانڈیو غیبی خان کا پوتا اور میر محمد خان کا بیٹا تھا جو 17 مئی 1934ء میں غیبی دیرو میں پیدا ہوا۔ سلطان اپنے دادا کو بے حد پیارے تھے لہذا ان کی پیدائش پر ایک بڑے جشن کا انتظام کیا گیا تھا، غریب لوگوں میں کپڑے، پیسے، اچھا کھانا کئی دن تک تقسیم ہوتے رہے۔ جیل میں بند قیدیوں کو رہائی دی گئی ۔ اس کے علاوہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے بڑے نواب اور سرداروں کو دعوت میں مدعو کیا گیا تھا جب کہ انگریز سرکار بھی اس میں شامل تھی۔


جب 12 اپریل 1943ء کے دن سلطان کی مسلمانی جسے ختنہ کہتے ہیں رسم کا دن آیا تو اس دن پورے غیبی دیرو میں ایک عید کا سما تھا ہر طرف لوگ، مہمان اور چراغاں نظر آرہا تھا۔اس جشن کے موقع پر لاڑکانہ کے کلیکٹر محمد ہاشم رضا خود انتظامات سنبھالے ہوئے تھے ، ختنہ کرنے والے حجام کو اس زمانے میں ڈیڑھ لاکھ روپے، اشرفیاں صرف غیبی خان نے دیے تھے اور باقی مہمانوں کی طرف سے بھی بہت کچھ ملا تھا ۔

جب آٹھ سال کے سلطان ہوئے تو انھیں اسکول میں پڑھنے کے لیے بھیجا گیا اور وہ دن تھا 12 فروری 1941ء۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر تھے صوفی دھنی بخش جنھوں نے سردار کو چھٹی جماعت پاس کروانے میں بڑی محنت کی تھی کیونکہ وہ پڑھنے میں دلچسپی کم لے رہے تھے۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ان کے دادا نے علامہ علی خان ابڑو کی خدمات حاصل کیں جو ایک ریٹائرڈ تعلیمی افسر تھے، جس کو ہر ماہ 500 روپے دیے جا رہے تھے اور 20 ماہ کا ایڈوانس بھی دیا گیا تھا۔

قابل اور تجربہ کار ٹیچر کے باوجود وہ انگریزی زبان میں مہارت حاصل نہیں کرسکے مگر استاد سے خوش اخلاقی، خوش لباسی، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے کے سلیقے، ڈسپلن وغیرہ اچھے طریقے سے سیکھ لیے۔ان کے دادا انھیں بے حد چاہتے تھے اور اسے احمد یا پھر احمد بھائی کہہ کر بلاتے تھے۔ غیبی خان چاہتے تھے کہ ان کا پوتہ سر شاہنواز بھٹو اور نبی بخش بھٹو کی طرح پڑھ لکھ کر سیاست میں اپنا اور قوم کا نام پیدا کرے۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنے پوتے کو بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لیے بھیجیں۔ سلطان کے والد بھی سندھ اسمبلی کے ارکان تھے جن کا انتقال 17 فروری 1950ء میں ہوا تھا۔

بہرحال سلطان نے اپنی سیاسی زندگی کی شروعات ممبر ضلع لوکل بورڈ لاڑکانہ سے کی، یکم مارچ 1951ء میں بائی الیکشن لڑا ۔ ان کے مدمقابل حیدر بخش جتوئی تھے جو یہ الیکشن ہار گئے کیونکہ اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ محمد ایوب سلطان چانڈیو کی حمایت میں تھے۔ حیدر جتوئی نے نتائج کو نہیں مانا اور اپیل میں چلے گئے جس میں انھوں نے یہ کہا کہ سلطان کی عمر کم ہے اور وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے جس کی بنا پر سلطان اس کامیابی سے الگ ہو گئے۔ 1954ء کی الیکشن میں دوبارہ وہ کھڑے ہوئے، ن کی مخالفت میں ان کے چچا میر مظہر علی اٹھ کھڑے ہوئے مگر ہار گئے۔

جب ایوب خان اقتدار میں آئے تو چانڈیو صاحب سیاست میں خاموش رہے۔لاڑکانہ کی سیاست میں دو لوگ بڑے طاقتور تھے جن میں محمد ایوب کھوڑو اور دوسرے سرشاہ نواز بھٹو اور سلطان صاحب کے تعلقات بھٹو فیملی سے گھریلو تھے اس کے باوجود وہ سیاسی طور پر کھوڑو سے مسلم لیگ میں رہے جس کی وجہ سے کافی عرصہ بھٹو فیملی سے اختلافات رہے مگر 1975ء میں سردار صاحب نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

بھٹو نے انھیں رائس ایکسپورٹ کارپوریشن اور حج پالیسی کا انچارج بنادیا۔ جس عہدے پر 5 جولائی 1977 ء تک کام کرتے رہے۔1977ء والے الیکشن میں بھٹو نے انھیں ایم این اے کا ٹکٹ جاری کیا اور وہ بلامقابلہ اس پر کامیاب ہو گئے لیکن حالات کی وجہ سے 5 جولائی 1977ء پر ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور اسمبلیاں ختم ہوگئیں۔جب 1988ء کے جنرل الیکشن ہوئے تو سلطان مسلم لیگ کی ٹکٹ پر ایم این اے کی سیٹ کے لیے فارم بھروایا جس کے مقابلے میں پی پی پی کی طرف سے ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی امیدوار تھیں۔ سلطان یہ مقابلہ ہار گئے۔

دوبارہ جب 1990ء میں الیکشن ہوئے تو چانڈیو صاحب نے دوبارہ ایم این اے کی سیٹ کے لیے مسلم لیگ کے امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے لگے لیکن اس مرتبہ ان کے اپنے بیٹے شبیر احمد ان کے مقابلے میں پی پی کے امیدوار بن کر اپنے والد سے الیکشن میں کھڑے ہو گئے جو سلطان کو ہرا کر سیٹ جیت لی جس کا انھیں بے حد دکھ ہوا تھا۔ 1993ء میں پھر الیکشن کا وقت آگیا اور جب سلطان نے دیکھا کہ اس کے بیٹے شبیر احمد نے فارم بھرا ہے تو وہ مقابلے سے دستبردار ہو گئے اور اپنے بیٹے کی حمایت کی۔

سلطان شروع ہی سے مسلم لیگ سے جڑے رہے، سوائے بھٹو کے ساتھ 1975ء سے 1977ء تک۔ جب 1977ء میں ضیا الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا جس میں سردار صاحب بھی تھے مگر ان کو دل کی تکلیف کی وجہ سے اسپتال میں داخل کیا گیا اور آزاد کر دیا جس کے بعد وہ کچھ عرصہ سیاست سے دور رہے۔ جب 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو اس میں سلطان نے ایم این اے کا فارم پر کیا اور منتخب ہو گئے۔ جس کے بعد انھوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جب قاضی اختر سندھ کے Interior وزیر اعلیٰ بنے تو اس نے سردار صاحب کو ایڈوائزر برائے زراعت اور فوڈ بنادیا۔

سلطان احمد چانڈیو اپنے قبیلے کے 24 ویں سردار تھے جن کے سر پر ان کے دادا نے اپنی زندگی میں ہی سرداری کی پگ پہنائی تھی مگر غیبی خان چانڈیو 4 دسمبر 1965ء کو اس جہان سے کوچ کر گئے تھے جب کہ وہ سلطان کو سرداری 16 ستمبر 1954ء کو دے چکے تھے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد سلطان کے چچا میر مظہر علی خان نے اس سرداری پگ پر اپنا حق ظاہر کر دیا۔ اس سلسلے میں وقت کی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی جس نے سلطان کے حق میں فیصلہ دے دیا جس کا نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کر دیا۔ سلطان احمد نے اپنی سرداری کی ذمے داری اچھے طریقے سے نبھائی ۔

وقت کے گزرنے سے اور حکومتوں کی پالیسیوں سے چانڈیہ جاگیر سکڑتی گئی جس میں ایوب خان کے ذریعے اصلاحات، بھٹو کی زرعی پالیسی اور نواز شریف کے زرعی ریفارم شامل ہیں جس کی وجہ سے پیداوار اور آمدنی میں بہت زیادہ کمی آگئی اور اخراجات بہت تھے جس کی وجہ سے سلطان احمد کافی پریشانی میں رہتے تھے، ان کی دل کی تکلیف بڑی حد تک بڑھ گئی۔

انھوں نے لندن سے دل کا آپریشن 2 مارچ 1984ء میں کروالیا اور پاکستان لوٹ آئے مگر انھیں شوگر کا مسئلہ اور فالج کا حملہ بھی ہوا جس کا علاج انھوں نے جرمنی سے کروایا لیکن آخرکار زندگی نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور وہ 24 جنوری 2000ء میں اس دنیا کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کی نماز جنازہ اور تدفین جو ان کے آبائی قبرستان دیرو میں ہوئی جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔

سردار سلطان احمد نے تین شادیاں کی تھیں، 8 بیٹے اور 5 بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اس وقت سردار احمد چانڈیو جو شبیر احمد کا بیٹا ہے سارے نظام کو چلا رہا ہے اور پی پی کی ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم