سید خورشید محی الدین گیلانی
کوثروتسنیم کی لہریں اگرانسانی خدوخال میں ڈھل جائیں توسیدخورشیدمحی الدین گیلانی ؒ کاسراپابنے گا۔ آپؒبرصغیرکی صوفیانہ تہذیب کا کامل نمونہ تھے۔ اللہ تعالٰیٰ نے جب تقدیربانٹی تھی توان کے خانے میں ولایت درولایت لکھ دیاتھا۔ ہمہ صفت موصوف تھے۔ ہرلحاظ سے عظیم تھے۔ انسان بھی ،استادبھی اورعالم وصوفی بھی۔ ہرکہ ومہ کے کام آتے تھے۔ سچ مچ عوام کے ولی تھے۔ صرف استادہی نہیں معمارِانسانیت تھے۔ زندگی بنانے اوراجالنے کافن جانتے تھے۔ شیخوپورہ شہرکی فکری اورروحانی تربیت میں آپ کی تعلیم کاگہرااثر رہاہے۔ سرزمین ِشیخوپورہ نے شایدہی اتناپڑھالکھااورباکمال انسان کبھی دیکھاہوجیسے آپ تھے۔ الغرض آپ ان انسانوں میں سے ایک تھے جن کے علمی وجودکوہردورمیں ضرورت کے طورپرتسلیم کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے دنیائے فانی سے رخصت ہوجانے کے برسوں بعدبھی اہل ِدل ان کی ضرورت محسوس کرتے رہتے ہیں۔ اب شایدان اوصاف کے لوگ پیدانہیں ہوتے۔ وہ لوگ جوذاتیات کی سرحدسے نکل کردوسرے انسانوں کی خیرخواہی اورفلاح کے لیے زندگی گزارتے ہیں۔ بالکل سیدخورشیدمحی الدین گیلانی ؒکی طرح! آپ کی خوبیاں حروف ِتہجی سے زیادہ ہیں۔ آپ نئے لباس میں پرانے انسان تھے۔ زبان مشرقی لیکن دل عربی تھا۔ آپ ؒکابچپن ایسے دریاکی طرح گزراجوخاموشی سے بہتاہو۔ جوانی جیسے کوئی ابرپارہ گزرگیاہو۔ حصول ِتعلیم کاذوق فطرت کاجزوتھا۔ علم کے سمندرمیں ایسے اترے کہ خودچشمہ فیض بن گئے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ فیضان ِنظرتھایاکہ مکتب کی کرامت تھی بہرحال آپ نے یہ ثابت کر دیاکہ آپ مخدوم العالم حضرت سیدعلی احمدشاہ گیلانی ؒکے فرزند ِدل بندہی نہیں بلکہ خاندان ِکیتھلی ؒ کی عظیم صوفیانہ روایات کے حقیقی وارث بھی ہیں۔ مخدوم العالم حضرت سیدعلی احمدشاہ گیلانی ؒسے کون واقف نہیں۔ مسلمانوں میں بیسویں صدی میں جوچندعلمی وجودپیداہوئے، مخدوم العالم حضرت میاں سیدعلی احمدشاہ گیلانی قادریؒان میں سے ایک تھے۔ برصغیرپاک وہندکے قریب قریب تمام آستانوں اوردرگاہوں میں آپ کانام ادب سے لیاجاتاہے۔ مخدوم العالم ؒکے وصال کے بعد اعزہ زوردیتے رہے کہ سجادہ نشین ہوجائیں لیکن طبیعت نہ لگی۔ مشیت ایزدی جانتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان سے اٹھے اورنسبت ِرسولؐ کاعظیم سرمایہ لیے شیخوپورہ پہنچے۔ غالب کے الفاظ میں ع۔ چل کے اب ایسی جگہ رہئے جہاں کوئی نہ ہو والی بات تھی۔3 ایک ایسے شہرمیں جہاں کوئی جانتانہ تھایہ خورشید ِمعرفت رفتہ رفتہ ابھرتاگیا،یہاں تک کہ نصف النہارکوپہنچ گیا۔ اس مٹی کے سورج نے اندھیرے میں بھٹکتے ہوئے لاتعدادانسانوں کوایمان اورعقیدے کی روشنی میں لاکھڑاکیا۔ آپ نے جن کوایمان،اعتقاد،اعتماداوریقین کی کشتی میں بٹھاکرزندگی کے سفرپربھیجاان کاساحل ِمراد دنیوی اوراخروی فلاح کے سوااورکیاہو سکتاہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام جیدصوفیاء کی طرح آپ ؒکاطریق بھی طریقت بالواسطہ ء شریعت ہے اوریہی تعلیم ِنبوی ؐہے۔ شریعت جسم اورماحول کی پاکیزگی ہے جس کے بغیرقلب وروح کاتزکیہ نہیں ہو سکتا۔ آپ ؒکادرس ہے کہ شریعت ِمحمدی ؐکی پیروی اورحضرت ِاقدسؐکی محبت ہی رضائے الٰہی کی کلیدہے۔ امام اہل ِسنت الشاہ احمدرضاخان صاحب فاضل بریلویؒکی شہرہ آفاق نعت مبارک کامطلع ہے۔ خداکی رضاچاہتے ہیں دوعالم۔ خداچاہتاہے رضائے محمدؐE آپ کے آستانے کادروازہ شاعروں ،ادیبوں ،مریدوں اورسیاسیوں کے لیے ہروقت کھلارہتا۔ جب تک انسان آپ سے ملتانہ تھاذہنی انتشارسے نجات نہیں پاتاتھا۔ آپ سے مل کرعقیدے اورعقیدت کاایک اٹوٹ ساکنکشن قائم ہوجاتاتھا۔ دل کے اندرکہیں ازلی محبوب کاتونبہ بجنے لگتاتھا۔ روح کوآنندمل جاتاتھا۔ آپ کی مجلسِ علمی میں سخن فہمی ،عقل ودانش اورسلوک ومعرفت کے چراغ جلتے تھے۔ آپ کی طبیعت شاعرانہ تھی لیکن شعرکہنے سے احترازکیا۔ قلم کاربھی تھے۔ صحیح معنوں میں دانش ورتھے۔ درست پڑھا،درست لکھا،ہمیشہ درست سوچااوردرست کیا۔ علم ودانش کی فراوانی کے باوجودآپ نے کبھی اپنے اورمخلوق ِخداکے درمیان اجنبیت کے پردے حائل نہیں ہونے دیے۔ شاہ نافذالامرتھے،الامرمنکم بنائے گئے تھے،لیکن کبھی نہ توکسی کومرعوب کرنے کی کوشش کی نہ کبھی کسی سے مرعوب ہوئے۔ ہاں ہرانسان کی عزت کرتے تھے۔ سب کوقابل ِعزت سمجھتے تھے۔ سرسے پاؤں تک متوازن تھے۔ دل بھی متوازن ،دماغ بھی متوازن۔ آپ ؒعلم وعمل کامجمع البحرین تھے۔ قول وفعل میں ایسی ہم آہنگی تھی جیسی خوشبواورہوامیں ہوتی ہے۔ کچھ دیرآپ کے پاس بیٹھنے سے احساس ہوتاتھاکہ جیسے آپ کے بشرے پرلکھاہے کہ زندگی ایک قرض ہے۔ اسے نیک اعمال کی پونجی دے کرچکاناہے۔ قدم قدم اللہ کی طلب اوررضا کے لیے ہوناچاہئے۔ ہرسودہرزیاں میں خداتعالیٰ کی طرف رجوع رکھناوراسی کے فضل کوپکارے جاناہے۔ زبان و ادب آپ کے لیے جیب کی رقم کی طرح سے تھے۔ الفاظ ہمیشہ آبشارکی طرح صاف ،دھلے دھلائے اورترشے ترشائے بولتے تھے۔ اونچی آوازسے بات کرنے کا آپ کے نزدیک تصو رہی نہ تھا۔ آپ کی گفتگومیں خاموشی اورچپ چاپ میں بات چیت کارنگ غالب تھا۔ طبیعت باغ وبہارپائی تھی لیکن مزاج میں بقول شورش کاشمیری پچھلے پہرکے آنسوئوں کی آنچ تھی۔ چہرے مہرے سے بغدادکے صوفی معلوم ہوتے تھے۔ شایدیہ جناب غوث الثقلین شیخ عبد القادرجیلانی ؓ سے والہانہ عشق کااثرتھا۔ بر ِصغیرکے عظیم صوفی دانشوراشفاق احمدؒسائیں نوروالے صاحب ؒکاایک ارشادبیان فرماتے تھے جس ماضی کاحال شاہدنہ ہو،وہ ماضی جھوٹاہے۔ یعنی اگرماضی میں ایسے ایسے بزرگ ہوتے رہے ہیں جن کے تذکرے کتابوں میں ملتے ہیں،توان کواب بھی موجودہونا چاہیے۔ صاحب ِنسبت اب بھی ضرورموجودہیں۔ انھیں جاننے کے لیے دیکھنے والی آنکھ کی شرط ضروری ہے۔ حضرت مخدوم سیدخورشیدمحی الدین گیلانیؒ کاوجودِمسعوداسلامی تصوف کی اسی تاریخ کاخلاصہ تھا۔ آپؒ سے ملنے والے آپ میں پہلے وقتوں کے اولیاء کودیکھتے تھے۔ آپ ؒکاچہرہ دیکھ کرمعرفت اوراہل ِمعرفت کی سچائی کوتسلیم کرنے کے لیے کسی اوردلیل کی ضرورت نہیں رہتی تھی۔ ماضی قریب کے مشہورصوفی بزرگ صوفی برکت علی لدھیانویؒ آپ کی شخصیت کوبہت سراہتے تھے۔ علم سے آپ کاوہی تعلق تھاجوشاعری میں ردیف اورقافیے کاہوتاہے۔ استاداس پائے کے تھے جس پائے کے حضرت علامہ اقبال ؒ شاعراور الشاہ احمدرضاخان صاحب فاضل بریلویؒعالم تھے۔ آپ ؒنے وردوظیفے نہیں بتائے بلکہ لوگوں کواپنے اخلاق سنوارنے اوربہترانسان بنانے کی تعلیم دی۔ آپ نے علم کوجمہورکی امانت سمجھااوردرحقیقت آپ کی متاع آپ کاعلم ہے جسے آپ نے محبت کی طرح بانٹا۔ رہی بات آپ کے عارفانہ مقام کی تواس معاملے میں میراقلم اورزبان عاجزہیں۔ کہاں وہ مہر ِمنیراورکہاں ایک ذرہ ء حقیر۔ قطرے کی کیابساط سمندرکے سامنے۔ تاریخ ِعالم ایسے انسانوں کوہی یادرکھتی ہے جودوسروں کی زندگیاں اورمقدربدلنے کواپنانصب العین سمجھتے ہیں۔ جواپنی ایمانی فراست کی سرچ لائٹ لے کرمخلوق ِخداکی راہ نمائی کرتے ہیں۔ ان کے اخلاق وکردارکی اصلاح کرتے ہیں۔ جنہیں آسانیاں تقسیم کرنے کاشرف عطاہوتاہے۔ آپ ایسے ہی تھے۔ ایساکہنابجاہے کہ جدیدصوفی ازم کی تمام ترخوبروئی کانام ہی سیدخورشیدمحی الدین گیلانی ؒ ہے۔ آپ لباس ِانسانی میں مٹی کاایک سورج تھے جس کی تابانیاں جب بھی جاری تھیں،اب بھی جاری ہیں۔ اس کے اجالے ہمارے اند رہیں،ہمارے دلوں میں،ہمارے باطن میں اورروشنی کایہ سلسلہ رکنے والانہیں،بہت طویل ہوگا۔ بہت پھیلے گا۔ اس دورسے نکلے گااورنسل درنسل سفرکرے گا۔ آپ کاعرس مبارک ہرسال 3اپریل کودربارِعالیہ قادریہ شیخوپورہ میں آپ ؒکے فرزند ِارجمندصاحبزادہ سیدخالدحمادگیلانی کی سرپرستی میں منعقدہوتاہے۔
خراج عقیدت
ترمیمیوں توبہت سے شعراءنے آپکومنظوم خراج عقیدت پیش کیاجن میں سیدنورعالم گیلانی،منشی عبد السلام احسان قادری اور سیدانوارگیلانی وغیرہ شامل ہیں لیکن عہدحاضرکے سب سے ممتازشاعرحسان العصرجناب مظفروارثی کا کلام ان سب پر فائق ہے۔