سورہ ھود
قرآن مجید کی گیارہویں سورت جو مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی۔ 10 رکوع اور 123 آیات ہیں۔
دور نزول | مکی |
---|---|
اعداد و شمار | |
عددِ سورت | 11 |
عددِ پارہ | 11 اور 12 |
تعداد آیات | 123 |
الفاظ | 1,947 |
حروف | 7,633 |
گذشتہ | یونس |
آئندہ | یوسف |
زمانۂ نزول
مزید دیکھیے: ھود آیت 12، ھود آیت 17، ھود آیت 114
اس سورت کے مضمون پر غور کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اسی دور میں نازل ہوئی ہوگی جس میں سورۂ یونس نازل ہوئی تھی۔ بعید نہیں کہ یہ اس کے ساتھ متصلاً ہی نازل ہوئی ہو، کیونکہ موضوعِ تقریر وہی ہے، مگر تنبیہ کا انداز اس سے زیادہ سخت ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عرض کیا "میں دیکھتا ہوں کہ آپ بوڑھے ہوتے جا رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے؟" جواب میں حضورصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا "مجھ کو سورہ ہود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے"۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لیے وہ زمانہ کیسا سخت ہوگا جبکہ ایک طرف کفار قریش اپنے تمام ہتھیاروں سے اس دعوتِ حق کو کچل دینے کی کوشش کر رہے تھے اور دوسری طرف اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے یہ پے در پے تنبیہات نازل ہو رہی تھیں۔ ان حالات میں آپ کو ہر وقت یہ اندیشہ گھلائے دیتا ہوگا کہ کہیں اللہ کی دی ہوئی مہلت ختم نہ ہو جائے اور وہ آخری ساعت نہ آجائے جبکہ اللہ تعالٰیٰ کسی قوم کو عذاب میں پکڑ لینے کا فیصلہ فرمادیتا ہے۔ فی الواقع اس سورت کو پڑھنے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک سیلاب کا بند ٹوٹنے کو ہے اور اس غافل آبادی کا، جو اس سیلاب کی زد میں ہے، آخری تنبیہ کی جا رہی ہے۔
موضوع اور مباحث
موضوع تقریر وہی ہے جو سورۂ یونس کا تھا یعنی دعوت، فہمائش اور تنبیہ لیکن فرق یہ ہے کہ سورۂ یونس کی بہ نسبت یہاں دعوت مختصر ہے، فہمائش میں استدلال کم اور وعظ و نصیحت زیادہ ہے اور تنبیہ مفصل اور پرزور ہے۔
دعوت یہ ہے کہ پیغمبر کی بات مانو، شرک سے باز آؤ، سب کی بندگی چھوڑ کر اللہ کے بندے بنو اور اپنی دنیوی زندگی کا سارا نظام آخرت کی جواب دہی کے احساس پر قائم کرو۔
فہمائش یہ ہے کہ حیاتِ دنیا کے ظاہری پہلو پر اعتماد کرکے جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی دعوت کو ٹھکرایا ہے وہ اس سے پہلے نہایت برا انجام دیکھ چکی ہیں، اب کیا ضرور ہے تم بھی اسی راہ چلو جسے تاریخ کے مسلسل تجربات قطعی طور پر تباہی کی راہ کرچکے ہیں۔
تنبیہ یہ ہے کہ عذاب کے آنے میں جو تاخیر ہو رہی ہے یہ دراصل ایک مہلت ہے جو اللہ اپنے فضل سے تمھیں عطا کر رہا ہے۔ اس مہلت کے اندر اگر تم نہ سنبھلے تو وہ عذاب آئے گا جو کسی کے ٹالے نہ ٹل سکے گا اور اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت کو چھوڑ کر تمھاری ساری قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹادے گا۔
اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے براہ راست خطاب کی بہ نسبت قوم نوح، عاد، ثمود، قوم لوط، اصحاب مدین اور قوم فرعون کے قصوں سے زیادہ کام لیا گیا ہے۔ ان قصوں میں خاص طور پر جو بات نمایاں کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ خدا جب فیصلہ چکانے پر آتا ہے تو پھر بالکل بے لاگ طریقہ سے چکاتا ہے۔ اس میں کسی کے ساتھ ذرہ برابر رعایت نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون کس کا بیٹا اور کس کا عزیز ہے۔ رحمت صرف اس کے حصے میں آتی ہے جو راہ راست پر آگیا ہو، ورنہ خدا کے غضب سے نہ کسی پیغمبر کا بیٹا بچتا ہے اور نہ کسی پیغمبر کی بیوی۔ یہی نہیں بلکہ جب ایمان و کفر کا دو ٹوک فیصلہ ہو رہا ہو تو دین کی فطرت یہ چاہتی ہے کہ خود مومن بھی باپ اور بیٹے اور شوہر اور بیوی کے رشتوں کو بھول جائے اور خدا کی شمشیر عدل کی طرح بالکل بے لاگ ہو کر ایک رشتۂ حق کے سوا ہر دوسرے رشتے کو کاٹ پھینکے۔ ایسے موقع پر خون اور نسب کی رشتہ داریوں کا ذرہ برابر لحاظ کر جانا اسلام کی روح کے خلاف ہے۔ یہی وہ تعلیم تھی جس کا پورا پورا مظاہرہ تین چار سال بعد مکہ کے مہاجر مسلمانوں نے جنگ بدر میں کرکے دکھایا۔
مزید دیکھیے
- عاد
- ارم ذات العماد* * *