سورہ ابراہیم
قرآن مجید کی 14 ویں سورت جس کا نام حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ماخوذ ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زندگی کے مکی دور کے اخیر زمانے میں نازل ہوئی۔ اس سورت میں 7 رکوع اور 52 آیات ہیں۔
دور نزول | مکی |
---|---|
زمانۂ نزول | اخیرِ مکی زندگی |
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 14 |
عددِ پارہ | 13 |
تعداد آیات | 52 |
الفاظ | 831 |
حروف | 3,461 |
گذشتہ | الرعد |
آئندہ | الحجر |
نام
آیت 35 میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر سے ماخوذ ہے۔ اس نام کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس سورت میں حضرت ابراہیم کی سوانح عمری بیان ہوئی ہے، بلکہ یہ بھی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے۔ یعنی وہ سورت جس میں ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے: ابراہیم آیت 28 تا 29
عام انداز بیاں مکہ کے آخری دور کی سورتوں کا سا ہے۔ سورۂ رعد سے قریب زمانے ہی کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہے۔ خصوصاً آیت 13 کے الفاظ
انکار کرنے والوں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یہ تو تمھیں ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا ورنہ ہم تمھیں اپنے ملک سے نکال دیں گے
کا صاف اشارہ اس طرف ہے کہ اس وقت مکہ میں مسلمانوں پر ظلم و ستم انتہا کو پہنچ چکا تھا اور اہل مکہ پچھلی کافر قوموں کی طرح اپنے ہاں کے اہل ایمان کو خارج البلد کردینے پر تل گئے تھے۔ اسی بنا پر ان کو وہ دھمکی سنائی گئی جو ان کے سے رویے پر چلنے والی پچھلی قوموں کو دی گئی تھی کہ:
ہم ظالموں کو ہلاک کرکے رہیں گے
اور اہل ایمان کو وہی تسلی دی گئی جو ان کے پیش روؤں کو دی جاتی رہی ہے کہ:
ہم ان ظالموں کو ختم کرنے کے بعد تم ہی کو اس سرزمین میں آباد کریں گے
اسی طرح آخری رکوع کے تیور بھی یہی بتاتے ہیں کہ یہ سورت مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔
مرکزی مضمون و مدعا
جو لوگ نبی آخر الزمان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے اور آپ کی دعوت کو ناکام کرنے کے لیے ہر طرح کی بدتر سے بدتر چالیں چل رہے تھے ان کو فہمائش بلکہ تنبیہ۔ لیکن فہمائش کی بہ نسبت اس سورت میں تنبیہ اور ملامت اور زجر و توبیخ کا انداز زیادہ تیز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تفہیم کا حق اس سے پہلے کی سورتوں میں بخوبی ادا کیا جاچکا تھا اور اس کے باوجود کفار قریش کی ہٹ دھرمی، عناد، مزاحمت، شرارت اور ظلم و جور میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا تھا۔