الرعد

قرآن مجید کی 13 ویں سورت

قرآن مجید کی 13 ویں سورت جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدنی زندگی میں نازل ہوئی۔

الرعد
دور نزولمدنی سورۃ
نام کے معنیبادل کی گرج
زمانۂ نزولمدنی سورۃ
اعداد و شمار
عددِ سورت13
عددِ پارہ13
تعداد آیات43
سجود1 (پندرہویں آیت میں)
الفاظ854
حروف3,450
گذشتہسورہ یوسف
آئندہسورہ ابراہیم

نام

آیت نمبر 13 میں استعمال ہونے والے لفظ الرعد کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔ اس نام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سورت میں بادل کی گرج کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے، بلکہ یہ صرف علامت کے طور پر ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہ سورت ہے جس میں لفظ الرعد آیا ہے یا جس میں رعد کا ذکر آیا ہے۔

زمانۂ نزول

رکوع چار اور رکوع چھ کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ یہ سورت بھی اسی دور کی ہے جس میں سورۂ یونس، ہود اور اعراف نازل ہوئی ہیں، یعنی زمانۂ قیام مکہ کا آخری دور۔ انداز بیاں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اسلام کی دعوت دیتے ہوئے ایک مدتِ دراز گذر چکی ہے۔ مخالفین آپ کو زک دینے اور آپ کے مشن کو ناکام کرنے کے لیے طرح طرح کی چالیں چلتے رہے ہیں، مومنین بار بار تمنائیں کر رہے ہیں کہ کاش کوئی معجزہ دکھا کر ہی ان لوگوں کو راہ راست پر لایا جائے اور اللہ تعالٰیٰ مسلمانوں کو سمجھا رہا ہے کہ ایمان کی راہ دکھانے کا یہ طریقہ ہمارے ہاں رائج نہیں ہے اور اگر دشمنانِ حق کی رسی دراز کی جا رہی ہے تو یہ ایسی بات نہیں ہے جس سے تم گھبرا اٹھو۔ پھر آیت 31 سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کفار کی ہٹ دھرمی کا ایسا مظاہرہ ہو چکا ہے جس کے بعد یہ کہنا بالکل بجا معلوم ہوتا ہے کہ اگر قبروں سے مردے بھی اٹھ کر آجائیں تو یہ لوگ نہ مانیں گے بلکہ اس واقعے کی بھی کوئی نہ کوئی تاویل کر ڈالیں گے۔ ان سب باتوں سے یہی گمان ہوتا ہے کہ یہ سورت مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی۔

مرکزی مضمون

سورت کا مدعا پہلی ہی آیت میں پیش کر دیا گیا ہے یعنی یہ کہ جو کچھ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیش کر رہے ہیں وہی حق ہے، مگر یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اسے نہیں مانتے۔ ساری تقریر اسی مرکزی مضمون کے گرد گھومتی ہے۔ اس سلسلے میں بار بار مختلف طریقوں سے توحید و رسالت کی حقانیت ثابت کی گئی ہے، ان پر ایمان لانے کے اخلاقی و روحانی فوائد سمجھائے گئے ہیں، ان کو نہ ماننے کے نقصانات بتائے گئے ہیں،اور یہ ذہن نشین کیا گیا ہے کہ کفر سراسر ایک حماقت اور جہالت ہے۔ پھر چونکہ اس سارے بیان کام قصد محض دماغوں کو مطمئن کرنا ہی نہیں ہے، دلوں کو ایمان کی طرف کھینچنا بھی ہے، اس لیے نرے منطقی استدلال سے کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ ایک ایک دلیل اور ایک ایک شہادت کو پیش کرنے کے بعد ٹھہر کر طرح طرح سے تخویف، ت رہی ب، ترغیب اور مشفقانہ تلقین کی گئی ہے تاکہ نادان لوگ اپنی گمراہانہ ہٹ دھرمی سے باز آجائيں۔ دوران تقریر میں جگہ جگہ مخالفین کے اعتراضات کا ذکر کیے بغیر ان کے جوابات دیے گئے ہیں اور ان شبہات کو رفع کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے تھے یا مخالفین کی طرف سے ڈالے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ اہل ایمان کو بھی، جو کئی برس کی طویل اور سخت جدوجہد کی وجہ سے تھکے جا رہے تھے اور بے چینی کے ساتھ غیبی امداد کے منتظر تھے، تسلی دی گئی ہے۔