ایوب خان

پاکستانی فوجی جرنیل اور سابقہ صدر

محمد ایوب خان (ولادت: 14 مئی 1907ء بمقام ریحانہ گاؤں، ہری پور ہزارہ، وفات: 19 اپریل، 1974ء) پاکستان کے سابق صدر، فیلڈ مارشل اور سیاسی رہنما تھے۔ وہ پاکستانی فوج کے سب سے کم عمر سب سے زیادہ رینکس حاصل کرنے والے فوجی ہیں۔

ایوب خان
Muhammed Ayub Khan.JPG
 

دوسرے صدر پاکستان
مدت منصب
27 اکتوبر 1958ء – 25 مارچ 1969ء
Fleche-defaut-droite-gris-32.png سکندر مرزا
یحییٰ خان Fleche-defaut-gauche-gris-32.png
تیسرے سالارِ خاص (پاک فوج)
مدت منصب
17 جنوری 1951ء – 26 اکتوبر 1958ء
حکمران جارج ششم
ایلزبتھ دوم(قبل از 1956)
صدر اسکندر مرزا(از 1956)
گورنر
وزیر اعظم لیاقت علی خان
خواجہ ناظم الدین
محمد علی بوگرہ
چوہدری محمد علی
حسین شہید سہروردی
ابراہیم اسماعیل چندریگر
ملک فیروز خان نون
Fleche-defaut-droite-gris-32.png جنرل سر ڈوگلس ڈیوڈ گریسی
موسی خان Fleche-defaut-gauche-gris-32.png
وزیر اعظم پاکستان
مدت منصب
7 اکتوبر 1958ء – 27 اکتوبر 1958ء
صدر سکندر مرزا
Fleche-defaut-droite-gris-32.png فیروز خان نون
نور الامین Fleche-defaut-gauche-gris-32.png
معلومات شخصیت
پیدائش 14 مئی 1907[1][2][3][4][5][6]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ہری پور  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 اپریل 1974 (67 سال)[1][2][3][7]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
راولپنڈی  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات بندش قلب  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت British Raj Red Ensign.svg برطانوی ہند
Flag of Pakistan.svg پاکستان  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت پاکستان مسلم لیگ  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اولاد گوہر ایوب خان  ویکی ڈیٹا پر (P40) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ علی گڑھ
رائل ملٹری کالج، سینڈہرسٹ
کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ سیاست دان،  فوجی افسر،  سرمایہ کار،  آپ بیتی نگار  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری British Raj Red Ensign.svg برطانوی ہندوستان
Flag of Pakistan.svg پاکستان
شاخ برطانوی ہندوستانی فوج
پاک فوج
یونٹ پیادہ فوج (1/چودہویں پنجاب رجمنٹ)
کمانڈر وزیرستان میں برگیڈ
چودہویں انفنڑی ڈیویژن، ڈھاکہ
ایڈو (اے جی)
ڈپٹی کمانڈر انچیف
لڑائیاں اور جنگیں برما کمپین
جنگ عظیم دوم
اعزازات
Royal Victorian Chain Ribbon.gif رائل وکٹورین چین (1966)
Ord.Nishan-i-Pakistan.ribbon.gif نشان پاکستان 
Order BritEmp (civil) rib.PNG ایم بی ای
UK Order St-Michael St-George ribbon.svg نائیٹ گرینڈ کراس آف دی آرڈر آف سینٹ مائیکل اینڈ سینٹ جورج  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگیترميم

صدر محمد ایوب خان 14 مئی 1907 کو ہری پور ہزارہ کے قریبی گاؤں ریحانہ میں ایک قزلباش گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والد میرزا داد خان کی دوسری بیوی کے پہلے بیٹے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے آپ کا نام سرائے صالح کے ایک اسکول میں داخل کروایا گیا اور اس کے علاوہ ایک قریبی گاؤں کاہل پائیں میں بھی حاصل کی جو ان کے گھر سے 5میل کے فاصلے پر تھا۔ آپ خچر کے ذریعے اسکول جایا کرتے تھے۔ آپ نے 1922 میں علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن تعلیم مکمل نہ کی کیونکہ اس دوران میں آپ نے رائل اکیڈمی آف سینڈہسٹز کو قبول کر لیا تھا۔.

ابتدائی فوجی دورترميم

آپ نے اس تربیت گاہ میں بہت اچھا وقت گزارا اور آپ کو 14 پنجاب رجمنٹ شیر دل میں تعینات کیا گیا جو اب 5 پنجاب رجمنٹ ہے۔ جنگ عظیم دوم میں آپ نے بطور کپتان حصہ لیا اور پھر بعد میں برما کے محاذ پر بطور میجر تعینات رہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے پاکستان آرمی جوائن کرلی، اس وقت آپ آرمی میں دسویں نمبر پر تھے۔ جلد ہی آپ کو برگیڈئر بنا دیا گیا اور پھر 1948 میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 1949 میں مشرقی پاکستان سے واپسی پر آپ کو ڈپٹی کمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔ آپ محمد علی بوگرہ کے دور میں بطور وزیر دفاع خدمات انجام دیتے رہے۔ (1954ء)۔ جب اسکند مرزا نے 7 اکتوبر 1958 میں مارشل لا لگایا تو آپ کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی فوجی کو براہ راست سیاست میں لایا گیا۔

صدرِ پاکستان 1958–1969ترميم

صدر اسکندر مرزا سے اختلافات کی بنا پر مرزا صاحب سے ایوب خان کے اختلافات بڑھتے گئے اور بلا آخر ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنبھال لی اوراسکندر مرزا کو معزول کر دیا۔ قوم نے صدر ایوب خان کو خوش آمد ید کہا کیونکہ پاکستانی عوام اس دور میں غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی۔ جلد ہی ایوب خان نے ہلال پاکستان اور فیلڈ مارشل کے خطابات حاصل کر لیے۔ ایوب خان نے 1961 میں آئین بنوایا جو صدارتی طرز کا تھا اور پہلی دفعہ تحریری حالت میں انجام پایا۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962 میں عام انتخابات ہوئے اور مارشل لا اٹھا لیا گیا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جزوی طور پر تھا۔ ان انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِ مقابل سب سے اہم حریف مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں جو قائد اعظم کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہار گئیں۔ یہی وجہ ان انتخابات کو مشکوک بناتی ہے۔

فاطمہ جناح کے خلاف مشکوک فتح اور 1965 کی جنگ کی وجہ سے ایوب خان کے لیے حالات ناسازگار ہو چکے تھے۔ تاشقند معاہدے سے واپسی پر اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایوب خان نے ملک کی عزت اور قربانی بیچ ڈالی۔ اس بیان کے بعد بھٹو نے وزارت خارجہ کے عہدے سے استعفٰی دے دیا۔

1967 میں بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی اور ایوب خان کی مذہبی، معاشی اور عوامی پالیسیز پر شدید تنقید شروع کر دی۔ بھٹو کی تحریک کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی ایوب خان کے خلاف شیخ مجیب الرحمن کی تحریک سرگرم ہو چکی تھی۔ ایوب خان نے بھٹو اور شیخ مجیب کو پابند سلاسل کر دیا۔ اس سے ایوب خان کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا۔

1968 میں ایوب خان پر قاتلانہ حملہ ہوا جو ناکام رہا۔ 1969 میں ایوب خان نے عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی اپوزیشن پارٹیز سے مذاکرات کے لیے گول میز کانفرنس کی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ اس دوران ایوب خان کو دل کا دورہ لاحق ہوا اور اسی سال ان پر فالج کا حملہ بھی ہوا اور وہ صاحب فراش ہو گئے۔ انہیں ویل چئر پر لایا جاتا تھا۔

ملک بھر میں ایوب خان کے خلاف احتجاج نے خانہ جنگی سی صورت حال پیدا کر دی۔ پولیس کے لیے بلوائیوں کو روکنا مشکل ہو گیا اور بالآخر ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اپنے عہدے سے استعفا دے دیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحیٰ خان کو ملک کا صدر بنا دیا۔

 
17 ستمبر1965 کو شائع ہونے والے ٹائمز میگزین کا سرورق جس میں بھارتی وزیر اعظم لال بہادر شاستری اور صدر ایوب کو دیکھایا گیا ہے

اگرچہ صدر ایوب کے دور میں پاکستان نے دن دگنی رات چونگنی ترقی کی لیکن عوام مسلسل دس سالہ آمر حکومت سے بیزار آگئی، اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے وقت سے فائدہ اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا اور صدر ایوب کو مجبوراً عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور انہوں نے صدارت سے استعفا دے دیا اور اپنا اقدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ 2007 میں چھپنے والی ایوب خان کی ڈائری کے مطابق امریکا براہ راست صورت حال کو خراب کرنے میں ملوث تھا۔ دولتانہ اور چوہدری محمد علی ملک میں افراتفری پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ امریکا ایک زوال پزیر پاکستان چاہتا تھا تاکہ خطے میں بھارت ایک طاقتور ملک بنے جسے چین کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔[8]


اقتباسترميم

قدرت اللہ شہاب شروع سے ہی صدر ایوب کے پرسنل سیکریٹری رہے تھے۔ وہ اپنی کتاب شہاب نامہ میں صدر ایوب کے بارے میں لکھتے ہیں:

  • "اس روز صدر ایوب خان کی پہلی کیبنٹ میٹنگ ہونے والی تھی۔ کچھ وزیر بر آمدے میں آ کر جمع ہو گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر صدر نے مجھے کہا ”میں چاہتا ہوں کہ کابینہ کی پہلی چند میٹنگوں میں تم بھی بیٹھو تاکہ تم میرے خیالات سے واقف ہو جاؤ۔" یہ موقع ہاتھ آتے ہی میں نے گزارش کی ”جناب' دراصل میں اپنی چارج رپورٹ مکمل کر رہا تھا تا کہ آپ اپنی پسند کا نیا سیکرٹری متعین کر لیں۔"
یہ سن کر صدر ایوب چلتے چلتے رک گئے اور بولے۔ ”ہم فوجی لوگ ہر بات کی تحقیق کرنے کے عادی ہیں۔ ہم نے انکوائری کر لی ہے۔ تم کسی چیز میں ملوث نہیں ہو۔ اس لیے میں نے تم کو اپنا سیکرٹری مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“
یہ سن کر میرا نفس کچھ پھول سا گیا۔ نفس جتنا فربہ ہو، عقل اتنی ہی کمزور پڑ جاتی ہے اور قوت فیصلہ پر خود فریبی کا غبار چھا جاتا ہے۔ میرا بھی حشر ایسا ہی ہوا۔ دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ نیا صدر جو نیا نظام لانا چاہتا ہے، شاید وہی ملک کے لیے سود مند ثابت ہو۔ اس وقت یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ آئی کہ یہ نظام ریت کا گھروندا ہے، جو ایوب خاں کی صدارت ختم ہوتے ہی دھڑام سے گر جائے گا۔ جمہوریت بڑی غیرت مند اور حاسد دلہن ہے۔ اس کے اوپر سوکن کا سایہ بھی پڑ جائے تو یہ گھر بار جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔
اس نئے دور میں کام شروع کرتے ہی میرے دل میں یہ بات کھٹکی کہ مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد اب تک جتنے سرکاری اعلانات قوانین اور ریگولیشن جاری ہوئے ہیں، ان میں صرف حکومت پاکستان کا حوالہ دیا ہے، حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید ڈرافٹنگ میں غلطی سے ایک آدھ بار یہ فرو گذاشت ہو گئی ہو گی۔ لیکن جب ذرا تفصیل سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جس تواتر سے یہ فروگزاشت دہرائی جا رہی ہے۔ وہ سہواً کم اور التزاما زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
اس پر میں نے ایک مختصر سے نوٹ میں صدر ایوب کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو وزارت قانون اور مارشل لاء ہیڈ کوارٹر کی توجہ اس صورت حال کی طرف دلائی جائے اور ان کو ہدایت دی جائے کہ جاری شدہ تمام اعلانات اور قوانین کی صحیح کی جائے اور آئندہ کے لیے اس غلطی کو نہ دہرایا جائے۔
صدر ایوب کا قاعدہ تھا کہ وہ فائلیں اور دوسرے کاغذات روز کے روز نپٹا کر میرے پاس واپس بھیج دیا کرتے تھے۔ لیکن معمول کے برعکس یہ نوٹ کئی روز تک میرے پاس واپس نہ آیا۔ ۵ نومبر ۱۹۵۸ء کی شام کو میں اپنے دفتر میں بیٹھا دیر تک کام کر رہا تھا۔ باہر ٹیرس پر صدر ایوب اپنے چند رفیقوں کے ساتھ کسی معاملے پر گرما گرم بحث کر رہے تھے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب سب لوگ چلے گئے تو صدر میرے نوٹ کا پرچہ ہاتھ میں لیے میرے کمرے میں آئے۔ وہ غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے آتے ہی انہوں نے میرا نوٹ میرے حوالے کیا اور کہا۔ ”تمہیں غلط فہمی ہوئی ہوئی . ڈرافٹنگ میں کسی نے کوئی غلطی نہیں کی۔ بلکہ ہم نے سوچ سمجھ کر ہی طے کیا ہے کہ اسلامک ری پلک آف پاکستان سے اسلامک کا لفظ نکال دیا جائے۔
یہ فیصلہ ہو چکا ہے یا ابھی کرنا ہے" میں نے پوچھا۔ ہے۔
صدر ایوب نے کسی قدر غصے سے مجھے گھورا اور سخت لہجے میں کہا۔ ”ہاں، ہاں فیصلہ ہو گیا ہے۔ کل صبح پہلی چیز مجھے ڈرافٹ ملنا چاہیے۔ اس میں دیر نہ ہو۔“
اتنا کہہ کر وہ خدا حافظ کہے بغیر تیز تیز قدم کمرے سے نکل گئے۔ اگر مجھ میں ہمت ہوتی تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتا اور انہیں روک کر پوچھتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اسلامی کا لفظ حذف کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ لیکن اتنی ہمت مجھ میں نہ تھی اس لیے میں بھی دم دبائے چپ چاپ گھر واپس آ گیا۔ بڑے سوچ بچار کے بعد صبح کے قریب میں نے پریس ریلیز تو تیار نہ کیا بلکہ اس کی جگہ دو ڈھائی صفحوں کا ایک نوٹ لکھا، جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں۔ اس ملک کی تاریخ پرانی لیکن جغرافیہ نیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریڈ کلف لائن صرف اس وجہ سے کھینچی گئی تھی کہ ہم نے یہ خطہ ارض اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ اب اگر پاکستان سے اسلام کا نام الگ کر دیا گیا تو حد بندی کی یہ لائن معدوم ہو جائے گی۔ ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔ اگر افغانستان، ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیر باد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہم اسلام کے نام سے راہ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا الگ کوئی وجود قائم نہیں رہتا۔ اس لیے اسلام ہماری طبع نازک کو پسند خاطر ہو نہ ہو، اسلام ہماری طرز زندگی کو راس آئے یا نہ آئے، ذاتی طور پر ہم اسلام کی پابندی کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر آخرت کے لیے نہیں تو اس چند روزہ زندگی میں خود غرضی کے طور پر اپنے وطن کی سلامتی کے لیے ہمیں اسلام کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال کر بر سر عام ڈنکے کی چوٹ بجانا ہی پڑے گا خواہ اس کی دھمک ہمارے حسن سماعت پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔ جمہوریہ پاکستان کے ساتھ اسلامک کا لفظ لگانے سے اگر کسی کا ذہن قرون وسطیٰ کی طرف جاتا ہے تو جانے دیں۔ دوسروں کی جہالت کی وجہ سے اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ساتھ ہی میں نے ایک الگ کاغذ پر اپنا استعفیٰ بھی لکھ لیا کہ خرابی صحت کی بنا پر میں کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس لیے میرا استعفیٰ منظور کر کے مجھے ریٹائر ہونے کی اجازت دی جائے۔
یہ دونوں چیزیں میں نے اپنی بیوی کو دکھائیں تو اس نے مجھے خوب شاباش دی اور غالباً میرا دل بڑھانے کو کہا۔ ”مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ انگریزی بھی اتنی اچھی لکھ لیتے ہیں!"۔
یہ بات سن کر میں جل گیا۔ محترمہ' تم انگریزی زبان کے چسکے میں پڑ گئی ہو۔ یہ نہیں دیکھا کہ میں نے استعفیٰ بھی لکھ رکھا ہے۔ شاید سچ مچ اس کی نوبت بھی آ جائے۔اس کے متعلق کیا خیال ہے ؟“
اس نے کہا۔ ”ظاہر ہے کہ اس معاملے میں اگر آپ کی بات رد ہو گئی تو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ یہ نوکری چلی گئی تو کچھ اور کام کر لینا کسی کام کو جی نہ چاہے تو آرام سے گھر بیٹھ کر لکھنا پڑھنا۔ آخر میں نے ڈاکٹری کی ڈگری کس روز کے لیے لی ہے۔“
ہماری شادی کو ابھی صرف ڈیڑھ برس ہوا تھا۔ میں دفتر جانے لگا تو عفت غالباً شرارت ے بولی۔ ” آپ صورت حال سے نپٹ لیں گے یا میں بھی ساتھ چلوں؟"
میں اپنے آفس وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ خیال تھا کہ صدر ایوب کے آنے سے پہلے اپنا نوٹ ٹائپ کروا رکھوں گا۔ لیکن وہاں دیکھا تو صدر صاحب پہلے ہی برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کمرے میں آ گئے اور پوچھا۔ ”ڈرافٹ تیار ہے؟"
میں نے جواب دیا کہ تیار تو ہے لیکن ابھی ٹائپ نہیں ہوا۔
”کوئی بات نہیں۔“ انہوں نے کہا۔ ”ایسے ہی دکھاؤ۔“
وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے اور میرے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ پڑھنے گئے۔ چند سطریں پڑھ کر کچھ چونکے اور پھر از سر نو شروع سے پڑھنے لگے۔ جب ختم کر چکے تو کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ سے بولے ”Yes, Right You Are"
یہ فقرہ انہوں نے دوبار دہرایا اور پھر نوٹ ہاتھ میں لیے کمرے سے چلے گئے۔ اس کے بعد اس موضوع پر پھر کسی نے کبھی کوئی بات نہیں کی۔
چند روز بعد میں کچھ فائلیں لے کر صدر ایوب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے۔ ایک خط پڑھ کر بولے۔ کچھ لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، کچھ لوگ ملنے بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ اب ماڈرن ازم اور اسلام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ میں ان سے کہتا ہوں۔ :.....Pakistan has no Escape from Islam" اس کے بعد انہوں نے پے در پے میرے نوٹ کے کئی اور فقرے بھی دہرائے ۔۔۔۔۔۔۔ ان میں یہ عجیب صلاحیت تھی کہ اگر کوئی بات واقعی ان کے دل میں گھر کر جاتی تھی تو وہ بڑی معصومیت سے اسے اپنا لیتے تھے۔
ایک روز وہ کہنے لگے کہ انہوں نے بچپن میں قرآن شریف ختم تو کیا ہے لیکن اس کے معانی کو سمجھنے اور ان پر غور کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ اس لیے میں انہیں اردو کا کوئی آسان سا ترجمہ لا دوں۔ میں نے انہیں دو تین سادہ سادہ سے آسان مترجم قرآن شریف فراہم کر دیئے۔ ان کو انہوں نے بڑی محنت اور غور سے پڑھا۔ بنیادی عقائد، عبادات، نظام کائنات اور قصص القرآن تو وہ آسانی سے سمجھ گئے لیکن زندگی کی کلیت اور مجموعیت کا احکام الہی کے ساتھ جو مربوط، مضبوط اور عملی رشتہ ہے وہ پوری طرح ان کے فہم و ادراک کی گرفت میں نہ آ سکا۔ کچھ عرصہ ان کے سر میں ہے سودا بھی سمایا رہا کہ قرآن مجید کو عقائد، عبادات، اخلاقیات، قوانین، تمثیلات، قصص وغیرہ کے عنوانات کے تحت بھی تدوین کر دینی چاہیے تا کہ ہر موضوع کے حوالہ جات تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ اس خیال میں کچھ ایسے عناصر کی ہمت افزائی کرتے رہتے تھے جو دین کو انضباطی پابندیوں سے آزاد کر کے اسے سہل نگاریوں اور تن آسانیوں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جس طرح امتحان پاس کرنے کے لیے کتابوں کے خلاصے اور پاکٹ گائیڈ مقبول ہوتے ہیں، اس طرح اسلام کا یہ نظر ثانی شدہ آسان رنگ بھی صدر ایوب کو بڑی آسانی سے متاثر کر دیتا تھا۔ لیکن عام طور پر یہ تاثر عارضی ہوتا تھا۔ کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک اچھے اور سیدھے سادے مسلمان تھے۔
۱۹۶۰ء میں جب وہ سعودی عرب کے سرکاری دورے پر جا رہے تھے تو عمرہ ادا کرنے کے لیے انہوں نے خاص طور پر تیاری کی۔ ان کی فرمائش پر میں نے انہیں مختلف دعاؤں کے مجموعے دیئے جن کا انہوں نے چند روز خوب مطالعہ کیا۔ جس روز روانگی کے لیے ہم ہوائی جہاز میں سوار ہوئے، انہوں نے دونوں مجموعے واپس کر دیئے اور کہا۔ ”مجھے اپنے مطلب کی چیز مل گئی ہے۔ اب زیادہ لمبی چوڑی دعائیں یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔“ میرے استفسار پر انہوں نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکالا، جس پر ایک مختصر سی دعا اردو ترجمہ کے ساتھ نقل کی ہوئی تھی۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ یا اللہ مجھے بغیر حساب کتاب کے ہی بخش دے!
مکہ معظمہ میں ایک روز ان کے لیے خانہ کعبہ بھی کھولا گیا۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو شاہی معلم نے کہا کہ چاروں طرف منہ کر کے دو دو رکعت نماز پڑھ لیں۔ یہ سنت پوری کرنے کے بعد صدر ایوب بڑے شاداں و فرحاں نظر آتے تھے۔ وہیں اندر کھڑے کھڑے انہوں نے مجھے بتایا کہ چاروں طرف سجدہ کر کے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی مانگی ہے کہ ہندوستان کے سامنے ہمارا سر خم نہ ہو۔
بیت اللہ شریف کے اندر مانگی ہوئی دعا کبھی رایگاں نہیں جاتی۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ اس کا کھلا ثبوت ہے۔
مدینہ منورہ میں ہمیں روضہ رسول کے حجرہ مبارک کے اندر جانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اندر داخل ہوتے ہی صدر ایوب پر ہیبت اور رقت طاری ہو گئی۔ لمحہ بھر کے لیے انہوں نے دونوں ہاتھوں سے روضہ اطہر کا غلاف تھام لیا اور ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ زندگی بھر میں نے انہیں صرف ایک بار اس طرح اشک بار دیکھا ہے۔
صدارت کا کام جنرل ایوب خاں نے بڑی محنت، لگن، باقاعدگی اور سلیقے سے شروع کیا۔ سب فائلیں وہ غور سے پڑھتے تھے اور ان پر احکامات بھی اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ روز کی فائلیں روز نپٹا دیتے تھے۔ کچھ دن میں، کچھ رات کے وقت۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی فائل اگلے روز کے لیے اٹھا رکھی ہو۔ ہر روز اپنی ڈاک بھی پوری دیکھتے تھے۔ کچھ خطوط خود جواب دینے کے لیے منتخب کر لیتے تھے، باقی میرے حوالے کر دیتے تھے۔ اس زمانے میں صدر کے نام جتنے خط آتے تھے ان سب کے جواب ضرور دیئے جاتے تھے۔ ایک روز پنجاب کے کسی گاؤں سے ایک دل جلے کا خط آیا جس میں بڑی سخت زبان استعمال کی ہوئی تھی اور کچھ گالی گلوچ بھی تھی۔ اس شخص کا کوئی چھوٹا سا معاملہ محکمہ مال میں اٹکا ہوا تھا اور کئی بار رشوت ادا کرنے کے بعد بھی سلجھنے میں نہ آتا تھا۔ اس نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس کے ساتھ انصاف نہ ہوا تو وہ ساری عمر صدر ایوب کو بددعائیں دے دے کر مرے گا۔ میرے عملے نے بہت کہا کہ اس قسم کا خط صدر کو نہ دکھایا جائے کیونکہ اسے پڑھ کر وہ خواہ مخواہ غصے میں آئیں گے یا پریشان ہوں گے۔ لیکن میں نے اس خط کو ان کی خدمت میں اس تجویز کے ساتھ پیش کیا کہ اس کا جواب خود صدر مملکت دیں۔ لاہور کے اگلے دورے میں اس شخص کو گورنر ہاؤس میں طلب کر کے اس کی بات سنیں اور اس کا معاملہ گورنر کے سپرد کر کے جب تک وہ انجام تک پہنچ جائے اس کا پیچھا نہ چھوڑیں۔ یہ تجویز صدر ایوب کو پسند آ گئی اور اس پر عمل کر کے انہوں نے وقتاً فوقتاً مشرقی اور مغربی پاکستان میں بہت سے چھوٹے چھوٹے لوگوں کے چھوٹے مسائل حل کرنے میں بڑی مدد دی۔
صدر ایوب کا گھریلو ماحول بھی بڑا سادہ اور خوشگوار تھا۔ بیگم ایوب خاموش طبع، مرنجان مرنج اور پروقار خاتون تھیں۔ ملک کی خاتون اول کے طور پر انہوں نے کبھی ذاتی پیلبٹی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے بیٹوں کے لیے تو بڑی کمزور ماں ثابت ہوئیں کیونکہ وہ ان میں سے بعض کی خطا کاریوں اور ناپسندیدہ حرکات پر بڑی محنت سے پردہ ڈالتی رہتی تھیں۔ لیکن بیٹیوں کی تربیت پر ان کا اثر بے حد خوشگوار تھا۔ صدر ایوب کی صاحبزادیاں حسن صورت اور حسن سیرت دونوں سے مالا مال تھیں اور ان کے کردار میں حیاداری اور خوش اخلاقی کا بڑا گہرا امتزاج تھا۔ گھر کے اندر بھی وہ کبھی اپنے والد کے سامنے ننگے سر نظر نہ آتی تھیں۔ ان میں سے کسی نے میری بیوی کو بتایا تھا کہ کبھی کبھی وہ دوپٹے کو بالوں کے ساتھ پنوں کے ذریعہ ٹانک کر رکھتی ہے تا کہ بے خیالی میں سرک کر سر سے اتر نہ جائے۔
صدر ایوب کی سب سے چھوٹی صاحبزادی شکیلہ کی شادی ہوئی تو سادگی میں یہ تقریب بھی اپنی مثال آپ تھی۔ راولپنڈی سے ان کے ساتھ پرسنل سٹاف کے فقط ہم چار پانچ آدمی ان کے گاؤں ریحانہ گئے۔ ان کے آبائی مکان کے ایک کھلے احاطے میں درختوں کی چھاؤں میں چند کرسیاں اور کچھ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ وہاں بیٹھ کر ہم نے برات کا استقبال کیا۔ نکاح کے بعد کھانا ہوا اور انتہائی سادگی کے ساتھ رخصتی ہو گئی۔ اس تقریب میں صرف گاؤں کے کچھ احباب اور برادری کے لوگ شریک ہوئے۔ نہ باجا گاجا نہ ڈھول دھمکا۔ نہ تحفے تحائف۔ جس سادگی سے شادی کی تقریب ہوئی تھی، اسی سادگی سے ہم نے اخبار میں ایک چھوٹی سی دو سطری خبر چھپوا دی۔ ٹی وی کا دور تو ابھی نہ آیا تھا، لیکن ریڈیو پاکستان کے کسی بلیٹن میں اتنی سی خبر بھی نہ آئی۔ یہ دیکھ کر چند وزیر، افسر اور پیشہ ور خوشامدی صدر ایوب کے سر ہو گئے کہ اس سادہ تقریب کی خاطر خواہ پبلسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا "امیج" بڑھانے کا ایک سنہری موقعہ ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ یہ بات ان کے کانوں میں بار بار اتنی شدت سے بھری گئی کہ رفتہ رفتہ وہ بھی تذبذب کے عالم میں مبتلا ہو گئے۔ ایک روز میں کسی کام سے ان کے پاس گیا، تو ایک ایسا ہی خوشامدی ٹولہ انہیں اپنے نرغے میں لیے بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ لوگ پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے بھی پڑ گئے کہ صدر مملکت کے "امیج" کو فروغ دینے کا ایسا اچھا موقعہ کیوں ضائع کر دیا۔ میں خاموشی سے کھڑا ہوا ان کی چخ چخ بک بک سنتا رہا۔ جب ان کا غوغا بند ہوا، تو میں نے اپنے الفاظ کو قلفی کی طرح برف میں جما کر بڑے ادب سے کہا۔ ”اگر اس موقع پر آپ صاحبان بھی مدعو ہوتے تو آپ کو بھی ضرور محسوس ہوتا کہ اس تقریب کی سادگی میں بڑا خلوص تھا۔ اب اسے اشتہاری سٹنٹ میں تبدیل کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں بلکہ خلوص میں ریا کی کھوٹ ملانا بے برکتی کا باعث بن جاتا ہے۔"
میری بات تو غالباً کسی کو پسند نہ آئی۔ لیکن اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اس موضوع پر مزید چوں چوں بند ہو گئی۔"[9]

مزید دیکھیںترميم

  • اس صفحہ ”ایوب خان“ کے تبادلہ خیال پر بھی اہم معلومات موجود ہیں۔ پڑھنے کےلیے تبادلۂ خیال:ایوب خان پر کلک کریں۔

حوالہ جاتترميم

  • Mohammad Ayub Khan, "Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan, 1966-1972"، edited by Craig Baxter, Oxford University Press.
  1. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/47791286 — بنام: Muhammed Ayub Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. ^ ا ب دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Mohammad-Ayub-Khan — بنام: Mohammad Ayub Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  3. ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/ayub-khan-mohammed — بنام: Mohammed Ayub Khan
  4. Proleksis enciklopedija ID: https://proleksis.lzmk.hr/10140 — بنام: Mohammad Ayub Khan — عنوان : Proleksis enciklopedija
  5. Hrvatska enciklopedija ID: https://www.enciklopedija.hr/Natuknica.aspx?ID=4895 — بنام: Mohammad Ayub Khan — عنوان : Hrvatska enciklopedijaISBN 978-953-6036-31-8
  6. Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000008519 — بنام: Mohammed Ayub Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  7. بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb125247447 — بنام: Muhạmmad Ayūb Khān — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  8. روزنامہ جنگ، 4 مئی 2007[مردہ ربط]
  9. shahab-nama

بیرونی روابطترميم

ایوب خان کی ڈائری


فوجی دفاتر
ماقبل  سربراہ بری افواج پاکستان
1951–1958
مابعد 
سیاسی عہدے
ماقبل  وزیر دفاع پاکستان
1954–1955
مابعد 
ماقبل  وزیراعظم پاکستان
1958
مابعد 
ماقبل  صدر پاکستان
1958–1969
مابعد 
ماقبل  وزیر دفاع پاکستان
1958–1966
مابعد 
ماقبل  وزیر داخلہ پاکستان
1965
مابعد