عالم دین، کارکن تحریک پاکستان، قائد اعظم کی وفات کے بعد ان کے جسد خاکی کو غسل دیا اور لحد میں اتارا،

حضرت مولانا سیّد فقیراللہ شاہ ہاشمی کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جو نصف صدی سے زائد طریقت ومعرفت، علم وحکمت، درس وتدریس اور تصنیف وتالیف کی دُنیا پر مثلِ مانندِ چدرماں کرنیں بکھیرتے رہے۔ آپ کے والد گرامی قدر میاں سیّد قسمت اللہ شاہ ہاشمی گیلانیؒ سری نگر کے ضلع اسلام آباد سے ہجرت کر کے آزادکشمیر میں آبسے‘آپ کی کنیت عبد المتین تھی آپ کی آمد کے کچھ عرصہ بعد 23 فروری 1914ء میں حضرت مولانا فقیراللہ شاہ ہاشمی آزاد کشمیر کے شہر مظفرآباد میں تولد ہوئے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے والدگرامی سے حاصل کی اور پھر باقاعدہ دینی و مذہبی تعلیم کے حصول کے لیے جامعہ دار العلوم ندوۃ العلماء سے منسلک ہو گئے۔ آپ متعدد اہلِ علم اور عالمِ افروز اساتذہ کرام سے علومِ رسمی و جدیدہ کے ساتھ ساتھ دینی علوم سے مستفیض ہوتے ہوئے علمیت علویت پر فائز ہوئے۔ ان اساتذہ کرام میں بالخصوص مولانا شبلی نغمانی، سیّدانورشاہ کاشمیری، مولانا شاہ معین الدین ندویؒ، مولانا سیّد سلیمان ندوی شامل ہیں جو بعد ازاں آپ کے ہمرقاب بھی رہے۔ مولانا فقیراللہ ہاشمیؒ کا شمار تحریک پاکستان کے ممتاز رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ تحریک پاکستان میں آپ کا کردار نہایت جاندار اور جامع خصوصیات کا حامل رہا۔ آپ حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ، مولانا ظفر علی خاںؒ، چوہدری رحمت علیؒ، مولانا محمد علی جوہرؒ اور دیگر تحریکی زعماء وقائدین مسلم لیگ کا دایاں بازو تصور کیے جانے لگے۔ جلسے جلوسوں اور مختلف تقاریب میں آپ کو اہمیت دی جاتی اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور لیاقت علی خانؒ اکثر اوقات مذہبی و دینی امور پر آپ سے مشاورت فرماتے اس لیے کہ آپ کو مسلکی وفقہی مسائل پر عبور اور مکمل قدرت حاصل تھی۔ تکمیلِ پاکستان کے بعد آپ ملک کے جید علما کرام کے ہمراہ پاکستان میں نفاذِاسلام کے لیے متحرک ہوئے اور مولانا عبدالحامد بدایونی،ؒ مولانا شبیر احمد عثمانی،ؒ مولانا ظفر احمد عثمانی،ؒ مجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازیؒ، پیرصاحب مانکی شریفؒپیرصاحب زکوری شریفؒ کے ہمراہ اپنی ان کاوشوں کو جاری رکھا۔ آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ دورانِ تحریک پاکستان اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں قائد اعظمؒ کی موجودگی میں ’’پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ ‘‘ کا نعرہ بلند کیا جو قائد اعظمؒ کی توجہ کا مرکز ومحور بن گیا چنانچہ اسی بنا پر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ’’خطیب مسلم لیگ ‘‘ کا خطاب عطا کیا اور اس چیز کی اہمیت کا انداز اس بات سے ہوتا ہے کہ قائد اعظمؒ خود آپ کا نام پکارتے اور سٹیج پر بلا کر خطاب کرنے کی دعوت فرماتے۔ بعد ازاں آپ کے تمام خطبات جو نہایت اہمیت کے حامل تھے، انھیں یکجا کر کے کتابی صورت دی گئی جو ’’نظریۂ پاکستان … قرآن واحادیث کی روشنی میں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ یہاں پر یہ بات بھی نہایت قابلِ ذکر ہے کہ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ جب قائد اعظمؒ کے حکم پر مشرقی پاکستان میں قومی پرچم لہرانے گئے تو مولانا فقیراللہ ہاشمیؒ کو بطورِخاص ساتھ لے جانے کے لیے کہا چنانچہ اس تاریخی موقع پر آپ مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کے ہمراہ مشرقی پاکستان تشریف لے گئے جسے تاریخ نے محفوظ کر لیا۔ تحریک پاکستان کے دوران آپ کو لاتعداد مشکلات ومصائب کا سامنا کرنا پڑا‘مگر نہ تو آپ کی جہدِمسلسل میں کوئی کمی آسکی اور نہ آپ کے عزم واستقلال میں کوئی لغزش پیدا ہو سکی۔

قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کا مسئلہ ہو یا 1946ء کی انتخابی مہم، ہر مواقع پر آپ اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ میدان عمل میں ثابت قدم رہے۔ یہ بات بھی تاریخ کا ایک روشن باب ہے کہ جب علما ومشائخ اور ماہرینِ قانون کی مشاورت سے قرارداد مقاصد کی عبادت تحریر کی گئی تو اس وقت مولانا ظفر احمد انصاری نے آپ کے معاون خصوصی کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں آپ نے 31 علما کے متفقہ فیصلے سے 22 نکات تیار کروائے اور ان نکات پر تمام مکاتبِ فکر کے علما ومشائخ اور اکابرینِ اُمت سے باقاعدہ دستخط لیے جس کے بعد یہ تحریر ایک تاریخی دستاویز کی صورت اختیار کر گئی جو نکات کی شکل میں تھی۔ دیکھا جائے تو آپ کو قدرت نے یہ اعزاز بھی بخشا کہ بانی پاکستان کی رحلت کے بعد آپ ہی نے ان کے جسدِ خاکی کو غسل دیا اور پھر دیگر ساتھیوں کے ہمراہ آپ ہی نے قائد اعظمؒ کو لحد میں بھی اُتارا۔ ستمبر 1965ء میں جب بھارت نے بُزدلوں کی طرح چھپ کر اور اچانک پاکستان پر حملہ کیا تب آپ نے قوم کو متحد اور ان کے اندر جذبۂ جہاد پیدا کرنے میں مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا ابوبکر غزنویؒ، مولانا ابوالحسنات قادریؒ، مولانا محمود احمد رضویؒ، مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ ودیگر مذہبی رہنماؤں کے ہمراہ مختلف مقامات پر پُرجوش تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جنہیں ریڈیو پاکستان پر بڑی شد ومد کے ساتھ نشر کیا جاتا۔ مولانا فقیر اللہ ہاشمیؒ نے 1970ء کے انتخابات کے بعد پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور اسے دولخت ہونے سے بچانے کے لیے متعدد بار مشرقی پاکستان کے دورے کیے جہاں انھوں نے عوامی لیگ کی قیادت اور رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں تاکہ انھیں قائل کیا جاسکے، اسی طرح نظامِ اسلام پارٹی کے سربراہ اور مشرقی پاکستان کے معروف رہنما مولوی فرید احمد شہیدؒ کے ساتھ مل کر عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن سے بھی ملاقات کی اور انھیں اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ وہ متحدہ پاکستان کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ 1972ء میں قائم ہونے والی بھٹو حکومت جو سوشلزم پر یقین رکھتی تھی، آپ نے اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے ساتھ مل کر اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا جس کے باعث ذو الفقار علی بھٹو آپ کے شدید مخالف ہو گئے اور انھوں نے آپ کو اس سے باز رکھنے اور تحریک کی راہ میں مشکلات حائل کرنے کے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ کے قائم کردہ جامعہ اسلامیہ ہائی اسکول چوک برف خانہ گوالمنڈی کے بانی و ہیڈ ماسٹر تھے ،کو نیشنلائز کر دیا مگر ان تمام انتقامی کارروائیوں کے باوجود آپ نے اپنا مشن جاری رکھا اور یہ تمام باطل قوتیں ایک قدم پیچھے ہٹانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ مولانا فقیراللہ ہاشمیؒ نے ان اداروں کی بحالی وبازیابی کے لیے نہ صرف باقاعدہ تحریک کا اعلان کر دیا بلکہ سوشلزم کے خلاف بھی آپ ایک سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ آپ نے 1977ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ میں بھرپور حصہ لیا اور اس سلسلہ میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانی، مجاہد ملت مولانا عبد الستار خان نیازی، نوابزادہ نصراللہ خان جیسے عظیم سیاسی و مذہبی رہنماؤں کو ایک پلیٹ فارم پر لے آئے اور پھر یہی تحریک بھٹو حکومت کے خاتمہ کی بنیاد بنی۔ وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو کے دور میں آپ کو مسجد مکتبِ سکیم حکومتِ پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کر دیا گیا۔ آپ کی ان دینی کاوشوں میں یہ بات خصوصیت کے ساتھ شامل ہے کہ آپ نے شریعت کے نفاذ کے لیے ’’قاضی کورسز‘‘ کا اہتمام کیا اور جامعہ نعیمیہ، جامعہ اشرافیہ، جامعہ تقوۃ الاسلام میں تمام مکاتب فکر کے علما کو قاضی کروسز کروائے تاکہ شریعت کورٹس کو ایسے ماہرین قاضی میسر ہو سکیں۔ اسی طرح لاتعداد وکلا کو بھی ایل ایل بی شرعیہ کورسز کروائے گئے تاکہ وہ شریعت کو صحیح معنوں میں سمجھ سکیں۔ آپ کی ان خدمات اور ذمہ داری کو دیکھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق نے ایک سال کے لیے ایڈہاک بنیادوں پر آپ کو وفاقی شرعی عدالت (فیڈرل شریعت کورٹ) کا جج مقرر کر دیا۔ مدت ختم ہونے کے بعد آپ وفاقی شریعت کورٹ کے مشیر مقرر ہوئے اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رُکن بھی رہے۔ بعداز ریٹائرمنٹ آپ کی ان تمام قومی، ملی، دینی، سیاسی وتحریکی خدمات کے پیشِ نظر وزیر اعلیٰٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف نے 2012ء میں آپ کو گولڈ میڈل سے نوازا۔ آپ حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کے خلفاء میں شامل تھے ۔ معروف انگریز دانشور ومؤرخ ڈاکٹر ماٹن لنکس جب دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تو ان کا نام الشیخ محمد ابوبکر سراج الدین آپ نے رکھا ، بعد ازاں شیخ محمد ابوبکر سراج الدین جامعۃ الازہرمصر شعبہ اسلامیات کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ مقرر ہوئے‘مولانا سید فقیر اللہ شاہ ہاشمیؒعلما کی علمی ‘فکری اور تحقیقی تنظیم ندوۃ العلماء پاکستان کے امیر مرکزیہ تھے ۔ مولانا سیّد فقیراللہ شاہ ہاشمی 79 برس کی عمر میں 31 جولائی 1991ء بروز جمعۃ المبارک وفات پا گئے۔ آپ کی نماز جنازہ جامع مسجد وفاقی کالونی لاہور میں ادا کی گئی اور لاہور میں ہی تدفین کی گئی، آپ کے پسماندگان میں آپ کے چار صاحبزادے سید ایاز ظہیرہاشمی، سیّد محمد محسن شاہ ہاشمی ، سیّد معاذ حسن شاہ ہاشمی، سیّد عاصم زبیر ہاشمی جبکہ تین صاحبزادیاں سیّدہ میمونہ ہاشمی، سیّدہ اسماء ہاشمی اور ان کی بیوہ سیدہ شہر بانو ہاشمی شامل ہیں۔ آپ کی ایک صاحبزادی سیّدہ حافظہ حفصہ ہاشمی وفات پاچکی ہیں۔[1]

حوالہ جات

ترمیم

حوالہ جات