سورہ الاعلیٰ

قرآن مجید کی 87 ویں سورت

قرآن مجید کی 87 ویں سورت جس میں 10 آیات ہیں۔

الاعلیٰ
الاعلیٰ
دور نزولمکی
اعداد و شمار
عددِ سورت87
تعداد آیات19
الفاظ72
حروف293
گذشتہالطارق
آئندہالغاشیہ

نام

پہلی ہی آیت سبح اسم ربک الاعلٰی کے لفظ الاعلٰی کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانۂ نزول

اس کے مضمون سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے اور آیت نمبر 6 کے یہ الفاظ بھی کہ

ہم تمہیں پڑھوا دیں گے، پھر تم نہیں بھولو گے

یہ بتاتے ہیں کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ابھی وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق نہیں ہوئی تھی اور نزول وحی کے وقت آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں میں اس کے الفاظ بھول نہ جاؤں۔ اس آیت کے ساتھ اگر سورۂ طٰہٰ کی آیت 114 اور سورۂ قیامہ کی آیات 16 – 19 کو ملا کر دیکھا جائے اور تینوں آیتوں کے اندازِ بیاں اور موقع و محل پر بھی غور کیا جائے تو واقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اس سورت میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اطمینان دلایا گیا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم یہ کلام آپ کو پڑھوا دیں گے اور آپ اسے نہ بھولیں گے۔ پھر ایک مدت کے بعد، دوسرے موقع پر جب سورۂ قیامہ نازل ہو رہی تھی، حضور بے اختیار الفاظِ وحی کو دہرانے لگے۔ اس وقت فرمایا گیا "اے نبی، اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرات کو غور سے سنتے رہے، پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ " آخری مرتبہ سورۂ طٰہ کے نزول کے موقع پر حضور کو پھر بتقاضائے بشریت اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ 113 آیتیں جو متواتر نازل ہوئی ہیں ان میں سے کوئی چیز میرے حافظے سے نہ نکل جائے اور آپ ان کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس پر فرمایا گیا "اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک تمھاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے " اس کے بعد پھر کبھی اس کی نوبت نہیں ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایسا کوئی خطرہ لاحق ہوتا، کیونکہ ان تین مقامات کے سوا کوئی چوتھا مقام قرآن میں ایسا نہیں ہے جہاں اس معاملے کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہو۔

موضوع اور مضمون

اس چھوٹی سی سورت کے تین موضوع ہیں۔ توحید، نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت اور آخرت۔

پہلی آیت میں توحید کی تعلیم کو اس ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی کے نام کی تسبیح کی جائے، یعنی اس کو کسی ایسے نام سے یاد نہ کیا جائے جو اپنے اندر کسی قسم کے نقص، عیب، کمزوری یا مخلوقات سے تشبیہ کا کوئی پہلو رکھتا ہو کیونکہ دنیا میں جتنے بھی فاسد عقائد پیدا ہوئے ہیں ان سب کی جڑ اللہ تعالٰی کے متعلق کوئی نہ کوئی غلط تصور ہے جس نے اس ذات پاک کے لیے کسی غلط نام کی شکل اختیار کی ہے لہٰذا عقیدے کی تصحیح کے لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو صرف ان اسماء حسنٰی ہی سے یاد کیا جائے جو اس کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔

اس کے بعد تین آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ تمھارا رب، جس کے نام کی تسبیح کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا، اس کا تناسب قائم کیا، اس کی تقدیر بنائی، اسے وہ کام انجام دینے کی راہ بتائی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے اور تم اپنی آنکھوں سے اس کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھ رہے ہو کہ وہ زمین پر نباتات کو پیدا بھی کرتا ہے اور پھر انھیں خس و خاشاک بھی بنا دیتا ہے۔ کوئی ہستی نہ بہار لانے پر قادر ہے نہ خزاں کو آنے سے روک سکتی ہے۔

پھر دو آیتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ اس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ قرآن جو آپ پر نازل کیا جا رہا ہے، یہ لفظ بلفظ آپ کو یاد کیسے رہے گا۔ اس کو آپ کے حافظے میں محفوظ کر دینا ہمارا کام ہے اور اس کا محفوظ رہنا آپ کے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے فضل کا نتیجہ ہے، ورنہ ہم چاہیں تو اسے بھلا دیں۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کے سپرد ہر ایک کو راہ راست پر لے آنے کا کام نہیں کیا گیا ہے بلکہ آپ کا کام بس حق کی تبلیغ کر دینا ہے اور تبلیغ کا سیدھا سادا طریقہ یہ ہے کہ جو نصیحت سننے اور قبول کرنے کے لیے تیار ہو اسے نصیحت کی جائے اور جو اس کے لیے تیار نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑا جائے۔ جس کے دل میں گمراہی کے انجامِ بد کا خوف ہوگا وہ حق بات کو سن کر قبول کر لے گا اور جو بدبخت اسے سننے اور قبول کرنے سے گریز کرے گا وہ اپنا برا انجام خود دیکھ لے گا۔

آخر میں کلام کو اس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ فلاح صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو عقائد، اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کریں اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھیں۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ انھیں ساری فکر بس اسی دنیا کے آرام و آسائش اور فائدوں اور لذتوں کی ہے حالانکہ اصل فکر آخرت کی ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی اور دنیا کی نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں بدرجہا بڑھ کر ہیں۔ یہ حقیقت صرف قرآن ہی میں نہیں بتائی جا رہی ہے، بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت موسٰی علیہم السلام کے صحیفوں میں بھی انسان کو اسی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تھا۔