سندھ طاس معاہدہ
پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاوں کا پانی منصفانہ طور پر حصہ داری کا معاہدہ ہوا، جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔[1]
1909ء میں برطانوی حکام نے پنجاب کو برصغیر کے لیے گودام بنانے کے ایک زیریں سندھ طاس کے منصوبے پر غور کیا اور مطابق ایک دریا کے پانی کو دوسرے دریا تک پہنچایا جانا تھا ۔ جہلم کو ایک نہر کے ذریعہ چناب سے ملا دیا گیا ۔ نہروں اور پنجند اور معاون دریاؤں پر بہت سے بند اور بیراج باندھے گئے ۔ اس طرح یہ سیلاب کے وقت پانی کا ذخیرہ کرلیتے تھے ۔ اس طرح جہاں سیلابوں پر کسی حد تک قابوں پایا جا سکتا تھا اور ان میں جمع شدہ پانی کو سردیوں کے خشک موسم میں استعمال کیا جا سکتا تھا ۔ 1932ء میں سکھر کے مقام پر دریائے سندھ پر تعمیر کیا گیا پہلا بیراج کھول دیا گیا اور دنیا کے سب سے بڑے آبپاشی کے نظام نے کام کرنا شروع کر دیا ۔ تقسیم سے کچھ عرصہ پہلے دوسرا بیراج کالا باغ کے مقام پر تعمیر کیا گیا ۔ جس وقت یونین جیک اتارا گیا اس وقت تک برطانوی انجینیر سندھ طاس کو دنیا کا سب سے بڑا آبپاشی نظام مہیا کرچکے تھے ۔ یہاں انھوں نے جو فارمولے تشکیل دیے وہ دنیا میں ہر جگہ نہروں کی تعمیر اور ان کو چلانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔
تقریباً پچاس سال تک صحرا میں پانی کے مسلہ کو میدانوں میں ان طاقتور دریاءوں کو قابو میں رکھنے اور لگام ڈالنے کا کام ایک مکمل وحدت کے طور پر انجام دیا جاتا رہا ۔ مگر 1947ء کی تقسیم کے بعد سب کچھ بدل گیا ۔ سر سیرل کلف اس کمیشن کا چیرمین تھا ۔ جسے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی ۔ برطانیہ کو اپنے اس نہری نظام پر فخر تھا اور قدرتی طور پر اس کی خواہش تھی کہ کامیابی سے چلتا رہے ۔ اس لیے سر سیرل کلف نے تقسیم کے وقت نہروں اور دریاؤں کو کنٹرول کرنے کے اس نظام کی اہمیت پوری طرح دونوں فریقوں پر واضح کردی اور برطانوی خواہش کے مطابق تجویز پیش کی کہ دونوں ملک ایک معاہدہ کر لیں کہ وہ اس سارے نظام کو ایک اکائی کی طرح چلائیں ۔ مگر دونوں فریق ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور بڑی سختی سے یہ تجویز دونوں نے رد کردی گئی ۔ پاکستان جانتا تھا اس طرح وہ بھارت کے رحم و کرم پر رہے گا ۔ نہرو نے بڑے سیدھے الفاظ میں کہدیا کہ بھارت کے دریا بھارت کا مسلہ ہیں ۔ کیوں کو اس کو امید تھی کہ کشمیر میں مسلم اکثریت کے باوجود وہاں کا ہندو راجا بھارت کے ساتھ شامل ہونا پسند کرے گا ۔ شاید ان کے درمیان اندرون خانہ کوئی معاہدہ بھی ہو چکا تھا ۔ کشمیر کے بھارت میں شامل ہونے کی صورت میں دریاؤں پر اس کی بالادستی قائم رہے گی ۔ وہ پاکستان سے پانی کے لیے اپنی من مانی شرائط منوا سکتا تھا ۔ ہوا بھی یہی تقسیم کے وقت گوداسپور کا مسلم اکثریت کا علاقہ بھارت کے حوالے کرکے کشمیر کا زمین راستہ دے دیا گیا ۔
تقسیم کے وقت ظاہری طور پر پاکستان فائدے میں نظر آتا تھا کہ پنجاب کی 23 مستقل نہروں میں سے 21 پاکستان کے قبضہ میں آگئیں ۔ بھارت نے کشمیر پر قبضہ کے پنڈت نہرو کی امیدوں کے عین مطابق اب بھارت ہر وہ دریا پر جو پاکستان کی نہروں کو پانی مہیا کرتے تھے مکمل قابض ہو چکا تھا ۔ پجند کے پانچوں دریا مغرب میں پاکستان پہنچنے سے پہلے اس علاقے سے بہتے ہوئے آتے تھے جس پر اب بھارت قابض ہو چکا تھا ۔ بلکہ دریائے سندھ خود بھی کشمیر کے ایک حصے پر بھارت کے قبضے کے نتیجے میں لداخ کے مقام پر بھی بہتا ہے ۔ لیکن ہمالیہ کی دور دراز گھاٹیوں میں بہنے کی وجہ سے وہاں اس کا رخ بدلنا ممکن نہیں ہے ۔ لیکن دوسرے دریا خاص طور پر ستلج بھارت کے میدانوں میں میلوں چکر کاٹ کر آتا ہے ۔ اس کے علاوہ پانی کی تقسیم کے لیے دونوں دریاؤں راوی اور ستلج کے پر قائم تمام اہم ہیڈ ورکس بھی بھارت کے قبضہ میں آگئے تھے ۔ یہ وہ ہیڈورکس تھے جو پچاس سال سے ان کھیتوں کو پانی پہنچا رہے تھے جو پاکستان کے علاقے میں تھے ۔ بھارت اس پوزیشن میں تھا وہ جب چاہتا وہ پاکستان کو پانی کی سپلائی روک سکتا تھا اور ہوا بھی یہی ۔ اس نے آزادی کے فوراًً بعد پاکستان کا پانی روک لیا ۔ آخر کار مارچ 1948ء تک کی مدت کے لیے ایک معاہدے پر دستخط ہوئے جس میں تنازعات کے حل کے لیے ایک کمیٹی کی تجویز بھی شامل تھی ۔ عین اس دن یہ مدت ختم ہوئی بھارت نے پاکستان کسی بغیر کسی اتنباہ کے راوی اور ستلج کا پانی روک دیا ۔ کسانوں نے ابھی گرمیوں کی فضلیں بونی شروع کیں تھیں اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں لاکھوں ایکڑ پر مشتمل فضلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں ۔ بعد میں بھارت نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنا پر ہوا ہے ۔
لیکن پاکستانیوں کا خیال تھا کہ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہوا تھا اور اس کا مقصد پاکستان کو تباہ و برباد اپنا محتاج کرنا تھا کہ وہ دوبارہ بھارت میں انضمام پر مجبور ہو جائے ۔ اس سے پاکستان کو ناقابل فراموش سبق ملا اور اس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ اپنا دریائی آبپاشی کا نظام قائم کرے گا ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تکرار جاری تھی ۔ یہ پانی کی قیمت اور دریائی پانی وصول کرنے کے اوقات کے حوالے سے نہ ختم ہونے والے تنازعات تھے ۔ اس سلسلے میں عارضی بنیادوں پر جو معاہدے ہوئے وہ پاکستان کے لیے غیر تسلی بخش تھے ۔ کیوں کہ جب برصغیر کے تمام مغربی علاقوں میں پانی کی سپلائی میں کمی ہوتی تھی تو بھارت پاکستان کا پانی اپنے استعمال کے لیے روک لیتا تھا ۔ جب موسمی سیلاب پنجند دریاؤں میں امڈ آتے تو یہ پانی پاکستان کے سالانہ کوٹے میں سے منہا کر لیا جاتا تھا ۔ جو پاکستان کے کسی کام نہیں آتا تھا ۔ اپنی بقا کی خاطر لاچاری کی صورت میں پاکستان نے دریائے سندھ پر کام کرنا شروع کر دیا ۔
1951ء میں ولڈ بینک نے کوشش کی کہ دونوں ممالک سندھ طاس نظام کو ایک وحدت کے طور پر چلانے کے لیے آپس میں تعاون کر لیں اور کسی معاہدے پر پہچنے کے لیے کوشش کی ۔ تاہم یہ جلد واضح ہو گیا کہ بھارت کسی ایسے معاہدے کا خواہش مند نہیں تھا جس کے تحت اس کا دریاؤں پر سے کنڑول ختم ہوجائے ۔ جب کہ پاکستان کو کسی صورت میں بھارت کی بادستی اور دریاؤں پر پورا کنڑول منظور نہیں تھا ۔ یہ گفت و شنید بڑی لمبی اور تھکا دینے والی تھی اور دونوں ممالک اپنی اکتا دینے والی ایسی دلیلیں اور تجویزیں پیش کر رہے تھے ۔ جس سے مخالف فریق کے مفادات اور دریاؤں کی بادستی پر ضرب پہنچتی تھی ۔ ورلڈ بینک کے نمائندے اور دوست حکومتیں جو اس مسلے کو حل کرنے میں مدد دے رہی تھیں جلد ہی ان پر واضح ہو گیا کہ اب ممکن نہیں ہے کہ اس نظام کو چلایا جاسکے ۔ دریاؤں کے بالائی حصوں پر قبضہ کی وجہ سے بھارت کی بالادستی قائم تھی اور پاکستان اپنے ابتدائی سالوں کی سختیاں بھگت کر پختہ ہو چکا تھا ۔ اب وہ دریائے سندھ کو کنڑول کرنے کرنے کی کوششوں اور دنیا کے ساتھ پر امن تعلقات کی بنا پر ایک خوش حال اور فراغت دور کی توقع رکھے ہوئے تھا ۔ دوسری طرف بھارت کو اندرونی طور پر بڑھتے ہوئے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا تھا ۔ جب کہ بیرونی سطح پر چین کے دستے ہمالیہ میں اس بیرونی چوکیوں پر حملہ کر رہے تھے ۔
1955ء میں کوٹری بیراج مکمل ہوا ۔ اس سے سندھ کے مشرقی علاقوں میں پانی میسر آیا وہاں اس کا یہ نقصان ہوا کہ تازہ پانی کے روکنے کی وجہ سے سمندر کا نمکین پانی پہلے کی نسبت بہت آگے آگیا ۔ ڈیرہ غازی خان کے نذدیک چشمہ بیراج جس کی برطانیہ نے منصوبہ بندی کی تھی اس پر 1953ء میں کام شروع ہوا اور پانچ سال میں مکمل ہوا ۔ ایک اور بیراج سندھ اور پنجند کے ارتصال پر اور سکھر کے درمیان گدو کے مقام پر1962ء میں مکمل ہو گیا ۔ اس بیراج کی تجویز بھی برطانیہ کی تھی ۔ دوسرے بڑے ہیڈ ورکس جن کی پاکستان نے منصوبہ بندی کی تھی وہ پنجند کے دریاؤں پر پھیلے ہوئے تھے ۔ نئے بیراجوں کی تعمیر سے پاکستان کے مسائل کم ضرور ہوئے مگر یہ مکمل طور پر حل نہیں ہوئے ۔ وہ اب بھی پنجند کے پانیوں کو استعمال کرنے کے لیے بھارت کا محتاج تھا ۔
1960ء تک دونوں ملکوں میں مفادات کا توازن تقسیم کی نسبت ہموار ہو چکا تھا اور آخر ورلڈ بینک بھارت اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس کے معاہدے پر دستخط کروانے میں کامیاب ہو گیا ۔ دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا ۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا ۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا ۔ جس کی معلومات تک رسائی دونوں ممالک کو حاصل تھی ۔ پنجند کے تین مشرقی دریا ایک مقرہ مدت کے بعد جس کے دوران پانی کی ایک طہ شدہ مقدار پاکستان کو مہیا کی جانی تھی ۔ مکمل طور پر بھارت کے سپرد کر دیے گئے ۔ دریائے سندھ اور پنجند کے دو جہلم اور چناب پر پاکستان کی حاکمیت تسلیم کیے گئے اور بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاوَ میں کبھی بھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا ۔ اس عبوری دور میں پاکستان کو مغربی دریاؤں پر ہیڈ ورکس تعمیر کرنے تھے تاکہ مشرقی دریاؤں کے بند ہو جانے کی صورت میں پانی کی کمی کو پورا کیا جاسکے ۔
جب سندھ طاس برطانیوی دور میں تقریباً سارے کا سارا ایک حکومت کے تحت تھا تو برطانوی حکومت کے انجینئروں نے سالا سال کی محنت اور منصوبہ بندی کے بعد آب پاشی کا ایک پیچیدہ نظام قائم کیا تھا ۔ اب نئے تقاضوں کے پیش نظر اس سارے نظام کو نئے سے منظم کرنا اور مختلف حصوں میں باٹنے کے لیے ایک خطیر رقم کی ضرورت تھی ۔ بھارت اور پاکستان نے کچھ رقم اکھٹی کی اور ورلڈ بینک نے بھی قرضہ مہیا کیا ۔ اس کے علاوہ امریکا ، برطانیہ ، کنیڈا اور جرمنی نے امدادی رقوم دیں اور کام شروع ہو گیا ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا پاکستان میں دریائے کابل پر وارسک ، جہلم پر منگلا ڈیم اور دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم جیسے منصوبوں کی لاگت میں بتدریخ اضافہ ہوتا چلا گیا اور مدد کرنے والے ملکوں کو کئی مرتبہ اپنی امدادی رقوم میں اضافہ کرنا پڑا ۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- دریائے سندھ از جین فیرلی
- ↑ نوشین، توہیدہ بیگم۔ Abasyn Journal of Social Sciences (PDF)۔ 4 (2): 256–288 https://web.archive.org/web/20160416105541/http://64.17.184.140/wp-content/uploads/2012/12/V4I2-2.pdf۔ 16 اپریل 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ مفقود أو فارغ
|title=
(معاونت)