سید کبیر الدین شاہ دولہ بغدادی

سید کبیر الدین شاہدولہ بغدادی صاحب ِارشاد وجانشین غوث الاعظم فی الہند اور شاہ دولہ سرکار سے مشہور ہیں

سید کبیر الدین شاہ دولہ بغدادی
معلومات شخصیت

پہچان ترمیم

واضح رہے آپ کی شہرت سید کبیر الدین کبیر الاولیاء شاہ دولہ گجراتی بغدادی، کاٹھیاورای صوبہ گجرات(بھارت) ہے۔[1]

نام ترمیم

تاریخ تصوف کے مطابق شاہ دولہ جن کا اصلی نام سید کبیر الدین ابن سید موسیٰ حنبلی بغدادی تھا کہلائے جاتے ہیں۔

ولادت ترمیم

آپ کی جائے پیدائش بغداد شریف اور سنہ پیدائش 500ھ ہے۔ آپ کے والد غوث پاک کے خاص دوست تھے۔


وصال ترمیم

بتوحید آں عارف حق گزیدہ، بگو شاہ دولہ بجنت رسیدہ 1085 عہ.

بیعت و خلافت ترمیم

حضور غوث پاک اپنی تصنیف کرتبہ وحدت میں تحریر فرماتے ہیں کہ 19 رجب521 بروز جمعرات بعد نماز مغرب میں نے سید کبیر الدین کو بیعت توبہ سے مشرف کرکے تعلیمات وکفیاتِ باطنی سے بہرمند کیا اور ترقیِ باطنی میں متوجہ کر دیا۔ اس واقعہ کی تصدیق شاہ دولہؒ نے اپنی کتاب تحفہ الارواح میں بھی فرمائی ہے۔ بیعت توبہ کے 27سال بعد شیخ کی کامل توجہ مرید ِخاص کی طرف ہوئی اور نویں ذیقعدہ 548 ھ کو بروز پیر بعد عصر محفل عام میں اپنے سامنے بیٹھا کر حضور غوث پاک نے حضرت کبیر الدین شاہ دولہ ؒ کو بیعت امامت اور صاحب ارشاد کے منصب سے مشرف کیا۔ شاہ دولہ اپنی بیعت و خلافت کا احوال اپنی تصنیف تحفتہ الارواح اَسرارِ اکبر الکبیر میں درج فرماتے ہیں کہ جب میں حضور غوث پاکؒ کے دستِ حق پر بیعتِ امامت اور ارشاد سے مشرف ہوا تو آپ نے فرمایا تھا کہ قائم سلسلہ کا رہنا موقوف ہے۔ ( یعنی سلسلہ قادریہ سلسلہ الذہب کی ترویج کبیر الدین الدین شاہ دولہ کی بجائے شاہ منور علی سے ہوگی) چنانچہ مجھ سے تو اور تجھے سے منور علی ہے۔ وقت خلافت آپؒ نے وہ کلاہ ِمتبرک جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے آپؒ کے پیر ومرشد تک پہنچی تھی شاہ دولہ کو اُوڑھائی اور سبز عمامہ اپنے دست مبارک سے باندھ کر خرقہ پہنایا اور خطاب قطبِ الاسرارِ حبیب کے ساتھ سندِ خلافت مرحمت فرمائی اور عبد الغفور ابدال کو خدمت میں مامور فرمایا اور شاہ منور علی کو لائق ِمرتبہ صاحب مجازِ مرفوع الاجازت اولعزم والمرتبہ سمجھ کرآپ کے سپرد کر دیا۔[2][3]

حوالہ جات ترمیم

  1. داتائے سرحد:محمد سلیم اقبال جنیدصفحہ 134:عظیم اینڈ سنز اردو بازار لاہور
  2. حضرت شاہ دولہ دریائی : پیر:سید ارتضٰی علی کرمانی :عظیم اینڈ سنز پبلیشرز لاہور
  3. تاریخ مشائخِ قادریہ ، 2/ 193،محمد دین کلیم قادری