حنبلی

امام احمد بن حنبل کی فقہ

حنبلی اہل سنت کے چار فقہی مذاہب میں سے ایک ہے۔[1] یہ احمد بن حنبل (م۔ 855ء) کی تعلیمات پر مبنی ہے اور اس کی ترویج ان کے شاگردوں نے کی۔ حنبلی مذہب چار مکاتب فکر (حنفی، مالکی اور شافعی) میں (بلحاظ تعداد مقلدین) سب سے چھوٹا ہے۔[2][3]

احمد بن حنبل کی فقہ احادیث مرفوعہ، عہدِ صحابہ کے فیصلے، تابعین و تبع تابعین و ائمہ مجتہدین کے فتاویٰ کی بنیاد ہے۔[4] اسلام کی کتب مقدسہ میں واضح جواب نہ ملنے کی صورتوں میں فقہ حنفی یا فقہ مالکی کی طرح حنابلہ فقہی صوابدید یا مروجہ عمل کو قبول نہیں کرتے۔ اہل سنت میں حنبلی مذہب فقہ کا کٹر اثری مکتب فکر ہے۔[5] یہ زیادہ تر سعودی عرب اور قطر میں پایا جاتا ہے، جہاں یہ سرکاری فقہ ہے۔[6][7] حنابلہ کی یو اے ای میں زیادہ تر چار امارات (شارجہ، ام القیوین، راس الخیمہ اور عجمان) میں اکثریت ہے۔[8] حنابلہ کی بڑی اقلیت بحرین، عمان، یمن، عراق اور اردن میں پائی جاتی ہے۔[6][9] ہر وہ ملک جہاں مسلمان رہتے ہیں، وہاں پر کم یا زیادہ چاروں اماموں کے پیروکار موجود ہیں۔

فقہ حنبلی کے اصول

ترمیم
 
امام احمد بن حنبل مع رضی اللہ عنہ کا خطاطی اسم۔

امام احمد بن حنبل نے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کے لیے کچھ ایسے اصول اختیار کیے جو بعد میں فقہ حنبلی کی اساس قرار پائے۔ یہ پانچ اصول ہیں جو آپ کے فتاوی میں واضح طور پر ملتے ہیں اور انہی پر ہی آپ کی فقہ کا دار و مدار تھا۔ امام احمد اگر دلائل کو متعارض پاتے تو بالکل فتوی نہ دیتے۔ اور اگر کسی مسئلے میں صحابہ کا اختلاف ہوتا یا کوئی حدیث آپ کے علم میں نہ ہوتی یا کسی صحابی یا تابعی کا قول نہ ملتا تو توقف فرماتے۔ جس مسئلے میں سلف سے کوئی اثر نہ ملتا تو بھی فتوی نہیں دیتے تھے۔ اِمام احمد فرمایا کرتے: ”اس مسئلے پر رائے دینے سے بچو جس میں تمھارے پاس کوئی راہنما نہ ہو۔“ جب مسائل کا جواب دیتے یا لکھتے تو کھلے دل سے فقہا محدثین کے فتاویٰ کو اور امام مالک بن انس اور اصحاب مالک کے فتاویٰ وغیرہ کو بطور دلیل کے پیش کر دیا کرتے۔ ایسے فتویٰ سے روکا کرتے جس میں حدیث سے اعراض نظر آتا ہو یا حدیث کے مطابق وہ فتویٰ نہ ہو اور نہ ہی ایسے فتویٰ کو قابل عمل سمجھتے تھے۔ وہ پانچ اصول درج ذیل ہیں:[10]

  1. نصوص
  2. فتاویٰ صحابہ
  3. اقوال صحابہ کا چناؤ
  4. حدیث مرسل اور حدیث ضعیف
  5. ضرورتاً قیاس

نصوص

ترمیم

نُصُوص نُص کی جمع ہے جس سے مراد قرآن و حدیث سے کوئی دلیل جو نص کی صورت میں ہو۔ نص جب انھیں مل جاتی تو اسی کے مطابق فتویٰ دے دیا کرتے خواہ کسی نے بھی اس کے خلاف کہا ہو۔ حدیث صحیح پر کسی کے قول، عمل، رائے اور قیاس کو مقدم نہیں کیا کرتے تھے۔ نہ ہی اجماع کو وہ حدیث صحیح پر مقدم کرتے تھے۔ امام احمد نے ایسے اجماع کو تسلیم ہی نہیں کیا جو صحیح حدیث کی موجودگی میں اس کے برعکس کیا گیا ہو۔ کسی مسئلے پر اجماع کے دعوے کو بھی تسلیم نہیں کیا کرتے تھے۔ اس لیے کہ جو یہ دعویٰ کر رہا ہے اسے کیا علم کہ علما نے اس سے اختلاف کیا ہو۔ اور یا اس اختلاف کا علم اسے نہ ہوا ہو۔[11]

فتاوی صحابہ

ترمیم

کسی صَحابی کا فَتْویٰ مل جانے کے بعد اس کی مخالفت کسی اور صحابی سے نہ ملتی تو فتویٰ اس کے مطابق دیتے۔ ایسے فتویٰ کو اجماع تو نہ کہتے بلکہ یہ فرمایا کرتے: ”اس کے بارے میں مجھے کسی ایسی بات کا علم نہیں جو اس صحابی کی بات کو رد کرتی ہو۔“ اس نوع کا کوئی فتویٰ امام احمد کو بھی اگر مل جاتا تو کسی کے عمل، رائے یا قیاس پر اسے مقدم نہیں کرتے تھے۔[11]

اقوال صحابہ کا چناؤ

ترمیم

جب اَقْوال صَحابَہ میں انھیں اختلاف نظر آتا تو اس صورت میں وہ اس صحابی کا قول لیتے جو کتاب و سنت کے قریب ترین ہوتا۔ اور اگر کسی کے قول کی کوئی موافقت نہ ملتی تو اس مسئلے میں اختلاف کا ذکر فرماتے مگر کوئی حتمی رائے نہ دیتے۔[11]

حدیث مرسل اور حدیث ضعیف

ترمیم

کسی مسئلے میں اگر صحیح حدیث نہ ہوتی تو امام احمد حدیث مرسل اور حدیث ضعیف سے بھی استدلال لیتے۔ ایسی حدیث کو تو وہ قیاس پر بھی ترجیح دے دیا کرتے۔ ضعیف حدیث سے مراد ان کے ہاں کوئی باطل حدیث یا منکر حدیث یا اس راوی کی حدیث نہیں جو متہم ہو کہ ایسی حدیث پر عمل ناگزیر ہو بلکہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث، صحیح کی ایک قسم ہی ہے جو حسن کے درجے کی ہے۔ کیونکہ ان کے زمانہ میں حدیث کی دو ہی اقسام ہوا کرتی تھیں صحیح اور ضعیف۔ ضعیف حدیث کے کچھ مراتب تھے۔ جن کی ادنی قسم یہ ضعیف ہوا کرتی تھی جو بعد میں حسن کہلائی۔ جب کسی مسئلہ میں کوئی ایسا اثر نہ پاتے یا کسی صحابی کا کوئی قول نہ ملتا یا کوئی اجماع اس کے خلاف نہ ملتا جو اس ضعیف حدیث کو رد کر سکے تو قیاس کو ترجیح دینے کی بجائے اس پر عمل فرماتے۔ تمام ائمہ کی طرح ان کا بھی یہی اصول تھا کہ ضعیف حدیث کو قیاس پر مقدم رکھا جائے۔[12][11]

ضرورتاً قیاس

ترمیم

جب کسی مسئلہ میں ان کے پاس کوئی نُص نہ ہوتی اور نہ ہی قول صحابہ یا صحابی، نہ کوئی اثر مرسل یا ضعیف، پھر آپ پانچویں اصول کی طرف توجہ فرماتے جسے قیاس کہتے ہیں۔ اسے بھی امام احمد نے بوقت ضرورت استعمال کیا ہے۔ ابو بکر الخلال کی کتاب میں ہے: امام احمد فرماتے ہیں: میں نے امام شافعی سے قیاس کے بارے میں دریافت کیا: تو انھوں نے فرمایا: ضرورت کے وقت اس کی طرف بھی رخ کیا جا سکتا ہے۔[12][13]

خصوصیات

ترمیم

فقہ حنبلی کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس کا دار ومدار تمام تر حدیث و روایت اور نقل و اثر پر ہے۔ امام احمد بن حنبل مقدور بھر احادیث سے انحراف اور بے تعلقی پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لیے کہ حدیث اور متعلقات حدیث پر ان کا علم وسیع تھا اور ان کے ہاں روایات کا ذخیرہ بہت تھا۔ وہ قول رسول اور صحابہ کے فتاویٰ پر فتویٰ دیا کرتے تھے۔[14]

اسبابِ عدمِ فروغ و اشاعت

ترمیم

مذہبِ حنبلی کے ماننے والوں کی تعداد، پہلے تینوں مذہب حنفی، مالکی اور شافعی کے مقابلے میں کم رہی۔ علامہ ابن خلدون اپنے مقدمہ میں لکھتے ہیں کہ: ”فقہ حنبلی اجتہاد سے بعید ہے اور اس کا مدار زیادہ تر احادیث و اخبار پر ہے۔ اکثر حنابلہ شام اور عراق کے علاقوں میں ہیں، جو احادیث و سنن کی روایت میں سب سے آگے ہیں۔“[15]

ابو زہرہ مصری علامہ ابن خلدون کی رائے کو غلط قرار دیتے ہیں اور اس مذہب کے قلتِ اتباع کی یہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ:

”واقعہ یہ ہے کہ اس گہر خیز مذہب کے ذیوع و اشاعتِ عام جو چیزیں رکاوٹ ثابت ہوئی ہیں، ان میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ فقہ مذاہبِ اربعہ میں اس کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے، ایک اور سبب اس کی عدمِ اشاعت کا یہ ہے کہ امام احمد اور ان کے اتباع قربِ سلطانی اور جاہ و منصب سے دور بھاگتے تھے، نہ اس کی تمنا کرتے تھے، نہ اس کے لیے سرگرداں رہتے تھے، نہ اپنے امام کی تقلید میں اسے پسند کرتے تھے، اس لیے امام احمد کا مسلک یہی تھا، اس کے برعکس اہل عراق کے درمیان مذہبِ حنفی اور اندلس مغرب اقصیٰ میں مذہبِ مالکی کے نشر و اشاعت کا راز یہ ہے کہ ان کے علما و قضاۃِ مناصب سے گریزاں نہیں رہے، بلکہ ان پر فائز رہے۔ عوام کے درمیان مذہبِ حنبلی کے عدمِ فروغ کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ گو اس مذہب کے علما نے اجتہاد کا سررشتہ کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور اجتہاد کا فریضہ پورے خلوصِ نیت سے انجام دیا۔“[16]

امام ابو حنیفہ کا جہاں تک تعلق ہے، وہ قربِ سلطان اور جاہ و منصب سے بیزار تھے۔ انھیں منصب پیش کیا گیا لیکن انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، لیکن ان کے تلامذہ نے ان کی زندگی اور وفات کے بعد بھی منصبِ قضا (سرکاری طور پر) قبول کیا۔ امام زفر نے امام ابو حنیفہ کی حیات میں ہی بصرہ کا منصبِ قضا قبول کر لیا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد ہارون الرشید کے دور میں قضا کے منصب پر فائز رہے۔ امام ابو یوسف دولت عباسیہ کے قاضی اول تھے۔ لیکن امام احمد نے کوئی منصب قبول نہیں کیا۔ اس طرح ان کے شاگردوں نے اس وضعداری کو پابندی کے ساتھ نبھایا اور کوئی سرکاری منصب ایک عرصہ تک قبول نہیں کیا۔[17]

ابن عقیل کا تبصرہ

ترمیم

شیخ الاسلام ابو الوفاء علی بن عقیل بغدادی513ھ) سے حنابلہ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ دوسرے فقہی مذاہب والوں کے مقابلہ میں حنبلی علما اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت میں کیوں پیچھے رہے۔ شیخ الاسلام ابن عقیل نے جواب میں لکھا کہ:

”حنابلہ متقشف اور سخت ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا میل جول دوسروں سے کم ہوتا ہے، وہ بڑوں کے یہاں آنے جانے پرہیز کرتے ہیں۔ حقیقت پسندی ان پر غالب ہے۔ آرا کے مقابلہ میں روایات لیتے ہیں۔ تاویل سے بچنے کے لیے ظاہری معنی پر عمل کرتے ہیں۔ ان پر اعمال صالحہ کا غلبہ ہے، اس لیے عقلی علوم سے بچتے ہیں۔ فروعات میں ظاہر کو لیتے ہیں، ظاہری آیات و احادیث کو بغیر تاویل کے قبول کرتے ہیں، اس لیے ان پر تشبیہ کا الزام لگایا گیا ہے۔“[18]

اس کے بعد ابن عقیل لکھتے ہیں کہ حنبلی مذہب نے خود حنابلہ پر ظلم کیا ہے۔ ابو حنیفہ اور شافعی کے تلامذہ نے قضا وغیرہ کا عہدہ سنبھالا۔ جس کی وجہ سے ان کو علمی مشغلہ اور درس و تدریس کے مواقع ہاتھ نہ آئے، مگر امام احمد کے تلامذہ میں شاید ہی کوئی ایسا ہے، جس نے علم حاصل کر کے عوام اور حکومت کے کاموں میں دلچسپی لی ہو۔ اس لیے ان کا علمی سلسلہ بہت کم جاری رہ سکا۔ اور اس کے علاوہ امام احمد کے تلامذہ کے جوان کے طبقہ پر فقہ کا غلبہ رہا اور مشائخ پر زہد و تقویٰ غالب رہا۔[19]

متشدد

ترمیم

عوام کے درمیان مذہبِ حنبلی کے عدمِ فروغ و اشاعت کا ایک بہت بڑا سبب یہ بھی ہے کہ امام احمد کو اپنی زندگی میں ان کے اور متبعین کو ان کی وفات کے بعد جس قسم کے حوادث و مصائب سے دو چار ہونا پڑا، اس کے ردِ عمل کے طور پر تعصب پیدا ہو گیا اور انھوں نے نہایت سخت قسم کے تعصب کا مظاہرہ شروع کر دیا۔ تعصب کی یہ فضا امام احمد کے آخری دورِ حیات میں شروع ہو گئی تھی، لیکن ان کی وفات کے بعد تو یہ بہت بڑھ گئی۔[20]

بغداد اور عراق میں حضراتِ حنابلہ کے اس تعصب نے بڑی نازک صورت پیدا کر دی۔ مناقشہ اور تنازع کا موضوع ”خلقِ قرآن“ کا مسئلہ تھا۔ حنبلی عوام اس موضوع پر واقفیت کے بغیر جھگڑنا شروع کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جو شخص قرآن کے غیر مخلوق ہونے کا قائل ہو، اس کی بات قبول کر لی، اگر کوئی شخص اس مسئلہ پر تردد کا اظہار کرے، گو تحقیق کی غرض سے کیوں نہ ہو، تو اس کی بات رد اور ناقابلِ قبول۔[20]

ابن اثیر کا تبصرہ

علامہ ابن اثیر نے بھی مذہبِ حنبلی کے عدم ذیوع و اشاعت کا سبب عوام پر ان کی سختی کو قرار دیا۔ وہ اپنی تاریخ ”الکامل“ میں لکھتے ہیں کہ

”اس زمانہ میں بغداد میں حنابلہ کو بڑی شوکت ہوئی۔ یہ لوگ امرا کے مکانوں پر دھاوا بول دیتے تھے اور نبیذ وغیرہ پاتے تو اسے گرا دیتے تھے۔ اگر مغنیہ نظر آتی، تو اس کی مار پیٹ کرتے اور سامانِ لہو و لعب کو توڑ پھوڑ کر پھینک دیتے تھے۔ منکرات پر اتنی شدت اختیار کرتے تھے کہ اہلِ بغداد پریشان ہو گئے۔ شافعیہ کو بہت زیادہ تنگ کرتے۔ اگر کوئی شافعی راستہ میں مل جاتا، تو اس کی خوب ٹھکائی کرتے تھے۔ ان کی اس قدر سختی اور ظلم و ستم کی وجہ سے حکومت کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ دو حنبلی ایک جگہ جمع نہ ہوں اور نہ اپنے مسلک کے بارے میں گفتگو کریں۔“[21]

فقہِ حنبلی کی اُمہات الکتب

ترمیم

فقہ حنبلی کی اہم مطبوعہ کتابیں اس طرح ہیں:

  • مختصر الخرقی از ابو القاسم عمر بن حسین خرقی (م:334ھ)

فقہ حنبلی میں یہ کتاب متن کا درجہ رکھتی ہے اور بعد میں فقہ حنبلی پر جو کام ہوا ہے، وہ زیادہ تر اسی کتاب کے گرد گھومتا ہے۔

  • کتاب الروایتین والوجہین از قاضی ابو یعلیٰ محمد بن حسین بن فراء (م: 458ھ)

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس کتاب میں قاضی ابو یعلیٰ نے امام احمد سے منقول مختلف اقوال کے درمیان ترجیح وتطبیق کی خدمت انجام دی ہے۔

  • الکافی از موفق الدین ابن قدامہ مقدسی (م: 620ھ)
  • المقنع از موفق الدین ابن قدامہ
  • المغني از موفق الدین ابن قدامہ

یہ مختصر خرقی کی سب سے مبسوط شرح ہے اور نہ صرف فقہِ حنبلی بلکہ فقہِ اسلامی کی چند منتخب تین کتابوں میں ایک ہے، جس میں نصوص وآثار اور سلف کی آراء اور ان کے دلائل، تفصیل اور انصاف کے ساتھ نقل کیے گئے ہیں۔

  • العمدۃ از موفق الدین ابن قدامہ (م: 620ھ)
  • المحرر از مجد الدین ابو البرکات عبد السلام (م: 652ھ)
  • الشافي (معروف:الشرح الکبیر) از عبد الرحمن بن امام ابی عمر مقدسیؒ (م:682ھ)
  • مجموعۃ فتاوی، از احمد بن تیمیہ (م: 728ھ)

اس مجموعہ میں علامہ ابن تیمیہ کے فتاویٰ کے علاوہ ان کی دوسری تحریریں بھی شامل ہیں اور مجموعی طور پر 35 جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔

  • الفروع از شمس الدین ابن مفلح حنبلی (م: 763ھ)
  • الإنصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف از علا الدین سعدی مرداوی (م: 885ھ)
  • تصحیح الفروع از علا الدین سعدی مرداوی (م: 885ھ)
  • التنقیح از علا الدین سعدی مرداوی (م: 885ھ)
  • الاقناع از موسیٰ بن احمد مقدسی (م: 968ھ)
  • منتہی الإرادات فی جمع المقنع از تقی الدین بن نجار (م: 972ھ)
  • کشاف القناع عن متن الاقناع از منصور بن یونس بُہوتی (م: 1051ھ)
  • شرح منتہی الإرادات از منصور بن یونس بُہوتی

متاخرین حنابلہ کے یہاں الإنصاف، التنقیح، الاقناع اور منتہی الإرادات فقہ حنبلی کی نقل وترجیح میں زیادہ مستند سمجھی گئی ہیں۔

کیفیت نماز

ترمیم
واجبات

حنبلی مسلک میں نماز کے واجبات حسب ذیل ہیں:[22]

  • ایک رکن سے دوسرے رکن منتقل ہوتے ہوئے تکبیرات یعنی اللہ اکبر کہنا اور یہ منتقلی آغاز سے اختتام کے درمیان ہے۔
  • رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنا یہ امام اور منفرد پر واجب ہے مقتدی پر واجب نہیں۔
  • رکوع سے اٹھنے کے بعد تحمید یعنی ربنا لک الحمد کہنا یہ امام، مقتدی اور منفرد سب پر واجب ہے۔
  • رکوع میں تسبیح پڑھنا سبحان ربی العظیم
  • سجدہ میں تسبیح پڑھنا سبحان ربی الاعلی۔
  • دونوں سجود کے درمیان ربی اغفر لی کہنا۔
  • پہلا تشہد اور اس میں بیٹھنا۔
سنتیں

بہر حال حنبلی مذہب میں نماز کی سنتیں، تو یہ ہیں:[22]

  • تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع کے وقت، رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا۔
  • قیام میں داہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا۔
  • تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے استفتاح اور استعاذہ پڑھنا۔
  • نماز کی پہلی دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھنے کے بعد قرأت کرنا۔
  • فاتحہ کے ختم ہونے کے بعد امام، مقتدی اور منفرد کا جہری نمازوں میں جہراً اور سری نمازوں میں سراً آمین بولنا۔
  • رکوع اور سجدہ میں ایک تسبیح سے زائد کہنا۔
  • سجدہ سے اٹھتے وقت دونوں گھٹنوں کو پکڑ کر اٹھنا۔
  • تین رکعات وتر کو دو سلام سے پڑھنا یعنی دو رکعات اور ایک رکعت جدا پڑھنا، آخری ایک رکعت میں رکوع کے بعد قنوت وتر پڑھنا اور دعا کی شکل میں ہاتھ اٹھانا۔[23]

حوالہ جات

ترمیم
  1. Hisham M. Ramadan (2006)، Understanding Islamic Law: From Classical to Contemporary, Rowman Altamira, آئی ایس بی این 978-0759109919، p. 24-29
  2. Gregory Mack, Jurisprudence, in Gerhard Böwering et al (2012)، The Princeton Encyclopedia of Islamic Political Thought, Princeton University Press, آئی ایس بی این 978-0691134840، p. 289
  3. Sunnite Encyclopædia Britannica (2014)
  4. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 96 تا 97
  5. Ziauddin Sardar (2014)، Mecca: The Sacred City, Bloomsbury, آئی ایس بی این 978-1620402665، p. 100
  6. ^ ا ب Daryl Champion (2002)، The Paradoxical Kingdom: Saudi Arabia and the Momentum of Reform, Columbia University Press, آئی ایس بی این 978-0231128148، p. 23 footnote 7
  7. State of Qatar School of Law, Emory University
  8. Barry Rubin (2009)، Guide to Islamist Movements, Volume 2, ME Sharpe, آئی ایس بی این 978-0765617477، p. 310
  9. Mohammad Hashim Kamali (2008)، Shari'ah Law: An Introduction, آئی ایس بی این 978-1851685653، Chapter 4
  10. ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 171
  11. ^ ا ب پ ت ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 172
  12. ^ ا ب اعلام الموقعین از ابن قیم الجوزیہ 1/ 32
  13. ادریس زبیر، فقہ اسلامی ایک تعارف ایک تجزیہ، ص 172 – 173
  14. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 101
  15. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 104
  16. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 104  – 105
  17. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 105  – 106
  18. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 106
  19. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 106  – 107
  20. ^ ا ب سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 107
  21. سیرت احمد بن حنبل از عبد الرشید عراقی، ص 107  – 108
  22. ^ ا ب "أركان الصلاة وواجباتها وسننها"۔ إسلام ويب - مركز الفتوى۔ 19 مارچ 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2019 
  23. "دعاء القنوت في الوتر"۔ الإسلام سؤال وجواب