سید محمد اسماعیل شاہ بخاری
سید محمد اسمٰعیل شاہ بخاری سلسلہ نقشبندیہ کے بڑے بزرگ جو حضرت کرماں والے سے معروف ہیں۔
حضرت کرماں والے | |
---|---|
سید محمد اسمٰعیل شاہ بخاری | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1880ء کرموں والا ضلع فیروز پور |
وفات | سنہ 1966ء حضرت کرماں والا شریف اوکاڑہ |
درستی - ترمیم |
پیدائش
ترمیمحضرت کرماں والے موضع کرموں والا ضلع فیروز پور میں 1297ھ /1880ء میں پیدا ہوئے۔
سلسلہ نسب
ترمیمآپ کے والد کا نام سید سَید علی شاہ المعروف سید سکندر علی شاہ ہے جن کا سلسلہ نسب سید جلال الدین سرخ پوش بخاری ؒ، مخدوم جہانیاں جہاں گشت جیسے جلیل القدر بزرگ سے ہوتا ہوا اکتالیسویں پشت میں حضرت امام حسین سے جا ملتا ہے۔
بیعت
ترمیمزمانہ طالب علمی کے دوران میں آپ نے سلسلہ عالیہ چشتیہ سے تعلق رکھنے والے بزرگ مولانا شرف الدین سے اکتساب فیض کیا مگر اُن کے وصال کے بعد ایک درویش کا اشارہ آپ کو لاہور کے مضافات میں مراجعت فرما نقشبندی بزرگ اعلیٰ میاں شیر محمد شرق پوری ؒ کے حلقہ ء ارادت میں داخل کرنے کا باعث بنا۔ سید محمد اسمٰعیل شاہ بخاری کا منفرد خاصہ اپنے مرشد سے پہلی ملاقات میں نقشبندی نسبت کا القاء اور خلافت و اجازت ہے یہاں تک کہ میاں شیر محمد شرق پوری ؒ ضلع فیروز پور (انڈیا) سے حصول فیض و تربیت کے لیے آنے والوں کو حضرت کرماں والے ؒ کے پاس جانے کی تلقین فرمایا کرتے۔
تربیت کاخاصہ
ترمیمآپ کی تربیت کا خاصہ تھا۔ آپ کی خانقاہ میں اتباع ِ شریعت سے مزین ایک ایسا نظام رائج تھا کہ جو بھی آتا، اُسی سانچے میں ڈھل جاتا۔۔آپ کے دروازے پر ہر مذہب و مسلک کے ماننے والے یکساں عقیدت و احترام سے حاضری دیتے۔ ہندو، سکھ، عیسائی اور مسلمان مختلف مذہبی و دنیاوی مسائل اور الجھنیں لے کر آتے مگر آپ ایک ہی انداز میں سب کے لیے کمال شفقت تھا۔ آپ کو شعائر ِ اسلام کی بقاء بے حد عزیز تھی۔ اِسی لیے بسااوقات علیٰ الاعلان شریعت کی خلاف ورزی کرنے والوں سے آپ جلالی انداز میں پیش آتے مگر آپ کی سختی میں بلا کی محبت ہوتی۔ جو کوئی ایک مرتبہ آپ کے اندازِ تنبیہ و اصلاح کی لطافتوں سے آشنا ہو جاتا اُس کی زندگی راہِ ہدایت پر گامزن ہو جاتی۔
پاکستان کے لیے جدو جہد
ترمیمقیام پاکستان کی جدو جہد میں آپ کا ہر مرید، عقیدت مند آپ کی ہدایت پر سرگرم کارکن کی حیثیت سے پیش پیش تھا۔ مسلم لیگ اور تحریک آزادی کے متعدد راہنماؤں کوآپ کا مکمل تعاون اور سرپرستی حاصل تھی۔ قیام ِ پاکستان کے بعد آپ نےقصور پاکپتن شریف قیام کیا اور مسجد و عیدگاہ تعمیر کرائی۔ بعد ازاں آپ اوکاڑہ کے نزدیک پکا چک 56 ٹو ایل میں مستقل رہائش پزیر ہوئے۔ یہ گاؤں آپ کے مبارک قدموں کی برکت سے ”حضرت کرماں والا شریفکے نام سے موسوم ہو گیا۔
ظاہری رسومات سے دور
ترمیمآپ کو نمود و نمائش اور ریا کاری سے سخت نفرت تھی۔ دست بوسی یا پاؤں کو چھونا سخت ناپسند تھا۔ حتیٰ کہ رسمی مصافحہ کے شائقین کو ڈانٹ ڈپٹ کر نصیحت فرماتے۔ مجلس میں آپ کی تشریف آوری پر کسی شخص کو تعظیماً کھڑا ہونے کی اجازت نہ تھی۔ بڑے بڑے علما مجلس میں آ کر با ادب بیٹھتے اور بڑے پیچیدہ مسائل حل کرواتے۔ آپ کا ہر کلمہ اور ہر ہر ادا بمطابق سنت ِ مصطفٰی ﷺہوتی۔ جمعہ کے دن خطبہ خود ارشاد فرماتے جس کی اثر انگیزی سامعین میں حیرت انگیز ہوتی۔ وعظ و نصیحت سے کوئی لمحہ خالی نہ گزرتا۔ آپ کی باتیں انتہائی حکیمانہ ہوتیں اور اکثر دلوں پر اثر کرتیں۔ آپ نے کبھی تعویزات اور جھاڑ پھونک کا سہارا نہیں لیا۔ بلکہ اکثر ایک جیسے مریضوں کو شہد، لسی، گلقند، مکھن، کھوی، گندم کا بھُوسا، لنگر کے بچے ہوئے ٹکڑوں، نماز پنجگانہ کی پابندی، درودِ پاک بکثرت پڑھنے اور داڑھی رکھنے کا نسخہ بتاتے تو قدرت کاملہ سے حیرت انگیز تاثیر ظاہر ہوتی۔ ڈاکٹروں سے مایوس مریضوں کو آپ رب کریم کی رحمت پر بھروسا رکھنے کی تلقین کرتے۔
اتباع سنت
ترمیمحضرت کرماں والے اُن کاملین میں سے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا صرف شریعت مطہرہ تھا۔ وہ حضورﷺکے سچے عاشق اور پیروی سنت کے علمبردار تھے۔ ان کا قول تھا کہ جو شخص شریعت کا پابند نہیں اسے ولی نہ مانو خواہ ہوا میں اُڑتا ہو۔ آپ کے بارے مشہور تھا کہ انھیں سنت کے مطابق مستحب داڑھی رکھوانے اور حقہ چھڑانے کا طریقہ خوب آتا ہے اور سنت کی پیروی سختی سے کرواتے ہیں۔ آپ ہمیشہ اس تمنا کا اظہا رکرتے کہ ان سے ملنے والے حضور نبی کریم ﷺ جیسی شکل و صورت بنائیں۔ داڑھی نہ منڈائیں اور لباس و اطوارمیں مسلمان نظر آئیں۔ آپ پردہء نسواں کے سخت پابند تھے۔ کبھی کوئی عورت آپ کی مجلس مبارک میں نہیں آ سکتی تھی بلکہ پانچ چھ سال کی بچیوں کے آنے کی بھی ممانعت تھی۔ اگر کسی وقت زنان خانہ میں جانا ہوتا توپہلے پردے کا اہتمام فرماتے۔ محرم مستورات کے سوا کوئی عورت آپ کے رو برو نہیں آتی تھی۔ آپ کے مریدین اور وابستگان بھی اتباع شریعت کا بے حد خیال رکھتے۔ اسی لیے سنت کی پیروی میں سفید ٹوپی و پگڑی، سفید کرتا اور تہبند، داڑھی مبارک رکھتے، سادہ کھانا مٹی کے برتنوں میں دایاں گھٹنا کھڑ اکر کے کھاتے تھے۔ صرف داڑھی والا آدمی نماز باجماعت میں پہلی صف میں کھڑا ہو سکتا تھا اور معمولی چیزوں مثلاً لوٹا، جوتا، درانتی، جھاڑو وغیرہ کا منہ قبلہ رخ رکھنا اور عورتوں سے سخت پردہ کرنا آپ کے رائج کردہ خانقاہی نظام کی انفرادیت ہے۔ حضرت صاحب کرماں والے ؒ تا دم ِ آخر سنت ِ رسول اللہ ﷺپر سختی سے عمل پیرا رہے۔
وفات
ترمیمآپ 27رمضان المبارک 1385ھ بتاریخ بروز جمعرات 88سال کی عمر میں وصال فرما گئے۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ پیر ثناء اللہ طیّبی ماہنامہ مجلہ حضرت کرماں والا شریف
- ↑ "حضرت کرماں والا"۔ 2022-11-25 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2022-11-25