کسی بھی بات یا کام کا واقع اور حقیقت کے مطابق ہونا سچائی ، سچ یا صدق کہلاتا ہے مثال کے طور آپ کسی کو بتاتے ہیں کہ ہمارے گھر کے سامنے ایک پارک ہے اور وہ جا کر دیکھے اور آپ کے گھر کے سامنے پارک ہو تو وہ آپ کی بات کو سچا قرار دے گا اور آپ کی بات سچائی سے متصف ہوگی۔

سچ کی اقسام ترمیم

سچ کی چار قسمیں ہوتی ہیں:

  1. ہٹ دھرمی کی وجہ سے سچ۔ کسی بات یا اصول کو صرف اس لیے سچ مانا جاتا ہے کہ اُسے ہمیشہ سے سچ مانا جاتا رہا ہے۔ اگر شواہد اُسے غلط بھی ثابت کر رہے ہوں تو بھی اسے جھوٹ نہیں سمجھا جاتا۔ اس طرح ضعیف الاعتقادی جنم لیتی ہے۔
  2. با اختیار ہستی کی وجہ سے سچ۔ کسی بہت ہی بزرگ ہستی کی بات پر اندھا یقین کر کے اُسے سچ مان لیا جاتا ہے۔ سارے مذاہب کا تعلق ایسے ہی سچ سے ہوتا ہے۔
  3. منطق کی وجہ سے سچ۔ کسی بات کو اس لیے سچ مانا جاتا ہے کیونکہ وہ بہت معقول ہوتی ہے اور اُسے دلیلوں سے ثابت کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسے سچ کی تجرباتی بنیاد نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر بگ بینگ یا ارتقاء کے نظریہ کا کسی تجربہ گاہ میں تجربہ نہیں کیا جا سکتا مگر فی الحال اسے سچ مانا جاتا ہے۔
  4. سائنس کی وجہ سے سچ۔ ایسی بات اس لیے سچ مان لی جاتی ہے کیونکہ جتنی دفعہ بھی تجربہ دہرایا جائے، ہر بار نتیجہ وہی آتا ہے جیسے آگ پر کسی چیز کا گرم ہونا۔ جب نئے اور بہتر مشاہدات یا وضاحت سامنے آ جائے تو پرانے خیال کو مسترد کر کے نئے خیال کو سچ مان لیا جاتا ہے۔[1]

حوالہ جات ترمیم