سورہ یونس

قرآن مجید کی 10 ویں سورت

قرآن مجید کی دسویں سورت جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مکی زندگی کے آخری دور میں نازل ہوئی۔

یونس
دور نزولمکی
زمانۂ نزولاخیرِ مکی زندگی
اعداد و شمار
عددِ سورت10
عددِ پارہ11
تعداد آیات109
الفاظ1,841
حروف7,425
گذشتہالتوبہ
آئندہھود

نام

اس سورت کا نام حسب دستور محض علامت کے طور پر آیت 98 سے لیا گیا ہے جس میں اشارتاً حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر آیا ہے۔ سورت کا موضوع بحث حضرت یونس علیہ السلام کا قصہ نہیں۔

مقام نزول

روایات سے معلوم ہوتا ہے اور نفس مضمون سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ یہ پوری سورت مکے میں نازل ہوئی ہے۔ بعض لوگوں کا گمان ہے کہ اس کی بعض آیات مدنی دور کی ہیں، لیکن یہ محض ایک سطحی قیاس ہے۔ سلسلۂ کلام پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوجاتا ہے کہ یہ مختلف تقریروں یا مختلف مواقع پر اتری ہوئی آیات کا مجموعہ نہیں بلکہ شروع سے آخر تک ایک ہی مربوط تقریر ہے جو بیک وقت نازل ہوئی ہوگی اور مضمون کلام اس بات پر صریح دلالت کر رہا ہے کہ یہ مکی دور کا کلام ہے۔

زمانۂ نزول

زمانۂ نزول کے متعلق کوئی روایت ہمیں نہیں ملی۔ لیکن مضمون سے ایسا ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورت زمانۂ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہوگی کیونکہ اس کے انداز کلام سے صریح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ مخالفین دعوت کی طرف سے مزاحمت پوری شدت اختیار کرچکی ہے، وہ نبی اور پیروان نبی کو اپنے درمیان برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں،ان سے اب یہ امید باقی نہیں رہی ہے کہ تفہیم و تلقین سے راہ راست پر آجائیں اور اب انھیں اس انجام سے خبردار کرنے کا موقع آگیا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو آخری اور قطعی طور پر رد کردینے کی صورت میں انھیں لازماً دیکھنا ہوگا۔ مضمون کی یہی خصوصیات ہمیں بتاتی ہیں کہ کونسی سورتیں مکہ کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہیں لیکن اس سورت میں ہجرت کی طرف بھی کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے اس کا زمانہ ان سورتوں سے پہلے کا سمجھنا چاہیے جن میں کوئی نہ کوئی خفی یا جلی اشارہ ہمیں ہجرت کے متعلق ملتا ہے۔ زمانے کی اس تعیین کے بعد تاریخی پس منظر بیان کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ اس دور کا تاریخی پس منظر سورۂ انعام اور سورۂ اعراف کے مضامین میں بیان کیا گیا ہے۔

موضوع

موضوعِ دعوت، فہمائش اور تنبیہ ہے۔ کلام کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ لوگ ایک انسان کے پیغام نبوت پیش کرنے پر حیران ہیں اور اسے خواہ مخواہ ساحری کا الزام دے رہے ہیں، حالانکہ جو بات وہ پیش کر رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی نہ تو عجیب ہی ہے اور نہ سحر و کہانت ہی سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ تو دو اہم حقیقتوں سے تم کو آگاہ کر رہا ہے۔ ایک یہ جو خدا اس کائنات کا خالق ہے اور اس کا انتظام عملاً چلا رہا ہے صرف وہی تمھارا مالک و آقا ہے اور تنہا اسی کا یہ حق ہے کہ تم اس کی بندگی کرو۔

دوسرے یہ کہ موجودہ دنیوی زندگی کے بعد زندگی کا ایک اور دور آنے والا ہے جس میں تم دوبارہ پیدا کیے جاؤ گے، اپنی موجودہ زندگی کے پورے کارنامے کا حساب دو گے اور اس بنیادی سوال پر جزا یا سزا پاؤ گے کہ تم نے اسی خدا کو اپنا آقا مان کر اس کے منشا کے مطابق نیک رویہ اختیار کیا یا اس کے خلاف عمل کرتے رہے۔ یہ دونوں حقیقتیں، جو وہ تمھارے سامنے پیش کر رہا ہے، بجائے خود امر واقعی ہیں خواہ تم مانو یا نہ مانو۔ وہ تمھیں دعوت دیتا ہے کہ تم انھیں مان لو اور اپنی زندگی کو ان کے مطابق بنا لو۔ اس کی یہ دعوت اگر تم قبول کروں گے تو تمھارا اپنا انجام بہتر ہوگا ورنہ خود ہی برا نتیجہ دیکھو گے۔

مباحث

اس تمہید کے بعد حسب ذیل مباحث ایک خاص ترتیب کے ساتھ سامنے آتے ہیں:

  1. وہ دلائل جو توحیدِ ربوبیت اور حیات اخروی کے باب میں ایسے لوگوں کو عقل و ضمیر کا اطمینان بخش سکتے ہیں جو جاہلانہ تعصب میں مبتلا نہ ہوں اور جنہیں بحث کی ہار جیت کی بجائے اصل فکر اس بات کی ہو کہ خود غلط بینی اور اس کے برے نتائج سے بچیں۔
  2. اُن غلط فہمیوں کا ازالہ اور اُن غفلتوں پر تنبیہ جو لوگوں کو توحید اور آخرت کا عقیدہ تسلیم کرنے میں مانع ہو رہی تھیں (اور ہمیشہ ہوا کرتی ہیں)۔
  3. اُن شبہات اور اعتراضات کا جواب جو محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت اور آپ کے لائے ہوئے پیغام کے بارے میں پیش کیے جاتے تھے۔
  4. دوسری زندگی میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کی پیشگی خبر، تاکہ انسان اس سے ہوشیار ہو کر اپنے آج کے طرز عمل کو درست کرلے اور بعد میں پچھتانے کی نوبت نہ آئے۔
  5. اس امر پر تنبیہ کہ دنیا کی موجودہ زندگی دراصل امتحان کی زندگی ہے اور اس امتحان کے لیے تمھارے پاس بس اتنی ہی مہلت ہے جب تک تم اس دنیا میں سانس لے رہے ہو۔ اس وقت کو اگر تم نے ضائع کر دیا اور نبی کی ہدایت قبول کرکے امتحان کی کامیابی کا سامان نہ کیا تو پھر کوئی دوسرا موقع تمھیں ملنا نہیں ہے۔ اس نبی کا آنا اور اس قرآن کے ذریعے تم کو علم حقیقت کا بہم پہنچایا جانا وہ بہترین اور ایک ہی موقع ہے جو تمھیں مل رہا ہے۔ اس سے فائدہ نہ اٹھاؤ گے اور بعد کی ابدی زندگی میں ہمیشہ کے لیے پچھتاؤ گے۔
  6. ان کھلی کھلی جہالتوں اور ضلالتوں پر اشارہ جو لوگوں کی زندگی میں صرف اس وجہ سے پائی جا رہی تھیں کہ وہ خدائی ہدایت کے بغیر جی رہے تھے۔

اس سلسلے میں نوح علیہ السلام کا قصہ مختصراً اور موسیٰ علیہ السلام کا قصہ ذرا تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس سے چار باتیں ذہن نشین کرنی مطلوب ہیں۔ اول یہ کہ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ جو معاملہ تم لوگ کر رہے ہو وہ اس سے ملتا جلتا ہے جو نوح اور موسیٰ علیہما السلام کے ساتھ تمھارے پیشرو کرچکے ہیں اور یقین رکھو کہ اس طرز عمل کا جو انجام وہ دیکھ چکے ہیں وہی تمھیں بھی دیکھنا پڑے گا۔ دوم یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو آج جس بے بسی و کمزوری کے حال میں تم دیکھ رہے ہو اس سے کہیں یہ نہ سمجھ لینا کہ صورت حال ہمیشہ یہی رہے گی۔ تمھیں خبر نہیں ہے کہ ان لوگوں کی پشت پر وہی خدا ہے جو موسیٰ اور ہارون علیہما السلام کی پشت پر تھا اور وہ ایسے طریقے سے حالات کی بساط الٹ دیتا ہے جس تک کسی کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔ سوم یہ کہ سنبھلنے کے لیے جو مہلت خدا تمھیں دے رہا ہے اسے اگر تم نے ضائع کر دیا اور پھر فرعون کی طرح خدا کی پکڑ میں آجانے کے بعد عین آخری لمحے پر توبہ کی تو معاف نہیں کیے جاؤ گے۔ چہارم یہ کہ جو لوگ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لائے تھے وہ مخالف ماحول کی انتہائی شدت اور اس کے مقابلے میں اپنی بیچارگی دیکھ کر مایوس نہ ہوں اور انھیں معلوم ہو کہ ان حالات میں ان کو کس طرح کام کرنا چاہیے۔ نیز وہ اس امر پر بھی متنبہ ہوجائیں کہ جب اللہ تعالٰیٰ اپنے فضل سے ان کو اس حالت سے نکال دے تو کہیں وہ اُس روش پر نہ چل پڑیں جو بنی اسرائیل نے مصر سے نجات پاکر اختیار کی۔ آخر میں اعلان کیا گیا ہے یہ عقیدہ اور یہ مسلک ہے جس پر چلنے کی اللہ نے اپنے پیغمبر کو ہدایت کی ہے۔ اس میں قطعاً کوئی ترمیم نہیں کی جا سکتی، جو اسے قبول کرے گا وہ اپنا بھلا کرے گا اور جو اس کو چھوڑ کر غلط راہوں میں بھٹکے گا وہ اپنا ہی کچھ بگاڑے گا۔