سورہ المعارج

قرآن مجید کی 70 ویں سورت

قرآن مجید کی 70 ویں سورت جس کے 2 رکوع میں 44 آیات ہیں۔

المعارج
دور نزولمکی
اعداد و شمار
عددِ سورت70
عددِ پارہ29
تعداد آیات44

نام

تیسری آیت کے لفظ ذی المعارج سے ماحوذ ہے۔

زمانۂ نزول

اس کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ اس کا نزول بھی قریب قریب انہی حالات میں ہوا ہے جس میں سورۂ الحاقہ نازل ہوئی تھی۔

موضوع اور مضمون

اس میں ان کفار کو تنبیہ اور نصیحت کی گئی ہے جو قیامت اور آخرت اور دوزخ اور جنت کی خبروں کا مذاق اڑاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چیلنج دیتے تھے کہ اگر تم سچے ہو اور تمھیں جھٹلا کر ہم عذاب جہنم کے مستحق ہو چکے ہیں تو لے آؤ وہ قیامت جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اس سورت کی ساری تقریر اسی چیلنج کے جواب میں ہے۔

ابتدا میں ارشاد ہوا ہے کہ مانگنے والا عذاب مانگتا ہے۔ وہ عذاب انکار کرنے والوں پر ضرورت واقع ہو کر رہے گا اور جب وہ واقع ہوگا تو اسے کوئی دفع نہ کر سکے گا، مگر وہ اپنے وقت پر واقع ہوگا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔ لہٰذا ان کے مذاق اڑانے پر صبر کرو۔ یہ اسے دور دیکھ رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔

پھر بتایا گیا ہے کہ قیامت، جس کے جلدی لے آنے کا مطالبہ یہ لوگ ہنسی اور کھیل کے طور پر کر رہے ہیں کیسی سخت چیز ہے اور جب وہ آئے گی تو ان مجرمین کا کیسا برا حشر ہوگا۔ اس وقت یہ اپنے بیوی بچوں اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں تک کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے تاکہ کسی طرح عذاب سے بچ نکلیں، مگر نہ بچ سکیں گے۔

اس کے بعد لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اس روز انسانوں کی قسمت کا فیصلہ سراسر ان کے عقیدے اور اخلاق و اعمال کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں حق سے منہ موڑا ہے اور مال سمیٹ سمیٹ کر اور سینت سینت کر رکھا ہے وہ جہنم کے مستحق ہوں گے۔ اور جنھوں نے یہاں خدا کے عذاب کا خوف کیا ہے، آخرت کو مانا ہے، نماز کی پابندی کی ہے، اپنے مال سے خدا کے محتاج بندوں ک حق ادا کیا ہے، بدکاریوں سے دامن پاک رکھا ہے، امانت میں خیانت نہیں کی ہے، عہد و پیمان اور قول و قرار کا پاس کیا ہے اور گواہی میں راست بازی پر قائم رہے ہیں وہ جنت میں عزت کی جگہ پائیں گے۔

آخر میں مکہ کے ان کفار کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھ کر آپ کا مذاق اڑانے کے لیے چاروں طرف سے ٹوٹے پڑتے تھے، خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تم نہ مانو گے تو اللہ تعالٰی تمھاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تلقین کی گئی ہے کہ ان کے تمسخر کی پروا نہ کریں، یہ اگر قیامت ہی کی ذلت دیکھنے پر مُصِر ہیں تو انھیں اپنے بیہودہ مشغلوں میں پڑا رہنے دیں، اپنا برا انجام یہ خود دیکھ لیں گے۔