سید نذر دین شاہ
سید نذر دین شاہ تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ کے والد بزرگوار ہیں۔
سید نذر دین شاہ | |
---|---|
دیگر نام | اجی جی |
ذاتی | |
پیدائش | ( 1236 ھ بمطابق 1815ء) |
وفات | (24 رجب 1324ھ بمطابق 1905ء) |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
دیگر نام | اجی جی |
سلسلہ | قادریہ |
مرتبہ | |
مقام | گولڑہ شریف اسلام آباد |
دور | انیسویں بیسویں صدی |
پیشرو | پیر فضل دین شاہ |
جانشین | پیر مہر علی شاہ |
ولادت
ترمیمسید نذر دین شاہ کی ولادت 1236 ھ بمطابق 1815ء میں گولڑہ شریف میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام پیر سید غلام شاہ تھا۔ آپ کی والدہ ماجدہ پیر سید رسول شاہ کی صاحبزادی اور پیر سید فضل دین شاہ کی ہمشیرہ تھی۔ آپ تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ کے والد بزرگوار ہیں۔ مہر علی شاہ آپ کو اجی جی کہتے تھے جو پوٹھوہاری زبان میں والد کو اجی جی کہتے ہیں۔
عبادت و ریاضت
ترمیمسید نذر دین شاہ پیدائشی ولی تھے۔ آپ عبادت و ریاضت میں یکتائے روزگار تھے۔ شب و روز ذکر خدا میں مصروف رہتے تھے۔ دینی کتب کے مطالعے کا بہت شوق تھا۔ نماز پنجگانہ، نماز تہجد اور دیگر نوافل کا خصوصی سے اہتمام فرماتے تھے۔ تمام عمر شریعت و طریقت کی پاسداری میں گزاری۔
شادی
ترمیمسید نذر دین شاہ کی شادی حسن ابدال کے گیلانی خاندان میں ہوئی۔ زوجہ محترمہ پیر بہادر شاہ گیلانی کی دختر تھی۔ پیر بہادر شاہ کا خاندان غوث پاک کے صاحبزادے سید عبد الرزاق کی اولاد سے ہے۔
بیعت و خلافت
ترمیمسید نذر دین شاہ سلسلہ قادریہ میں اپنے ماموں پیر سید فضل دین شاہ کے دست حق پرست پر بیعت سے مشرف ہوئے۔ پیر فضل دین نے آپ کو اجازت بیعت اور خرقہ خلافت عطا کیا۔
سیرت
ترمیمسید نذر دین شاہ انتہائی بلند اوصاف حمیدہ کے حامل اور باطنی تصرفات کے مالک تھے۔ آپ کی طبیعت میں غریب پروری، مظلوموں کی حمایت کا درد بدرجہ اتم موجود تھا۔ کسی کی تکلیف کو برداشت نہ کر سکتے تھے۔ بڑے سے بڑے جابر شخص کی زیادتی اور شکایت پرفوراً اس کے خلاف ڈٹ جاتے اور مظلوم کا حق اس ظالم سے دلوا کر رہتے تھے۔ جوانی سے لے کر آخری عمر تک سخاوت، شجاعت، سپہ گری کے اوصاف و کمالات آپ کی شخصیت میں نمایاں رہے۔ آپ گھوڑے کی سواری بہت شوق سے فرماتے اور اپنے زیر استعمال سواری کے لیے بہترین گھوڑا استعمال کرتے تھے۔
کرامت
ترمیمسید نذر دین شاہ جس مسجد میں محو عبادت اور مطالعہ کتب میں مصروف رہتے تھے اس مسجد کے قریب سکھوں کا محملہ تھا۔ جہاں قلعہ دار کی ایک رشتہ دار لڑکی بد چلنی کے الزام میں حاملہ پائی گئی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کے ایک مقامی مخالف جو قلعہ دارکا معتمد خاص تھا اور آپ کے خاندان کی روز افزوں عزت و شہرت سے حسد رکھتا تھا۔ اس نے قلعہ دار سے کہہ کر یہ الزام آپ پرلگا دیا۔ قلعہ دار نے بغیر ثبوت و شہادت کے سید نذر دین شاہ کو گرفتار کروا کر زندہ جلانے کا حکم دے دیا۔ اس بے گناه الزام وسزا کے خلاف قرب و جوار کے مسلمان سراپا احتجاج بن گئے اور مسلمانوں کا ایک وفد قلعہ دارسے ملا اور اس کو اپنے ارادے سے باز رہنے کو کہا۔ قلعہ دار نے کہا ٹھیک ہے میں تمھاری بات ایک شرط پر مان لوں گا کہ بذات خود سجادہ نشین پیر فضل دین شاه دربار میں میرے پاس تشریف لاکر مجھے یقین دلائیں کہ یہ بے گناہ ہیں تو میں چھوڑ دوں گا۔ جب لوگ یہ پیغام لے کر پیر فضل دین شاه کے پاس گئے تو انھوں نے فرمایا کہ میں کسی قیمت پر سکھ قلعہ دار کے پاس نہیں جاؤں گا اور فرمایا کہ قلعدار سے کہہ دو کہ اسے زندہ جلا دو۔ اگر یہ گنہگار ہے تو ہمارے لیے اس کا جل جانا ہی بہتر ہے۔ سزا کی مقررہ تاریخ سے ایک دن پہلے مواضعات میرابادیا و میرااکو وغیرہ کے مسلمانوں نے جمع ہو کر کے قلعہ دار کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر بڑے پیر صاحب آپ کے ماموں جناب سید فضل دین شاه نے تمام مواضعات میں اپنا نمائندہ بھیج کر اطلاع کرائی کہ جو کوئی بھی ایسا قدم اٹھائے گا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہ ہوگا۔ بڑے پیر صاحب کا پیغام سن کر لوگ خاموش ہو گئے۔ سزا والے دن علی الصبح ہی ہزاروں افراد مرد و زن مسلمان، قلع کے باہرجمع ہو گئے۔ اس قلعے کے کھنڈر شہر سے مغرب کی جانب کچھ دور ندی کے کنارے اب تک موجود ہیں۔ عورتوں نے آہ و بکا کرتے ہوئے اپنے زیورات کا ڈھیر لگا دیا اور کہا کہ ہمارے پیر زادے کو زیورات سے تول کر جرمانہ وصول کر لو مگر انھیں رہا کر دو مگر سکھ قلعہ دار اپنے فیصلے پرڈٹا ہوا تھا۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق عبرت عامہ کے لیے سزائے موت شارع عام پرسب کے سامنے دی جاتی تھی۔ اس کے لیے ایک کھلی جگہ لکڑیوں کا الاؤ بہت بڑا ڈھیر لگا کر چتا تیارکی گی اور قلعہ دار کی فوج نے اس کو گھیرے میں لے لیا۔ یہ بدھ چہارشنب کا دن تھا کہ اس روز پیر سید نذردین شاہ صاحب کو حضرت غوث اعظم کی زیارت نصیب ہوئی جنھوں نے فرمایا کہ چتا پر جانے سے پہلے غسل کر کے گھر میں جو نیا کپڑوں کا جوڑا ہے وہ پہن کر دو رکعت نماز نفل پڑھ لینا۔ جب آپ کو قلعہ دار کے سپاہی آگ کی چتا پر لے جانے لگے تو آپ نے ان سے غسل کرنے اور نیا جوڑا کپڑوں کا پہنے کی اجازت طلب کی۔ قلعہ دار کے سپاہیوں نے آخری خواہش کی تکمیل کی خاطر آپ کو اجازت دے دی۔ اس کے بعد غسل کے لیے پانی بھرکر دیا اور گھر سے نیا لباس لا کر دیا۔ جو آپ نے زیب تن فرمایا اور دو رکعت نماز نفل ادا کی۔ اس کے بعد چتا پر جا کر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد قلعہ دار کے سپاہیوں نے لکڑیوں پرتیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کی مگر لاکھ کوشش جتن کے بعد بھی آگ نہ جلی۔ یہ نکامی دیکھ کر الزام لگانے والے حاسد نے قلعہ دار سے کہا کہ تمھارے سپاہی پیروں سے مل گئے ہیں۔ اس لیے وہ دانستہ ہیرا پھیری کر رہے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ آگ کیسے نہیں جلتی۔ یہ کہہ کر وہ شخص آگے بڑھا اور اس نے آپ کے کپڑوں اور لمبے لمبے گھنگریالے بالوں پر بہت سا تیل ڈالا اور ایک برتن میں خشک نبولے ڈال کر جلائے جب اس برتن میں شعلے بلند ہونے لگے تو اس برتن کو آپ کے تیل سے تر بتر کپڑوں اور بالوں کے نیچے رکھ دیا۔ آگ کے شعلے آسمان کی طرف لپک رہے تھے اور شعلوں کی حرکت سے آپ کے بال لوگوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے نظر آنے لگے۔ آپ کا جسم اور کپڑے تو در کنار آپ کے بالوں نے بھی آگ کے اثر کو محسوس نہیں کیا۔ جب اس بدظن نے یہ ماجرا دیکھا تو اس نے جلتے ہوئے بولوں کو آپ کے تیل میں شرابور کپڑوں پر الٹ دیا مگر وہ بھی آپ کو تکلیف دیے بغیر لکڑیوں پر جاگرے اور بجھ گئے۔ تمام ماجرا دیکھ کر لوگوں میں آپ کی بے گناہی غوغا اٹھ کھڑا ہوا اور قلعہ دار نے حکم دیا کہ مخبر کو گرفتار کر کے چتا پر جلایا جائے۔ قلعہ دارخود گلے میں کپڑا ڈال کر آپ کے سامنے دست بدستہ کھڑا ہو گیا اور معافی مانگے لگا اور کہنے لگا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ واقعی بے گناہ ہیں اور یہ میری غلطی ہے کہ میں نے اس بدظن کے کہنے پر آپ کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیا۔ ایک طرف یہ کھیل جاری تھا کہ دوسری طرف آپ کے ماموں پیر سید فضل دین شاہ سے اپنا منہ بغداد شریف کی جانب کر کے کھڑے ہوئے تھے اور بار بار آدمی بھیج کر سید نذر دین شاہ کے حالات سے باخبر ہو رہے تھے۔ جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ مخبر گرفتار ہو گیا ہے اور قلعہ دار معافی کے لیے ہاتھ باندھے کھڑا ہے تو آپ نے فوراً پیغام بھیجا کہ سید نذر دین شاہ سے کہو دو اس شخص کو معاف کر دو۔ پیغام پہنچنے سے پہلے ہی سید نذر دین شاہ نے قلعہ دار سے کہہ دیا تھا کہ میں اس وقت تک چتا سے نہیں اٹھو گا جب تک مجھ پر الزام لگانے والے کو معاف نہیں کر دیا جائے گا۔ جب قلعہ دار نے مخبر کو معاف کر دیا تو آپ چتا سے نیچے اتر آئے تھے۔ آپ کے نیچے اترنے کے بعد لوگوں نے آپ کے کپڑوں کو غلاف کعبہ کی طرح متبرک سمجھ کر تبرک سمجھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔
خدا کی شان کہ اس واقعہ کے بعد جلدی ہی 1848ء میں پنجاب سے سکھوں کی عمل داری کا تختہ الٹ گیا اور پنجاب پرانگریزوں کی حکومت کا قبضہ ہو گیا۔ اس واقعہ کے بعد آپ کا تمام عمر معمول رہا ہے کہ ہر بدھ کی رات کوغسل ضرور فرماتے تھے اور متعلقین کو بھی بطور وظیفہ برائے حل مشکلات بتلایا کرتے تھے۔
مہر علی صلب والدین میں
ترمیمپیر سید نذر دین شاہ اکثر اس آگ والے واقعہ پرانکساری فرماتے اور فرماتے تھے کہ یہ تمھارے پیر مہر علی شاہ کی کرامت تھی کہ جو اس وقت میرے صلب میں تھے۔ جس کی وجہ سے آگ نے مجھے جلنے نہ دیا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب سے سید مہرعلی شاہ میرے صلب میں آئے ہیں اس کی وجہ سے مجھے عشق الہی کی آگ بھڑکائے رکھتی ہے۔ پوری پوری رات عبادت میں مصروف رہ کر بھی سکون نہیں آتا۔ جب نوافل پڑھ کر تھک جاتا ہوں تو پھر کنویں سے پانی نکال کر تمام مساجد کے سقادے بھر آتا ہوں مگر نیند تھی کہ میرے پاس پھٹکتی بھی نہ تھی اور نہ طبیعت کوقرار آتا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ جب پیر سید مہر علی شاہ میرے صلب سے شکم مادر میں منتقل ہوئے تو پھر ان کی بھی یہی کیفیت ہوئی تھی کہ تمام رات عبادت میں مصروف رہ کر وقت گزارہ کرتی تھیں۔ رات بھر انھیں نیند نہی آتی۔ ہروقت ذکر خدا میں مصروف رہتی تھیں۔
وصال با کمال
ترمیمپیر سید نذر دین شاہ کا وصال 90 برس کی عمر میں 24 رجب 1324ھ بمطابق 1905ء کو گولڑہ شریف میں ہوا۔ آپ کی وصیت تھی کہ میرے وصال کے بعد میری قبر پر روضہ نہ بنانا اور مجھے مسجد کے قریب دفن کرنا تا کہ اذان کی آواز آتی رہے۔ چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق دربار عالیہ گولڑہ سے ملحقہ مسجد کے متصل مدرسے کی وسیع عمارت کے اندر آپ کو دفن کیا گیا۔ جہاں آپ کا مزار مخلوق خدا کے لیے مرجع خلائق ہے۔ [1]
آپ کی وصیت تھی کہ میرے وصال کے بعد میری قبر پر روضہ نہ بنانا اور مجھے مسجد کے قریب دفن کرنا تا کہ اذان کی آواز آتی رہے۔ چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق دربار عالیہ گولڑہ سے ملحقہ مسجد کے متصل مدرسے کی وسیع عمارت کے اندر آپ کو دفن کیا گیا۔ آپ کا مزارشریف آج تک مرجع خلائق ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا عرس مبارک ہر سال 24 رجب کو دربار عالیہ غوثیہ مہریہ گولڑہ شریف اسلام آباد میں منایا جاتا ہے۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ اولیائے پوٹھوہار مولف مقصود احمد صابری صفحہ 63 تا 68