ایوب خان
محمد ایوب خان (ولادت: 14 مئی 1907ء بمقام ریحانہ گاؤں، ہری پور ہزارہ، وفات: 19 اپریل، 1974ء) پاکستان کے سابق صدر، فیلڈ مارشل اور سیاسی رہنما تھے۔ وہ پاکستانی فوج کے سب سے کم عمر سب سے زیادہ رینکس حاصل کرنے والے فوجی ہیں۔
ایوب خان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
دوسرے صدر پاکستان | |||||||
مدت منصب 27 اکتوبر 1958ء – 25 مارچ 1969ء | |||||||
| |||||||
تیسرے سالارِ خاص (پاک فوج) | |||||||
مدت منصب 17 جنوری 1951ء – 26 اکتوبر 1958ء | |||||||
حکمران | جارج ششم ایلزبتھ دوم(قبل از 1956) | ||||||
صدر | اسکندر مرزا(از 1956) | ||||||
گورنر | |||||||
وزیر اعظم | لیاقت علی خان خواجہ ناظم الدین محمد علی بوگرہ چوہدری محمد علی حسین شہید سہروردی ابراہیم اسماعیل چندریگر ملک فیروز خان نون | ||||||
| |||||||
وزیر اعظم پاکستان | |||||||
مدت منصب 7 اکتوبر 1958ء – 27 اکتوبر 1958ء | |||||||
صدر | سکندر مرزا | ||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 14 مئی 1907[1][2][3][4][5][6] ہری پور |
||||||
وفات | 19 اپریل 1974 (67 سال)[1][2][3][7] راولپنڈی |
||||||
وجہ وفات | بندش قلب | ||||||
شہریت | ![]() ![]() |
||||||
جماعت | پاکستان مسلم لیگ | ||||||
اولاد | گوہر ایوب خان | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | جامعہ علی گڑھ رائل ملٹری کالج، سینڈہرسٹ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج |
||||||
پیشہ | سیاست دان، فوجی افسر، سرمایہ کار، آپ بیتی نگار | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | اردو | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
وفاداری | ![]() ![]() |
||||||
شاخ | برطانوی ہندوستانی فوج پاک فوج |
||||||
یونٹ | پیادہ فوج (1/چودہویں پنجاب رجمنٹ) | ||||||
کمانڈر | وزیرستان میں برگیڈ چودہویں انفنڑی ڈیویژن، ڈھاکہ ایڈو (اے جی) ڈپٹی کمانڈر انچیف |
||||||
لڑائیاں اور جنگیں | برما کمپین جنگ عظیم دوم |
||||||
اعزازات | |||||||
![]() ![]() ![]() |
|||||||
درستی - ترمیم ![]() |
ابتدائی زندگی ترمیم
صدر محمد ایوب خان 14 مئی 1907 کو ہری پور ہزارہ کے قریبی گاؤں ریحانہ میں ایک قزلباش گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے والد میرزا داد خان کی دوسری بیوی کے پہلے بیٹے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے آپ کا نام سرائے صالح کے ایک اسکول میں داخل کروایا گیا اور اس کے علاوہ ایک قریبی گاؤں کاہل پائیں میں بھی حاصل کی جو ان کے گھر سے 5میل کے فاصلے پر تھا۔ آپ خچر کے ذریعے اسکول جایا کرتے تھے۔ آپ نے 1922 میں علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا لیکن تعلیم مکمل نہ کی کیونکہ اس دوران میں آپ نے رائل اکیڈمی آف سینڈہسٹز کو قبول کر لیا تھا۔.
ابتدائی فوجی دور ترمیم
آپ نے اس تربیت گاہ میں بہت اچھا وقت گزارا اور آپ کو 14 پنجاب رجمنٹ شیر دل میں تعینات کیا گیا جو اب 5 پنجاب رجمنٹ ہے۔ جنگ عظیم دوم میں آپ نے بطور کپتان حصہ لیا اور پھر بعد میں برما کے محاذ پر بطور میجر تعینات رہے۔ قیام پاکستان کے بعد آپ نے پاکستان آرمی جوائن کرلی، اس وقت آپ آرمی میں دسویں نمبر پر تھے۔ جلد ہی آپ کو برگیڈئر بنا دیا گیا اور پھر 1948 میں مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا سربراہ بنا دیا گیا۔ 1949 میں مشرقی پاکستان سے واپسی پر آپ کو ڈپٹی کمانڈر ان چیف بنا دیا گیا۔ آپ محمد علی بوگرہ کے دور میں بطور وزیر دفاع خدمات انجام دیتے رہے۔ (1954ء)۔ جب اسکند مرزا نے 7 اکتوبر 1958 میں مارشل لا لگایا تو آپ کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی فوجی کو براہ راست سیاست میں لایا گیا۔
صدرِ پاکستان 1958–1969 ترمیم
صدر اسکندر مرزا سے اختلافات کی بنا پر مرزا صاحب سے ایوب خان کے اختلافات بڑھتے گئے اور بلا آخر ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنبھال لی اوراسکندر مرزا کو معزول کر دیا۔ قوم نے صدر ایوب خان کو خوش آمد ید کہا کیونکہ پاکستانی عوام اس دور میں غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی۔ جلد ہی ایوب خان نے ہلال پاکستان اور فیلڈ مارشل کے خطابات حاصل کر لیے۔ ایوب خان نے 1961 میں آئین بنوایا جو صدارتی طرز کا تھا اور پہلی دفعہ تحریری حالت میں انجام پایا۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962 میں عام انتخابات ہوئے اور مارشل لا اٹھا لیا گیا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جزوی طور پر تھا۔ ان انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِ مقابل سب سے اہم حریف مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں جو قائد اعظم کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہار گئیں۔ یہی وجہ ان انتخابات کو مشکوک بناتی ہے۔
فاطمہ جناح کے خلاف مشکوک فتح اور 1965 کی جنگ کی وجہ سے ایوب خان کے لیے حالات ناسازگار ہو چکے تھے۔ تاشقند معاہدے سے واپسی پر اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایوب خان نے ملک کی عزت اور قربانی بیچ ڈالی۔ اس بیان کے بعد بھٹو نے وزارت خارجہ کے عہدے سے استعفٰی دے دیا۔
1967 میں بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی اور ایوب خان کی مذہبی، معاشی اور عوامی پالیسیز پر شدید تنقید شروع کر دی۔ بھٹو کی تحریک کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی ایوب خان کے خلاف شیخ مجیب الرحمن کی تحریک سرگرم ہو چکی تھی۔ ایوب خان نے بھٹو اور شیخ مجیب کو پابند سلاسل کر دیا۔ اس سے ایوب خان کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا۔
1968 میں ایوب خان پر قاتلانہ حملہ ہوا جو ناکام رہا۔ 1969 میں ایوب خان نے عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی اپوزیشن پارٹیز سے مذاکرات کے لیے گول میز کانفرنس کی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ اس دوران ایوب خان کو دل کا دورہ لاحق ہوا اور اسی سال ان پر فالج کا حملہ بھی ہوا اور وہ صاحب فراش ہو گئے۔ انہیں ویل چئر پر لایا جاتا تھا۔
ملک بھر میں ایوب خان کے خلاف احتجاج نے خانہ جنگی سی صورت حال پیدا کر دی۔ پولیس کے لیے بلوائیوں کو روکنا مشکل ہو گیا اور بالآخر ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اپنے عہدے سے استعفا دے دیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحیٰ خان کو ملک کا صدر بنا دیا۔
اگرچہ صدر ایوب کے دور میں پاکستان نے دن دگنی رات چونگنی ترقی کی لیکن عوام مسلسل دس سالہ آمر حکومت سے بیزار آگئی، اس پر ذوالفقار علی بھٹو نے وقت سے فائدہ اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا اور صدر ایوب کو مجبوراً عوام کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے اور انہوں نے صدارت سے استعفا دے دیا اور اپنا اقدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ 2007 میں چھپنے والی ایوب خان کی ڈائری کے مطابق امریکا براہ راست صورت حال کو خراب کرنے میں ملوث تھا۔ دولتانہ اور چوہدری محمد علی ملک میں افراتفری پھیلانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے۔ امریکا ایک زوال پزیر پاکستان چاہتا تھا تاکہ خطے میں بھارت ایک طاقتور ملک بنے جسے چین کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔[8]
اقتباس ترمیم
قدرت اللہ شہاب شروع سے ہی صدر ایوب کے پرسنل سیکریٹری رہے تھے۔ وہ اپنی کتاب شہاب نامہ[9] میں صدر ایوب کے بارے میں لکھتے ہیں:
- "اس روز صدر ایوب خان کی پہلی کیبنٹ میٹنگ ہونے والی تھی۔ کچھ وزیر بر آمدے میں آ کر جمع ہو گئے تھے۔ انہیں دیکھ کر صدر نے مجھے کہا ”میں چاہتا ہوں کہ کابینہ کی پہلی چند میٹنگوں میں تم بھی بیٹھو تاکہ تم میرے خیالات سے واقف ہو جاؤ۔" یہ موقع ہاتھ آتے ہی میں نے گزارش کی ”جناب' دراصل میں اپنی چارج رپورٹ مکمل کر رہا تھا تا کہ آپ اپنی پسند کا نیا سیکرٹری متعین کر لیں۔"
- یہ سن کر صدر ایوب چلتے چلتے رک گئے اور بولے۔ ”ہم فوجی لوگ ہر بات کی تحقیق کرنے کے عادی ہیں۔ ہم نے انکوائری کر لی ہے۔ تم کسی چیز میں ملوث نہیں ہو۔ اس لیے میں نے تم کو اپنا سیکرٹری مقرر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“
- یہ سن کر میرا نفس کچھ پھول سا گیا۔ نفس جتنا فربہ ہو، عقل اتنی ہی کمزور پڑ جاتی ہے اور قوت فیصلہ پر خود فریبی کا غبار چھا جاتا ہے۔ میرا بھی حشر ایسا ہی ہوا۔ دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح میں بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ نیا صدر جو نیا نظام لانا چاہتا ہے، شاید وہی ملک کے لیے سود مند ثابت ہو۔ اس وقت یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ آئی کہ یہ نظام ریت کا گھروندا ہے، جو ایوب خاں کی صدارت ختم ہوتے ہی دھڑام سے گر جائے گا۔ جمہوریت بڑی غیرت مند اور حاسد دلہن ہے۔ اس کے اوپر سوکن کا سایہ بھی پڑ جائے تو یہ گھر بار جلا کر خاکستر کر دیتی ہے۔
- اس نئے دور میں کام شروع کرتے ہی میرے دل میں یہ بات کھٹکی کہ مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد اب تک جتنے سرکاری اعلانات قوانین اور ریگولیشن جاری ہوئے ہیں، ان میں صرف حکومت پاکستان کا حوالہ دیا ہے، حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید ڈرافٹنگ میں غلطی سے ایک آدھ بار یہ فرو گذاشت ہو گئی ہو گی۔ لیکن جب ذرا تفصیل سے جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جس تواتر سے یہ فروگزاشت دہرائی جا رہی ہے۔ وہ سہواً کم اور التزاما زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
- اس پر میں نے ایک مختصر سے نوٹ میں صدر ایوب کی خدمت میں تجویز پیش کی کہ اگر وہ اجازت دیں تو وزارت قانون اور مارشل لاء ہیڈ کوارٹر کی توجہ اس صورت حال کی طرف دلائی جائے اور ان کو ہدایت دی جائے کہ جاری شدہ تمام اعلانات اور قوانین کی صحیح کی جائے اور آئندہ کے لیے اس غلطی کو نہ دہرایا جائے۔
- صدر ایوب کا قاعدہ تھا کہ وہ فائلیں اور دوسرے کاغذات روز کے روز نپٹا کر میرے پاس واپس بھیج دیا کرتے تھے۔ لیکن معمول کے برعکس یہ نوٹ کئی روز تک میرے پاس واپس نہ آیا۔ ۵ نومبر ۱۹۵۸ء کی شام کو میں اپنے دفتر میں بیٹھا دیر تک کام کر رہا تھا۔ باہر ٹیرس پر صدر ایوب اپنے چند رفیقوں کے ساتھ کسی معاملے پر گرما گرم بحث کر رہے تھے۔ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد جب سب لوگ چلے گئے تو صدر میرے نوٹ کا پرچہ ہاتھ میں لیے میرے کمرے میں آئے۔ وہ غیر معمولی طور پر سنجیدہ تھے آتے ہی انہوں نے میرا نوٹ میرے حوالے کیا اور کہا۔ ”تمہیں غلط فہمی ہوئی ہوئی . ڈرافٹنگ میں کسی نے کوئی غلطی نہیں کی۔ بلکہ ہم نے سوچ سمجھ کر ہی طے کیا ہے کہ اسلامک ری پلک آف پاکستان سے اسلامک کا لفظ نکال دیا جائے۔
- یہ فیصلہ ہو چکا ہے یا ابھی کرنا ہے" میں نے پوچھا۔ ہے۔
- صدر ایوب نے کسی قدر غصے سے مجھے گھورا اور سخت لہجے میں کہا۔ ”ہاں، ہاں فیصلہ ہو گیا ہے۔ کل صبح پہلی چیز مجھے ڈرافٹ ملنا چاہیے۔ اس میں دیر نہ ہو۔“
- اتنا کہہ کر وہ خدا حافظ کہے بغیر تیز تیز قدم کمرے سے نکل گئے۔ اگر مجھ میں ہمت ہوتی تو میں بھی ان کے پیچھے پیچھے بھاگتا اور انہیں روک کر پوچھتا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان سے اسلامی کا لفظ حذف کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ لیکن اتنی ہمت مجھ میں نہ تھی اس لیے میں بھی دم دبائے چپ چاپ گھر واپس آ گیا۔ بڑے سوچ بچار کے بعد صبح کے قریب میں نے پریس ریلیز تو تیار نہ کیا بلکہ اس کی جگہ دو ڈھائی صفحوں کا ایک نوٹ لکھا، جس کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان کو اسلام سے فرار ممکن نہیں۔ اس ملک کی تاریخ پرانی لیکن جغرافیہ نیا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ریڈ کلف لائن صرف اس وجہ سے کھینچی گئی تھی کہ ہم نے یہ خطہ ارض اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا۔ اب اگر پاکستان سے اسلام کا نام الگ کر دیا گیا تو حد بندی کی یہ لائن معدوم ہو جائے گی۔ ہم پاکستانی صرف اس وجہ سے بنے کہ ہم مسلمان تھے۔ اگر افغانستان، ایران، مصر، عراق اور ترکی اسلام کو خیر باد کہہ دیں تو پھر بھی وہ افغانی ایرانی، مصری، عراقی اور ترک ہی رہتے ہیں۔ لیکن ہم اسلام کے نام سے راہ فرار اختیار کریں تو پاکستان کا اپنا الگ کوئی وجود قائم نہیں رہتا۔ اس لیے اسلام ہماری طبع نازک کو پسند خاطر ہو نہ ہو، اسلام ہماری طرز زندگی کو راس آئے یا نہ آئے، ذاتی طور پر ہم اسلام کی پابندی کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں، حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اگر آخرت کے لیے نہیں تو اس چند روزہ زندگی میں خود غرضی کے طور پر اپنے وطن کی سلامتی کے لیے ہمیں اسلام کا ڈھول اپنے گلے میں ڈال کر بر سر عام ڈنکے کی چوٹ بجانا ہی پڑے گا خواہ اس کی دھمک ہمارے حسن سماعت پر کتنی ہی گراں کیوں نہ گزرے۔ جمہوریہ پاکستان کے ساتھ اسلامک کا لفظ لگانے سے اگر کسی کا ذہن قرون وسطیٰ کی طرف جاتا ہے تو جانے دیں۔ دوسروں کی جہالت کی وجہ سے اپنے آپ کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
- ساتھ ہی میں نے ایک الگ کاغذ پر اپنا استعفیٰ بھی لکھ لیا کہ خرابی صحت کی بنا پر میں کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا اس لیے میرا استعفیٰ منظور کر کے مجھے ریٹائر ہونے کی اجازت دی جائے۔
- یہ دونوں چیزیں میں نے اپنی بیوی کو دکھائیں تو اس نے مجھے خوب شاباش دی اور غالباً میرا دل بڑھانے کو کہا۔ ”مجھے کیا معلوم تھا کہ آپ انگریزی بھی اتنی اچھی لکھ لیتے ہیں!"۔
- یہ بات سن کر میں جل گیا۔ محترمہ' تم انگریزی زبان کے چسکے میں پڑ گئی ہو۔ یہ نہیں دیکھا کہ میں نے استعفیٰ بھی لکھ رکھا ہے۔ شاید سچ مچ اس کی نوبت بھی آ جائے۔اس کے متعلق کیا خیال ہے ؟“
- اس نے کہا۔ ”ظاہر ہے کہ اس معاملے میں اگر آپ کی بات رد ہو گئی تو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ یہ نوکری چلی گئی تو کچھ اور کام کر لینا کسی کام کو جی نہ چاہے تو آرام سے گھر بیٹھ کر لکھنا پڑھنا۔ آخر میں نے ڈاکٹری کی ڈگری کس روز کے لیے لی ہے۔“
- ہماری شادی کو ابھی صرف ڈیڑھ برس ہوا تھا۔ میں دفتر جانے لگا تو عفت غالباً شرارت ے بولی۔ ” آپ صورت حال سے نپٹ لیں گے یا میں بھی ساتھ چلوں؟"
- میں اپنے آفس وقت سے پہلے پہنچ گیا۔ خیال تھا کہ صدر ایوب کے آنے سے پہلے اپنا نوٹ ٹائپ کروا رکھوں گا۔ لیکن وہاں دیکھا تو صدر صاحب پہلے ہی برآمدے میں ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کمرے میں آ گئے اور پوچھا۔ ”ڈرافٹ تیار ہے؟"
- میں نے جواب دیا کہ تیار تو ہے لیکن ابھی ٹائپ نہیں ہوا۔
- ”کوئی بات نہیں۔“ انہوں نے کہا۔ ”ایسے ہی دکھاؤ۔“
- وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے اور میرے ہاتھ کا لکھا ہوا نوٹ پڑھنے گئے۔ چند سطریں پڑھ کر کچھ چونکے اور پھر از سر نو شروع سے پڑھنے لگے۔ جب ختم کر چکے تو کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ پھر آہستہ سے بولے ”Yes, Right You Are"
- یہ فقرہ انہوں نے دوبار دہرایا اور پھر نوٹ ہاتھ میں لیے کمرے سے چلے گئے۔ اس کے بعد اس موضوع پر پھر کسی نے کبھی کوئی بات نہیں کی۔
- چند روز بعد میں کچھ فائلیں لے کر صدر ایوب کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اپنی ڈاک دیکھ رہے تھے۔ ایک خط پڑھ کر بولے۔ کچھ لوگ مجھے خط لکھتے ہیں، کچھ لوگ ملنے بھی آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا بدل گئی ہے۔ اب ماڈرن ازم اور اسلام اکٹھے نہیں چل سکتے۔ میں ان سے کہتا ہوں۔ :.....Pakistan has no Escape from Islam" اس کے بعد انہوں نے پے در پے میرے نوٹ کے کئی اور فقرے بھی دہرائے۔۔۔۔۔۔ ان میں یہ عجیب صلاحیت تھی کہ اگر کوئی بات واقعی ان کے دل میں گھر کر جاتی تھی تو وہ بڑی معصومیت سے اسے اپنا لیتے تھے۔
- ایک روز وہ کہنے لگے کہ انہوں نے بچپن میں قرآن شریف ختم تو کیا ہے لیکن اس کے معانی کو سمجھنے اور ان پر غور کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ اس لیے میں انہیں اردو کا کوئی آسان سا ترجمہ لا دوں۔ میں نے انہیں دو تین سادہ سادہ سے آسان مترجم قرآن شریف فراہم کر دیئے۔ ان کو انہوں نے بڑی محنت اور غور سے پڑھا۔ بنیادی عقائد، عبادات، نظام کائنات اور قصص القرآن تو وہ آسانی سے سمجھ گئے لیکن زندگی کی کلیت اور مجموعیت کا احکام الہی کے ساتھ جو مربوط، مضبوط اور عملی رشتہ ہے وہ پوری طرح ان کے فہم و ادراک کی گرفت میں نہ آ سکا۔ کچھ عرصہ ان کے سر میں ہے سودا بھی سمایا رہا کہ قرآن مجید کو عقائد، عبادات، اخلاقیات، قوانین، تمثیلات، قصص وغیرہ کے عنوانات کے تحت بھی تدوین کر دینی چاہیے تا کہ ہر موضوع کے حوالہ جات تلاش کرنے میں آسانی ہو۔ اس خیال میں کچھ ایسے عناصر کی ہمت افزائی کرتے رہتے تھے جو دین کو انضباطی پابندیوں سے آزاد کر کے اسے سہل نگاریوں اور تن آسانیوں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جس طرح امتحان پاس کرنے کے لیے کتابوں کے خلاصے اور پاکٹ گائیڈ مقبول ہوتے ہیں، اس طرح اسلام کا یہ نظر ثانی شدہ آسان رنگ بھی صدر ایوب کو بڑی آسانی سے متاثر کر دیتا تھا۔ لیکن عام طور پر یہ تاثر عارضی ہوتا تھا۔ کیونکہ بنیادی طور پر وہ ایک اچھے اور سیدھے سادے مسلمان تھے۔
- ۱۹۶۰ء میں جب وہ سعودی عرب کے سرکاری دورے پر جا رہے تھے تو عمرہ ادا کرنے کے لیے انہوں نے خاص طور پر تیاری کی۔ ان کی فرمائش پر میں نے انہیں مختلف دعاؤں کے مجموعے دیئے جن کا انہوں نے چند روز خوب مطالعہ کیا۔ جس روز روانگی کے لیے ہم ہوائی جہاز میں سوار ہوئے، انہوں نے دونوں مجموعے واپس کر دیئے اور کہا۔ ”مجھے اپنے مطلب کی چیز مل گئی ہے۔ اب زیادہ لمبی چوڑی دعائیں یاد کرنے کی ضرورت نہیں۔“ میرے استفسار پر انہوں نے جیب سے کاغذ کا ایک پرزہ نکالا، جس پر ایک مختصر سی دعا اردو ترجمہ کے ساتھ نقل کی ہوئی تھی۔ اس کا مفہوم یہ تھا کہ یا اللہ مجھے بغیر حساب کتاب کے ہی بخش دے!
- مکہ معظمہ میں ایک روز ان کے لیے خانہ کعبہ بھی کھولا گیا۔ جب ہم اندر داخل ہوئے تو شاہی معلم نے کہا کہ چاروں طرف منہ کر کے دو دو رکعت نماز پڑھ لیں۔ یہ سنت پوری کرنے کے بعد صدر ایوب بڑے شاداں و فرحاں نظر آتے تھے۔ وہیں اندر کھڑے کھڑے انہوں نے مجھے بتایا کہ چاروں طرف سجدہ کر کے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی مانگی ہے کہ ہندوستان کے سامنے ہمارا سر خم نہ ہو۔
- بیت اللہ شریف کے اندر مانگی ہوئی دعا کبھی رایگاں نہیں جاتی۔ ۱۹۶۵ء کی جنگ اس کا کھلا ثبوت ہے۔
- مدینہ منورہ میں ہمیں روضہ رسول کے حجرہ مبارک کے اندر جانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ اندر داخل ہوتے ہی صدر ایوب پر ہیبت اور رقت طاری ہو گئی۔ لمحہ بھر کے لیے انہوں نے دونوں ہاتھوں سے روضہ اطہر کا غلاف تھام لیا اور ان کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ زندگی بھر میں نے انہیں صرف ایک بار اس طرح اشک بار دیکھا ہے۔
- صدارت کا کام جنرل ایوب خاں نے بڑی محنت، لگن، باقاعدگی اور سلیقے سے شروع کیا۔ سب فائلیں وہ غور سے پڑھتے تھے اور ان پر احکامات بھی اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ روز کی فائلیں روز نپٹا دیتے تھے۔ کچھ دن میں، کچھ رات کے وقت۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی فائل اگلے روز کے لیے اٹھا رکھی ہو۔ ہر روز اپنی ڈاک بھی پوری دیکھتے تھے۔ کچھ خطوط خود جواب دینے کے لیے منتخب کر لیتے تھے، باقی میرے حوالے کر دیتے تھے۔ اس زمانے میں صدر کے نام جتنے خط آتے تھے ان سب کے جواب ضرور دیئے جاتے تھے۔ ایک روز پنجاب کے کسی گاؤں سے ایک دل جلے کا خط آیا جس میں بڑی سخت زبان استعمال کی ہوئی تھی اور کچھ گالی گلوچ بھی تھی۔ اس شخص کا کوئی چھوٹا سا معاملہ محکمہ مال میں اٹکا ہوا تھا اور کئی بار رشوت ادا کرنے کے بعد بھی سلجھنے میں نہ آتا تھا۔ اس نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس کے ساتھ انصاف نہ ہوا تو وہ ساری عمر صدر ایوب کو بددعائیں دے دے کر مرے گا۔ میرے عملے نے بہت کہا کہ اس قسم کا خط صدر کو نہ دکھایا جائے کیونکہ اسے پڑھ کر وہ خواہ مخواہ غصے میں آئیں گے یا پریشان ہوں گے۔ لیکن میں نے اس خط کو ان کی خدمت میں اس تجویز کے ساتھ پیش کیا کہ اس کا جواب خود صدر مملکت دیں۔ لاہور کے اگلے دورے میں اس شخص کو گورنر ہاؤس میں طلب کر کے اس کی بات سنیں اور اس کا معاملہ گورنر کے سپرد کر کے جب تک وہ انجام تک پہنچ جائے اس کا پیچھا نہ چھوڑیں۔ یہ تجویز صدر ایوب کو پسند آ گئی اور اس پر عمل کر کے انہوں نے وقتاً فوقتاً مشرقی اور مغربی پاکستان میں بہت سے چھوٹے چھوٹے لوگوں کے چھوٹے مسائل حل کرنے میں بڑی مدد دی۔
- صدر ایوب کا گھریلو ماحول بھی بڑا سادہ اور خوشگوار تھا۔ بیگم ایوب خاموش طبع، مرنجان مرنج اور پروقار خاتون تھیں۔ ملک کی خاتون اول کے طور پر انہوں نے کبھی ذاتی پیلبٹی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے بیٹوں کے لیے تو بڑی کمزور ماں ثابت ہوئیں کیونکہ وہ ان میں سے بعض کی خطا کاریوں اور ناپسندیدہ حرکات پر بڑی محنت سے پردہ ڈالتی رہتی تھیں۔ لیکن بیٹیوں کی تربیت پر ان کا اثر بے حد خوشگوار تھا۔ صدر ایوب کی صاحبزادیاں حسن صورت اور حسن سیرت دونوں سے مالا مال تھیں اور ان کے کردار میں حیاداری اور خوش اخلاقی کا بڑا گہرا امتزاج تھا۔ گھر کے اندر بھی وہ کبھی اپنے والد کے سامنے ننگے سر نظر نہ آتی تھیں۔ ان میں سے کسی نے میری بیوی کو بتایا تھا کہ کبھی کبھی وہ دوپٹے کو بالوں کے ساتھ پنوں کے ذریعہ ٹانک کر رکھتی ہے تا کہ بے خیالی میں سرک کر سر سے اتر نہ جائے۔
- صدر ایوب کی سب سے چھوٹی صاحبزادی شکیلہ کی شادی ہوئی تو سادگی میں یہ تقریب بھی اپنی مثال آپ تھی۔ راولپنڈی سے ان کے ساتھ پرسنل سٹاف کے فقط ہم چار پانچ آدمی ان کے گاؤں ریحانہ گئے۔ ان کے آبائی مکان کے ایک کھلے احاطے میں درختوں کی چھاؤں میں چند کرسیاں اور کچھ چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ وہاں بیٹھ کر ہم نے برات کا استقبال کیا۔ نکاح کے بعد کھانا ہوا اور انتہائی سادگی کے ساتھ رخصتی ہو گئی۔ اس تقریب میں صرف گاؤں کے کچھ احباب اور برادری کے لوگ شریک ہوئے۔ نہ باجا گاجا نہ ڈھول دھمکا۔ نہ تحفے تحائف۔ جس سادگی سے شادی کی تقریب ہوئی تھی، اسی سادگی سے ہم نے اخبار میں ایک چھوٹی سی دو سطری خبر چھپوا دی۔ ٹی وی کا دور تو ابھی نہ آیا تھا، لیکن ریڈیو پاکستان کے کسی بلیٹن میں اتنی سی خبر بھی نہ آئی۔ یہ دیکھ کر چند وزیر، افسر اور پیشہ ور خوشامدی صدر ایوب کے سر ہو گئے کہ اس سادہ تقریب کی خاطر خواہ پبلسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا "امیج" بڑھانے کا ایک سنہری موقع ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ یہ بات ان کے کانوں میں بار بار اتنی شدت سے بھری گئی کہ رفتہ رفتہ وہ بھی تذبذب کے عالم میں مبتلا ہو گئے۔ ایک روز میں کسی کام سے ان کے پاس گیا، تو ایک ایسا ہی خوشامدی ٹولہ انہیں اپنے نرغے میں لیے بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ لوگ پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے بھی پڑ گئے کہ صدر مملکت کے "امیج" کو فروغ دینے کا ایسا اچھا موقع کیوں ضائع کر دیا۔ میں خاموشی سے کھڑا ہوا ان کی چخ چخ بک بک سنتا رہا۔ جب ان کا غوغا بند ہوا، تو میں نے اپنے الفاظ کو قلفی کی طرح برف میں جما کر بڑے ادب سے کہا۔ ”اگر اس موقع پر آپ صاحبان بھی مدعو ہوتے تو آپ کو بھی ضرور محسوس ہوتا کہ اس تقریب کی سادگی میں بڑا خلوص تھا۔ اب اسے اشتہاری سٹنٹ میں تبدیل کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں بلکہ خلوص میں ریا کی کھوٹ ملانا بے برکتی کا باعث بن جاتا ہے۔"
- میری بات تو غالباً کسی کو پسند نہ آئی۔ لیکن اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اس موضوع پر مزید چوں چوں بند ہو گئی۔"
- "غیر ملکی امداد کی بیساکھیوں پر چڑھائی ہوئی ہر اقتصادی اور معاشیاتی عمارت غیر محفوظ اور غیر مامون ہوتی ہے۔ ہم پر جب کبھی کوئی آزمائش کی گھڑی آئی ہے،اس عمارت کا ایک نہ ایک حصہ دھڑام سے زمین بوس ہوتا رہا ہے۔ ایوب خاں کے دور حکومت کو بہت سے لوگ مادی ترقی کا سنہری دور کہتے ہیں۔ بے شک اس میں کوئی کلام نہیں۔ لیکن جن ناقابل اعتبار اور غیر یقینی سہاروں پر اس کی بنیاد رکھی گئی تھی اسے قائم رکھنے کے لیے ہمیں اب تک ہر زمانے میں طرح طرح کے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ خود کفالت کی راہ پر قدم بڑھائے بغیر ہر قسم کی ترقی کی اساس مصنوعی اور ناپائیدار رہتی ہے۔ ہماری روز افزوں ضروریات کا مگرمچھ تو منہ کھولے ہل من مزید کا نعرہ بلند کرتا رہتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے دوستوں اور امداد دینے والے بہی خواہوں کی اپنی مصلحتوں کے تقاضوں اور ترجیحات میں زیروبم اور رد و بدل ایک لازمی اور فطرتی امر ہے۔
- ہمارے قومی وسائل کو بیرونی ذرائع کا محتاج بنانے کے علاوہ ہمارے نام نہاد اقتصادی ماہرین نے صدر ایوب کو یہ بھی باور کرا دیا کہ پاکستان کی طرح تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے لیے مادی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے جو طویل بھی ہے اور دشوار گزار بھی۔ اس کے علاوہ نہ تو کوئی متبادل راستہ ہے اور نہ ہی کوئی شارٹ کٹ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان لکیر کے فقیروں نے سرخ فیتے کی مدد سے صنعتی اور تجارتی ترقی کا زین اس طرح آویزاں کر دیا کہ اس پر وہی چیدہ چیدہ، برگزیدہ اور پسندیدہ اشخاص اوپر چڑھ سکتے تھے جو قسمت کے دھنی تھے اور پہلے ہی سے سیڑھی کے ایک نہ ایک پائیدان پر ایستادہ ہو چکے تھے۔ نئی صنعتیں لگانے کے لائسنس یا تو پرانے صنعتکاروں اور تاجروں کو ملتے تھے، یا ان دوسرے لوگوں کو ملتے تھے جنہیں سیاسی رشوت، اقربا پروری یا کسی دیگر خوشنودی کے طور پر نوازنا مقصود ہوتا تھا۔ یہ دوسرے لوگ لائسنس لے کر انہیں منہ مانگی قیمت پر پرانے صنعت کاروں اور تاجروں کے ہاتھ بیچ ڈالتے تھے۔ اس طرح بنیادی طور پر صنعت کاروں کا حلقہ اپنے پرانے دائرے کی حدود ہی میں گردش کرتا رہتا تھا۔ اور اس میں تازہ خون بہت کم مقدار میں شامل ہوتا تھا۔ ایک ہی خاندان طرح طرح کی کثیر الانواع صنعتیں لگا لیتا تھا اور اس کے ساتھ ہی ان کا اپنا بینک، اپنی انشورنس کمپنی، اور اپنے ہی تجارتی گودام بھی قائم ہو جاتے تھے۔ اس قسم کے کارٹل ملک میں اس قدر عام ہو گئے کہ قوم کی دولت کا بیشتر اثاثہ بیس بائیس خاندانوں کی تجوریوں میں مرکوز ہو کر رہ گیا۔ وہ زمانہ ایسا تھا جس پر اس ہندی دوہے کی مثل پوری طرح صادق آتی تھی
- مایا کو مایا ملے کر کر لمبے ہاتھ
- تلسی داس غریب کی کوئی نہ پوچھے بات
- شروع شروع میں وزیر خزانہ مسٹر محمد شعیب (جو پہلے ہی سے ورلڈ بینک کے ڈائریکٹر بھی تھے) نے نہایت طمطراق سے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم کارٹلز کا قلع قمع کر کے رہیں گے لیکن دو ڈھائی برس کے اندر اندر انہوں نے قلابازی کھا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ کارٹلز بنانے والوں کو رضا کارانہ طور پر انہیں ختم کر دینا چاہیے۔ اس کے بعد اس موضوع پر زیب داستاں کے لیے اتنی سی بیان آرائی بھی بند ہو گئی۔
- مال و زر کی اس تکثیر میں مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں برابر کے شریک تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بنگالی حضرات اپنا لائسنس زیادہ تر مغربی پاکستان میں فروخت کرنے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ یہاں پر خریدار نسبتاً زیادہ تھے اور قیمت بھی غالباً زیادہ ملتی تھی۔ بظاہر اس سے یہی گمان ہوتا تھا کہ اس بندر بانٹ میں مغربی پاکستان کیساتھ ترجیحی سلوک کیا جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسی کوئی بات نہ تھی۔ بلکہ اس کے برعکس بنگالی وزیر ارباب سیاست اور ان کے عزیز و اقارب پرمٹوں اور لائسنسوں کی صورت میں اپنی قیمت وصول کرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ اس زمانے میں پان کے تازہ بتازہ پتے بڑی کثیر تعداد میں ہر روز پی آئی اے کے ذریعے مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان آیا کرتے تھے۔ یہ نہایت منافع بخش تجارت تھی اور ایک ایک ٹوکری فی یوم کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے بڑی بڑی سفارشوں اور اثر رسوخ سے کام لیا جاتا تھا۔ ان لائسنسوں کی تقسیم کلیتاً چند بنگالی وزیروں اور بنیادی جمہوریتوں کے اہم ترین ارکان کے ہاتھ میں تھی۔ وہ پہلے اپنے بیٹوں، بھانجوں اور بھتیجوں کا پیٹ بھرتے تھے۔ اور اس کے بعد اپنے سیاسی حلیفوں کی وفاداریاں مستحکم کرنے اور حریفوں پر ترغیب و تحریص کا جال پھیلانے کے کام میں لاتے تھے۔ ایک بنگالی وزیر باتدبیر اس کام میں بے حد پیش ہیش تھے۔ جب کبھی وہ کسی کو چند ٹوکروں کا لائسنس دلوانے میں کامیاب ہو جاتے تھے تو اپنے ایک چھپے ہوئے خوبصورت کارڈ کے ذریعہ اسے مبارک باد کا خط بھی ضرور بھیجتے تھے۔ اس کارڈ میں کسی من چلے نے بنگالی ترجمہ کے ساتھ فارسی کا یہ مصرع بھی درج کروا رکھا تھا۔
- برگ سبز است تحفہ درویش
- حکومت اور سیاست کے درویشوں کے گال اور ہونٹ تو برگ سبز کی برکت سے گلنار ہی رہے تھے، لیکن تحفوں کی اس ہیرا پھیری میں پانوں کے تاجروں کا ایک کثیر طبقہ اپنے آبائی پیشے سے محروم ہو کر بے کاری کا شکار ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کے کچھ لوگوں نے اسے یہی رنگ دیا کہ اب تو مغربی پاکستان والے ہمارے روایتی اور خاندانی پیشہ وروں کی روزی چھیننے کے بھی درپے ہیں۔
- اس زمانے میں ڈھا کہ یونیورسٹی کے چند پروفیسروں نے Two Economies کا شوشہ چھوڑ رکھا تھا۔ جس کا لب لباب یہ تھا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان کسی مشترکہ معاشیات کا وجود ممکن نہیں۔ بلکہ دونوں حصوں کے الگ الگ معاشیاتی تقاضے ہیں۔ اس لیے ایکسپورٹ امپورٹ کنٹرول پی۔ آئی۔ اے، پی۔ آئی۔ ڈی۔ سی اور سٹیٹ بینک سمیت ہر اقتصادی شعبے اور ادارے کو تقسیم کر کے دونوں صوبوں میں الگ الگ طور پر قائم ہونا چاہیے۔ صدر ایوب اس صورت حال پر بہت پریشان تھے۔ انہیں خطرہ تھا کہ اس طرز استدلال کا منطقی نتیجہ یہی نکلے گا کہ اگر ملک کی معاشیات اور اقتصادیات مرکز سے ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہو گئی، تو رفتہ رفتہ دو سکے رائج ہو جائیں گے، اور اس کے بعد دو الگ الگ ملک عالم وجود میں آ جائیں گے۔
- ایک بار صدر ایوب ڈھاکہ گئے ہوئے تھے۔ وہاں پر انہیں خیال آیا کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے ان پروفیسروں سے مل کر دیکھنا چاہیے کہ دو معاشیات کا شوشہ چھوڑنے سے ان کی اصلی غرض و غایت کیا ہے۔ چنانچہ ایک صبح ہم نے چھ سات نوجوان اور ادھیڑ عمر کے پروفیسروں کو صدر کے ساتھ ناشتے پر مدعو کیا۔ ان میں پروفیسر نورالہدیٰ اور پروفیسر نور السلام بھی شامل تھے۔ چند جواں سال اساتذہ نے نہایت شدو مد سے تیز تلخ لہجہ میں مغربی پاکستان کے ہاتھوں مشرقی پاکستان کے استحصال کا رونا رویا۔ اور اس کا واحد حل یہی تجویز کیا کہ دونوں حصوں میں اپنی اپنی معاشیات کو الگ الگ فروغ دیا جائے۔ ان کی باتیں نہایت صبر و سکون سے سن کر صدر ایوب نے کہا۔
- ” آپ سمجھ دار لوگ ہیں۔ کیا دو معاشیات ہمیں دو الگ الگ ملکوں میں تقسیم نہ کر دیں گی۔"
- اس پر نسبتا ًبڑی عمر کے لوگ تو خاموش رہے۔ لیکن دو تین نوجوان اساتذہ خوشی سے اچھل پڑے۔ ایک نے بے ساختہ کہا۔ ”سر! میرے خیال میں موجودہ صورتحال کا بس یہی ایک منطقی نتیجہ نکل سکتا ہے۔ اسے روکنا کسی کے اختیار میں نہیں۔
- “ ڈھاکہ یونیورسٹی کے پروفیسروں کے ساتھ اس گفت و شنید نے صدر ایوب کو مزید الجھن اور پریشانی میں ڈال دیا۔ اگلے روز انہوں نے مشرقی پاکستان کے تیس پینتیس سیاستدانوں، اخبار نویسوں اور دیگر اکابرین کے ساتھ مشورہ کرنے کے لیے ایک میٹنگ منعقد کی۔ شیخ مجیب الرحمٰن کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے آنے سے انکار کر دیا تھا میٹنگ میں صدر ایوب نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ اپنی گفتگو کے تاثرات بیان کئے، اور ایک طویل جذباتی تقریر کے اختتام پر کہا ”
- اگر آپ نے مغربی پاکستان سے الگ ہونے کا عزم کر لیا ہے تو باہمی زور آزمائی،الزام تراشی اور سر پھٹول کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہم سب کو بھائیوں کی طرح ایک میز کے گرد بیٹھ کر خوش اسلوبی اور خیر سگالی سے الگ ہونے کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔"
- چند لمحے بالکل سناٹا چھایا رہا۔ اس کے بعد مسٹر نورالدین اور ”اتفاق“ کے ایڈیٹر مسٹر تفضل حسین عرف مانک میاں سمیت کئی حاضرین نے بیک آواز کہا۔ ” ہرگز نہیں۔“ ہرگز نہیں۔" ایسی بات تو ہمارے خواب و خیال میں بھی نہیں۔"
- "Never Never, we do not even dream of it"
- اس کے بعد باہمی اتفاق، اتحاد، تعاون اور خیر سگالی پر بہت سی تقریریں ہوئیں۔ کئی مقررین کے گلے وفور جذبات سے رندھے ہوئے تھے۔ مانک میاں کے روزانہ "اتفاق" کی روش ایوب خان کی فوجی حکومت اور ان کے نئے آئین کے خلاف رہا کرتی تھی۔ انہوں نے خاص طور پر صدر ایوب کو مخاطب کر کے کہا۔ ”مسٹر پریزیڈنٹ ہمارے اختلافات آپ کی حکومت کے خلاف ہیں، اپنے ملک کے خلاف نہیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک میری نسل کے لوگوں کا کچھ اثر و رسوخ باقی ہے، پاکستان کی سالمیت پر کوئی ضرب نہیں آسکتی۔ لیکن ہمارے بعد کیا ہو گا اس پر ہم نہایت فکر مند ہیں۔"
- مانک میاں نے اس بھری محفل میں ایک اور عجیب انکشاف کیا۔ انہوں نے کہا "ہمیں کئی بار دو بڑی طاقتوں کی طرف سے خفیہ طور پر اسلحہ مہیا کرنے کی پیش کش ہوتی رہتی ہے۔ تا کہ ہم مسلح ہو کر علیحدگی کی تحریک چلا سکیں۔ لیکن ہم نے انہیں ہمیشہ یہی جواب دیا ہے کہ ہمارے اندرونی جھگڑے جو کچھ بھی ہوں، ان میں کسی بیرونی مداخلت کو ہم ہرگز برداشت نہیں کریں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ طاقتیں باقی سب امور میں ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار رہتی ہیں۔ لیکن پاکستان کو دو لخت کرنے میں دونوں متفق ہیں۔"
- اس میٹنگ نے صدر ایوب پر خواب آور گولی کا اثر کیا اور وہ مشرقی پاکستان کے متعلق ضرورت سے زیادہ بخت ہو کر بیٹھ گئے۔ اب وہ اس صوبے کی ہر پیچیدگی کو اپنی سادہ لوح اثر سے مفرد شکل میں انتہائی سہل بنا کر دیکھنے کے عادی ہو گئے۔ ایکبار انہوں نے دفعتاً یہ فیصلہ کر دیا کہ مشرقی پاکستان میں جتنے غیر بنگالی افسر ڈیپوٹیشن پر گئے ہوئے ہیں ان سب کو واپس بلا لیا جائے اور آئندہ اس صوبے میں باہر سے کوئی افسر تعینات کر کے نہ بھیجا جائے۔ اس پر بیورو کریسی کے ایک محدود سے طبقے میں معمول سی واہ وا ہوئی۔ لیکن "سنگباد" ڈھاکہ کے ایڈیٹر ظہور چودھری نے مجھے کہا۔ ”یہ فیصلہ انتہائی غلط اور خطرناک ہے۔ آئندہ یہاں پر مرکز کے خلاف جو زیر زمین مواد پکے گا، اس کا علم آپ کو اسی وقت ہو گا جب وہ لاوا بن کر پھٹ جائے گا۔ اس سے پہلے یہاں کی نوکر شاہی آپ تک کوئی خبر نہ پہنچنے دے گی۔"
- ظہور چودھری کا یہ خدشہ میں نے صدر ایوب کو بتایا تو وہ چڑ کر بولے۔ ظہور چودھری تو شکوک و شبہات کا دائم المریض ہے۔ اچھی سے اچھی بات سن کر بھی اس کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتا ہے۔"
- ایک روز راولپنڈی کے ایوان صدر میں کابینہ کی میٹنگ تھی۔ میٹنگ ختم ہوتے ہی صدر ایوب نے مجھے حکم دیا کہ میں تین بنگالی وزیروں خان عبدالصبور خاں، فلک قادر چودھری اور عبدالمنعم خان کے ساتھ شیخ منظور قادر اور ذوالفقار علی بھٹو کو ساتھ لے کر ان کے کمرے میں آؤں۔ ہم لوگ ان کے کمرے میں پہنچے تو صدر نے کہا۔ ”میں نے آپ لوگوں کے ساتھ ایک ضروری مشورہ کرنا ہے۔ غلام فاروق کی جگہ اب مجھے مشرقی پاکستان کے لیے ایک نئے گورنر کی تلاش ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ موقع اب کسی مشرقی پاکستانی کو ملنا چاہیے۔ اب بتائیے کہ وہاں کا گورنر کون ہو؟
- یہ سنتے ہی تینوں بنگالی وزیروں کے چہروں پر حسرت و التجا،خوشامد درآمد الحاح و زاری، ارمان و امنگ کی رنگ برنگ تختیاں کھٹاک سے ثبت ہو گئیں، جن پر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ "جناب صدر اس خاکسار میں کیا کمی ہے؟"
- چند لمحے سناٹا طاری رہا۔ پھر کمرے میں صدر ایوب کی آواز گونجی۔ میں بتاتا ہوں مشرقی پاکستان کا نیا گورنر کون ہو گا۔“
- گورنری کا طوق اپنی اپنی گردن میں ڈلوانے کے لیے تینوں بنگالی وزیر عقیدت و احترام سے سر جھکا کر بیٹھ گئے۔
- عبدالمنعم خان۔ صدر ایوب نے نئے گورنر کے نام کا اعلان کیا۔
- اچانک عبدالمنعم خاں کی کرسی سے کراہنے کی سی آواز آئی۔ دراصل یہ شادی مرگ کے آثار نہ تھے، بلکہ دوسرے بنگالی وزیروں کی آنکھوں سے دو نالی بندوق کی آتش حسد کے شعلے چھروں کی طرح نکل نکل کر ان کے تن بدن کو چھلنی کر رہے تھے۔ ہم نے سہارا دے کر عبدالمنعم خان کو کرسی سے اٹھایا۔ باہر آ کر وہ کمر پر ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے اپنی کار کی طرف روانہ ہو گئے۔ ایک بنگالی وزیر نے ہمیں مخاطب کر کے کہا۔ ”دیکھو یہ سالا ابھی پوری طرح گورنر تو بنا نہیں، لیکن حرامی کی چال میں ابھی سے گورنری کا رنگ ڈھنگ آ گیا ہے۔"
- مشرقی پاکستان کے گورنر کی حیثیت سے عبدالمنعم خاں نے صدر ایوب کے ساتھ پورا پورا حق وفاداری ادا کیا۔ لیکن صوبے کے اندر انہوں نے جبرو استبداد، اقربا نوازی، خویش پروری، رشوت ستانیوں اور بد عنوانیوں کے زبردست جھنڈے کھلم کھلا ڈنکے کی چوٹ گاڑ دیئے۔ بنیادی جمہوریتو ں کا تعاون اور وفاداری حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ان اداروں کو منافع بخش بد عنوانیوں میں اس طرح لت پت کر دیا جس طرح شہد میں گرنے کے بعد مکھی دوبارہ پرواز کرنے کے قابل نہیں رہتی سائیکلون، سیلاب یا قحط کے مصائب میں غلہ، کپڑا، ادویات اور دیگر مراعات بنیادی جمہوریتوں کے اراکین کچھ تقسیم کرتے تھے۔ باقی خرد برد کر لیتے تھے۔ دیہی ترقیاتی پروگرام Rural Works Programme کا سارا کنٹرول بھی انہیں کے ہاتھ میں تھا ان منصوبوں کی بڑی بھاری رقوم ان کے ہاتھوں سے گزرتی تھیں، جن کا بیشتر حصہ ان کی اپنی جیب گرم کرتا تھا۔ اس کے علاوہ وہ کام کے ٹھیکے فقط اپنے دوستوں اور عزیزوں کو دیتے تھے۔ اور غریب عوام پر فقط دھونس اور دھاندلی جماتے تھے۔ اس عمل سے سارے مشرقی پاکستان میں جگہ جگہ مٹھی بھر لوگ خوشحال اور باقی ساری آبادی ان کے خون کی پیاسی ہو رہی تھی۔
- جن دنوں میں ہالینڈ میں سفیر کے طور پر متعین تھا۔ صدر نے مجھے نیویارک ٹائمز (۱۸ جنوری ۱۹۶۵ء کا ایک تراشا بھیجا جس میں یہ عجیب و غریب خیال آرائی درج تھی۔
- Pakistan may be on its way to an economic milestone that so far has been reached by only one other populars country. the United States of america.
- اپنے خط میں صدر نے یہ رونا رویا تھا کہ اگر سات سمندر پار کے اخبارات کو ہماری معاشیاتی ترقی کی رفتار کے متعلق اس قدر آگاہی حاصل ہے، تو ہمارے اپنے لوگ آنکھوں پر پٹی باندھے کیوں بیٹھے ہیں اور کھلے دل سے اس بات کا نوٹس کیوں نہیں لیتے؟
- نیویارک ٹائمز کی یہ رپورٹ پڑھ کر میں سمجھ گیا کہ اس میں سچائی اور خلوص نہایت کم اور مبالغہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن صدر ایوب اپنی سادہ لوحی سے اسے اپنے دور حکومت کی کامیابی کی سب سے اعلیٰ سند اور دلیل سمجھ رہے تھے۔ ان کے اپنے محکمانہ مشیر بھی خوشامد کے طور پر انہیں اس قسم کا تاثر دینے میں لگے ہوئے تھے۔ ملک میں نئے کارخانوں کی تعداد تو ہر کوئی بڑھ چڑھ کر بتاتا تھا۔ لیکن یہ کوئی نہ بتاتا تھا کہ ان میں سے کتنے کارخانوں کی مشینری ابھی تک باہر پیٹیوں میں بند پڑی ہے۔ اور کتنے کارخانے اپنی گنجائش اور استعداد سے نہایت کم چل رہے ہیں۔ میں نے صدر ایوب کو لکھا کہ اس قسم کے تلخ حقائق کم و بیش ہمارے اخبار نویسوں کے علم میں ہیں۔ اس لیے وہ ترقیاتی منصوبوں کے متعلق حکومت کے یکطرفہ بیانات پر یقین نہیں لاتے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ متعلقہ شعبے صحیح صورتحال کا سچا اور بے لاگ تجزیہ قوم کے سامنے پیش کریں۔ میرے خیال میں یہ بات انہیں پسند نہ آئی۔ مجھے معلوم ہے کہ نیویارک ٹائمز کا یہی تراشہ انہوں نے میرے جاننے والے کئی دوسرے پاکستانی سفیروں کو بھی بھیجا تھا۔ ان میں سے چند ایک نے انہیں تار کے ذریعے مبارک باد دی، اور اپنے اپنے حلقہ اثر میں امریکی اخبار کے اس بلند بانگ سرٹیفکیٹ کا پرچار کرنے کا بیڑا اٹھایا
- اپنی تمام تر کمزوریوں، خامیوں“ ناتمامیوں اور ادھورا پن کے باوجود مجموعی طور پر ایوب خاں کا دور صدارت پاکستان کی نسبتا واضح معاشیاتی ترقی کا کارنامہ تھا۔ صنعت و تجارت کے علاوہ زراعت کے میدان میں بھی نمایاں پیش رفت ہوئی۔ اس سلسلے میں ہندوستان کے ساتھ (1960 ,indus Basin Water Treaty) صدر ایوب کا ایک امتیازی کارنامہ ہے۔ کچھ لوگ اس معاہدے کے بعید نتائج پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ لیکن زمانہ حال میں یہ معاہدہ ملک کے لیے بے شک ایک نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے بڑے بڑے بندوں بیراجوں اور نہروں کی تعمیر ممکن ہوئی۔ منگلا ڈیم مکمل ہوا۔ تربیلا ڈیم پر کام شروع کیا گیا۔ بجلی کی پیداوار میں توسیع سے ہزاروں کی تعداد میں ٹیوب ویل اور الیکٹرک پمپ لگائے گئے جن سے سیم اور تھور سے ماری ہوئی لاکھوں ایکڑ اراضی بازیاب ہو کر قابل کاشت بن گئی۔ یہ کوئی انقلابی اقدامات تو نہیں تھے۔ لیکن ہماری تاریخ میں پہلی بار ایک طویل عرصہ تک امن و امان کی فضا میں معاشیاتی استحکام کی طرف چند مثبت قدم اٹھائے گئے۔ ہمارے عوام کا ایک کثیر طبقہ بھی اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے۔"
- پروڈا (PRODA) اور ایبڈو (EBDO)
- صدر ایوب کا المیہ یہ ہے کہ وہ سیاستدانوں کے خلاف گرجتے برستے، ان پر لعن طعن کرتے اور ان کے خلاف نفرت و حقارت کے نعرے لگاتے کرسی اقتدار پر قابض ہوئے پھر دیکھتے ہی دیکھتے لنگر لنگوٹ کس کر بذات خود سیاست کے اکھاڑے میں اتر آئے اور یہیں پر عوام، افواج اور سیاستدانوں کے داؤ پیچ نے انہیں چاروں شانے چت مار گرایا اور گھسیٹ کر اقتدار کے اکھاڑے سے نکال باہر پھینکا۔
- سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف فیلڈ مارشل کا رویہ کسی گہری سوچ بچار کسی استدلالی چھان بین بالغ نظری کا نتیجہ نہ تھا۔ ان کے ذہن نے بہت سے متفرق اکادکا اور اتفاقی واقعات کو جو کہیں کہیں اور کبھی کبھی رونما ہو چکے تھے، یکجا کر کے کنٹھ مالا کی طرح گلے میں پہن رکھا تھا، ان واقعات کی روشنی میں وہ سیاست اور سیاستدانوں کے خلاف ہر قسم کے الزامات، مفروضات اور نظریات قائم کر کے انہیں حد درجہ ناقص، ناکارہ اور بدراہ ثابت کرنے میں ہمہ وقت کمربستہ رہتے تھے۔ بریگیڈئیر ایف۔ آر۔ خان کے بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن سے انہوں نے خان لیاقت علی خان سے لے کر اپنے زمانے تک نئے اور پرانے چیدہ چیدہ سیاستدانوں کے کردار گفتار اور اعمال کے متعلق تفصیلی یاداشتیں مرتب کروا رکھی تھیں، جن کا حوالہ دے کر اس موضوع پر وہ اپنی گفتگو کو نہایت چٹخارے دار اور لچھے دار بنانے کے رسیا تھے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کو وہ دوسرے سیاستدانوں کی نسبت زیادہ دانشمند مدبر اور قابل احترام تسلیم کرتے تھے۔ اس کے باوجود وہ مسٹر حسین شہید سہروردی کے بارے میں ان کا ایک واقعہ بار بار سنانے کے شوقین تھے۔
- 11 ستمبر ۱۹۵۰ء کو کراچی میں قائداعظم کے دوسرے یوم وفات کی یاد میں ایک بہت بڑا عام جلسہ منعقد ہوا تھا۔ اس جلسے کو خطاب کرنے والوں میں آئین ساز اسمبلی کے صدر تمیز الدین خان سندھ کے محمد ایوب کھوڑو اور سید میراں محمد شاہ، سرحد کے یوسف خٹک کے علاوہ وزیراعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے۔
- نوابزادہ لیاقت علی خان کی طویل تقریر میں مسٹر شہید سہروردی کو خاص طور پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس موضوع پر ان کی تقریر کے کچھ حصے جو اخبارات میں شائع ہوئے تھے درج ذیل ہیں:
- Pakistan Time, Lahore, 13 September, 1950.
- مسٹر سہروردی آج کل ہر روز تقریریں کرنے اور بیانات جاری کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ وہی صاحب ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ کرنے کے بعد یہاں تشریف لائے ہیں۔ دسمبر ۱۹۴۷ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کونسل کا آخری اجلاس دہلی میں منعقد ہوا تھا تو اس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس جماعت کو انڈیا مسلم لیگ اور پاکستان مسلم لیگ کے نام سے تقسیم کر کے دو حصوں میں بانٹ دیا جائے، سہروردی نے مخالفت کر کے انڈیا مسلم لیگ کو قائم نہ ہونے دیا اور اپنے اس موقف کا پرچار شروع کر دیا کہ ہندوستان میں اب فرقہ وارانہ بنیادوں پر کسی جماعت کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ میں پوچھتا ہوں کہ وہاں پر ہندو مہاسبھا اور سکھ اکالی دل جیسی فرقی وارانہ پارٹیاں موجود نہیں تھیں؟ سروری کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہندوستانی مسلمانوں کا اتحاد ختم کر دیا جائے اور آئندہ وہ اپنے اوپر ڈھائے گئے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ اب تک ان کا یہی سب سے بڑا اور شاندار کارنامہ ہے۔“
- اب پاکستان آنے کے بعد بھی مسٹر سہروردی اور ان کی سیاسی جماعت عوامی مسلم لیگ پاکستانی مسلمانوں کے اتحاد اور یقین کو توڑنے مروڑنے میں مصروف عمل ہے۔ سہروردی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے حالات دن بدن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں.......وہ اس قسم کی باتوں کا پرچار کر کے کس کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟ بے شک ہمارے دشمنوں نے یہ کتے ہمارے خلاف بھونکنے کے لیے چھوڑ رکھے ہیں۔ یہ لوگ وطن کے غدار ہیں۔ جھوٹے ہیں۔ منافق ہیں۔
- "For whose benefit, I ask, is all this being said. The enemies of Pakistan have let loose dogs who talk like this, I say they are traitors, liars and hypocrites.
- وزیراعظم لیاقت علی خان کی تقریر کے مندرجہ بالا حصے صدر ایوب نے اپنی ایک ڈائری میں اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں درج کر رکھے تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد کچھ عرصہ تک ان کا یہ دستور رہا کہ اپنے چیدہ چیدہ ملاقاتیوں اور نجی محفلوں میں وہ سیاست پر تنقید کرتے ہوئے اس تقریر کا یہ حصہ بھی نہایت چٹخارے لے لے کر سنایا کرتے تھے۔ یہ عمل وہ اتنی بار دہرا چکے تھے کہ میرا اندازہ ہے کہ اس کے بہت سے فقرے انہیں زبانی یاد ہو گئے تھے۔ کئی بار ان کی یہ حرکت بڑی طفلانہ اور مضحکہ خیز نظر آتی تھی، لیکن ان کے ملاقاتیوں اور نجی محفلوں میں شریک ہونے والے افراد کی اکثریت جی حضوریوں پر بنی تھی، اس لیے کسی میں یہ ہمت نہ تھی کہ وہ اپنے ممدوح کو اس بھونڈے اور بچگانہ فعل کی وجہ سے خواہ مخواہ سرمایہ تضحیک بننے سے روکتے۔
- سیاست اور سیاستدانوں کو اپنی تنقید کا ہدف بنانے کے ضمن میں صدر ایوب وزیر اعظم لیاقت علی خان کے زمانے کی ایک اور مثال بھی بڑے شوق بیان کرنے کے عادی تھے۔ جنوری ۱۹۴۹ء میں حکومت پاکستان نے ایک ایسا قانون نافذ کیا تھا۔ جسے عرف عام میں "پروڈا" کہا جاتا تھا۔ اس قانون کا پورا نام یہ تھا:
- Public and Representative office (Disqualification) Act
- اس قانون کی زد میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ایسے وزیر، نائب وزیر اور پارلیمانی سیکرٹری آتے تھے جو جانبداری، اقربا پروری اور دیدہ دانستہ بدانتظامی کے مرتکب ہو رہے ہوں۔ اگرچہ یہ ایکٹ 6 جنوری ۱۹۴۹ء کو جاری ہوا تھا، لیکن عملی طور پر اسے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ سے نافذ العمل قرار دیا گیا۔ یہ قانون سیاسی عہدہ داروں کے سر پر ایک مستقل شمشیر برہنہ کی طرح آویزاں ہو گیا۔ کیونکہ ان پر بدعنوانیوں کے الزامات عائد کر کے انکوائریاں شروع کروانا اس ایکٹ کی رو سے ہر کس و ناکس کی دسترس میں دے دیا گیا تھا۔ اگر پانچ افراد ایک ایک ہزار روپیہ چندہ کر کے پانچ ہزار کی رقم کے ساتھ کسی مرکزی یا صوبائی وزیر کے خلاف الزامات لگا دیں، تو اسے نہایت آسانی سے ”پروڈا کی صلیب پر لٹکایا جا سکتا تھا۔ الزامات ثابت ہونے کی صورت میں ”ملزم" کو دس سال تک کے لیے سیاسی عہدوں سے معطل کرنے کی سزا مقرر تھی۔ اس قانون کا سب سے زیادہ استعمال صوبہ سندھ میں ہوا جہاں صرف ایک وزیر کو چھوڑ کر صوبائی کابینہ کے تمام وزرائے کرام یکے بعد دیگرے اس ایکٹ کی لپیٹ میں آئے۔ ایک جمہوری دور میں جب کہ صوبوں میں بھی ایک ہی سیاسی جماعت کی وزارتیں قائم تھیں، اس قسم کے قانون کا نفاذ بلاشبہ محل نظر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قانون ایک سیاسی ہتھیار کی حیثیت سے عالم وجود میں آیا تھا اور سیاسی مقاصد کے لیے استعمال بھی ہوا، لیکن ستمبر ۱۹۵۴ء میں جب آئین ساز اسمبلی اور گورنر جنرل غلام محمد کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی، تو اس خوفناک ہتھیار کو گورنر جنرل کے ہاتھ سے چھینٹے کے لیے اسمبلی نے یہ قانون منسوخ کر دیا۔ اس مثال کو بار بار دہرا کر اس سے صدر ایوب یہ نتیجہ اخذ کیا کرتے تھے کہ وزیراعظم لیاقت علی خان سمیت پاکستان کی تاریخ کے کسی دور میں بھی حکمرانی کا کوئی بھی سیاسی نظام کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ خاص طور پر برطانوی طرز جمہوریت کا تجربہ ہمیشہ ناکام رہا ہے۔
- عنان اقتدار سنبھالتے ہی صدر ایوب نے سیاستدانوں کا قلع قمع کرنے کے لیے یکے بعد دیگرے دو قانون نافذ کئے۔ پہلا قانون عرف عام میں " پوڈو" کہلایا۔۔۔۔۔ یعنی 1959 Public Offices (Disqualification) order, 21 March
- اپنے پیشرو منسوخ شدہ ”پروڈا" کی طرح اس کا اطلاق صرف سیاسی عہدیداروں پر ہوتا تھا اور فرد جرم ثابت ہونے پر پندرہ سال تک سیاسی عہدوں پر فائز ہونے سے نااہلیت کی سزا ملتی تھی۔
- لیکن صدر ایوب کا مقصد صرف سیاسی عہدیداروں کی بیخ کنی ہی نہ تھا۔ بلکہ وہ سیاست کے میدان میں سرگرم عمل تمام عناصر کو کانٹے کی طرح نکال کر باہر پھینک دینا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے بہت جلد ایک دوسرا قانون بھی نافذ کر دیا۔ جسے "ایبڈو“ کے مخفف نام سے شہرت عام نصیب ہوئی۔ یعنی Elective Bodies (Disqualification) order, 7 August 1959
- اس آرڈر کا اطلاق ان سب افراد پر ہوتا تھا جو کسی سیاسی عہدے پر رہے ہوں یا کسی منتخب شدہ اسمبلی یا ادارے کے رکن بنے ہوں۔ یہ قانون بھی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے نافذ العمل قرار دیا گیا تھا تا کہ نئے اور پرانے سب سیاستدان اس کے پھندے میں جکڑے رہیں۔
- "ایبڈو" کے تحت فرد جرم ثابت ہونے پر ملزم کو کچھ برس تک سیاست سے کنارہ کش رہنے کی سزا ملتی تھی۔ البتہ اتنی رعایت ضرور تھی کہ اگر کوئی صاحب عدالت میں حاضر ہو کر اپنی صفائی پیش کرنا نہ چاہتے ہوں، تو وہ رضا کارانہ طور پر چھ سال کے لیے سیاست سے دست برداری کا اعلان کر کے اپنی گلو خلاصی کرا سکتے تھے۔
- مشرقی پاکستان سمیت قومی اور صوبائی سطح کے ۹۸ ممتاز سیاستدانوں کے خلاف ایبڈو کی کارروائی کی گئی تھی۔ ان میں سے ۷۰ نے رضا کارانہ طور پر چھ سال کے لیے سیاست سے توبہ کر کے اپنی جان چھڑا لی۔ ان میں میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، مسٹر محمد ایوب کھوڑو اور خان عبدالقیوم خان کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔ ۲۸ سیاستدانوں نے اپنی صفائی پیش کر کے مقدمہ لڑا۔ ۲۲ بار گئے جن میں ایک سابق وزیراعظم مسٹر حسین شہید سہروردی، مغربی پاکستان کے سابق گورنر میاں مشتاق احمد گورمانی اور سید عابد حسین شامل تھے۔ صرف چھ سیاستدان ایسے تھے جو بری ہوئے ۔
- ان بڑے اور ممتاز سیاستدانوں کی فہرست پر نگاہ ڈالی جائے تو اس زمانے کی سیاست کی کوئی اہم شخصیت "ایبڈو" کی زد سے باہر نظر نہیں آتی۔ نمونہ کے طور پر صرف مغربی پاکستان کے چند چیدہ چیدہ نام درج ذیل ہیں:
- ا۔ ملک فیروز خان نون، سابق وزیراعظم
- ۲۔ سردار امیر اعظم خان سابق مرکزی وزیر
- ۳۔ حاجی مولا بخش سومرو، سابق مرکزی وزیر
- ۴۔ مسٹر یوسف اے۔ ہارون، سابق سفیر
- ۵۔ خان محمد جلال الدین، سابق مرکزی وزیر
- ۶۔ قاضی محمد عیسیٰ سابق سفیر
- ۷۔ مسٹر حسین شہید سہروردی، سابق وزیراعظم
- ۸۔ مسٹر سی۔ ای۔ گبن، سابق ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی
- ۹۔ مسٹر ممتاز حسن قزلباش، سابق چیف منسٹر خیرپور
- ۰ا۔ خان افتخار حسین خان آف ممدوٹ، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب
- ۱ا۔ پیر زادہ عبدالستار، سابق مرکزی و صوبائی وزیر
- ۱۲۔ قاضی فضل اللہ ' سابق صوبائی وزیر
- ۱۳۔ پیر الٰہی بخش، سابق صوبائی وزیر
- ۱۴۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب
- ۱۵۔ نواب مظفر علی خان قزلباش، سابق وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان
- ۱۶۔ سید حسن محمود سابق صوبائی وزیر
- ۱۷۔ مسٹر محمد ہاشم گزدر، سابق صوبائی وزیر
- ۱۸۔ صوفی عبدالحمید سابق صوبائی وزیر
- ۱۹۔ خان غلام محمد خان لنڈ خور، صوبہ سرحد کے سیاستدان
- ۲۰۔ ارباب نیاز محمد، سابق کرنل پاکستان آرمی
- ۲۱۔ آغا غلام نبی پٹھان، سابق صوبائی وزیر
- ۲۲۔ قاضی محمد اکبر، سابق چیئرمین حیدر آباد میونسپلٹی
- ۲۳۔ مسٹر محمد ایوب کھوڑو، سابق وزیر اعلیٰ سندھ
- ۲۴۔ مسٹر محمد اکبر خان بگٹی، سابق صوبائی وزیر
- ۲۵۔ چودھری محمد حسین چھٹہ، سابق صوبائی وزیر
- ۲۶۔ کرنل محمد امیر خان آف ہوتی، سابق صوبائی وزیر
- ۲۷۔ ارباب نور محمد خان، سابق صوبائی وزیر
- ۲۸۔ سید ہادی علی شاہ، سابق میئر لاہور کارپوریشن
- ۲۹۔ سردار عبدالحمید خان دستی، سابق صوبائی وزیر اور وزیر اعلیٰ
- ۳۰۔ سید علمدار حسین شاہ گیلانی، سابق صوبائی وزیر
- ۳۱۔ میر علی نواز خان تالپور سابق صوبائی وزیر
- ۳۲۔ چودھری عبدالغنی گھمن، سابق صوبائی وزیر
- ۳۳۔ سید علی حسین شاہ گردیزی، سابق صوبائی وزیر
- ۳۴ سید عابد حسین، سابق صوبائی وزیر
- ۳۵۔ بیگم سلمٰی تصدق حسین، سابق صوبائی ڈپٹی منسٹر
- ۳۶۔ خان عبدالقیوم خان سابق وزیر اعلیٰ سرحد
- ۳۷۔ نواب مشتاق احمد گورمانی، سابق گورنر مغربی پاکستان
- ۳۸۔ سردار محمد خان لغاری، سابق صوبائی وزیر
- ۳۹۔ میاں افتخار الدین، سابق رکن مرکزی و صوبائی اسمبلی اور چیئرمین پروگریسو پیپرز لمیٹڈ۔ لاہور۔
- بڑے اور مشہور سیاستدانوں کے علاوہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں دو ہزار سے اوپر نچلی سطح کے سیاسی کارکن بھی ”ایبڈو" کا شکار ہوئے۔ یہ وہ حضرات تھے جو ۱۹۴۷ء سے لے کر ۱۹۵۸ء تک کسی وقت بھی کسی اسمبلی، میونسپلٹی، ڈسٹرکٹ بورڈ یا دیگر منتخب شدہ ادارے کے رکن رہ چکے تھے۔
- ان اعداد و شمار سے صرف ایک بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ ایک فوجی افسر چھاؤنیوں کی محدود فضا میں اپنی عمر عزیز کے باون سال گزارنے کے بعد اچانک مسلح افواج کے ناجائز استعمال سے ایک ہنستی سول حکومت کو زبردستی نکال باہر کرتا ہے اور خود مسند اقتدار پر قبضہ جما کے بیٹھ جاتا ہے۔ لیکن اس ایک عمل سے یہ لازمی نہیں کہ اس پر عقل و دانش کی ایسی بارش شروع ہو جائے کہ وہ ملک بھر کے تمام اکابرین اور ہزاروں کارکنوں کو بیک جنبش قلم نااہل ناکارہ اور نالائق ثابت کرنے میں حق بجانب بھی ہو۔
- صدر ایوب کو یہ چسکا تھا کہ ”ایبڈو" کی زد میں آئے ہوئے خاص خاص مشہور و معروف سیاستدانوں کی بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کی تفصیلات ان کے اپنے علم میں بھی آئیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے باسٹھ ناموں کا انتخاب کیا اور مجھے حکم دیا کہ ”ایبڈو" کے تحت مقدمات سماعت کرنے والی خصوصی عدالتوں (Tribunals) سے میں ان سب کے مکمل ریکارڈ حاصل کروں اور ہر ایک کی بداعمالیوں اور بد عنوانیوں کا خلاصہ تیار کر کے ان کے ملاحظہ کے لیے پیش کروں۔
- "ایبڈو" کے ان باسٹھ بلند و بالا پہاڑوں کو جب میں نے کھود کھود کر دیکھا، تو ان میں سے بداعمالیوں اور بدعنوانیوں کی ایسی چھوٹی چھوٹی چوہیاں برآمد ہوئیں جو آج کے ماحول میں انتہائی بے وقعت اور بے ضرر نظر آتی ہیں۔ چند سیاستدانوں پر ان کے مخالفین کی طرف سے وقتاً فوقتاً "غداری“ کا الزام ضرور لگ چکا تھا، لیکن کسی فائل میں کسی کے خلاف وطن دشمنی کی کوئی شہادت یا علامت تھی اور نہ کوئی ثبوت تھا۔ ملک کے مفاد کے خلاف کام کرنے کا الزام بھی جگہ جگہ چسپاں تھا۔ لیکن اس کی بنیاد بھی یا تو ذاتی عداوتیں اور مفاہمتیں تھیں یا سیاسی رقابتوں کی وجہ سے ایسے مبہم مفروضوں اور تہمتوں پر مبنی ہوتی تھی جو واقعات اور شواہد کی روشنی میں کسی صورت بھی قابل گرفت قرار نہ پاتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ باسٹھ نامور سیاستدانوں جو کسی نہ کسی وقت وزیر یا کسی اور عہدے پر رہ چکے تھے۔ ان کے خلاف الزامات کی نوعیت عموماً کچھ اس طرح کی تھی:
- سرکاری ٹیلی فون اور سٹاف کار کا بے جا استعمال۔
- پی۔ اے۔ یا پرائیویٹ سیکرٹری کے لیے ان کے استحقاق سے زیادہ مراعات۔
- اپنے انتخابی حلقوں میں ترجیحی طور پر سڑکوں، سکولوں یا ڈسپنسریوں کی تعمیر۔
- اپنے بااثر دوستوں رشتہ داروں یا سیاستدانوں کے علاقوں میں سڑکیں، سکول یا ڈسپنسریاں تعمیر کرنے میں ترجیحی سلوک۔
- اپنے بااثر دوستوں، رشتہ داروں، سیاستدانوں یا ووٹروں کے مفاد میں سرکاری افسروں پر دباؤ یا سفارشیں۔
- اپنے انتخابی حلقوں اور اپنے دوستوں اور سیاستدانوں کے علاقوں میں پٹواریوں، تھانیداروں، نائب تحصیلداروں اور دیگر سرکاری کارندوں کے تبادلوں اور تقرریوں میں دخل اندازی۔
- انتخابات کے وقت دھاندلی کے بلا ثبوت الزامات۔
- سرکاری تقرریوں میں پبلک سروس کمیشن کی سفارشات کو نظر انداز کرنے کا رجحان۔
- سرکاری دوروں پر سرکاری انتظامات کا سیاسی اغراض و مقاصد کے لیے استعمال۔
- محکمانہ اخراجات کا منظور شدہ بجٹ سے بڑھ جانے کی مثالیں۔
- ایسے منصوبوں کی مثالیں جن پر اخراجات منظور شدہ تخمینوں سے تجاوز کر گئے۔
- بے شمار مثالیں جن میں فلاں فلاں ٹیکس لگائے جا سکتے تھے، لیکن اس لیے نہ لگائے گئے کہ سیاسی حکمران ہر دلعزیز بنے رہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
- باسٹھ چیدہ چیدہ چوٹی کے سیاستدانوں کے خلاف صدر ایوب نے جب اس قسم کی بے مزہ، پھیکی اور پھسپھسی سی فرد جرم پڑھی، تو وہ بے حد حیران ہوئے۔ انہوں نے تعجب سے کئی بار یہ سوال دہرایا۔ بس اتنا کچھ ہی ہے ؟“
- میں نے انہیں یقین دلایا کہ جو فائلیں مجھے دستیاب ہوئی ہیں، ان میں بس اتنا کچھ ہی ہے۔
- ”اگر یہ بات ہے۔ صدر ایوب نے کسی قدر حیرت سے کہا۔ ”تو یہ ساٹھ ستر جغادری سیاستدان دم دبا کر بھاگ کیوں گئے؟ مردانگی سے کام لے کر ایبڈو کا مقدمہ کیوں نہ لڑے؟"
- "شاید مارشل لاء سے ڈرتے ہوں۔“ میں نے کہا۔ ”یا شاید عزت بچانے کی خاطر اپنے آپ ریٹائر ہو کر بیٹھ رہے ہوں۔"
- ”یہ بات نہیں۔ صدر ایوب نے فیصلہ صادر کیا۔ ”تمہاری فائلیں ان کا جرم ثابت کریں یا نہ کریں۔ لیکن ان کے ضمیر مجرم ہیں۔ یہ بات ان کو بخوبی معلوم ہے۔“
- کہنے کو تو انہوں نے یہ بات بڑے طمطراق سے کہہ دی، لیکن میرا اندازہ ہے کہ یہ محض دکھاوے کی بہادری کا ابال تھا۔ ایک تجربہ کار فوجی کی طرح ان میں خود حفاظتی اور خود بقائی کی رگ نہایت مضبوط تھی۔ چنانچہ انہوں نے ذہنی طور پر یہ بات گرہ باندھ لی کہ سیاستدان اتنی گلی سڑی فنا پذیر جنس نہیں ہیں جنہیں ”ایبڈو" کی تلوار یا رضا کارانہ طور پر چھ سال کے لیے سیاست سے کنارہ کشی ہمیشہ کے لیے نیست و نابود کر دے۔ میں نے خاص طور پر نوٹ کیا کہ اس کے بعد رفتہ رفتہ انہوں نے ہر وقت موقع و بے موقع سیاستدانوں کے خلاف بدکلامی، گالی گلوچ اور طعن و تشنیع کا برملا اظہار بہت کم کر دیا۔
- ساتھ ہی انہوں نے ”بنیادی جمہوریت" کا نظام رائج کر کے سر توڑ کوشش کی کہ ملک میں پرانی طرز سیاست کی جگہ ایک بالکل نئی اور انوکھی سیاست کو جنم دیا جائے۔ ان کو یقین تھا کہ بنیادی جمہورتیوں کے تحت جو اسی ہزار نمائندہ منتخب ہوں گے، ان میں کم از کم کچھ لوگ تو ایسے ضرور نکلیں گے جو قابلیت، ذہانت، وجاہت اور صلاحیت میں پرانے سیاستدانوں کے ہم پلہ یا ان سے بھی ارفع و اعلیٰ ہوں۔ لیکن ان کی یہ امید بر نہ آئی۔ البتہ لگے ہاتھوں بنیادی جمہورتیوں کے اسی ہزار منتخب اراکین کا اتنا فائدہ ضرور اٹھایا گیا کہ ان کے ووٹ حاصل کر کے ایوب خان صاحب نے اپنی صدارت پر مہر تصدیق ثبت کروا لی۔ اس استصواب رائے کا نتیجہ مجھے آدھی رات کے بعد معلوم ہوا۔ اس وقت صدر ایوب سو چکے تھے۔ اگلے روز صبح سویرے ان کے پاس گیا، تو وہ بیگم ایوب کے ساتھ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ ان کے حق میں ۷۵۲۸۳ ووٹ ڈالے گئے ہیں جو مجموعی تعداد کا ۹۵٫۶ فیصد ہیں، تو انہوں نے فوراً کاغذ پنسل لے کر ۸۰۰۰۰ میں سے ۷۵۲۸۳ کا ہندسہ تفریق کیا اور کسی قدر مایوسی سے بولے۔ ”بلکہ یوں کہو کہ ۴۷۱۷ ووٹ میرے خلاف بھی پڑے ہیں۔" اس کے اس ردعمل سے مجھے محسوس ہوا کہ وہ اپنے دل کے نہاں خانے میں امید کا چراغ جلائے بیٹھے تھے کہ اس ریفرنڈم میں انہیں سو فی صد ووٹوں سے کامیابی حاصل ہو گی۔ غالباً یہ خوش فہمی ان کی فوجی تربیت کا نتیجہ تھی۔ جہاں کمانڈر کے ایک اشارے پر پوری پلٹن کی پلٹن بے چوں و چرا "فال ان" ہو جاتی ہے !
- اس ریفرنڈم کے دو روز بعد ۱۷ فروری 1960ء کو انہوں نے صدر پاکستان کے طور پر از سر نو حلف اٹھایا اور اس کے فوراً بعد آئین سازی کی طرف متوجہ ہوئے۔ جسٹس شاب الدین کی سرکردگی میں آئین کمیشن نے جو سفارشات پیش کیں، وہ صدر ایوب کو قابل قبول نہ تھیں۔ اب وہ چند ماہرین کو ساتھ لے کر بذات خود آئین کا خاکہ بنانے میں مصروف ہو گئے۔ یہ عمل بڑا طویل، صبر آزما اور بسا اوقات مضحکہ خیر بن جاتا تھا۔ صدر الوب انتہائی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ کر کرسی پر بیٹھ جاتے تھے۔ ان کے ایک طرف وزیر خارجہ مسٹر منظور قادر آئینی مشیر کے طور پر جگہ سنبھالتے تھے۔ دوسری جانب ایک دو قانونی ماہر بیٹھتے تھے۔ سامنے چند ایسے افسر بٹھائے جاتے تھے جو رائے دینے کی ہمت یا اہلبیت تو نہیں رکھتے تھے۔ البتہ نہایت سرگرمی سے ہاں میں ہاں ملانے کے خوب ماہر تھے۔ ایسی محفلوں کی روئیداد قلم بند کرنے کے لیے صدر کے سیکرٹری کے طور پر مجھے بھی حاضر رہنا پڑتا تھا۔ کم و بیش گھنٹہ بھر صدر ایوب اپنے سیاسی فلسفہ پر تقریر فرماتے تھے۔ جی حضوری حاضر باش سر ہلا ہلا کر اور ہاتھ نچا نچا کر داد دیتے تھے اور منظور قادر صاحب کو یہ فریضہ سونپا جاتا تھا کہ وہ آج کے صدارتی ملفوظات کو آئینی شقوں میں ڈھال کر لائیں۔
- ایک روز صدر ایوب نے حسب معمول اپنے ”سیاسی فلسفہ" پر ایک طولانی تقریر ختم کی۔ تو ایک سینئر افسر وجد کی کیفیت میں آ کر جھومتے ہوئے اٹھے اور سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر عقیدت سے بھرائی ہوئی آواز میں ہوئے۔ ”جناب آج تو آپ کے افکار عالیہ میں پیغمبری شان جھلک رہی تھی۔“
- یہ خراج تحسین وصول کرنے کے لیے صدر ایوب نے بڑی تواضع سے گردن جھکائی۔ یہ سینئر افسر مرزائی عقیدہ سے تعلق رکھتے تھے۔ معاً مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں صدر ایوب پچ مچ اس جھوٹ موٹ کے اڑن کھٹولے میں سوار ہو کر بھک سے اوپر کی طرف نہ اڑنے لگیں۔ چنانچہ اس غبارے کی ہوا نکالنے کے لیے میں بھی اسی طرح عقیدت سے سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا اور نہایت احترام سے گزارش کی۔ ”جناب آپ ان صاحب کی باتوں میں بالکل نہ آئیں۔ کیونکہ انہیں صرف خود ساختہ پیغمبروں کی شان کا تجربہ ہے۔"
- بات بڑھنے لگی تھی، لیکن صدر ایوب نے بیچ بچاؤ کر کے معاملہ رفع دفع کر دیا اور حکم دیا کہ باہر جانے سے پہلے ہم ایک دوسرے کے ساتھ دوستانہ ہاتھ ملائیں اور گلے ملیں۔ اس طرح کی چھان پھٹک اور لگاتار محنت کے بعد خدا خدا کر کے صدر ایوب کا آئین مرتب ہوا۔ اس کی نوک پلک درست کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً بیرون ملک سے بھی کچھ ماہرین آتے رہے۔ ۱۹۶۲ء کے شروع ہی سے اس قسم کی خبروں اور افواہوں کا تانتا بندھ گیا کہ عنقریب نیا آئین نافذ ہوتے ہی مارشل لاء اٹھ جائے گا اور اس کے بعد ملک میں از سر نو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت مل جائے گی۔ غالباً ۷ یا ۸ فروری کا دن تھا۔ میں ایوان صدر راولپنڈی میں اپنے کمرے میں بیٹھا کام کر رہا تھا۔ اچانک صدر کا ہیڈ اردلی میرے لیے چائے کی پیالی لے کر آیا اور پریشانی کے لہجے میں رازداری سے بولا۔ آج جی۔ ایچ کیو سے کئی جرنیل صدر صاحب سے ملنے آئے ہوئے ہیں۔ گھنٹہ بھر سے میٹنگ چل رہی ہے۔ بیرا چائے لے کر گیا تو ڈانٹ کر نکال دیا کہ ابھی مت آؤ۔ کبھی کبھی اندر سے کافی بلند آواز سنائی دیتی ہے۔ اللہ خیر کرے۔“ یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ کیونکہ فوجی جرنیلوں کے ساتھ اس قسم کی کوئی طویل میٹنگ صدر کے آج کے پروگرام میں درج نہ تھی۔
- اس بات کے کوئی نصف گھنٹہ بعد صدر ایوب نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ وہ کسی قدر پریشان سے نظر آتے تھے۔ وہ پھیکے طور پر بددلی سے مسکرائے اور بولے۔ ”چند روز قبل اخباروں میں کسی نجوی نے پیش گوئی کی تھی کہ دنیا عنقریب ختم ہونے والی ہے۔ لیکن آج جو باتیں میں نے سنیں، ان سے تو یہی ظاہر ہوتا تھا کہ دنیا کا خاتمہ آج ہی ہونے والا ہے۔"
- صدر ایوب نے کسی قدر وضاحت سے مجھے بتایا کہ جی۔ ایچ۔ کیو کے سینئر افسر ان پر یہ زور دینے آئے تھے کہ آئین نافذ کر کے مارشل لاء ہرگز نہ اٹھانا۔ اگر ایسا کیا تو حالات بے حد بگڑ جائیں گے۔ زمین پھٹ جائے گی۔ آسمان گر پڑے گا۔ ان کا اصرار تھا کہ صدر ایوب کم از کم پانچ سال اور مارشل لاء کے زیر سایہ آرام سے حکومت کرتے رہیں۔
- ” آپ نے ان کو کیا جواب دیا؟" میں نے کسی قدر بے صبری سے پوچھا۔
- صدر ایوب مسکرائے۔ ”میں نے ان کی بات فوراً مان لی۔ اس شرط پر کہ وہ مجھے یہ گارنٹی لا دیں کہ میں پانچ سال ضرور زندہ رہوں گا!"
- غالباً صدر ایوب اس بات پر خوش تھے کہ فوجی افسر ان کی دلیل سے لاجواب ہو کر واپس لوٹ گئے ہیں، لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس وقت کے جرنیلوں میں ایسا کوئی مائی کا لال نہ تھا جو صدر ایوب کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہو جاتا اور اپنا مطالبہ رو ہوتا دیکھ کر علم بغاوت بلند کر دیتا۔ سول حکومت کے علاوہ فیلڈ مارشل کو اب تک فوج پر بھی پورا کنٹرول حاصل تھا۔ البتہ میرے ذہن میں یہ سوالیہ نشان اب تک باقی ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورت حال بالکل درست تھی۔ کوئی بیرونی خطرہ بھی سر پر سوار نہ تھا۔ آئین سازی کا مرحلہ طے ہو چکا تھا۔ ایک محدود طرز کی لنگڑی لولی جمہوریت کی طرف پیش رفت جاری تھی۔ ایسے ماحول میں آئین نافذ کرنے اور مارشل لاء اٹھانے پر جی۔ ایچ۔ کیو کی اعلیٰ سطح کے جرنیلوں کو اگر اعتراض تھا تو کیوں تھا؟ یہ فروری ۱۹۶۲ء کی بات ہے۔ اس پس منظر میں بعد کے بہت سے واقعات کا زائچہ بنانے کے لیے کسی خاص علم نجوم کی حاجت باقی نہیں رہتی۔
- خدا خدا کر کے یکم مارچ ۱۹۶۲ء کا روز آیا جب صدر ایوب نے ریڈیو پر تقریر کر کے اپنے نئے آئین کا اعلان کر دیا۔ اسی روز شام کو کراچی کے گورنر ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس بھی بلائی گئی۔ مشرق اور مغربی پاکستان سے قومی، صوبائی اور دوسری سطح کے اخبارات اور رسائل کے بہت سے مدیر جمع ہوئے۔ نئے آئین میں یہ درج تھا کہ آئین کے نفاذ کے دو برس بعد صدر مملکت کا ازسر نو انتخاب ہو گا۔ کابینہ کے چند وزیروں کو یہ فکر دامن گیر ہو گئی کہ اگر صدر کا انتخاب دو برس کے بعد ہوا تو ان کی وزارت بھی دو برس کے قلیل عرصہ ہی میں ختم ہو جائے گی۔ چنانچہ اپنی وزارتی میعاد کو طول دینے کے لیے انہوں نے یہ چال چلی کہ انہوں نے حیلے بہانے سے صدر پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ آئین میں اپنا انتخاب دو کی بجائے پانچ برس کے بعد رکھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر نے بہت سے انقلابی اصلاحات کا ڈول ڈالا ہوا ہے ان اصلاحات کی بیل منڈھے چڑھانے کے لیے دو برس کا وقفہ نہایت ناکافی ہے۔ اس لیے آئین کی رو سے صدر کا انتخاب پانچ برس کے بعد مقرر ہونا چاہیے۔ ( اس نکتے پر جی۔ ایچ۔ کیو کے جرنیلوں اور کابینہ کے نامزد وزیروں میں مکمل ہم خیالی تھی۔ لیکن صدر ایوب اپنے ان خیر خواہ وزیروں کے دل کا اصلی مقصد بخوبی بھانپ گئے تھے۔ اس لیے انہوں نے کسی کی نہ سنی اور آئین میں اپنا انتخاب دو برس کے بعد رکھنے پر ہی مصر رہے۔ یکم مارچ کو پریس کانفرنس سے چند گھنٹے قبل یہ وزرائے کرام صدر مملکت کے اردگرد شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھناتے رہے اور دو برس کا عبوری دور بڑھانے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتے رہے۔ صدر نے انہیں بار بار ڈانٹا ڈیٹا اور اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا لیکن وہ حضرات بھی اپنی دھن کے پکے تھے۔ انتہائی مستقل مزاجی سے اپنی کوششوں میں لگاتار مصروف رہے۔ یہاں تک کہ دوسری منزل پر دربار ہال میں پریس کانفرنس میں جانے کے لیے جب سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو ایک وزیر صاحب نے گھٹنے ٹیک کر صدر ایوب کا راستہ روک لیا اور ہاتھ جوڑ کر بولے۔ ”سر خدا کے لیے عبوری دور کی مدت کچھ تو ضرور بڑھائیے۔
- ”اچھا بابا اچھا"۔ صدر ایوب نے جھنجھلا کر کہا۔ ”میری جان خلاصی کرو۔ میں دو سال کی بجائے تین سال کا اعلان کر دوں گا۔"
- یہ سن کر میں نے صدر سے کہا۔ ”سر آئین کی جو کاپی ہم صحافیوں میں پہلے تقسیم کر چکے ہیں اس میں تو یہ مدت صریحاً دو سال درج ہے۔ اب اچانک اسے بڑھا کر تین سال کا اعلان کرنا ایک خواہ مخواہ کی عجیب سی پس اندیشی نظر آئے گی۔"
- صدر ایوب نے جھنجھلا کر میری طرف دیکھا اور غصے سے بولے۔ بس بس۔ اب تم بھی مجھے مزید نروس نہ کرو۔ میں صورتحال سے بخوبی نپٹ لوں گا۔"
- اس کش مکش اور کھینچا تانی کے بعد صدر ایوب جب پریس کانفرنس میں پہنچے تو ان کا موڈ کافی خراب اور برہم تھا۔ دربار بال اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ نئے آئین کے متعلق صدر نے اپنا تحریری بیان کسی قدر غصیلے لہجے میں اس طرح پڑھنا شروع کیا جیسے وہ محاذ جنگ پر بیٹھے دشمن پر گولہ باری کر رہے ہوں۔ جب انہوں نے یہ اعلان کیا کہ وہ تین برس کے بعد نیا انتخاب لڑیں گے تو ایک صاحب نے ٹوک کر پوچھا۔ "سر آئین کا جو ڈرافٹ ہمیں تقسیم ہوا ہے۔ اس میں تو دو برس کی مدت درج ہے۔“
- "اسے آپ بھول جائیں۔" صدر ایوب نے چڑ کر کہا۔ میں نے تین برس کا اعلان کیا ہے تو لازماً یہ مدت تین برس کی ہی ہو گی۔" ایک اور ایڈیٹر نے کسی قدر طنزیہ انداز میں کہا۔ ”سر، نئے آئین میں کیا ہم اس تبدیلی کو پہلی آئینی ترمیم شمار کرنے میں حق بجانب ہوں گے؟"
- یہ سن کر صدر ایوب کا ناریل چٹخ گیا۔ انہوں نے جھلا کر آئینی ترمیم کی اصطلاح پر انتہائی سخت الفاظ استعمال کئے۔ یہ الفاظ سخت ہی نہ تھے بلکہ ان میں ایک دو غیر ثقہ اور فخش الفاظ بھی در آئے تھے، جن کا استعمال بھری محفل میں بے حد غیر موزوں تھا
- خاص طور پر جہاں ایک خاتون بھی موجود تھی۔ جونہی صدر ایوب کی نگاہ مشرقی پاکستان" کی اس خاتون صحافی پر پڑی۔ وہ ٹھٹک کر جھینپ گئے اور انتہائی بے بسی سے زیر لب بڑبڑائے۔ "حماقت ہو گئی۔ اب کیا ہو سکتا ہے۔"
- اس حادثہ کے بعد صدر ایوب کسی قدر سنبھل کر بیٹھ گئے اور صحافیوں کے سوالوں کے جواب نسبتاً تحمل سے دیتے رہے۔ لیکن بنگالی اخبار سنگ باد کے ایڈیٹر ظہور چودھری نے جب پوچھا کہ کیا اخبارات کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ آئین پر آزادانہ تنقید کر سکیں۔ تو صدر صاحب کا مزاج پھر برہم ہو گیا۔ اس روز ساری پریس کانفرنس کے دوران ان کا پارہ بار بار چڑھا اور بار بار اترا۔ میرے تجربہ میں اس پریس کانفرنس میں صدر ایوب کی کارکردگی انتہائی درجہ کی ہلکی، پست، ناکافی اور کمزور تھی۔
- 8 جون 1962ء کو صبح ساڑھے آٹھ بجے صدر ایوب نے نیشنل اسمبلی میں جا کر مارشل لاء اٹھانے کا اعلان کرنا تھا۔ آٹھ بجے وہ تیار ہو کر ایوان صدر کے برآمدے میں آئے تو جمیل الدین عالی اور میں ان کی تاک میں بیٹھے تھے۔ ہم نے کافی محنت سے کاپی رائٹ قانون کا ایک مسودہ تیار کر رکھا تھا۔ ہماری کوشش تھی کہ مارشل لاء کے دوران ہی یہ قانون آرڈیننس کے طور پر نافذ ہو جائے تو آسانی رہے گی۔ ورنہ بعد ازاں اسمبلی میں جا کر خدا جانے اس کا کیا حشر ہو۔ کیونکہ اسمبلی میں تو لانا پبلشروں کی لابی بھی اس کے خلاف اپنا اثر و رسوخ بیدریغ استعمال کرے گی۔ چنانچہ جب صدر اپنی کار کی طرف روانہ ہوئے تو ہم نے انہیں روکا اور بر آمدے میں کھڑے کھڑے ہی کاپی رائٹ آرڈی ننس پر ان سے دستخط کروا لیے۔
- پریس کانفرنس میں تو ایک صحافی نے آئین میں پہلی ترمیم کا چٹکلا چھوڑ کر صدر ایوب کو آتش زیر پا کر دیا تھا لیکن اسمبلیوں کا کاروبار شروع ہوتے ہی آئین میں ترمیمات کا طوفان بد تمیزی امڈ آیا اور صدر ایوب بڑی خوش دلی سے ان پر برابر آمناً و صدقناً کہتے رہے۔ پہلی ترمیم آئین نافذ ہونے کے بعد چار روز کے اندر اندر عمل میں آ گئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا اور ایوب خان صاحب کے دور صدارت میں ان کے اپنے بنائے ہوئے آئین میں آٹھ بار ترمیم ہوئی۔ آئین کی 39 دفعات تبدیل کی گئیں۔ ان میں سے چند دفعات تو کئی کئی بار تبدیل ہوئیں۔ ان میں بعض دفعات کا تعلق صدارتی انتخاب سے تھا اور ترمیم کا واحد مقصد یہ تھا کہ اگلے انتخاب میں ہر قیمت پر صدر ایوب کا پلہ بھاری رہے۔ اس کے علاوہ ایک پورے کا پورا باب تبدیل کر کے بالکل نئے سانچے میں ڈھال دیا گیا۔ جس سرعت اور تواتر سے ترمیم و تجدید کا یہ عمل وقوع پذیر ہو رہا تھا اس سے یہی شبہ پیدا ہوتا تھا کہ صدر ایوب کے احاطہ فکر میں آئین کے تقدس نام کی کوئی شے سرے سے موجود ہی نہیں۔
- یوں بھی جن اصولوں کی آڑ لے کر صدر ایوب نے اپنا فوجی انقلاب برپا کیا تھا، بہت جلد وہ بھی ریت کی دیوار کی طرح اسی طرح معدوم ہونے لگے، جس طرح ان کے اپنے بنائے ہوئے آئین کا حلیہ تبدیل ہو رہا تھا۔ معاشرے کو سیاسی جماعتوں سے نجات ولانا ان کا ایک نہایت بلند بانگ دعویٰ تھا، لیکن مارشل لاء اٹھے ہوئے ابھی چالیس دن بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ صدر کی منظوری کے ساتھ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ جاری ہوا جس کی رو سے اسمبلیوں کے اندر اور باہر سیاسی جماعتیں از سر نوبحال ہو گئیں۔ اس قانون کے نافذ ہوتے ہی صدر ایوب اپنے نام نہاد انقلابی نصب العین کے بلند پایہ ستون سے لڑھک کر دھڑام سے نیچے گرے اور سیاست کی اسی دلدل میں آ پھنسے جس کی سڑاند اور عفونیت مٹانے کے لیے انہوں نے مارشل لاء کا سارا کھڑاک کھڑا کیا تھا۔ اس نئی صورت حال میں صدر ایوب کا زاویہ نگاہ یکسر بدل گیا اور جو پرانے سیاستدان "ایبڈو" کی زد میں آ کر چھ سال کے لیے معطل ہو چکے تھے، صدر ایوب کی نظر میں وہ لوگ بھی یکایک پسندیدہ اور قابل اعتماد بن گئے۔ چنانچہ صدر ایوب کے ایما سے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا کہ "ایبڈو" کے تحت سیاست دانوں پر عائد کی ہوئی پابندیاں اٹھائی جائیں، لیکن اسمبلی میں آئے ہوئے نئے سیاستدانوں کو اس میں اپنے لیے شدید خطرات نظر آئے۔ چنانچہ انہوں نے اس بل کو مسترد کر دیا۔ ان نئے حالات میں صدر ایوب نے پہلے اپنی ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کے امکانات کا جائزہ لیا۔ اس میں دال گلتی نہ دیکھی، تو پھر ان کی نگاہ انتخاب مسلم لیگ پر پڑی۔ دل ہی دل میں وہ اس جماعت کی قیادت کو ایک طرح سے اپنی جائز وراثت بھی سمجھتے تھے۔ ان کے گرد روز افزوں بڑھتے ہوئے خوشامدیوں اور کاسہ لیسوں کا ایک گروہ رفتہ رفتہ انہیں اس غلط فہمی میں مبتلا کر رہا تھا کہ صدر ایوب قائداعظم کے صحیح جانشین پیدا ہوئے ہیں اور جو کام محمد علی جناح ادھورا چھوڑ گئے ہیں، انہیں پورا کرنا ایوب خان کے مقدر میں لکھا ہے۔ کبھی کبھی چند ایک پیشہ ور روحانی بزرگ بھی انہیں اس قسم کے نوشہ تقدیر کی خوشخبری سنا کر نذرانے میں اپنے لیے کوئی ٹرانسپورٹ روٹ پرمٹ یا امپورٹ لائسنس یا زمین کا پلاٹ حاصل کر لیتے تھے۔ سیاسی گماشتے اور دلال تو خیر کاسہ گدائی ہاتھ میں لیے ہر وقت ان کے گرد منڈلانے کے لیے تیار ہی رہتے تھے۔
- صدر ایوب ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے ملک میں سیاست پیسے کا کھیل ہے۔ جس کے پاس دولت کی کمی ہے، وہ سیاست میں بھی ناکام ہے۔ چنانچہ انہوں نے بعض سیٹھ صاحبان سے چندہ جمع کر کے ایک اچھی خاصی رقم مسٹر اے۔ کے۔ ایم فضل القادر چودھری کے حوالے کی۔ مشرقی پاکستان کے یہ صاحب پرانے مسلم لیگی تھے۔ پہلے صدر ایوب کی کابینہ میں وزیر تھے۔ بعدازاں قومی اسمبلی کے سپیکر رہے۔ ان کی یہ ڈیوٹی لگی کہ مسلم لیگ کی قیادت سنبھالنے کے لیے وہ صدر ایوب کی راہ ہموار کریں۔ ان دنوں مسلم لیگ کی سرگرمیوں کا مرکز ڈھاکہ بنا ہوا تھا۔ جماعت کی تنظیم نو کے لیے بزرگ مسلم لیگی لیڈر مولانا اکرام خان کے مکان پر پرانے رہنماؤں کے بہت سے اجتماع ہوئے اور مسلم لیگ کونسل کی ایک میٹنگ منعقد کرنے کا اعلان بھی جاری ہوا۔ یہ اعلان سن کر صدر ایوب کے سیاسی دلالوں پر مردنی چھا گئی۔ کیونکہ ڈھاکہ مسلم لیگ کونسل میں بیشتر تعداد ان پرانے، مستند اور کٹر رہنماؤں کی تھی جو صدر ایوب کو اپنی صفوں میں جگہ دینے کے لیے ہر گز تیار نہ ہوتے۔ چنانچہ اس کاروبار کو سبوتاژ کرنے کے لیے فضل القادر چودھری صاحب جملہ سازوسامان سے لیس ہو کر بھاگم بھاگ ڈھاکہ پنچے۔ تفصیلات کا تو مجھے علم نہیں، لیکن انہوں نے کسی نہ کسی طرح مولانا اکرام خان کو شیشے میں اتار لیا اور بغیر کوئی وجہ بتائے مولانا نے مسلم لیگ کونسل کے اجلاس کا اعلان منسوخ کر دیا۔ ساتھ ہی مسٹر چودھری نے ڈھاکہ سے میرے میکروفون پر صدر کے لیے پیغام بھیجا کہ سیاسی مقاصد کے لیے جو فنڈ ان کے سپرد کیا گیا تھا، وہ ختم ہو چکا ہے اور اب انہیں مزید پانچ لاکھ روپے کی فوری ضرورت ہے۔
- ایک دو روز بعد یہ خبر بھی شائع ہو گئی کہ عنقریب مسلم لیگ کی ایک نمائندہ کنونشن راولپنڈی میں منعقد ہو گی جس میں ایک ہزار سے زیادہ لیڈر اور کارکن شرکت کریں گے۔ بعدازاں اس کنونشن کا مقام انعقاد راولپنڈی سے تبدیل ہو کر کراچی مقرر ہو گیا۔ مولانا اکرام خان کو اس کنونشن کی صدارت کے لیے پھانسنے کے لیے سر توڑ کوشش ہوئی۔ ان کے انکار پر چند وزیروں نے ان کے اخبار ”آزاد“ کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں۔ لیکن مولانا بدستور اپنے انکار پر اڑے رہے۔
- مولانا اکرام خان کی طرف سے مایوس ہو کر کنونشن کی صدارت راجہ صاحب محمود آباد کو پیش کی گئی، راجہ صاحب انتہائی سلجھے ہوئے دیانتداری پر خلوص اور پاکیزہ سیرت انسان تھے۔ جب انہوں نے بھی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تو ایک روز صدر ایوب نے مجھ سے کہا۔ ”یہ تمہارے دوست راجہ صاحب بھی صرف باتیں بنانا جانتے ہیں۔ ملک کی خدمت کے لیے اگر انہیں کوئی عملی کام سونپا جائے تو جان چھڑا کر بھاگتے ہیں۔ معلوم نہیں بے چارے قائداعظم ایسے بے عمل لوگوں کے ساتھ کیسے گزارہ کر لیتے تھے۔"
- میں نے یہ بات راجہ صاحب کو سنائی تو وہ مسکرائے اور بولے۔ صدر صاحب کو تو میرا شکر گزار ہونا چاہیے کہ میں نے کنونشن کی صدارت کے لیے ایک نہایت کارآمد نام تجویز کر دیا ہے اور انہوں نے اسے منظور بھی کر لیا ہے؟"
- "وہ کون سا نام ہے ؟" میں نے حیرت سے پوچھا۔ ”
- چودھری خلیق الزماں۔" راجہ صاحب نے بتایا۔ اس کام کے لیے ان سے زیادہ اور کون شخص موزوں ہو سکتا ہے ؟"
- چودھری خلیق الزماں صاحب بھی پرانے منجھے ہوئے سیاستدان تھے۔ ۱۹۴۰ء کے تاریخی لاہور ریزولیشن کا متن انہیں کا ڈرافٹ کردہ تھا۔ بعض وجوہات سے وزیراعظم لیاقت علی خان کے زمانے میں مسلم لیگ کے حلقوں میں چودھری صاحب کی حیثیت کسی قدر متنازعہ فیہ چلی آ رہی تھی، لیکن صدر ایوب کی بنائی ہوئی کنونشن مسلم لیگ کو انہوں نے نہایت چابکدستی اور ہنر مندی سے سنبھالا۔ اپنی شیریں بیانی' خوش کلامی اور حکمت عملی سے انہوں نے صدر ایوب کے دماغ سے مسلم لیگ کی قیادت کا کیڑا نکال باہر پھینکا اور رفتہ رفتہ انہیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ مسلم لیگ میں شامل تو ضرور ہو جائیں، لیکن ایک عام رکن کی حیثیت سے! چنانچہ مئی 1963ء میں ایوان صدر راولپنڈی میں ایک خاص گورنر کانفرنس منعقد ہوئی۔ مرکزی وزیروں کے علاوہ بعض چیدہ چیدہ صوبائی وزیر بھی اس میں شامل ہوئے۔ کنونشن مسلم لیگ کے صدر چودھری خلیق الزماں خصوصی دعوت پر شریک محفل ہوئے۔ موضوع بحث یہ تھا کہ صدر ایوب کو کنونشن مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کرنی چاہیے یا نہیں۔ چودھری خلیق الزمان نے ایک فصیح و بلیغ طولانی تقریر میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ صدر ایوب کا مسلم لیگ کی رکنیت اختیار کرنا ہی ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ہے۔ اس کے بعد نواب کالا باغ سمیت تمام حاضرین نے کیے بعد دیگرے اس تجویز کی نہایت شدت سے تائید کی۔ چنانچہ مبارک سلامت کے غلغلے میں صدر نے دو فارموں پر دستخط کر کے کنونشن مسلم لیگ کی دہری رکنیت حاصل کر لی۔ ایک مشرقی پاکستان کی طرف سے دوسری مغربی پاکستان کی جانب سے ۔ اس کے بعد دعائے خیر ہوئی۔ پھر کسی من چلے نے رکنیت کا فارم نواب کالا باغ کے سامنے رکھ دیا کہ وہ بھی اس پر دستخط کر کے کنونشن مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔ نواب صاحب نے جھٹک کر یہ فارم اس طرح کھینچ کر دور دے مارا جیسے ان کے دامن پہ کوئی بچھو آ گرا ہو، ساتھ ہی وہ کسی قدر ناراضگی سے بولے۔ ”ارے بابا۔ مجھے معافی دو۔ مجھے خواہ مخواہ اس گندگی میں کیوں گھسیٹتے ہو۔“
- اتفاق سے یہ فقرہ صدر ایوب نے بھی سن لیا۔ حیرت اور شکایت کے ملے جلے انداز سے گھور کر وہ کچھ لب کشائی کرنے والے تھے کہ نواب صاحب نے گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا اور انتہائی لجاجت اور انگاری سے کسمسا کر بولے۔ ”عالی جاہ۔ گورنر تو جناب کے لگائے ہوئے اونی غلام ہیں۔ میرا خیال ہے کہ دوسرے سرکاری ملازمین کی طرح گورنروں کو بھی سیاست سے الگ رکھنا ہی مناسب ہو گا۔"
- یہ کہہ کر انہوں نے تائید حاصل کرنے کے لیے مشرقی پاکستان کے گورنر عبدالمنعم خان کی طرف دیکھا جو ناک سکیڑے اور تیوریاں چڑھائے اپنے گلے سے فوں فاں غوں غاں شوں شاں قسم کی بے معنی سی آوازیں برآمد کرنے میں مصروف تھے۔ ان کے انداز سے کسی پر یہ عقدہ نہ کھل سکا کہ وہ نواب صاحب کے موقف کی تائید کر رہے ہیں یا تردید۔
- اس کے چند روز بعد ایک شادی کی تقریب میں میری ملاقات چودھری خلیق الزماں صاحب سے ہوئی۔ وہ نہایت ہشاش بشاش اور خوشگوار موڈ میں تھے۔ مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے۔ لو میاں شہاب میں نے تمہارے فیلڈ مارشل کی فوجی وردی اتار کر انہیں مسلم لیگ کے دونی مارکہ کارکنوں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔“
- چودھری صاحب اب تو یہ فرمائیے کہ مسلم لیگ اور ایوب خان دونوں کا اپنا کیا حشر ہو گا؟“ میں نے سوال کیا۔
- چودھری خلیق الزمان نے چہک کر ایک زور کا قہقہہ لگایا اور پھر انہوں نے لہک لہک کر یہ شعر پڑھا:
- ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
- آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
- ہمارے قریب ہی ایک صاحب ہماری باتوں کی طرف کان لگائے ہمہ تن گوش کھڑے تھے۔ شعر سن کر وہ بدکے اور کان کھجاتے ہوئے ہمارے درمیان آ کھڑے ہوئے۔ آتے ہی انہوں نے اس پر قافیہ اور ردیف میں ایوب خان اور مسلم لیگ کے متعلق ایسے فحش اور مغلظات سے بھرے ہوئے اشعار سنانے کا تانتا باندھ دیا کہ الحفیظ و الامان ۔ چودھری خلیق الزماں تو چپکے سے وہاں سے کھسک گئے لیکن چند دیگر لوگوں نے آ کر ہمیں گھیر لیا اور ایک ایک فحش شعر پر بڑھ چڑھ کر داد دینے لگے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ شعر سنانے والے صاحب چودھری خلیق الزماں کے بھائی تھے اور ان کا اسم گرامی غالباً مشفق الزماں تھا۔ سنا ہے کہ ان کے پاس بہت سے موضوعات پر فحش اور غلیظ اشعار کا بہت بڑا ذخیرہ موجود رہتا تھا اور ایسے اشعار سناتے وقت ترنگ میں آ کر وہ خواتین اور بچوں کی موجودگی کا بھی کوئی لحاظ نہ فرماتے تھے۔
- میرے نزدیک بھی صدر ایوب کا سیاست کے خارزار میں قدم رکھنا ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ بدشگونی کے طور پر ان کا پہلا قدم ہی ایک پیچیدہ تخریب کا باعث بن گیا۔ وہ یہ کہ قائداعظم کی مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو کر کنونشن مسلم لیگ اور کونسل مسلم لیگ بن گئی۔ اس طرح بٹ کر یہ جماعت مستقبل میں کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قطعاً معذور ہو گئی۔ موجودہ زمانے میں مزید حصے بخرے ہو کر یہ تین گروہوں میں بکھر گئی ہے جن کا وجود اصولوں کے بجائے چند شخصیتوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ قیوم مسلم لیگ، خواجہ خیر الدین لیگ اور پیر پگارا مسلم لیگ۔ ان تینوں گروہوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو قومی سطح پر کسی سنجیدہ اور باوقار قیادت کا علمبردار ہو۔
- سیاست میں داخل ہو کر مسلم لیگ کی شکست و ریخت کے علاوہ صدر ایوب نے اور کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہیں دیا۔ سیاست پر انہوں نے اپنی الگ کوئی خاص چھاپ نہیں لگائی۔ بلکہ اس کے برعکس وہ مروجہ سیاست کے اپنی ٹیڑھے ترجھے سانچوں میں برضا و رغبت ڈھلتے گئے جن کی تطہیر کے لیے انہوں نے مارشل لاء کا سوانگ رچایا تھا۔ اگر ۸ جون ۱۹۶۲ء کو مارشل لاء اٹھانے کے بعد صدر ایوب اپنا وضع کردہ آئین قومی اسمبلی کے سپرد کر کے کہتے کہ سپر دم بتومایہ خویش را۔ تو دانی حساب کم و بیش را۔ اور اس کے بعد خود کنارہ کش ہو کر گوشہ عافیت اختیار کر لیتے تو تاریخ کا دھارا کوئی اور رخ اختیار کرتا؟
- فیلڈ مارشل لاء کی وفات سے کئی ماہ پہلے یہی سوال میں نے ان کے سامنے اسلام آباد میں دہرایا تھا۔ وہ کچھ دیر سوچ میں ڈوبے رہے۔ پھر سنجیدگی سے بولے۔ تمہارا می سوال ہے نا کہ مارشل لاء اٹھا کر اور نیا آئین نیشنل اسمبلی کے سپرد کر کے اگر میں گھر آ بیٹھتا تو پھر کیا ہوتا؟ میرا جواب سن لو کہ پھر یقینا جزل موسیٰ ہوتا۔"
- جنرل موسیٰ اس زمانے میں پاکستانی فوج کے کمانڈر ان چیف تھے۔
- سات برس بعد جب صدر ایوب واقعی گھر آ کر بیٹھے رہنے پر مجبور ہو گئے تو ان کی جگہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر نے نہ لی بلکہ جزل یحییٰ آئین منسوخ کرنے کے بعد مارشل لاء لگا کر اقتدار سنبھال بیٹھے۔یہ بھی تاریخ کی ایک عجیب ستم ظریفی ہے کہ پاکستان میں آئین بنتے ہی ایک نہ ایک فوجی جرنیل اس کا سر کچلنے کے لیے مارشل لاء کا گرز اٹھائے تیار کھڑا ہوتا ہے۔ چودھری محمد علی والا آئین تین برس چل کر جنرل ایوب خان کے ہاتھوں منسوخ ہو گیا۔ ایوب خان کا آئین سات برس بعد جنرل یحییٰ خان نے پاؤں تلے روند ڈالا۔ ۱۹۷۳ء کا ہمہ جماعتی متفقہ آئین بھی ۱۹۷۷ء سے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔ آئین کی پے در پے پامالی کے بعد وطن عزیز میں اس افسوسناک اور تشویشناک صورت حال کی وجہ آخر کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ آئین کی متواتر اور مزمن بے وقعتی ہے ؟ یا شعبہ سیاست کی کم مائیگی و بدحالی ہے یا بری فوج کے کمانڈر انچیف کی نفسیات میں ایسے اجزا شامل ہو گئے ہیں کہ سول حکومت پر قبضہ جمانے کی ترغیب کے سامنے اس کی قوت مزاحمت جواب دے جاتی ہے ؟
- صدر ایوب کے آئین کے نفاذ کے سوا سال بعد جب میں بطور سفیر تعینات ہو کر ہالینڈ جا رہا تھا تو میں اس وقت کے بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ کو خدا حافظ کہنے جی۔ ایچ۔ کیو گیا۔ باتوں باتوں میں مجھے یہ صاف اندازہ ہو گیا کہ جنرل موسیٰ بڑی بے چینی سے اس امر کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اگر وہ مارشل لاء کے ذریعے صدر ایوب کی حکومت کا تختہ الٹ دیں۔ تو اس کاروائی پر ملک بھر میں کیا ردعمل ہو گا؟ یہ دوسری بات ہے کہ اپنی ہمت کی کمی اور شخصیت کی کمزوری کی وجہ سے وہ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کبھی کوئی معمولی سا قدم بھی اٹھانے سے معذور ہے، البتہ ان کے بعد آنے والے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کا حال دوسرا تھا۔ کمانڈر انچیف کے طور پر یحییٰ خان کا انتخاب اخباروں میں شائع ہوا، تو کئی خفیہ نویس اداروں نے صدر ایوب کو یہ رپورٹیں بھیجیں کہ اس خبر کے بعد ملتان، لاہور اور راولپنڈی میں یحییٰ خان کے قریبی رشتہ داروں نے بغلیں بجائیں، چراغاں کیا اور اس اعلان کے ساتھ مٹھائی بانٹی کہ اب صدارت ہمارے گھر میں آ گئی ہے۔“
- سیٹو اور سینٹو
- اقتدار میں آنے سے بہت عرصہ قبل ہی ایوب خاں صاحب امریکہ پرستی کے بین الاقوامی فیشن ایبل مرض میں مبتلا ہو چکے تھے۔ بری افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے انہوں نے پاکستانی حکومت سے بالا بالا واشنگٹن میں امریکی فوجی ہیڈ کوارٹر Pentagon سے نہایت گہرے دوستانہ روابط قائم کر رکھے تھے۔ امریکی فوجی لیڈروں کے اثر و رسوخ کے تحت اور ان کی رہنمائی میں ہمارے کمانڈر انچیف نے اپنی افواج کو اس طور پر منظّم آراستہ اور مسلح کرنا شروع کیا کہ آئندہ ہمیں امریکہ کی فوجی امداد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا یا متبادل دفاعی حکمت عملی اختیار کرنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو گیا۔
- ۱۹۵۵ء میں امریکہ نے بغداد پیکٹ" کے نام سے مشرق وسطیٰ میں روس کے خلاف محاذ آرائی کا ڈول ڈالا تو دنیائے عرب میں اس کے خلاف شدید ردعمل پیدا ہوا۔ ایران اور ترکی پہلے ہی اپنے اپنے طور پر امریکہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے بیٹھے تھے۔ اس لیے بغداد پیکٹ" میں ان کی شمولیت کوئی حیران کن بات نہ تھی۔ عراق میں وزیراعظم نوری السعید اور ان کا ہم خیال ٹولہ صدر ناصر کی اندھا دھند دشمنی میں حواس باختہ ہو کر امریکن ترغیبات کی بنسی میں ایک کیچوے کی طرح لٹکا ہوا تھا اور بغداد پیکٹ" کی میزبانی کا شرف حاصل کر کے عرب دنیا میں انتشار اور نفاق کا بیج ہو رہا تھا۔ اس وقت پاکستان کو ایسی کوئی خاص مجبوری لاحق نہیں تھی کہ وہ دنیائے عرب کی ناراضگی مول لے کر خواہ مخواہ اس پیکٹ میں شامل ہوتا۔ یوں بھی اس معاہدے کے ساتھ پاکستان کا کوئی فوری مفاد وابستہ نہ تھا کیونکہ ہمارے ابدی دشمن نمبر ایک یعنی بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملے کی صورت میں یہ معاہدہ ہمارے دفاع کی کوئی ذمہ داری قبول نہ کرتا تھا۔ تاہم بری فوج کے کمانڈر انچیف کے دباؤ میں آکر حکومت پاکستان بغیر سوچے مجھے اس پیکٹ میں شامل ہو گئی۔
- عراق میں انقلاب کے بعد بغداد تو اس پیکٹ سے خارج ہو گیا اور یہی معاہدہ سینٹو یعنی (Central Treatry Organization) کا لبادہ اوڑھ کر انقرہ منتقل ہو گیا۔ اس نئی ہیت میں بھی ہم بدستور اس پیکٹ کے ساتھ چپکے رہے۔ اس عمل میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اس کا اندازہ صرف ایڈ، ٹریڈ، توپ و تفنگ اور گولہ بارود کے گوشواروں سے نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کا اصلی جائزہ لینا تو اس وقت ممکن ہو گا جب آزادی اقوام کے آئینے میں وطن عزیز کے واقعات و شواہد تاریخ کی چھلنی سے گزر کر اپنے صحیح پس منظر اور پیش منظر میں رکھے جا سکیں گے۔ فی الحال صرف یہی کہنا کافی ہو گا کہ "بغداد پیکٹ“ عرف سینٹو میں پاکستان کی شمولیت نے مسئلہ کشمیر کو زبردست دھچکا پہنچایا اس معاہدے میں شمولیت پہلے جب کبھی یہ تنازہ یو این۔ او میں پیش ہوتا تھا تو اس پر روس کا رویہ غیر جانبدارانہ رہا کرتا تھا۔ اور سیکیورٹی کونسل میں رائے شماری کے دوران روسی نمائندہ کسی جانب بھی ووٹ ڈالنے سے اجتناب برتا کرتا تھا۔ لیکن اس پیکٹ میں ہمارے شامل ہوتے ہی روس نے مسئلہ کشمیر پر اپنا رویہ مکمل طور پر بدل لیا اور وہ اس موقف پر اڑ گیا کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ حصہ ہے اور وہاں پر اب کسی قسم کا استصواب رائے کروانا ضروری ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ سیکیورٹی کونسل میں بھی روس نے اس معاملے میں پاکستان کے خلاف ویٹو استعمال کرنا شروع کر دیا۔
- سینٹو CENTO کی طرح سیٹو SEATO بھی ایک دوسرا فوجی معاہدہ تھا جو خواہ واہ مفت میں ہمارے سر بڑا عرصہ منڈھا رہا۔ سیٹو (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن( بھی امریکہ کی رہنمائی میں مغربی مفاد پرستی کا ایک حربہ تھا جو جنوب مشرقی ایشیا میں چین کی ناکہ بندی کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ اس میں ہماری شمولیت بھی نہ پاکستان کے لیے ضروری تھی نہ سود مند تھی۔
- اس زمانے میں یہ افواہ بھی گرم تھی کہ ستمبر ۱۹۵۴ء میں جب اس معاہدہ پر غور و خوض کے لیے متعلقہ ممالک کی کانفرنس منیلا میں منعقد ہوئی تو اس میں پاکستان کے وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خاں کو محض آبزرور (Observer) کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ حکومت پاکستان نے انہیں اس بات کی اجازت نہ دی تھی کہ وہ اس معاہدہ میں پاکستان کی شمولیت تسلیم کر کے آئیں۔ لیکن کسی وجہ سے چودھری ظفر اللہ خاں نے خود اپنی صوابدید پر اس معاہدہ پر دستخط کر دیے تھے اور اس طرح کی کسی اور وجہ سے کانفرنس کے شرکا نے فل پاور Full Power کے بغیر ان کے دستخط قبول بھی کر لیے۔ اگر یہ افواہ واقعی صحیح ہے تو یہی سمجھنا چاہیے کہ بچارے پاکستان کو زبردستی ایک ناپسندیدہ اور غیر نافع بین الاقوامی معاہدے میں ٹھونس دیا گیا تھا۔
- میں نے صدر ایوب سے درخواست کی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ میں وزارت خارجہ اور کابینہ کے ریکارڈ دیکھ کر اس افواہ کی تصدیق یا تردید کر سکوں جو ہر دور میں ایک نیا رنگ لے کر زبان زد خاص و عام ہوتی رہتی ہے۔ انہوں نے بخوشی اجازت دے دی لیکن وزارت خارجہ اور کیبنٹ سیکرٹریٹ والوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا یہ اطلاع صدر مملکت نے کسی سرکاری حوالے کے لیے طلب فرمائی ہے یا میں یہ تفتیش صرف اپنی ذاتی حیثیت سے کر رہا ہوں۔ میں نے سچ سچ تسلیم کر لیا کہ یہ اطلاع صدر ایوب نے کسی سرکاری غرض کے لیے طلب نہیں کی۔ اس پر ان دونوں دفاتر کے بابو صفت افسر دفتری معاملات کو صیغہ راز میں رکھنے والے بے معنی اور فرسودہ قواعد و ضوابط کی آڑ میں چپ سادھ کر بیٹھ گئے۔ آزاد دنیا کے مہذب ممالک میں خفیہ سے خفیہ راز ہائے سربستہ کو بھی کم و بیش تیس برس گزرنے کے بعد بر سر عام فاش کر دیا جاتا ہے تاکہ قومی تاریخ کی تدوین و تصدیق کے تقاضے ہر زمانے میں بعنوان شائستہ پورے ہوتے رہیں۔ سیٹو میں بھی ہماری شمولیت کو اب کوئی تیس برس ہوا چاہتے ہیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ اب حکومت پاکستان اس موضوع پر متعلقہ کاغذات اور دستاویزات منظر عام پر لانے میں پس و پیش نہ کرے گی۔ تاکہ تاریخ کے طالب علم ان سے کھلے بندوں استفادہ کر سکیں۔ اور اس سلسلے میں اگر کسی غلط افواہ نے وقتاً فوقتاً سر اٹھایا ہے تو اس کا مناسب سدباب ہو سکے۔
- جب ہم نے بغداد پیکٹ (سینٹو) اور سیٹو میں شمولیت اختیار کی تو ہمارے خلاف بھارت میں بھی شدید واویلا مچایا گیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ الزم لگایا کہ ان معاہدوں میں شامل ہو کر ہم سپر پاورز کی باہمی "سرد جنگ" کو پاک بھارت برصغیر کی حدود میں کھینچ لائے ہیں۔
- اس میں کلام نہیں کہ امریکی ڈالروں کی چمک دمک سے تو ہماری آنکھیں روز اول ہی سے خیرہ ہو رہی تھیں۔ لیکن خود امریکیوں کی نگاہ میں پاکستان کی حقیقی قدر و قمیت کیا تھی، اس کا اندازہ تاریخی واقعات اور شواہد کی روشنی ہی میں لگایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دو باتوں کو ہرگز فراموش نہ کرنا چاہیے۔ ایک تو یہ کہ امریکہ ایک نہایت عظیم سپر پاور ہے۔ اس کی طاقت، عظمت اور خوشحالی کا انحصار نہ پاکستان کے وجود پر ہے اور نہ ہی پاکستان کی خیر سگالی اور خوشنودی پر ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کی دلچسپی، دوستی اور گرمجوشی وقتاً فوقتاً صرف اس حد تک قائم ہو سکتی ہے جس حد تک کہ ہم عالی بساط سیاست پر شطرنج کے مہرے کی طرح اس کے لیے کار آمد ثابت ہوتے رہیں گے۔ ہماری اسی افادیت کے اتار چڑھاؤ پر ہمیں کبھی امریکی فوجی یا معاشی امداد ملنے لگتی ہے کبھی بند ہو جاتی ہے یا کبھی اس میں ترمیم و تجدید یا تخفیف و تعویل ہوتی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکن ایڈ کا کوئی پیمانہ قابل عمل نہیں اور قابل اعتبار نہیں کیونکہ لین دین کے اس کاروبار میں کسی اصول،خلوص یا مروت کا بالکل کوئی عمل دخل نہیں۔ دوسری بات جو یاد رکھنے کے قابل ہے، یہ ہے کہ ہر امریکی حکومت میں عموماً یہودیوں کا عنصر کافی حد تک غالب رہتا ہے۔ اسلام کے حوالے سے یہودی پاکستان کے ازلی اور ابدی دشمن ہیں اور اپنے مفاد کے محدود تقاضوں کے علاوہ اس کی کوئی مزید مدد کرنا کبھی قبول یا گوارا نہ کریں گے۔
- کمانڈر انچیف کی حیثیت سے جنرل ایوب خان نے امریکن فوجی ہیڈ کوارٹر کے ساتھ جو پینگیں بڑھائی تھیں، ان کا ایک منطقی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایک فوجی معاہدہ طے کرنے کی گفت و شنید شروع ہو گئی۔ اس زمانے میں پاکستان کے وزیراعظم محمد علی بوگرا نے کافی دوڑ دھوپ کے بعد طرح طرح کے ہاتھ پاؤں مار کر پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ مسئلہ کشمیر پر گفتگو کرنے کے لیے دہلی میں ایک ملاقات کا راستہ ہموار کیا۔ اس ملاقات کے بعد اگست ۱۹۵۳ء میں دونوں وزرائے اعظم نے ایک مشترکہ اعلان جاری کیا جسمیں واشگاف طور پر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا گیا تھا کہ تنازعہ کشمیر ریاست کے عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے گا۔ اور کشمیری عوام کی خواہشات ایک منصفانہ اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے معلوم کی جائے گی۔ ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کیا گیا تھا کہ آٹھ ماہ کے اندر اندر ایک (Plebiscite Administrator بھی تعینات کر دیا جائے گا۔ لیکن جونہی پنڈت جواہر لال نہرو کے کان میں یہ بھنک پڑی کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان کوئی دفاعی معاہدہ طے ہو رہا ہے۔ وہ فوراً قلابازی کھا کر اپنے اس اعلان اور فیصلے سے بے حجابانہ مکر گئے۔ انہوں نے انتہائی سخت اور تند لہجے میں وزیراعظم محمد علی بوگرا کو لکھا کہ اگر پاکستان نے امریکہ کے ساتھ کوئی فوجی معاہدہ طے کیا تو پاک بھارت تعلقات پر نہایت مضر اور ناخوشگوار اثر پڑے گا اور تنازعہ کشمیر کے متعلق پچھلے تمام فیصلے اور سمجھوتے کالعدم تصور کیے جائیں گے۔ ہندوستان کی اس بے جا غوغا آرائی کے باوجود پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک دفاعی معاہدہ پر جو (Mutual Defence Assistance Agreement) کے نام سے موسوم تھا مئی ۱۹۵۴ء میں دستخط ہو گئے۔ پاکستان ایشیا کا واحد ملک تھا جو بھارت کی شدید ناراضگی مول لے کر اور کشمیر میں استصواب رائے کے متفقہ فیصلے سے ہاتھ دھو کر امریکہ کے ساتھ فوجی معاہدے میں منسلک ہوا تھا۔ روس کی ناراضگی مول لے کر اور مسئلہ کشمیر میں روس کی شدید مخالفانہ روش اختیار کرنے کے باوجود بغداد پیکٹ عرف سینٹو کا رکن بنا۔ اور چین کی ناراضگی کا خطرہ مول لے کر سیٹو کی رکنیت اختیار کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب "ہندی چینی بھائی بھائی“ کا نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اپنے پورے عروج پر گونج رہا تھا۔ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اپنی اس عاجزانہ وفاداری اور فدویانہ اطاعت شعاری کو جس خلوص، نیاز مندی اور پابندی سے نبھایا وہ ہماری مجبوری یا معذوری یا کوتاہ اندیشی تھی۔ لیکن جواباً امریکہ نے وقتاً فوقتاً ہمیں جس سلوک سے نوازا اسے بیان کرنے کے لیے ایک سپر پاور کے پاس کوئی الفاظ ہوں تو ہوں، عام انسانیت کا نصاب اخلاق ان الفاظ سے قطعی کورا ہے۔
- پانچ برس بعد ۱۹۵۹ء میں پاکستان اور امریکہ کے مابین ایک باہمی تعاون کا معاہدہ طے پایا
- Bilateral Agreement of Co- operation between the united States of America and Pakistan
- جس کی ایک اہم شق یہ تھی کہ اگر پاکستان پر کوئی جارحانہ حملہ ہوا تو امریکہ اس کی مدد پر آئے گا۔ اس معاہدے کی خبر پاتے ہی بھارت نے امریکہ کو ایسا آڑے ہاتھوں لیا کہ بہت جلد پنڈت نہرو نے لوک سبھا میں ڈنکے کی چوٹ یہ اعلان کیا کہ امریکہ حکومت نے انہیں یقین دہانی دلا کر ضمانت دی ہے کہ اس معاہدے کا اطلاق ہندوستان پر نہیں ہو گا۔ دوسرے الفاظ میں بھارت کو کھلی آزادی تھی کہ وہ جب چاہے اور جتنی بار چاہے پاکستان پر حملہ آور ہوتا رہے۔ امریکہ اپنے حلیف پاکستان کی ہرگز کوئی مدد نہ کریگا۔ در حقیقت ہوتا بھی یونہی رہا ہے۔ اس زمانے میں کسی غیر ملکی صحافی نے صدر ایوب سے سوال کیا تھا کہ اگر آپ کی ہندوستان کے ساتھ جنگ چھڑ جائے تو کیا آپ بھارت کے خلاف وہ اسلحہ استعمال کر سکیں گے جو کسی معاہدہ کے تحت امریکہ سے حاصل کیا گیا؟ صدر ایوب نے سیدھا دو ٹوک یہ جواب دیا تھا کہ فوجی اسلحہ جنگ کی صورت میں استعمال کرنے کے لیے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ کچی روئی Cotton Wool) میں لپیٹ کر رکھا نہیں جاتا۔ اس پر امریکی سفارتخانہ بڑا برہم ہوا تھا۔ بلکہ ایک پارٹی میں کسی امریکن سفارتخانے نے تندی و تلخی سے یہ پھبتی اڑائی تھی کہ ہم نے صدر ایوب کی یہ بات سنی ہی نہیں کیونکہ اس وقت ہم اپنے کانوں میں کچی روئی ٹھونسے بیٹھے تھے۔
- صدر کینڈی کی دعوت پر صدر ایوب نے جولائی 1961ء میں امریکہ کا دورہ کرنا تھا۔ اس دورے میں ہمارے صدر کی تقاریر اور گفت و شنید کے موضوعات متعین کرنے کے لیے مختلف وزارتوں سے تجاویز طلب کی گئیں۔ اور ان تجاویز پر غور کرنے کے لیے متعلقہ وزیروں کی ایک میٹنگ بھی منعقد ہوئی۔ اس میٹنگ کی کارروائی دیکھ کر میں دم بخود رہ گیا۔ کیونکہ ان سب تجاویز کا مجموعی تاثر یہ تھا کہ صدر ایوب اپنے دونوں ہاتھوں میں کشکول گدائی اٹھائے امریکہ جائیں اور منت سماجت، خوشامد اور چاپلوسی کی باتیں کر کے امریکیوں کی خودپسندی کو تقویت دیں اور اپنی جھولی میں امریکی امداد کی رقم بڑھوا کر فتح و نصرت کے شادیانے بجاتے گھر واپس آ جائیں۔ ڈالروں کی ریل پیل بڑھنے کی توقع اور امکان پر صدر ایوب کے منہ میں بھی پانی بھر آیا اور وہ غلامانہ ذہنیت کی ان تجاویز پر نہایت خوشدلی سے اثبات میں سر ہلاتے رہے۔
- یہ میٹنگ ختم ہوئی تو وزارت خارجہ کے سیکرٹری ایس کے دہلوی اور سیکرٹری اطلاعات نذیر احمد میرے کمرے میں آئے۔ وہ دونوں بھی اس میٹنگ کے رنگ ڈھنگ پر سخت برہم تھے۔ ان کا وسیع تجربہ، قابلیت اور جذبہ حب الوطنی اس قدر جوش میں آیا ہوا تھا کہ ان کا اصرار تھا کہ اگر صدر ایوب اسی طرح کاسہ گدائی ہاتھ میں لے کر امریکہ گئے تو وہ اپنے اپنے عہدوں سے سبکدوش ہونے کے لیے تیار ہیں۔ اس رات ہم تینوں میرے گھر میں ساری شب بیٹھے رہے۔ اور ہم نے صدر کے دورہ امریکہ کے لیے ایک نیا بریف (Brief) تفصیل سے تیار کر لیا۔ اس کا لب لباب یہ تھا کہ مصدر کو ایک آزاد مملکت کے باوقار سربراہ کی حیثیت سے امریکہ کا دورہ کرنا چاہیے اور پاکستان کے مسائل اور مشکلات کو حسن تدبر اور بے باکی سے امریکی عوام، حکومت اور کانگریس کے سامنے بیان کرنا چاہیے۔ جہاں تک امریکہ امداد کا تعلق ہے، وہ ہاتھ پھیلا کر مانگنے سے نہیں ملتی۔ بلکہ امریکہ کے اپنے مفاد کے پیمانے سے ناپ کر دی جاتی ہے۔ امریکہ کے اس دورے کا بنیادی مقصد یہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس کے ذریعہ وطن عزیز کی قدر و منزلت میں اضافہ ہو اور بین الاقوامی سطح پر ہماری عزت نفس بڑھے۔
- چونکہ اس زمانے میں میں صدر ایوب کے سیکرٹری کے طور پر متعین تھا، اس لیے میری ڈیوٹی لگی کہ یہ نوٹ میں خود جناب صدر کی خدمت میں پیش کروں۔ اس پر دستخط ہم تینوں نے کیے تھے۔
- صبح سویرے دفتر پہنچ کر میں نے یہ نوٹ صدر ایوب کے پاس بھیج دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد میرے انٹر کام (Intercom) کا بلب ٹمٹمایا جس کا مطلب تھا کہ صدر صاحب خود ٹیلیفون پر ہیں۔ میں نے ریسیور اٹھایا تو وہ غضبناک لہجے میں گرج برس رہے تھے۔ ان کے الفاظ یہ تھے۔
- ”(میں نے یہ لغویات پڑھ لی ہیں۔ تم لوگ اس خیال میں ہو جیسے میں امریکہ صرف مکئی کھیلیں اور آئس کریم کھانے جا رہا ہوں۔ نہیں جناب، نہیں جناب۔ میں ملک کے لیے کوئی بہتری کرنے کی کوشش میں ہوں۔ آخر تم لوگوں کو یہ جسارت ہی کیسے ہوئی کہ میرے وزیروں کے متفقہ فیصلوں کو رد کرنے کا سوچو؟ نہیں جناب۔ اس طرح کام نہیں چل سکتا۔)"
- اتنا کہہ کر صدر ایوب نے دھماکے کے ساتھ اپنا ریسیور ٹیلیفون پر دے مارا اور مجھے کچھ کہنے کا موقع تک نہ ملا۔ میں نے فوراً فون کر کے دہلوی صاحب اور نذیر احمد صاحب کو اس صورت حال کی خبر دی۔ دہلوی صاحب تو کسی قدر پریشان ہوئے۔ لیکن نذیر احمد نے زور کا قہقہہ لگایا اور کہا۔ تم فائرنگ لائن میں بیٹھے ہو۔ اب بھگتو۔ لیکن خبردار ڈرنا مت بس ڈٹے رہو۔"
- اس روز دن کے ڈیڑھ بجے کے قریب صدر ایوب اپنے دفتر سے اٹھے۔ ان کا معمول تھا کہ برآمدے سے گزرتے ہوئے وہ اکثر میرے کمرے کی کھڑکی کے سامنے لمحہ دو لمحہ رک کر سلام دعا کر لیا کرتے تھے اور اگر ان کے ذہن میں یا میرے پاس کوئی ضروری کام ہوتا تو اس کے متعلق چند باتیں بھی کر لیتے تھے۔ لیکن آج وہ اس قدر تاؤ میں تھے کہ میری کھڑکی کی جانب آنکھ تک نہ اٹھائی اور ناک کی سیدھ میں آگے بڑھ گئے۔ دوسری صبح اپنے دفتر کی طرف جاتے ہوئے بھی انہوں نے یہی رویہ روا رکھا اور دوپہر کے وقت بھی ایسا ہی کیا۔ ان دو دنوں کے دوران انہوں نے میرے ساتھ نہ کوئی بات کی اور نہ ہی ٹیلیفون کیا۔ ان کے اس برتاؤ نے میرے دل میں بھی کسی قدر آزردگی پیدا کی۔ قومی سطح کے کسی اہم سرکاری معاملے پر اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرنا ہمارا فرض تھا۔ اسے مان لینا یا رد کر دینا صدر مملکت کا اپنا اختیار تھا۔ اگر ہمارے فرض کی ادائیگی ان کو اس قدر گراں گزری تھی تو وہ ہم تینوں کو ہمارے عہدوں سے تبدیل کر سکتے تھے یا بیک جنبش قلم ہمیں ریٹائر یا موقوف بھی کر سکتے تھے لیکن بگڑے ہوئے بچے یا بدمزاج ساس کی طرح اٹوانٹی کھٹوانٹی لے کر روٹھ بیٹھنا ان کی شان کے شایاں نہ تھا ان کے اس طرز عمل کے جواب میں تیسرے دن میں نے بھی ایک ایسی ہی طفلانہ حرکت کی۔ میں نے برآمدے کی طرف کھلنے والی کھڑ کی اندر سے بند کر کے کنڈی چڑھا لی۔ غالباً میری اس حرکت پر ان کی رگ ظرافت پھڑک اٹھی اور چوتھی صبح وہ اپنے دفتر میں جانے کی بجائے میرے کمرے میں آ گئے۔ اندر آ کر انہوں نے نیم سنجیدگی سے کہا۔ ” تازہ ہوا صحت کے لیے مفید ہے۔ کمرے کی کھڑکی کھول کر بیٹھنا چاہیے۔"
- پھر وہ اپنے پرانے معمول کے مطابق میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے اور کسی ہچکچاہٹ کے بغیر مجھے بتایا کہ کافی سوچ بچار کے بعد امریکہ کے دورے کے متعلق اب وہ ہمارے ہم خیال ہو گئے ہیں۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے انہوں نے ان موضوعات اور نکات کا جائزہ لیا جو انہیں امریکہ میں جا کر اٹھانے چاہئیں۔ امریکی کانگریس کے سامنے اپنی تقریر کا انہیں خاص خیال تھا۔ وہاں پر وہ لکھی ہوئی تقریر پڑھنا نہیں چاہتے تھے۔ بلکہ فی البدیہہ خطاب کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مجھے چند مختصر سے نوٹ تیار کرنے کی ہدایات دیں۔ آخر میں انہوں نے حکم دیا کہ ان کا دورہ شروع ہونے سے چند روز قبل میں دہلوی صاحب اور نذیر احمد صاحب کے ہمراہ واشنگٹن پہنچ جاؤں۔ اور ہم لوگ اپنے سفیر مسٹر عزیز احمد کے ساتھ مل جل کر اس دورے کے نئے رخ کو بعنوان شائستہ نبھانے کی کوشش کریں۔
- صدر ایوب کا دورہ شروع ہونے سے چار پانچ روز قبل ہم تینوں واشنگٹن پہنچ گئے۔ وہاں پر مسٹر عزیز احمد نے ہمیں بتایا کہ پریزیڈنٹ کینڈی بذات خود تو نہایت ذہین، روشن خیال اور حقیقت شناس انسان ہیں۔ لیکن ہاورڈ یونیورسٹی کے دانشوروں کے ایک ایسے گروہ نے انہیں اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے جو جذباتی طور پر پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی جانب زیادہ مائل ہیں۔ اس لیے صدر ایوب کو اپنے دورے میں ہر مقام پر پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہو گا۔
- واشنگٹن میں صدر ایوب کی آمد سے چند منٹ پہلے پریذیڈنٹ کینڈی بھی صدارتی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ہوائی اڈے پر آ گئے۔ مسٹر عزیز احمد نے ان کے ساتھ ہم تینوں کا تعارف کرایا تو وہ مسکرائے اور بولے ”میں مان گیا۔ صدر ایوب واقعی ایک عملی فوجی کمانڈر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے وفد کا ہراول دستہ تو پہلے ہی سے یہاں بھیج رکھا ہے!
- صدر کینڈی اور مسٹر عزیز احمد نے جو سوٹ زیب تن کیے ہوئے تھے وہ ایک ہی جیسے کپڑے سے بنے ہوئے تھے۔ جونہی مسٹر کینڈی کے مشاہدے میں یہ بات آئی انہوں نے فوراً کیا۔ مسٹر ایمبیسڈر۔ کیا یہ نیک فال نہیں کہ ہم دونوں نے ایک ہی سا لباس پہنا ہوا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ ہمارے مذاکرات میں بھی ایسی ہی ہمخیالی قائم رہے گی۔“ صدر کینڈی جوانی، رعنائی، خوش گفتاری اور ذہانت کا سیماب صفت پیکر تھے۔ کبھی کبھی ان کا انداز ایک ایسے الھڑ نوجوان کے ساتھ مشابہت کھانے لگتا تھا جو ابھی ابھی اپنے کالج کی کلاس میں کسی قسم کی شرارت کر کے بھاگا ہو۔ ان کی نیلی نیلی آنکھوں میں بلا کی تیزی اور گہرائی تھی، وزیروں، مشیروں اور سفیروں کے ہجوم کے درمیان بھی وہ یوں نظر آتے تھے جیسے اکیلے اور تنہا ہوں۔ صدر ایوب کے ساتھ دو بار امریکہ کے دوروں میں مجھے صدر کینڈی کو کئی بار کانی نزدیک سے دیکھنے کا موقع میسر آیا۔ ہر بار مجھے یہی احساس ہوا کہ ان کی دلنواز مسکراہٹ اور چلبلاہٹ کے پردے میں ایک بے نام سا حزن و ملال بھی پوشیدہ ہے۔ صدر ایوب نے اپنے پہلے دورہ امریکہ کو نہایت خوش اسلوبی، خودداری اور خود اعتمادی کے ساتھ نبھایا۔ مسٹر اور مسز کینڈی نے بھی دل کھول کر ان کی خاطر و مدارات کی، مذاکرات بھی اچھے رہے۔ اس زمانے میں یہ افواہ زوروں پر تھی کہ امریکی حکومت Mutual Security Act میں ایسی ترامیم لا رہی ہے، جن سے غیر جانبدار ممالک کو بھی معاشی اور فوجی امداد فراہم کرنا ممکن ہو جائے گا۔ صدر ایوب نے کہا کہ اگرچہ بھارت روس سے باضابطہ ہر قسم کی فوجی اور معاشی امداد حاصل کرتا رہا ہے لیکن امریکہ کی نظر میں وہ ہمیشہ ایک غیر جانبدار ملک ہی رہا ہے۔ اب اگر قانون میں مجوزہ ترمیم کے بعد بھارت بھی امریکن فوجی امداد کا قانونی طور پر حقدار بن گیا تو پاکستان جیسا آپ کا پرانا دوست کہاں جائے گا؟
- صدر کینڈی نے دو ٹوک الفاظ میں برملا یہ یقین دلایا کہ امریکہ بلاشبہ پاکستان کی دوستی کی قدر کرتا ہے۔ صدر ایوب خاطر جمع رکھیں کہ ہندوستان کو کسی قسم کی فوجی امداد فراہم کرنے سے پہلے امریکہ پاکستان کو اعتماد میں لے کر اس سے ضرور مشورہ کرے گا۔
- لیکن حیف صد حیف کہ صدر کینڈی اپنا یہ وعدہ وفا نہ کر سکے۔ جونہی بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھٹرپ رونما ہوئی، امریکہ کی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ چینی فوج سے بری طرح شکست کھا کر بھارتی فوج سر پر پاؤں رکھ کر میدان جنگ سے بھاگی تو امریکہ نے بھی فوراً اپنی خیر سگالی کا ڈول ڈالا اور پاکستان کو اعتماد میں لیے بغیر برطانیہ کے ساتھ مل کر ہندوستان کو بے دریغ ہر قسم کی فوجی امداد دینا شروع کر دی۔ واشنگٹن میں ہمارے سفیر نے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے لیکن اس کے احتجاج پر کسی نے کان تک نہ دھرے۔ سب لوگ یہی کہہ کر ٹالتے رہے کہ ہندوستان کو جو اسلحہ دیا جا رہا ہے وہ صرف چین کے خلاف استعمال ہو گا، پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
- لیکن پاکستان میں ہم بھارت کے اصلی عزائم سے خوب واقف تھے، ہم پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں تھی کہ دشمنی کی ترجیحات میں بھارت کے نزدیک اس کا سب سے بڑا دشمن پاکستان ہے، چین نہیں۔ اس لیے جلدی یا بدیر یہ اسلحہ پاکستان ہی کے خلاف استعمال ہو گا جیسا کہ حقیقت میں ہوا، پہلے ۱۹۶۵ء میں۔ بعدازاں ۱۹۷۱ء میں۔ روز اول ہی سے پاکستان نے امریکہ کے ساتھ اپنی وفاداری اور تابعداری نبھانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ ہمارے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خاں نے روس کا دعوت نامہ پس پشت ڈال کر امریکہ کا دورہ قبول کر لیا۔ گورنر جنرل غلام محمد اور صدر اسکندر مرزا کے زمانے میں امریکی مشیر ہمارے کاروبار حکومت پر ٹڈی دل کی طرح چھائے رہے۔ کمانڈر انچیف کی حیثیت سے صدر ایوب نے ہماری افواج کو اس طرز پر منظّم اور مسلح کیا کہ ہماری دفاعی شہ رگ ہمیشہ کے لیے امریکہ کی مٹھی میں دب کر رہ گئی۔ روس اور عرب ممالک کی ناراضگی مول لے کر ہم بغداد پیکٹ عرف سینٹو کے رکن بنے تاکہ امریکہ کی خوشنودی ہمارے شامل حال رہے۔ سیٹو میں شامل ہو کر ہم نے چین کی ناکہ بندی میں حصہ لیا تا کہ امریکہ کی خیر سگالی ہمارے ساتھ قائم و دائم رہے۔ لیکن ہماری جانب سے یہ صرف یکطرفہ ٹریفک تھی۔ دوسری جانب سے ہمیں گھر کی مرغی دال برابر سمجھ کر حسب ضرورت پیٹ بھرنے کے لیے تھوڑا بہت دانا دنکا ڈال دیا جاتا تھا ورنہ امریکہ کی اصلی کوشش اور خواہش ہندوستان کو رام کرنے کی تھی جو روس کی گود میں بیٹھ کر امریکہ کو ٹھینگا بھی دکھاتا تھا، اور اپنی نام نہاد غیر جانبداری کا گھونگھٹ نکال کر ۱۹۵۱ء سے ایک Mutual Defence Assistant Agreement کے تحت چپکے چپکے امریکن فوجی امداد بھی مسلسل حاصل کر رہا تھا۔
- یہ عجیب بات ہے کہ پاکستان کے وجود میں آتے ہی امریکہ کے چند عناصر نے اس کی مخالفت پر کمر باندھ لی تھی۔ بٹوارہ تو ہندوستان کا ہوا تھا، لیکن اس کا چرکہ امریکہ کے کچھ یہودی اور یہودی نواز طبقوں نے بری طرح محسوس کیا تھا۔ ۱۹۵۰ء کی بات ہے کہ ڈھا کہ میں ایک امریکن کاروباری فرم کا ایک نمائندہ کچھ عرصہ سے مقیم تھا۔ بظاہر اس کا نام (Crook Mr.) تھا لیکن باطن میں بھی وہ اسم بمسمہ ثابت ہوا۔ کیونکہ رفتہ رفتہ یہ راز کھلا کہ وہ مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بونے میں ہمہ تن مصروف تھا۔ پاکستان کی سالمیت کے خلاف اس کی کارروائیوں کا علم ہوتے ہی حکومت نے اسے بلا تاخیر ناپسندیدہ شخص قرار دے کر ملک سے نکال باہر کیا۔
- چند قابل قدر مستثنیات کو چھوڑ کر پاکستان میں وقتاً فوقتاً متعین ہونے والے امریکی سفیر اور سفارت کار بھی بعض اوقات ایک مشہور کتاب "The Ugly Amerecan" کے چلے پھرتے کردار نظر آتے تھے۔ ایک سفیر صاحب ایسے تھے جو صدر مملکت کے ساتھ اپنی ملاقات کا وقت پہلے سے مقرر کروانا اپنی ہتک عزت تصور فرماتے تھے۔ ان کا جب جی چاہتا تھا وہ اپنی کار میں بیٹھ کر اچانک ایوان صدارت میں وارد ہو جاتے تھے۔ اور جناب صدر ہزار کام چھوڑ کر انہیں خوش آمدید کہنے پر مجبور تھے۔
- ایک بار کراچی کے ایوان صدر میں رات کے وقت کوئی لمبی چوڑی تقریب منعقد ہو رہی تھی۔ گرمی کا موسم تھا۔ ڈنر کے بعد باہر لان میں صدر کے باڈی گارڈ کا بینڈ اپنے جوہر دکھانے لگا۔ مہمان چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ ایک ایسا ہی گروپ چند امریکی سفارت کاروں اور عالمی بینک کے کارکنوں پر مشتمل شراب ناب سے شغل فرما رہا تھا۔ دو تین پاکستانی افسر بھی انکی خاطر تواضع میں لگے ہوئے تھے۔ شامت اعمال سے ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی کے ساتھ اردو زبان میں چند فقرے بول بیٹھا۔ اس پر ایک امریکی سفارت کا پارہ چڑھ گیا، اور اس نے دونوں کو چیخ کرڈانٹا (Shut up, No urdu here) ( بکواس بند کرو یہاں اردو نہیں چلے گی) اس کے علاوہ وہ بلند آواز میں پاکستانیوں کے مجلسی آداب و رسوم میں کیڑے نکالنے بھی بیٹھ گئے۔ بیچ بچاؤ کرنے کے لیے میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو اس نے ڈانٹ کر مجھے بھی ایک طرف دھکیل دیا۔ اس کی اس بدتمیزی پر مجھے غصہ آ گیا، اور میں نے اس کے ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا۔ "میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اردو کے چند فقروں نے اس نازک بدن کے کس مقام پر شدید ضرب لگائی ہے کہ وہ خواہ مخواہ اس قدر بلبلا رہا ہے۔"
- یہ سن کر ایک اور امریکی اپنی کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ اس کا نام غالباً Mr. Bell تھا اور وہ کسی مالیاتی یا معاشیاتی ادارے کے ساتھ وابستہ تھا اس نے نہایت دھیمے انداز سے کہا۔ ”اس کی وجہ میں سمجھاتا ہوں۔ اردو نہ کوئی مجلسی زبان ہے اور نہ ہی تمدنی زبان ہے۔ اس زبان میں Public کے لیے اپنا کوئی لفظ نہیں کیونکہ آپ لوگ پبلک کو درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ اس زبان میں Public Servant کے لیے افسر کے علاوہ اپنی کوئی اصطلاح نہیں، کیونکہ یہاں پر Public service کا تصور سرے سے مفقود ہے۔“
- وہ کچھ دیر اسی طرح بے تکان بولتا رہا۔ اس کے امریکی ساتھی تو خیر اسے داد دے ہی رہے تھے لیکن ہماری نوکر شاہی کے چند کل پرزے کبھی موقع واردات پر آ پہنچے اور بڑی خوشدلی سے اثبات میں سر ہلانے لگے۔
- صدر ایوب کے اقتدار کے آخری چند برسوں میں یہاں پر امریکہ کے جو سفیر متعین تھے ان کا اسم گرامی مسٹر بی ایچ اوہلرٹ (Mr. BH Oelhert Jr) تھا۔ یہ صاحب نسلاً یہودی تھے، اور کسی کوکا کولا بنانے والی کمپنی کے غالباً وائس پریذیڈنٹ تھے۔ وہ وضع قطع میں بے ڈول، چال ڈھال میں بے ہنگم، اخلاق و آداب میں اکھڑ اور سفارتی رکھ رکھاؤ اور شائستگی سے بڑی حد تک بے نیاز تھے۔ ایک روز راولپنڈی کے انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل میں کوئی استقبالیہ تھا۔ وہاں سے فارغ ہو کر ہم لوگ برآمد میں کھڑے اپنی اپنی گاڑیوں کا انتظار کر رہے تھے۔ مسٹر اوبرٹ کی گاڑی پہلے آ گئی۔ انہوں نے اصرار کر کے اسلام آباد جانے کے لیے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا۔ جتنا عرصہ ہم مری روڈ سے گزرتے وہ پاکستانی سڑکوں پر ٹریک اور پیدل چلنے والوں کے رنگ ڈھنگ پر طرح طرح کی پھبتیاں کستے رہے۔ موٹریں، بسوں، رکشاؤں اور سکوٹروں کے ہجوم میں بدحواس ہو کر ادھر ادھر بھٹکنے والے راہگیروں کو وہ تمسخر اور تکبر سے Bipeds (در پایہ مخلوق) کے لقب سے نوازتے تھے۔ فیض آباد کے چوک پر پہنچ کر جب ہم شاہراہ اسلام آباد کی طرف مڑنے والے تھے تو مسٹر اوہلرٹ نے اچانک اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے اور اپنا سر گھٹنوں میں دے کر سیٹ پر جھک گئے۔ مجھے یہی خیال آیا کہ ان کی آنکھ میں کوئی مچھر یا مکھی گھس گئی ہے اور وہ بے چارے سخت تکلیف میں مبتلا ہیں۔
- میں نے ازراہ ہمدردی ان سے دریافت کیا۔ ” آپ خیریت سے تو ہیں؟"
- مسٹر اوپرٹ نے اپنی گاڑی ایک طرف رکوائی اور تیکھے لہجے میں بولے ”میں بالکل خیریت سے نہیں۔ میں کس طرح خیریت سے ہو سکتا ہوں؟ وہ دیکھو۔" انہوں نے باہر کی طرف اشارہ کر کے کہا ”وہ دیکھو آنکھوں کا خار میں جتنی بار ادھر سے گزرتا ہوں، میری آنکھوں میں یہ کانٹا بری طرح کھٹکتا ہے۔”
- میں نے باہر کی طرف نظر دوڑائی تو چوراہے میں ایک بڑا اشتہاری بورڈ آویزاں تھا۔ جس پر پی۔ آئی۔ اے کا ایک رنگین اشتہار دعوت نظارہ دے رہا تھا اس اشتہار میں درج تھا کہ پی آئی اے سے پرواز کیجیے اور چین دیکھیے!
- میں نے انہیں اطمینان ولانے کی کوشش کی کہ یہ محض ایک ائیرلائن کا تجارتی اشتہار ہے۔ اسے اپنے اعصاب پر سوار کر کے سوہان روح بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ اس زمانے میں چین کے خلاف بغض اور دشمنی کا بھوت پوری امریکن قوم کے سر پر بری طرح سوار تھا۔ خاص طور پر اس معاملے میں مسٹر اوہلرٹ مریضانہ حد تک ذکی الحس تھے۔ اس لیے میری بات سن کر وہ خوش نہ ہوئے بلکہ کسی قدر برا سا منہ بنا کر گم سم بیٹھ گئے۔
- چند روز بعد میں نے دیکھا کہ فیض آباد چوک سے چین والا بورڈ اٹھ گیا ہے اور اس کی جگہ پی آئی اے کا اشتہار بنکاک دیکھنے کی دعوت دے رہا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ تبدیلی محض تجارتی نکتہ نظر سے رونما ہوئی تھی یا اس معاملے میں مسٹر اوہلرٹ کے آشوب چشم کی کچھ رعایت بھی ملحوظ رکھی گئی تھی۔
- چین کے حوالے سے مجھے مسٹر اوہلرٹ کی نازک مزاجی کا ایک اور تجربہ بھی ہوا۔ ایک بار راولپنڈی کے گورنمنٹ گرلز کالج میں کوئی امریکی پروفیسر تقریر کرنے آیا ہوا تھا۔ پرنسپل صاحبہ نے صدارت کرنے کے لیے مجھے مدعو کر لیا۔ اپنی تقریر کے دوران پروفیسر صاحب نے ایک عجیب و غریب طرز بیان اور پیرائی استدلال اپنایا۔ انہوں نے یہ الزام لگایا کہ ترقی پذیر ممالک امریکی امداد ہاتھ پھیلا پھیلا کر مانگتے تو ضرور ہیں لیکن اسے حاصل کرنے کے بعد بھی وہ بدستور فرسودہ اقدار ثقافت کے ساتھ چھٹے رہتے ہیں۔ یہ سراسر ناشکری کی علامت ہے کیونکہ امریکی امداد کا مقصد صرف ڈالر اور اسلحہ ہی تقسیم کرنا نہیں بلکہ دراصل ہمارا بنیادی مقصد امریکی اقدار امریکی ثقافت، امریکی طرز حیات اور امریکی رسم و رواج کو بھی ساری دنیا میں پھیلانا اور فروغ دینا ہے۔ خاص کر تعلیم کے شعبہ میں۔ پروفیسر صاحب نے زور دے کر کہا جو طلبا وظائف پر امریکن یونیورسٹیوں میں جا کر پڑھتے ہیں اور صرف ڈگریاں اور ڈپلومے لے کر واپس آ جاتے ہیں وہ ہمارا وقت اور پیسہ ضائع کرتے ہیں۔ ہمیں صرف ایسے طلباء اور طالبات کو وظیفوں کا مستحق سمجھنا چاہیے جو ڈگریوں کے علاوہ امریکن اقدار و ثقافت، امریکن اخلاق و عادات امریکن بود و باش کے نقوش بھی اپنے ہمراہ واپس لائیں اور انہیں اپنے اپنے ممالک اپنے اپنے ماحول اور اپنے اپنے گھروں میں جاری و ساری کریں۔
- ان لغویات کے جواب میں میں نے پروفیسر صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ اگر امریکی امداد کو امریکی اقتدار اور کلچر اپنانے کے ساتھ مشروط کر دیا گیا تو کئی غریب اور خود دار ممالک ایسی امداد کو بے نیازی سے ٹھکرا دیں گے۔ جن شرائط پر پروفیسر صاحب ہمارے طلبا اور طالبات کو تعلیمی وظائف دینا چاہتے ہیں، وہ ہمیں قابل قبول نہیں اور ہم ایسے وظائف کو بھی دور ہی سے سلام کرتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ہمیں علوم حاصل کرنے کے لیے دوسرے ممالک کی طرف رخ موڑنا ہو گا۔ یوں بھی ہمارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
- میری تقریر کے کچھ حصے ہمارے کئی اخبارات نے بڑے نمایاں طور پر شائع کیے۔ چین والا فرمان رسول پڑھ کر امریکی سفیر مسٹر اوہلرٹ سیخ پا ہو گیا۔ ان کا پیغام آیا کہ فوری طور پر میرے دفتر میں آ کر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں ان کے عزائم بھانپ گیا۔ اور میں نے وزارت خارجہ سے درخواست کی کہ اس ملاقات کی روئداد قلم بند کرنے کے لیے وہ اپنا ایک افسر بھی میرے دفتر میں بھیج دیں۔ انہوں نے مسٹر ریاض پراچہ کو اس کام پر مامور کر دیا، جو اس وقت وزارت میں غالباً جائنٹ سیکرٹری تھے اور بعد میں سیکرٹری امور خارجہ کے علاوہ کاہل دہلی اور بالینڈ میں سفیر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔
- مسٹر اوہلرٹ بھی سفارت خانے کا ایک کونسلر اپنے ہمراہ لائے تھے۔ وہ شدید اعصابی تناؤ میں مبتلا نظر آتے تھے۔ میرے کمرے میں داخل ہو کر وہ بیٹھنے کی بجائے دیوانہ وار ادھر ادھر گھومتے رہے۔ پھر اچانک رک کر بولے۔ ”کیا مجھے کچھ کافی مل سکتی ہے ؟“
- میں نے انہیں یقین دلایا کہ کافی ابھی حاضر ہو جائے گی۔
- بے چینی کے عالم میں انہوں نے لمبے لمبے گھونٹ بھر کر کافی کی پیالی ختم کی اور پھر بیس پچیس منٹ تک وہ نہایت تلخ انداز میں میری تقریر کے بخیے ادھیڑتے رہے۔ انہوں نے دھمکی آمیز انداز میں کہا کہ اگر آپ امریکی امداد سے منہ موڑ کر چین کے ساتھ اپنا تعلیمی رشتہ استوار کرنا چاہتے ہیں تو آپ ہمیں لکھ کر بھیج دیجیے پاکستان کو امداد دیے بغیر امریکہ بحر اوقیانوس میں غرق نہیں ہو جائے گا۔
- میں جانتا تھا کہ سفیر صاحب اس قسم کا تیز و تند اور اشتعال انگیز رویہ جان بوجھ کر اختیار کر رہے ہیں تاکہ میں بھی برانگیختہ ہو کر ترکی بہ ترکی جواب دینے پر اتر آؤں۔ اور اس طرح یہ واقعہ ایک Diplomatic Scene (سفارتی حادثہ) بن کر حکومت اور صدر ایوب کے لیے مفت کا درد سر بن جائے۔ اس لیے میں نے صبر و تحمل سے کام لیا اور ان کی تلخی و تندی نظر انداز کر کے ایک عام اور نارمل انداز کی گفتگو شروع کر دی۔ اپنا وار خالی جاتا دیکھ کر وہ بڑے مایوس ہوئے۔ کافی کی دوسری پیالی پی کر جب میں انہیں ان کی کار تک چھوڑنے جا رہا تھا تو راستے میں انہوں نے کسی قدر معذرتانہ انداز میں کہا۔ دراصل میں پیشہ ور سفارتکار (Professional diplomat) نہیں ہوں۔ اس لیے میری گفتگو میں اگر کوئی بات آپ کو بری لگی ہو تو اسے نظر انداز کر دیں۔"
- یور ایکسیلینسی“ میں نے نہایت ٹھنڈے لہجے میں کہا۔ ”یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ امریکہ جیسی عظیم سپر پاور پاکستان جیسے مخلص حلیف کو اپنے پیشہ ور سفارتی ماہرین سے نوازنا ضروری نہیں سمجھتی۔"
- میرے اس جملے کی چبھن امریکی سفیر اور کونسلر دونوں نے صریحاً محسوس کی اور کسی قدر جھینپ کر زیر لب منمناتے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر رخصت ہو گئے۔
- جنوری ۱۹۶۸ء کے آخری ایام میں اچانک صدر ایوب پر دل کا شدید دورا پڑا۔ کمانڈر انچیف جنرل یحیٰ اور وزیر دفاع ایڈمرل اے۔ آر۔ خان نے مل کر فوراً ایوان صدر کو اپنے کنٹرول میں لے لیا اور صدر ایوب دس بارہ روز تک عملاً صرف ان دونوں کی تحویل میں رہے۔ حکومت کے باقی تمام اراکین سے ان کا رابطہ مکمل طور پر کٹ چکا تھا۔ ان ایام میں بھی مسٹر اوہلرٹ کا صبح و شام کا واسطہ اگر کسی سے تھا تو جنرل یحیٰ سے تھا ۔
- مارچ ۱۹۶۹ء میں جب صدر ایوب کے خلاف ملک گیر ایجی ٹیشن اپنے عروج پر تھی، یکایک یہ خبر نکلی کہ انیس تاریخ کو امریکی سفیر مسٹر اوہلرٹ ایک اہم مشورہ کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گئے ہیں۔ کئی لوگوں نے اندازہ لگایا کہ وہ یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کرنے کے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کروانے واشنگٹن گئے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی واپسی کے ایک یا دو روز بعد ۲۵ مارچ کو صدر ایوب مستعفی ہو گئے۔ اور جنرل یحییٰ نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کی گدی سنبھال لی۔
- ۱۹۶۷ء میں جب صدر ایوب کی خود نوشت سوانح عمری شائع ہوئی تو انہوں نے غالباً امریکہ کے حوالے سے اس کتاب کا نام (Friends Not Masters) رکھا تھا۔ اردو ترجمے کا عنوان تھا۔ ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی۔" اگر یہی کتاب ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کے بعد لکھی جاتی تو امریکہ کے حوالے سے صدر ایوب اس کا یہ عنوان منتخب کرنے میں حق بجانب ہوتے:
- "نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی۔“
- چین سے سرحدی معاہدہ
- اگرچہ پاکستان ۱۹۵۴ء ہی سے سیٹو (SEATO) کا ممبر ہو کر چین کی ناکہ بندی میں شامل تھا، لیکن عوامی جمہوریہ چین کی قیادت نے کبھی ہمارے اس اقدام کو بنائے فساد اور متنازع فیہ نہیں بنایا تھا۔ اس کی وجہ ان کی عالی حوصلگی اور حسن تدبر ہی نہیں بلکہ ان کی حقیقت شناسی بھی تھی۔ کیونکہ غالباً انہیں ہماری اندرونی اور بیرونی مجبوریوں اور معذوریوں کا بھی ضرور احساس تھا۔
- روس کے ساتھ تو چین کا نظریاتی بھائی چارا شروع ہی سے تھا۔ لیکن ایک زمانے میں ”ہندی چینی بھائی بھائی“ کا بلند بانگ نعرہ بھی برصغیر کے کونے کونے میں گونج رہا تھا۔ رفتہ رفتہ حالات نے کروٹ لی۔ روس اور چین میں شدید نظریاتی اختلافات گئے۔ ان کا باہمی اقتصادی بندھن ٹوٹ گیا۔ روس نے چین میں ترقیاتی منصوبوں کی بساط لپیٹ کر ہر قسم کے تعاون اور امداد سے ہاتھ کھینچ لیا، یہاں تک کہ جو فیکٹری یا منصوبہ جس منزل میں تھا، وہیں پر ادھورا چھوڑ کر ان کے بلیو پرنٹ تک اپنے ساتھ واپس لے گئے۔
- ہندوستان نے ایشیا کی قیادت کا تاج اپنے سر پر سجانے کے لیے چین کے ساتھ رقابت اور مسابقت کا راستہ اختیار کیا تو دونوں کے درمیان قدرتی طور پر ٹھن گئی اور باہمی سرحدی مناقشات اور اختلافات بھی سر اٹھانے لگے۔ ایسے معاملات میں بھارت کی ہٹ دھرمی اور اپنی من پسندی کو اجاگر کرنے کے لیے چین نے برما اور نیپال جیسے چھوٹے ملکوں کے ساتھ نہایت معقول سرحدی معاہدے طے کر کے اپنی فراخدلی کا ثبوت دیا۔ یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ ہماری وزارت خارجہ نے بھی اس موقع سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا، اور چین اور پاکستان کے درمیان ایک سرحدی معاہدہ طے کرنے کے لیے تفصیلات طے کر لیں۔ شروع میں تو صدر ایوب کی قدر حیص بیص، شش و پنچ اور طرح طرح کی ہچکچاہٹوں میں ڈانواں ڈول رہے۔ لیکن ۱۹۶۲ء کی بھارت اور چین جنگ کے رنگ نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور فروری 1963ء کے اواخر میں انہوں نے ایک پاکستانی وفد کو سرحدی معاہدہ طے کرنے کے لیے چین جانے کی اجازت دے دی۔
- اس وفد کے قائد ہمارے وزیر خارجہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ حسن اتفاق سے مجھے بھی اس وفد میں شامل کر دیا گیا تھا۔ دوسرے اراکین وزارت خارجہ کے ایک سینئر افسر مسٹر خراس' پاکستان کے سروئیر جرنل اور پکینگ میں ہمارے سفیر میجر جزل رضا تھے۔ صدر ایوب کو تشویش تھی کہ سرحدی معاہدہ پر دستخط ہونے سے پہلے اگر ہمارے وفد کی خبر عام ہو گئی تو ہماری راہ میں روڑے اٹکانے کی غرض سے ان پر طرح طرح کے دباؤ بڑھنا شروع ہو جائیں گے اور چین کے دشمن ممالک بھی ہمارے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف قسم کی ریشہ دوانیوں میں مصروف ہو جائیں گے چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ہم نہایت خاموشی سے سفر کر کے پکینگ پہنچیں اور سرحدی معاہدہ پر دستخط ہونے سے قبل اس وفد کی کوئی خبر باہر نہ نکلنے پائے۔
- ہمارے سروئیر جنرل صاحب تو الگ پکینگ کے لیے روانہ ہو گئے اور مسٹر خراس اور میں مسٹر بھٹو کے ساتھ کراچی سے ہانگ کانگ جانے کے لیے Lufthansa کے ایک ہوائی جہاز میں سوار ہو گئے۔ یہ جہاز گھنٹہ بھر کے لیے کلکتہ کے ہوائی اڈے پر بھی رکا۔ وہاں پر ہمارے کونسل جنرل مسٹر ایم۔ اے علوی ہمیں ملنے اندر آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے طور پر کافی کوشش کی کہ ہم ٹرانزٹ لاؤنج میں چند خالی کرسیوں پر بیٹھنے میں کامیاب ہو جائیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اول تو لاؤنج میں ہجوم زیادہ تھا۔ دوسرے اگر ہم کسی خالی کرسی کی طرف بڑھتے بھی تھے تو دوسرے مسافر لپک کر اس پر قبضہ جما لیتے تھے۔ آخر مجبور ہر کر علوی صاحب ہمیں ریسٹوران میں لے گئے جہاں چائے کا آرڈر دے کر ہم پون گھنٹہ کے قریب بیٹھے رہے۔
- ہانگ کانگ میں سارا دن بھٹو صاحب مجھے اپنے ہمراہ لے کر نوادرات کی دکانوں اور بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز میں گھومتے رہے۔ ایک فیشن ایبل سٹور میں انہوں نے اپنے لیے پانچ سوٹ سلوانے کا آرڈر دیا۔ جو چین سے ان کی واپسی پر تیار ملیں گے۔ اصرار کر کے انہوں نے پانچ سوٹوں کا آرڈر میرے لیے بھی دے دیا میں نے بہت احتجاج کیا کہ یہ سوٹ مہنگے ہیں اور مجھے ان کی ضرورت بھی نہیں لیکن وہ نہ مانے اور واپسی پر میرے سوٹوں کی قیمت بھی اپنی جیب سے ادا کی۔ ان میں سے ایک آدھ سوٹ آج تک بھی میرے پاس موجود ہے۔
- چین میں ہمارے وفد کی نہایت شاندار پذیرائی ہوئی۔ چینی وزیر خارجہ مارشل چن ژی بڑے زندہ دل اور بذلہ سنج انسان تھے۔ ہمارے پروگرام کی سب تفصیلات وہ اپنی ذاتی نگرانی میں طے کرتے۔ ۲ مارچ 1963ء کو ایک پروقار تقریب میں انہوں نے مسٹر بھٹو کے ساتھ پاک چین سرحدی معاہدہ پر دستخط کر دیئے۔ دستخط کرتے وقت ان دونوں کی کرسیوں کے پیچھے جو لوگ قطار بنا کر کھڑے ہوئے ان میں چین کے صدر لیوشاؤ چی اور وزیراعظم چو این لائی بھی شامل تھے۔
- وزیراعظم چو این لائی تحمل، تدبر، فراست اور ذہانت کا ایک بے مثال پیکر تھے۔ ان کے ہونٹوں پر ہلکے سے تبسم کی ایک مدھم سی لہر ہر وقت یوں کھیلتی رہتی تھی کہ کسی کو یہ اندازہ نہ ہوتا تھا کہ وہ مسکرا چکے ہیں یا مسکرانے والے ہیں۔ ان کی تیز نگاہی ماحول میں پیوست ہو کر گرد و پیش کو اپنی گرفت میں جکڑ لیتی تھی۔ اور ان کی شگفتہ بیانی عالمی سیاست کے تجزیے کو فصاحت و بلاغت کے سانچے میں ڈھال کر عجیب و غریب جادو جگاتی تھی، مشاہیر عالم میں ایسی غیر معمولی خصوصیات کا اور کوئی رہنما میری نظر سے نہیں گزرا۔
- ایک روز وزیر اعظم چو این لائی نے بھٹو صاحب کے ساتھ مذاکرات شروع کئے تو وہ تقریباً سارا دن بولتے رہے۔ پانچ ساڑھے پانچ گھنٹوں میں انہوں نے سیاسیات عالم کا انتہائی گہرا اور بھر پور تجزیہ کیا۔ یہ تجزیہ اور تبصرہ وہ زبانی کرتے رہے، اور ایک بات بھی نہ تو انہوں نے کسی فائل یا یادداشت کی طرف رجوع کیا، نہ اپنی کوئی بات دہرائی اور نہ ہی کسی مقام پر رکے یا ہچکچائے۔ ان کے دلائل ٹھوس حقائق و شواہد پر مبنی تھے اور ان کا انداز بیان جذبات، مروضات اور داخلی آرزو مندی کی ملاوٹ سے خالی تھا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ اب وہ اپنے تجزیے کا خلاصہ پیش کر کے یہ گفتگو ختم کر رہے ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے تجزئیے کا لب لباب اسی ترتیب سے سمیٹ کر بیان کر دیا جس ترتیب سے انہوں نے صبح سے شام تک اسے وضاحت سے بیان کیا تھا۔ انسانی دماغ کو ایک خود کار مشین اور کمپیوٹر کی مانند اس طرح کام کرتے ہوئے میں نے اور کہیں نہیں دیکھا۔
- وزیراعظم چو این لائی کی گفتگو کو مسٹر خراس اور میں قلم بند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یوں تو وہ صرف چینی زبان بولتے تھے، لیکن یقیناً انہیں انگریزی زبان پر بھی ضرور عبور حاصل ہو گا۔ ان کا ترجمان جب ان کی گفتگو کا انگریزی میں ترجمہ کرتا تھا تو کئی بار مسٹر چو این لائی اسے ٹوک کر اس کے ترجمہ کی اصلاح بھی کر دیتے تھے۔ جب مسٹر چو این لائی واقعات عالم پر تبصرہ کر رہے تھے۔ ایک چینی لڑکی وقتاً فوقتاً ہمیں چینی چائے کے تازہ مگ تقسیم کرتی رہتی تھی۔ یہ ابلتا ہوا گرم پانی تھا جس میں چائے کی ایک یا دو پتیاں تیر رہی ہوتی تھیں۔ اس میں دودھ شکر ملانے کا رواج نہ تھا۔ چائے ڈھانپنے کے لیے ہر تک کا اپنا خوبصورت سا ڈھکن بھی ہوتا تھا۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ وزیراعظم چو این لائی روانی سے بولتے بولتے کسی قدر ٹھٹھک جاتے ہیں اور ان کی نگاہیں بار بار میری جانب اٹھ رہی ہیں، مجھے خیال آیا کہ شاید میرے بیٹھنے کے انداز میں کوئی کجی یا قباحت پیدا ہو گئی ہے۔ میں نے فوراً پینترا بدل کر پہلو تبدیل کر لیا لیکن اس کے باوجود مسٹر چو این لائی کی نظریں بدستور میری طرف اٹھتی رہیں۔ اس پر پریشان ہو کر میں کسی قدر جھینپا تو انہوں نے چائے تقسیم کرنے والی لڑکی کو بلا کر کچھ کہا۔ وہ میرا مگ اٹھا کر ان کے پاس لے گئی مسٹر چو این لائی نے مگ کا ڈھکن اٹھا کر اسے دکھایا کہ یہ چھوٹا ہے اور اس مگ پر اچھی طرح نہیں جمتا۔ لڑکی کا چہرہ عرق ندامت سے شرابور ہو گیا۔ اور وہ جا کر میرے لیے چائے کا ایک اور مگ لے آئی۔ اس کے بعد مسٹر چو این لائی سکون سے بیٹھ گئے اور اپنے تبصرے میں بدستور معروف ہو گئے۔ ایک نہایت سنجیدہ تجزیے کے دوران ایک انتہائی کثر المشاغل شخص کے ذہن کا اس قدر باریک تفصیل کی طرف منتقل ہونا میرے لیے بے حد حیرت ناک تھا۔ ایک پڑھی لکھی چینی خاتون مترجم کے فرائض سر انجام دینے کے لیے میرے ساتھ بھی مامور تھی۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ چائے تقسیم کرنے والی جس لڑکی کی غلطی پکڑی گئی ہے۔ کیا اسے اب کوئی سزا بھی ملے گی؟
- اس نے جواب دیا کہ چیئرمین ماوزی تنگ کا فرمان ہے کہ انسان غلطی کا پتلا ہے۔ ہر غلطی جرم کا درجہ نہیں رکھتی۔ اس لڑکی کے لیے یہی سزا کافی ہے کہ معزز مہمانوں کے سامنے اس کی غفلت اور غلطی کا بھانڈا پھوٹ گیا۔
- ایک روز ہمارے وفد کو چیئرمین ماوزے تنگ کے ساتھ ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ وزیراعظم چو این لائی اور وزیر خارجہ مارشل چین ڈی بھی وہاں موجود تھے۔ لیکن سارا عرصہ دونوں خاموشی سے مودبانہ بیٹھے رہے۔ اس وقت چیئرمین ماؤ کی عمر اسی برس کے لگ بھگ تھی لیکن ان کا گول مٹول چہرہ نیم خوابیدہ بچوں کی طرح پر سکون اور مطمعین دکھائی دیتا تھا۔ مسٹر بھٹو کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرتے ہیں چیئرمین ماؤ نے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا۔ (Is East Pakistan Tranquil?) (کیا مشرقی پاکستان میں امن و امان ہے ؟)
- اس زمانے میں مشرقی پاکستان میں بظاہر کسی خاص شورش کے آثار نمایاں نہ تھے۔ اس لیے چیئرمین ماؤ کا یہ سوال مجھے کسی قدر بے تک اور بے موقع و بے محل محسوس ہوا۔ لیکن اس کے بعد کئی دعوتوں اور استقبالیوں میں وزیراعظم چو این لائی اور وزیر خارجہ مارشل چن ژی کے علاوہ چند دوسرے چینی اکابرین بھی اپنے اپنے انداز سے ہمیں مشرقی پاکستان کے متعلق خاص طور پر باخبر اور چوکنا رہنے کی فرداً فرداً تاکید کرتے رہے۔
- چین کے ساتھ ہمارے سرحدی معاہدے کی خبر عام ہوئی تو اس کے خلاف بھارت میں بڑا شور و غونما ہوا روس کو بھی یہ بات پسند نہ آئی اور امریکہ نے بھی ہمارے اس اقدام پر تیوریاں چڑھائیں۔ پاکستان میں امریکی سفارت خانہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ معاہدہ طے کروانے میں میرا کوئی خاص ہاتھ تھا۔ اس لیے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ان کے غم و غصے کا زیادہ نزلہ میری ذات پر ہی گرا۔ مارچ 1913ء ہی سے انہوں نے صدر ایوب کے ذہن میں میرے خلاف اپنے دباؤ کا پیچ ایسے انداز سے مروڑ مروڑ کر کسنا شروع کر دیا تھا کہ چھ سات ماہ کے اندر اندر مجھے پاکستان سے اٹھا کر ہالینڈ بھیج دیا گیا۔
مزید دیکھیں ترمیم
- اس صفحہ ”ایوب خان“ کے تبادلہ خیال پر بھی اہم معلومات موجود ہیں۔ پڑھنے کےلیے تبادلۂ خیال:ایوب خان پر کلک کریں۔
حوالہ جات ترمیم
- Mohammad Ayub Khan, "Diaries of Field Marshal Mohammad Ayub Khan, 1966-1972"، edited by Craig Baxter, Oxford University Press.
- ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/47791286 — بنام: Muhammed Ayub Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Mohammad-Ayub-Khan — بنام: Mohammad Ayub Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
- ^ ا ب Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/ayub-khan-mohammed — بنام: Mohammed Ayub Khan
- ↑ Proleksis enciklopedija ID: https://proleksis.lzmk.hr/10140 — بنام: Mohammad Ayub Khan — عنوان : Proleksis enciklopedija
- ↑ Hrvatska enciklopedija ID: https://www.enciklopedija.hr/Natuknica.aspx?ID=4895 — بنام: Mohammad Ayub Khan — عنوان : Hrvatska enciklopedija — ISBN 978-953-6036-31-8
- ↑ Munzinger person ID: https://www.munzinger.de/search/go/document.jsp?id=00000008519 — بنام: Mohammed Ayub Khan — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb125247447 — بنام: Muhạmmad Ayūb Khān — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ روزنامہ جنگ، 4 مئی 2007[مردہ ربط]
- ↑ shahab-nama
بیرونی روابط ترمیم
فوجی دفاتر | ||
---|---|---|
ماقبل | سربراہ بری افواج پاکستان 1951–1958 |
مابعد |
سیاسی عہدے | ||
ماقبل | وزیر دفاع پاکستان 1954–1955 |
مابعد |
ماقبل | وزیراعظم پاکستان 1958 |
مابعد |
ماقبل | صدر پاکستان 1958–1969 |
مابعد |
ماقبل | وزیر دفاع پاکستان 1958–1966 |
مابعد |
ماقبل | وزیر داخلہ پاکستان 1965 |
مابعد |
ویکی ذخائر پر ایوب خان سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |