سورہ الفرقان

قرآن مجید کی 25 ویں سورت

قرآن مجید کی 25 ویں سورت جو مکے میں نازل ہوئی۔ 77 آیات اور 6 رکوع پر مشتمل ہے۔

الفرقان
دور نزولمکی
زمانۂ نزولمکی زندگی کا دورِ متوسط
اعداد و شمار
عددِ سورت25
عددِ پارہ18، 19
تعداد آیات77
الفاظ896
حروف3,786

نام

پہلی ہی آیت تبٰرک الذی نزل الفرقان سے ماخوذ ہے۔ یہ بھی قرآن کی اکثر سورتوں کے ناموں کی طرح علامت کے طور پر ہے نہ کہ عنوانِ مضمون کے طور پر۔ تاہم مضمونِ سورت کے ساتھ یہ نام ایک قریبی مناسبت رکھتا ہے۔

زمانۂ نزول

مزید دیکھیے : الفرقان آیت 68 تا 70

اندازِ بیاں اور مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول بھی وہی ہے جو سورۂ مومنون وغیرہ کا ہے، یعنی زمانۂ قیامِ مکہ کا دورِ متوسط۔ ابن جریر اور امام رازی نے ضحاک بن مزاحم اور مقاتل بن سلیمان کی یہ روایت نقل کی ہے کہ یہ سورت سورۂ نساء سے 8 سال پہلے اتری تھی۔ اس حساب سے بھی اس کا زمانۂ نزول وہی دورِ متوسط قرار پاتا ہے۔[1][2]

موضوع و مباحث

اس میں اُن شبہات و اعتراضات پر کلام کیا گیا ہے جو قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت اور آپ کی پیش کردہ تعلیم پر کفار مکہ کی طرف سے پیش کیے جاتے تھے۔ ان میں سے ایک ایک کا جچا تلا جواب دیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ دعوتِ حق سے منہ موڑنے کے برے نتائج بھی صاف صاف بتائے گئے ہیں۔ آخر میں سورۂ مومنون کی طرح اہل ایمان کی اخلاقی خوبیوں کا ایک نقشہ کھینچ کر عوام الناس کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ اس کسوٹی پر کس کر دیکھ لو، کون کھوٹا ہے اور کون کھرا۔ ایک طرف اس سیرت و کردار کے لوگ ہیں جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعلیم سے اب تک تیار ہوئے ہیں اور آئندہ تیار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دوسری طرف وہ نمونۂ اخلاق ہے جو عام اہلِ عرب میں پایا جاتا ہے اور جسے برقرار رکھنے کے لیے جاہلیت کے علمبردار ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اب خود فیصلہ کرو کہ ان دونوں نمونوں میں سے کسے پسند کرتے ہو؟ یہ ایک غیر ملفوظ سوال تھا جو عرب کے ہر باشندے کے سامنے رکھا گیا اور چند سال کے اندر ایک چھوٹی سی اقلیت کو چھوڑ کر ساری قوم نے اس کا جو جواب دیا وہ جریدۂ روزگار پر ثبت ہو چکا ہے۔

حوالہ جات

  1. ابن جریر، جلد 19، صفحہ 28 تا 30
  2. تفسیرِ کبیر،جلد 6، صفحہ 358