قرآن مجید کی 21 ویں سورت جو 17 پارے کے آغاز سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی کے درمیانی دور میں نازل ہوئی۔ اس سورت میں 112 آیات اور 7 رکوع ہیں۔

الانبیاء
دور نزولمکی
زمانۂ نزولمکی زندگی کا درمیانی دور
اعداد و شمار
عددِ سورت21
عددِ پارہ17
تعداد آیات112
الفاظ1,174
حروف4,925

نام

اس سورت کا نام کسی خاص آیت سے ماخوذ نہیں چونکہ اس میں مسلسل بہت سے انبیا کا ذکر آیا ہے، اس لیے اس کا نام "الانبیاء" رکھ دیا گیا۔ یہ بھی موضوع کے لحاظ س سورت کا عنوان نہیں ہے بلکہ محض پہچاننے کے لیے ایک علامت ہے۔

زمانۂ نزول

مضمون اور انداز بیاں، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کا زمانۂ نزول مکے کا دور متوسط، یعنی ہماری تقسیم کے لحاظ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی کا تیسرا دور ہے۔ اس کے پس منظر کے حالات میں وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو آخری دور کی سورتوں میں نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہے۔

موضوع و مضمون

اس سورت میں وہ کشمکش زیر بحث ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور سردارانِ قریش کے درمیان برپا تھی۔ وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دعوائے رسالت اور آپ کی دعوتِ توحید و عقیدۂ آخرت پر جو شکوک اور اعتراضات پیش کرتے تھے ان کا جواب دیا گیا ہے۔ ان کی طرف سے آپ کی مخالفت میں جو چالیں چلی جا رہی تھیں ان پر زجر و توبیخ کی گئی ہے اور ان حرکتوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا گیا ہے۔ وہ جس غفلت اور بے پروائی سے آپ کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے اس پر متنبہ کیا گیا ہے۔ اور آخر میں ان کو یہ احساس دلایا گیا ہے جس شخص کو تم اپنے لیے زحمت اور مصیبت سمجھ رہے ہو وہ دراصل تمھارے لیے رحمت بن کر آیا ہے۔ دورانِ تقریر میں خاص طور پر جو امور زیر بحث آئے ہیں وہ یہ ہیں :

  1. کفار مکہ کی یہ غلطی فہمی کہ بشر کبھی رسول نہیں ہو سکتا اور اس بنا پر ان کا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو رسول ماننے سے انکار کرنا۔ ۔۔ اس کا بڑی تفصیل کے ساتھ رد کیا گیا ہے۔
  2. ان کا آپ پر اور قرآن پر مختلف اور متضاد قسم کے اعتراضات کرنا اور کسی ایک بات پر نہ جمنا۔ ۔۔ اس پر مختصر مگر نہایت پُر زور اور معنی خیز طریقے سے گرفت کی گئی ہے۔
  3. ان کا یہ تصور کہ زندگی بس ایک کھیل ہے جسے چند روز کھیل کر یونہی ختم ہوجانا ہے، اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا ہے، کسی حساب کتاب اور جزا و سزا سے سابقہ نہیں پیش آنا ہے۔ ۔۔ یہ چیز چونکہ اُس غفلت و بے اعتنائی کی اصل جڑ تھی جس کے ساتھ وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت کا استقبال کر رہے تھے، اس لیے بڑے ہی مؤثر انداز میں اس کا توڑ کیا گیا ہے۔
  4. شرک پر ان کا اصرار اور توحید کے خلاف ان کا جاہلانہ تعصب جو ان کے اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان اصل بنائے نزاع تھا۔ ۔۔ اس کی اصلاح کے لیے شرک کے خلاف اور توحید کے حق میں مختصر مگر بہت وزنی اور دلنشیں دلائل دیے گئے۔
  5. ان کی یہ غلط فہمی کہ نبی کو بار بار جھٹلانے کے باوجود جب ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تو ضرور نبی جھوٹا ہے اور عذابِ الٰہی کی وہ وعیدیں جو وہ خدا کی طرف سے ہمیں سناتا ہے محض خالی خولی دھمکیاں ہیں۔ ۔۔۔ اس کو استدلال اور نصیحت، دونوں طریقوں سے رفع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کے بعد انبیا علیہم السلام کی سیرتوں کے اہم واقعات سے چند نظیریں پیش کی گئی ہیں جن سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ تمام وہ پیغمبر جو انسانی تاریخ کے دوران میں خدا کی طرف سے آئے تھے، انسان تھے اور نبوت کے امتیازی وصف کو چھوڑ کر دوسری صفات میں وہ ویسے ہی انسان ہوتے تھے جیسے دنیا کے عام انسان ہوا کرتے تھے۔ الوہیت اور خدائی کا ان میں شائبہ تک نہ تھا بلکہ اپنی ہر ضرورت کے لیے وہ خود خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے تھے۔ اس کے ساتھ انہی تاریخی نظیروں سے دو باتیں اور بھی واضح کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ انبیا پر طرح طرح کے مصائب آئے ہیں اور ان کے مخالفین نے بھی ان کو برباد کرنے کی کوششیں کی ہیں، مگر آخر کار اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے غیر معمولی طریقوں پر ان کی نصرت فرمائی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام انبیا کا دین ایک تھا اور وہ وہی دین تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیش کر رہے ہیں، نوع انسانی کا اصل دین یہی ہے اور باقی جتنے مذاہب دنیا میں بنے ہیں وہ محض گمراہ انسانوں کے ڈالے ہوئے تفرقے ہیں۔ آخر میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کی نجات کا انحصار اسی دین کی پیروی اختیار کرنے میں ہے۔ جو لوگ اسے قبول کریں گے وہی خدا کی آخری عدالت سے کامیاب نکلیں گے اور زمین کے وارث ہوں گے۔ اور جو لوگ اسے رد کر دیں گے وہ آخرت میں بد ترین انجام سے دوچار ہوں گے۔ اللہ تعالٰیٰ کی یہ بڑی مہربانی ہے کہ وہ فیصلے کے وقت سے پہلے اپنے نبی کے ذریعے سے لوگوں کو اس حقیقت سے آگاہ کر رہا ہے۔ نادان ہیں وہ لوگ جو نبی کی آمد کو اپنے لیے رحمت کی بجائے زحمت سمجھ رہے ہیں۔