سورہ لہب

قرآن مجید کی 111 ویں سورت

لہب یا مسد ایک مکی سورۃ ہے جو سورہ الفتح کے بعد نازل ہوئی۔

اللہب
نام کے معنیابو لہب کے نام پر
دیگر نامسورۃ المسد
زمانۂ نزولمکی
اعداد و شمار
عددِ سورت111
عددِ پارہ30
تعداد آیات5
الفاظ20
حروف77
گذشتہالنصر
آئندہالاخلاص

سورۃ

ترجمہ

ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو {1} نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا {2} وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا {3} اور اس کی بیوی بھی جو ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے {4} اس کے گلے میں مونج کی رسّی ہو گی {5

}

شماریات

سورہ لہب میں 5 آیات، 20 کلمات اور 77 حروف موجود ہیں۔[2]

زمانۂ نزول

اس کے مکی ہونے میں تو مفسرین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے، لیکن ٹھیک ٹھیک یہ متعین کرنا مشکل ہے کہ مکی دور کے کس زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ البتہ ابولہب کا جو کردار رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کی دعوتِ حق کے خلاف تھا اُس کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اِس سورت کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہوگا جب وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عداوت میں حد سے گذر گیا تھا اور اُس کا رویہ اسلام کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن رہا تھا۔ بعید نہیں کہ اِس کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے خاندان والوں کا مقاطعہ کر کے قریش کے لوگوں نے اُن کو شِعبِ ابی طالب میں محصور کر دیا تھا اور تنہا ابو لہب ہی ایسا شخص تھا جس نے اپنے خاندان والوں کو چھوڑ کر دشمنوں کا ساتھ دیا تھا۔ اِس قیاس کی بنا یہ ہے کہ ابو لہب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چچا تھا اور بھتیجے کی زبان سے چچا کی کھلم کھلا مذمت کرانا اُس وقت تک مناسب نہ ہو سکتا تھا جب تک چچا کی حد سے گذری ہوئی زیادتیاں علانیہ سب کے سامنے نہ آ گئی ہوں۔ اس سے پہلے اگر ابتدا ہی میں یہ سورت نازل کر دی گئی ہوتی تو لوگ اس کو اخلاقی حیثیت سے معیوب سمجھتے کہ بھتیجا اپنے چچا کی اِس طرح مذمت کرے۔

پس منظر

قرآن مجید میں یہ ایک ہی مقام ہے جہاں دشمنانِ اسلام میں سے کسی شخص کا نام لے کر اُس کی مذمت کی گئی ہے، حالانکہ مکے میں بھی اور ہجرت کے بعد مدینے میں بھی بہت سے لوگ ایسے تھے جو اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عداوت میں ابو لہب سے کسی طرح کم نہ تھے۔ سوال یہ ہے کہ اِس شخص کی وہ کیا خصوصیت تھی جس کی بنا پر اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی؟ اِس بات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس وقت کے عربی معاشرے کو سمجھا جائے اور اُس میں ابو لہب کے کردار کو دیکھا جائے۔ قدیم زمانے میں چونکہ پورے ملکِ عرب میں ہر طرف بے امنی، غارت گری اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی اور صدیوں سے حالت یہ تھی کہ کسی شخص کے لیے اُس کے اپنے خاندان اور خونی رشتہ داروں کی حمایت کے سوا جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہ تھی، اس لیے عربی معاشرے کی اخلاقی قدروں میں صلۂ رحمی (یعنی رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک) کو بڑی اہمیت حاصل تھی اور قطعِ رحمی کو بہت بڑا پاپ سمجھا جاتا تھا۔ عرب کی انہی روایات کا یہ اثر تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اسلام کی دعوت لے کر اٹھے تو قریش کے دوسرے خاندانوں اور ان کے سرداروں نے تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شدید مخالفت کی، مگر بنی ہاشم اور بنی المطلب (ہاشم کے بھائی مطلب کی اولاد) نے نہ صرف یہ کہ آپ کی مخالفت نہیں کی، بلکہ وہ کھلم کھلا آپ کی حمایت کرتے رہے، حالانکہ ان میں سے اکثر لوگ آپ کی نبوت پر ایمان نہیں لائے تھے۔ قریش کے دوسرے خاندان خود بھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اِن خونی رشتہ داروں کی حمایت کو عرب کی اخلاقی روایات کے عین مطابق سمجھتے تھے، اسی وجہ سے انھوں نے کبھی بنی ہاشم اور بنی المطلب کو یہ طعنہ نہیں دیا کہ تم ایک دوسرا دین پیش کرنے والے شخص کی حمایت کر کے اپنے دینِ آبائی سے منحرف ہو گئے ہو۔ وہ اِس بات کو جانتے اور مانتے تھے کہ اپنے خاندان کے ایک فرد کو وہ کسی حالت میں اُس کے دشمنوں کے حوالے نہیں کر سکتے اور اُن کا اپنے عزیز کی پشتیبانی کرنا قریش اور اہل عرب، سب کے نزدیک بالکل ایک فطری امر تھا۔ اس اخلاقی اصول کو، جسے زمانۂ جاہلیت میں بھی عرب کے لوگ واجب الاحترام سمجھتے تھے، صرف ایک شخص نے اسلام دشمنی میں توڑ ڈالا اور وہ تھا ابو لہب بن عبد المطلب۔ یہ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا چچا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے والد ماجد اور یہ ایک ہی باپ کے بیٹے تھے۔ عرب میں چچا کو باپ کی جگہ سمجھا جاتا تھا، خصوصاً جبکہ بھتیجے کا باپ وفات پا چکا ہو تو عربی معاشرے میں چچا سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ بھتیجے کو اپنی اولاد کی طرح عزیز رکھے گا۔ لیکن اس شخص نے اسلام کی دشمنی اور کفر کی محبت میں ان تمام عربی روایات کو پامال کر دیا۔ ابن عباس سے متعدد سندوں کے ساتھ یہ روایت محدثین نے نقل کی ہے کہ جب محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دعوتِ عام پیش کرنے کا حکم دیا گیا اور قرآن مجید میں یہ ہدایت نازل ہوئی کہ آپ اپنے قریب ترین عزیزوں کو سب سے پہلے خدا کے عذاب سے ڈرائیں تو آپ نے صبح سویرے کوہ صفا پر چڑھ کر بلند آواز سے پکارا "یا صباحاہ" (ہائے صبح کی آفت)۔ عرب میں یہ صدا وہ شخص لگاتا تھا جو صبح کے جھٹ پٹے میں کسی دشمن کو اپنے قبیلے پر محلہ کرنے کے لیے آتے دیکھ کر لیتا تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ آواز سن کر لوگوں نے دریافت کیا کہ یہ کون پکار رہا ہے۔ بتایا گیا کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی آواز ہے۔ اس پر قریش کے تمام خاندان کے لوگ آپ کی طرف دوڑ پڑے۔ جو خود آ سکتا تھا وہ خود آیا اور جو نہ آ سکتا تھا اس نے اپنی طرف سے کسی کو بھیج دیا۔ جب سب جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قریش کے ایک ایک خاندان کا نام لے لے کر پکارا، اے بنی ہاشم، اے بنی عبد المطلب، اے بنی فہر، اے بنی فلاں، اے بنی فلاں، اگر میں تمھیں یہ بتاؤں کہ پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہے تو تم میری بات سچ مانوں گے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں، ہمیں کبھی تم سے جھوٹ سننے کا تجربہ نہیں ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا تو میں تمھیں خبردار کرتا ہوں کہ آگے سخت عذاب آ رہا ہے۔ اس پر قبل اِس کے کہ کوئی اور بولتا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اپنے چچا ابو لہب نے کہا "تبا لک الھٰذا جمعتنا؟" (ستیاناس جائے تیرا، کیا اس لیے تونے ہمیں جمع کیا تھا؟" ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اس نے پتھر اٹھایا تاکہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر کھینچ مارے۔[3] ابن زید کی روایت ہے کہ ابو لہب نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک روز پوچھا اگر میں تمھارے دین کو مان لوں تو مجھے کیا ملے گا؟ آپ نے فرمایا جو اور سب ایمان لانے والوں کو ملے گا۔ اس نے کہا میرے لیے کوئی فضیلت نہیں ہے؟ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا اور آپ کیا چاہتے ہیں؟ اس پر وہ بولا "تبا لھٰذا الدین تبا ان اکون وھٰؤلاء سوآءً" (ناس جائے اِس دین کا جس میں میں اور یہ دوسرے لوگ برابر ہوں) [4] مکہ میں ابو لہب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا قریب ترین ہمسایہ تھا۔ دونوں کے گھر ایک دیوار بیچ واقع تھے۔ اس کے علاوہ حکم بن عاص (مروان کا باپ)، عقبہ بن ابی معیط عدی بن حمراء اور ابن الصداء الہذلی بھی آپ کے ہمسائے تھے۔ یہ لوگ گھر میں بھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو چین نہیں لینے دیتے تھے۔ آپ کبھی نماز پڑھ رہے ہوتے تو یہ اوپر سے بکری کا اوجھ آپ پر پھینک دیتے۔ کبھی صحن میں کھانا پک رہا ہوتا تو یہ ہنڈیا پر غلاظت پھینک دیتے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم باہر نکل کر ان لوگوں سے فرماتے "اے بنی عبد مناف، یہ کیسی ہمسایگی ہے؟ ابو لہب کی بیوی ام جمیل (ابو سفیان کی بہن) نے تو یہ مستقل وتیرہ ہی اختیار کر رکھا تھا کہ راتوں کو آپ کے گھر کے دروازے پر خار دار جھاڑیاں لا کر ڈال دیتی، تاکہ صبح سویرے جب آپ یا آپ کے بچے باہر نکلیں تو کوئی کانٹا پاؤں میں چبھ جائے۔[5]

نبوت سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں ابو لہب کے بیٹوں عتبہ اور عتیبہ سے بیاہی ہوئی تھیں۔ اظہار نبوت کے بعد جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسلام کی طرف دعوت دینی شروع کی تو اِس شخص نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ میرے لیے تم سے ملنا حرام ہے اگر تم محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیٹیوں کو طلاق نہ دے دو۔ چنانچہ دونوں نے طلاق دے دی اور عتیبہ تو جہالت میں اس قدر آگے بڑھ گیا کہ ایک روز حضور کے سامنے آ کر اس نے کہا میں "النجم اذا ھوٰی" اور "الذی دنا فتدلی" کا انکار کرتا ہوں اور یہ کہہ کر اس نے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف تھوکا جو آپ پر نہیں پڑا۔ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا خدایا، اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتے کو مسلط کر دے۔ اس کے بعد عتیبہ اپنے باپ کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہو گیا۔ دورانِ سفر میں ایک ایسی جگہ قافلے نے پڑاؤ کیا جہاں مقامی لوگوں نے بتایا کہ راتوں کو درندے آتے ہیں۔ ابو لہب نے اپنے ساتھی اہل قریش سے کہا کہ میرے بیٹے کی حفاظت کا کچھ انتظام کرو، کیونکہ مجھے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بد دعا کا خوف ہے۔ اس قافلے والوں نے عتیبہ کے گرد ہر طرف اپنے اونٹ بٹھا دیے اور پڑ کر سو رہے۔ رات کو ایک شیر آیا اور اونٹوں کے حلقے میں سے گذر کے اُس نے عتیبہ کو پھاڑ کھایا۔ ۔[6] روایات میں یہ اختلاف ہے کہ بعض راوی طلاق کے معاملے کو اظہار نبوت کے بعد کا واقعہ بیان کرتے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ تبت یدا ابی لھب کے نزول کے بعد پیش آیا تھا۔ اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ یہ ابو لہب کا لڑکا عتبہ تھا یا عتیبہ لیکن یہ بات ثابت ہے کہ فتح مکہ کے بعد عتبہ نے اسلام قبول کر کے محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اس لیے صحیح بات یہی ہے کہ یہ لڑکا عتیبہ تھا۔ اُس کے خبثِ نفس کا یہ حال تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صاحبزادے قاسم بن محمد کے بعد دوسرے صاحبزادے عبد اللہ بن محمد کا بھی انتقال ہو گیا تو یہ اپنے بھتیجے کے غم میں شریک ہونے کی بجائے خوشی خوشی دوڑا ہوا قریش کے سرداروں کے پاس پہنچا اور اُن کو خبر دی کہ لو آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بے نام و نشان ہو گئے۔[7] محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جہاں جہاں بھی اسلام کی دعوت دینے کے لیے تشریف لے جاتے، یہ آپ کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بات سننے سے روکتا۔ ربیعہ بن عباد الدیلی رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نو عمر تھا جب اپنے باپ کے ساتھ ذوالمجاز کے بازار میں گیا۔ وہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کہہ رہے تھے "لوگو، کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، فلاح پاؤ گے" اور آپ کے پیچھے پیچھے ایک شخص کہتا جا رہا تھا کہ "یہ جھوٹا ہے، دینِ آبائی سے پھر گیا ہے"۔ میں نے پوچھا یہ کون شخص ہے؟ لوگوں نے کہا یہ ان کا چچا ابو لہب ہے ۔[8] دوسری روایت انہی ربیعہ سے ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا؛ آپ ایک ایک قبیلے کے پڑاؤ پر جاتے ہیں اور فرماتے ہیں "اے بنی فلاں! میں تمھاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ تمھیں ہدایت کرتا ہوں کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تم میری تصدیق کرو اور میرا ساتھ دو تاکہ میں وہ کام پورا کروں جس کے لیے اللہ نے مجھے بھیجا ہے۔" آپ کے پیچھے پیچھے ایک اور شخص آتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ "اے بنی فلاں، یہ تم کو لات و عزیٰ سے پھیر کر اُس بدعت اور گمراہی کی طرف لے جانا چاہتا ہے جسے یہ لے کر آیا ہے۔ اس کی بات ہر گز نہ مانو اور اس کی پیروی نہ کرو" میں نے اپنے باپ سے پوچھا یہ کون ہے۔ انھوں نے کہا یہ ان کا چچا ابو لہب ہے۔[9]

طارق بن عبد اللہ المحاربی کی روایت بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔ وہ کہتے ہیں میں نے ذو المجاز کے بازار میں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم لوگوں سے کہتے جاتے ہیں کہ "لوگو، لا الٰہ الا اللہ کہو، فلاح پاؤ گے" اور پیچھے ایک شخص ہے جو آپ کو پتھر مار رہا ہے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایڑیاں خون سے تر ہو گئی ہیں اور وہ کہتا جاتا ہے کہ "یہ جھوٹا ہے، اس کی بات نہ مانو" میں نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا یہ ان کا چچا ابو لہب ہے۔[10]

نبوت کے ساتویں سال جب قریش کے تمام خاندانوں نے بنی ہاشم اور بنی المطلب کا معاشرتی اور معاشی مقاطعہ کیا اور یہ دونوں خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حمایت پر ثابت قدم رہتے ہوئے شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے تو تنہا یہی ابو لہب تھا جس نے اپنے خاندان کا ساتھ دینے کی بجائے کفار قریش کا ساتھ دیا۔ یہ مقاطعہ تین سال تک جاری رہا اور اس دوران میں بنی ہاشم اور بنی المطلب پر فاقوں کی نوبت آ گئی۔ مگر ابو لہب کا حال یہ تھا کہ جب مکہ میں کوئی تجارتی قافلہ آتا اور شعب ابی طالب کے محصورین میں سے کوئی خوراک کا سامان خریدنے کے لیے اس کے پاس جاتا تو یہ تاجروں سے پکار کر کہتا کہ اِن سے اِتنی قیمت مانگوں کہ یہ خرید نہ سکیں، تمھیں جو خسارہ بھی ہوگا اسے میں پورا کروں گا۔ چنانچہ وہ بے تحاشا قیمت طلب کرتے اور خریدار بیچارہ اپنے بھوک سے تڑپتے ہوئے بال بچوں کے پاس خالی ہاتھ پلٹ جاتا۔ پھر ابو لہب انہی تاجروں سے وہی چیزیں بازار کے بھاؤ خرید لیتا۔[11]

یہ اس شخص کی حرکات تھیں جن کی بنا پر اس سورت میں نام لے کر اس کی مذمت کی گئی ہے۔ خاص طور پر اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ مکہ سے باہر کے اہل عرب جو حج کے لیے آتے یا مختلف مقامات پر لگنے والے بازاروں میں جمع ہوتے، ان کے سامنے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنا چچا آپ کے پیچھے لگ کر آپ کی مخالفت کرتا، تو وہ عرب کی معروف روایات کے لحاظ سے یہ بات خلافِ توقع سمجھتے تھے کہ کوئی چچا بلا وجہ دوسروں کے سامنے خود اپنے بھتیجے کو برا بھلا کہے اور اسے پتھر مارے اور اس پر الزام تراشیاں کرے۔ اسی وجہ سے وہ ابو لہب کی بات سے متاثر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں شک میں پڑ جاتے مگر جب یہ سورت نازل ہوئی اور ابو لہب نے غصے میں بپھر کر اول فول بکنا شروع کر دیا تو لوگوں کو معلوم ہو گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مخالفت میں اِس شخص کا قول قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ یہ اپنے بھتیجے کی دشمنی میں دیوانہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ نام لے کر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا کی مذمت کی گئی تو لوگوں کو یہ توقع ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دین کے معاملہ میں کسی کا لحاظ کر کے کوئی مداہنت برت سکتے ہیں۔ جب علی الاعلان رسول کے اپنے چچا کی خبر لے ڈالی گئی تو لوگ سمجھ گئے کہ یہاں کسی لاگ لپیٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ غیر اپنا ہو سکتا ہے اگر ایمان لے آئے اور اپنا غیر ہو جاتا ہے اگر کفر کرے۔ اس معاملے میں فلاں ابن فلاں کوئی چیز نہیں ہے۔

مزید دیکھیے

حوالہ جات

  1. القرآن الكريم - سورة المسد.
  2. امام خازن: تفسیر الخازن، جلد 4 صفحہ 494۔ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1424ھ۔
  3. مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، ابن جریر
  4. ابن جریر
  5. بیہقی، ابن ابی حاتم، ابن جریر، ابن عساکر، ابن ہشام
  6. الاستیعاب ،ا بن عبد البر، الاصابہ ،ابن حجر، دلائل النبوۃ ابی نعیم الاصفہانی، روض الانف سہیلی
  7. سورۂ کوثر
  8. مسند احمد، بیہقی
  9. مسند احمد، طبرانی
  10. ترمذی
  11. ابن سعد، ابن ہشام