سورہ الغاشیہ

قرآن مجید کی 88 ویں سورت

الغاشیہ قرآن مجید کی 88 ویں سورت ہے جس میں 26 آیات اور 1 رکوع ہے۔

الغاشیہ
الغاشیہ
دور نزولمکی
نام کے معنیچھا جانے والی (یعنی قیامت)
زمانۂ نزولنبوت کا ابتدائی زمانہ
اعداد و شمار
عددِ سورت88
عددِ پارہ30
تعداد آیات26
الفاظ92
حروف378
گذشتہالاعلیٰ
آئندہالفجر

نام

پہلی ہی آیت کے لفظ الغاشیۃ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے۔

زمانہ نزول

سورت کا پورا مضمون اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بھی ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، مگر یہ وہ زمانہ تھا جب حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تبلیغِ عام شروع کر چکے تھے اور مکہ کے لوگ بالعموم اسے سن سن کر نظر انداز کیے جا رہے تھے۔

موضوع اور مضمون

اس کے موضوع کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ ابتدائی زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تبلیغ زیادہ تر دو ہی باتیں لوگوں کے ذہن نشین کرنے پر مرکوز تھی۔ ایک توحید، دوسرے آخرت اور اہل مکہ ان دونوں باتوں کو قبول کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ اس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد اب اس سورت کے مضمون اور انداز بیاں پر غور کیجیے۔

اس میں سب سے پہلے غفلت میں پڑے ہوئے لوگوں کو چونکانے کے لیے اچانک ان کے سامنے ایک سوال پیش کیا گیا ہے کہ تمھیں اس وقت کی بھی کچھ خبر ہے جب سارے عالم پر چھا جانے والی ایک آفت نازل ہوگی؟ اس کے بعد فوراً بعد ہی تفصیل بیان کرنی شروع کر دی گئی ہے کہ اس وقت سارے انسان دو مختلف گروہوں میں تقسیم ہو کر دو مختلف انجام دیکھیں گے۔ ایک وہ جو جہنم میں جائیں گے اور انھیں ایسے اور ایسے سخت عذاب جھیلنے ہوں گے۔ دوسرے وہ جو عالی مقام جنت میں جائیں گے اور ان کو ایسی اور ایسی نعمتیں میسر ہوں گی۔

اس طرح لوگوں کو چونکانے کے بعد یکلخت مضمون تبدیل ہوتا ہے اور سوال کیا جاتا ہے کہ کیا یہ لوگ جو قرآن کی تعلیمِ توحید اور خبرِ آخرت کو سن کر ناک بھوں چڑھا رہے ہیں، اپنے سامنے کی ان چیزوں کو نہیں دیکھتے جن سے ہر وقت انھیں سابقہ پیش آتا ہے؟ عرب کے صحرا میں جن اونٹوں پر ان کی ساری زندگی کا انحصار ہے، کبھی یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ یہ کیسے ٹھیک انھیں خصوصیات کے مطابق بن گئے جیسی خصوصیات کے جانور کی ضرورت ان کی صحرائی زندگی کے لیے تھی؟ اپنے سفروں میں جب یہ چلتے ہیں تو انھیں یا آسمان نظر آتا ہے یا پہاڑ یا زمین۔ انہی تین چیزوں پر یہ غور کریں۔ اوپر یہ آسمان کیسے چھا گیا؟ سامنے یہ پہاڑ کیسے کھڑے ہو گئے؟ نیچے یہ زمین کیسے بچھ گئی؟ کیا یہ سب کچھ کسی قادر مطلق صانعِ حکیم کی کاریگری کے بغیر ہو گیا ہے؟ اگر یہ مانتے ہیں کہ ایک خالق نے بڑی حکمت اور بڑی قدرت کے ساتھ ان چیزوں کو بنایا ہے اور کوئی دوسرا ان کی تخلیق میں شریک نہیں ہے، تو اسی کو اکیلا رب ماننے سے انھیں کیوں انکار ہے؟ اور اگر یہ مانتے ہیں کہ وہ خدا یہ سب کچھ پیدا کرنے پر قادر تھا، تو آخر کس معقول دلیل سے انھیں یہ ماننے میں تامل ہے کہ وہی خدا قیامت لانے پربھی قادر ہے؟ انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے؟ جنت اور دوزخ بنانے پر بھی قادر ہے؟

اس مختصر اور نہایت معقول استدلال سے بات سمجھانے کے بعد کفار کی طرف سے رخ پھیر کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو مخاطب کیا جاتا ہے اور آپ سے ارشاد ہوتا ہے کہ یہ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں، تم ان پر جبار بنا کر تو مسلط کیے نہیں گئے ہو کہ زبردستی ان سے منوا کر ہی چھوڑو۔ تمھارا کام نصیحت کرنا ہے، سو تم نصیحت کیے جاؤ۔ آخرکار انھیں آنا ہمارے ہی پاس ہے۔ اس وقت ہم ان سے پورا پورا حساب لیں گے اور نہ ماننے والوں کو بھاری سزا دیں گے۔