سلیمانکی ہیڈورکس
سلیمانکی ہیڈورکس (Sulemanki Headworks) پاکستان کے صوبے پنجاب میں دریائے ستلج پر ایک ہیڈورکس ہے۔ سلیمانکی ہیڈورکس آبپاشی اور سیلاب سے بچاو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
ہیڈ سلیمانکی ہند و پاک سرحد کے ساتھ دریائے ستلج کے کنارے واقع ہے۔ اس ہیڈ ورکس کی بنیاد 1924 میں رکھی گئی، اس ہیڈ ورکس سے تین مشہور نہریں، نہر پاکپتن، نہر صادقیہ اور نہر فورڈ واہ نکالی گئی ہیں جو وسیع علاقے کو سیراب کرتی ہیں۔ ہیڈ سلیمانکی شروع شروع میں صرف محکمہ انہار کے ملازمین کا مسکن تھا، دریا ئے ستلج کے شمال اور جنوب میں کچھ فاصلے پر محکمہ انہار کے ملازمین اور افسران کے لیے دو شاندار کالونیاں بنائی گئی تھیں ساتھ ہی ڈاک بنگلے یعنی ریسٹ ہاؤسز بھی تعمیر کیے گئے تھے اور ارد گرد میلوں پر محیط وسیع و عریض جنگلات تھے یہ ایک نہائت شاندار اور خوبصورت علاقہ تھا۔ نہروں کے کنارے ایک ایک کلومیٹر کے فاصلے پر لکڑی کے ہٹ بھی ہوا کرتے تھے جہاں ملازمیں بیٹھ کر آرام کرتے اور نہروں کی روانی پر نظر رکھتے تھے، اس کے علاوہ ایک شاندار ورکشاپ ہوا کرتی تھی جہاں ہید ورکس سے متعلقہ سامان تیار ہوتا اور سٹور کیا جاتا تھا۔ اسی ورکشاپ میں ایک تھرمل بجلی گھر بھی تھا جو کینال کالونی اور ہیڈ ورکس کو بلا تعطل بجلی فراہم کرتا تھا۔ یہاں میلوں تک پھیلے جنگلات میں ہر طرح کے جانور پائے جاتے تھے اور ان جنگلات میں دریا کنارے قدرتی جھیلیں آبی حیات کا مسکن تھیں۔ آغاز میں محکمہ انہار کے سینئیر ملازمین یا تو ہندو تھے یا سکھ، مسلمانوں کی زیادہ تعداد بیلداروں کی تھی، اس زمانے میں اس کینال کالونی میں ایک چھوٹی سی جھگی نما مسجد اور ایک مندر بھی ہوا کرتا تھا جو ان ملازمیں نے اپنی عبادت کے لیے خود تعمیر کیے تھے۔ 1933 میں کسی شر پسند ہندو نے مسجد کو آگ لگا دی اور پھر انتقاماً کسی مسلمان نے مندر بھی جلا دیا۔ یوں یہاں فساد کی آگ بھڑک اٹھی جسے یہاں کے انگریز ایکس ای این نے کمال دانشمندی سے نمٹایا اسنے ہندو مسلم ہر دو فریقوں سے کہا کہ وہ محکمانہ طور پر ان کی پکی عبادتگاہیں تعمیر کرکے دیں گے۔ یوں 1934 میں اس کالونی کے شمال مشرق میں ایک پکا مندر تعمیر ہو گیا اور جنوب مغرب میں ایک پکی مسجد۔ ہندو زیادہ اثر و رسوخ کے حامل تھے جبکہ مسلمان کم تعداد میں اور معمولی ملازم تھے اس لیے یہ مندر تو ابادی کے اندر تھا لیکن مسجد آبادی کے باہر جنگل کی طرف تھی لیکن دہلی ملتان روڈ کے قریب تھی، اکثر مسافر بھی یہاں قیام کرتے تھے۔ ایک رات اس مسجد میں کسی مسافر کا انتقال ہو گیا، صبح لاش کی برآمدگی پر ہر طرف خوف پھیل گیا، ہندؤوں نے افواہ پھیلادی کہ اس مسجد میں جنات کا ڈیرا ہے جنھوں نے اسے ہلاک کیا ہے۔ مسجد ویسے بھی بیابان علاقے میں تھی اورارد گرد جنگل تھا۔ یو ں یہ مسجد جنوں والی مسجد مشہور ہو گئی۔ اب دن میں تو کوئی یہاں نماز پڑھ لیتا تھا لیکن مغرب کے بعد کوئی اس کے قریب بھی نہ پھٹکتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد دار العلوم دیوبند کے ایک فارغ التحصیل عالم دین سید محمد مصطفے ٰ رحمۃاللہ علیہ نے اسے اپنا مسکن بنایا اور اسے درس و تدریس کا مرکز بنا لیا اوروہ اپنی وفات یعنی 24 اکتوبر 1987 تک بلا مزد ومعاوضہ خدمات سر انجام دیتے رہے۔ انکا ذریعہ معاش حکمت اور طبابت تھی اس کی آمدنی سے وہ اپنے گھر اور مسجد کا انتظام کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات کے بعد اب یہ مسجد تبلیغی جماعت والوں کے پاس ہے جس میں شاہصاحب کے گھر کو شامل کرکے وسعت دے دی گئی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد اس کالونی کے گرد و نواح میں مزدور پیشہ افراد بھی آن بسے تھے لیکن 1988 کے سیلاب کے بعد ارد گرد کے گاؤں کے افراد بھی یہاں آن بسے، یہاں کے وسیع و عریض جنگلات انسانوں سے بھر گئے، ہیڈورکس سے پاک و ہند کے بارڈر تک کا علاقہ پاک رینجرز اور ورپاک آرمی کے قبضہ میں چلا گیا ،اور محکمہ انہار کی اہم عمارات بھی۔ اب یہ ایک بے ہنگم آبادی والا علاقہ ہے اس کے ساتھ پاک آرمی اور رینجرز کی منظم چھاؤنیاں ہیں۔ دریائے ستلج اب ایک نالے کی طرح بہتا ہے یہ مٹی اور ریت سے اٹ چکا ہے۔ یہاں ہیڈ ورکس کے ساتھ ایک وسیع پارک بھی بنایا گیا ہے اس میں ہرن، نیل گائے، مور، بندر وغیرہ بھی لوگوں کی تفریح و طبع کے لیے رکھے گئے ہیں لیکن اس کی ماضی والی خوبصورتی اور وسعت کہیں نظر نہیں آتی۔ یہاں بھانت بھانت کے لوگ آباد ہیں۔ اور ہر طرف پر وحشت قسم کی گہما گہمی نظر آتی ہے۔