سید کبیر الدین شاہدولہ دریائی
سید کبیر الدین شاہدولہ دریائی گنج بخش سلسلہ سہروردیہ اور چشتیہ میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں پنجاب کے ایک مشہور بزرگ کا نام جن کا انتقال 1087ھ میں ہوا۔[1]
سید کبیر الدین شاہدولہ دریائی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمشاہدولہ دریائی ابراہیم لودھی کی اولاد سے تھے۔ وہ 1554ء کو پیدا ہوئے۔
خاندان
ترمیماس وقت مغل بادشاہ شاہ جہاں کی حکومت تھی۔ ان کے والد کا نام عبد الرحیم لودھی تھا جو سلطان بہلول لودھی کے پوتے تھے اور والدہ کا نام نعمت اللہ بی بی تھا۔ جو سلطان سارنگ گکھڑکی پوتی تھیں۔
ابتدائی حالات
ترمیمتذکرہ اولیاء پاکستان کے مطابق بچپن غربت کی حالت میں گذرا ایک علی نقی نامی شخص نے 200 اشرفیوں سے ایک ہندو جوڑے کو فروخت کیا ا س موقع پر کئی کرامات کا ظہور ہوا ایک مرتبہ اس ہندو لالہ کی بیوی سے کہا آج آپ کی بہن آ رہی ہے جبکہ کوئی امکان نہ تھا شام کو وہ پہنچ گئی۔ ہندولالہ نے جب علی نقی کے متعلق پوچھا جس نے انھیں فروخت کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ اسے ایک شہزادے نے برچھی سے قتل کر دیا ہے اس ہندو لالہ کا ایک بھائی عرصہ سے غائب تھا جب اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے بتایا کہ وہ زندہ ہے اور کل تمھیں ملے گا دوسرے دن وہ آگیاکئی دوسری کرامات دیکھ کر اس نے آزاد کر دیا [2]
سلسلہ طریقت
ترمیمآپ کا سلسلہ طریقت مندرجہ ذیل واسطوں سے بہاؤالدین زکریا ملتانی تک پہنچتا ہے کبیر الدین شاہدولہ،شاہ سید سرمست،شاہ مونگا،شاہ کبیر ،شیخ شہر اللہ،شیخ یوسف ،پیر ب رہان ،شیخ صدرالدین،شیخ بدر الدین، شیخ اسماعیل۔ شاہ صدر الدین عارف،شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانی [3] اس دور میں گجرات ایک چھوٹا سے قصبہ تھا لیکن شاہجہاں کی گجرات میں قلعہ کی تعمیر کے بعد گجرات کی آبادی بڑھنا شروع ہو گئی۔ شاہدولہ نہ صرف ایک صوفی تھے بلکہ وہ سماجی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہتے تھے۔ شاہدولہ دریائی نے بہت سے پلوں اور مساجد کی تعمیر بھی کروائی۔ ہر جمعرات اور جمعہ کو لوگ ان کے پاس شفا کے لیے اکٹھے ہوتے تھے اور اپنی حاجات بیان کرتے تھے۔ ان کا مزار اندرون گجرات واقعہ ہے جہاں ہر روز زائرین کی بڑی تعداد سلام کرنے حاضر ہوتی ہے
بیعت
ترمیمسب سے پہلے آپنے بیعت سید سرمست (جنہیں شاہ سیداں بھی کہتے ہیں)سے کی جو سیالکوٹ کے قریب موضع سنگھوئی میں تھے۔12 سال تک ان کی خدمت میں رہے۔ سید سرمست کا ایک مرید موکو تھا جب سید سرمست کا کا آخری وقت آیا تو انھوں نے موکو کو بلایا لیکن وہ نیند سے بیدا ر نہ ہو نے پر سید کبیر الدین شاہدولہ کو خرقہ فقیری دے دیا سید سرمست کی وفات کے بعد سیالکوٹ منتقل ہوئے دس سال قیام رہا 1612ء میں گجرات منتقل ہوئے۔[4]
دریائی کا خطاب
ترمیمآپ کی سخاوت دریا کی طرح تھی اس وجہ سے آپ کو شاہ دولہ دریائی کہا جاتا ہے۔ مفتی غلام سرورقادری کہتے ہیں ان کی سرکار بادشاہوں کی سرکار تھی اہل حاجت کا تانتا لگا رہتا رفاہ عامہ کا بھی بہت کام کرتے بہت سے پل ،تالاب کنوئیں مسجد ں اور سرائیں بنوائیں اس کے علاوہ لنگر ہمہ وقت جاری رہتا جن بچوں کا سر چھوٹا ہوتا جنہیں آج لوگ شاہدولہ کے چوہے کہتے ہیں ان کے پاس آتے تو یہ ان کی بہت خدمت کرتے[5]
وصال
ترمیمآپ کے روضہ کے باہر دیوار پر تاریخ وصال درج ہے
- " بہ توحید آں عارف حق گزیدہ
- بگو شاہدولہ بجنت رسیدہ وصال
1085ھ" مزار پر خوبصورت گنبد اور ساتھ مسجد بھی ہے۔[6] شاہدولہ دریارئی کے عرس کی تقریبات ہر سال ہاڑ کی دوسری بدھ ،جمعرات ،جمعہ کو شروع ہوتی ہیں
حوالہ جات
ترمیم- ↑ اردو لغت - Urdu Lughat - شاہ دولہ[مردہ ربط]
- ↑ تذکرہ اولیائے پاکستان جلد اول،عالم فقری، صفحہ 134،135،شبیر برادرز لاہور
- ↑ تذکرہ اولیائے پاکستان جلد اول،عالم فقری، صفحہ 135،شبیر برادرز لاہور
- ↑ گجرات اور شاہدولہ ولی،محمد احسان چھینہ،صفحہ 40،ریسمان پبلشر گجرات
- ↑ گجرات اور شاہدولہ ولی،محمد احسان چھینہ،صفحہ 41،ریسمان پبلشر گجرات
- ↑ تذکرہ اولیائے پاکستان جلد اول،عالم فقری، صفحہ 143،شبیر برادرز لاہور