سیف الملوک کو سفر العشق اورمثنوئ عشق بھی کہا جاتا ہے یہ میاں محمد بخش کی تصنیف ہے. اس میں لگ بھگ دس ہزار اشعار ہیں۔ پنجابی زبان کے ممتاز صوفی شاعر میاں محمد بخش اپنے آفاقی پیغام، لافانی کلام اور اعلیٰ فنی محاسن کے سبب عالمی مرتبے کے شعرا میں شامل ہیں۔ ان کے کلام کو عوامی مقبولیت کی لازوال سند حاصل ہے۔ انھوں نے پنجابی زبان و ادب کو گراں بہا ادبی خزانے عطا کر کے اسے بے حد ثروت مند بنایا۔ بلا شبہ ان کی کتاب سفر العشق سیف الملوک ایک شعری و ادبی 'شاہکار 'ہے۔ چنانچہ ڈیڑھ صدی سے سیف الملوک کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ میاں صاحب ایک فطری اور آفاقی شاعر تھے۔ وہ حُرمتِ الفاظ کے پاسبان اور شعری زبان کی حقیقت سے گہری واقفیت رکھتے تھے میاں صاحب نے 1863ء میں سیف الملوک کی تسوید مکمل کی اور کہا جاتا ہے کہ یہ پہلے پہل1870ء میں لاہورسے شائع ہوئی۔ خود میاں صاحب سیف الملوک کے اشعار9191 اور9251 میں فرماتے ہیں کہ وہ خود لاہور تشریف لے گئے اور مولوی عبد اﷲ (جو ان کے رشتہ دار تھے)کے ہاں تین ماہ قیام کر کے پروف دیکھا۔ میاں محمد بخش لکھتے ہیں:

  • شہر لاہور مبارک اندر صحت کیتی بہ کے
  • مولوی عبد اﷲ جیو دے خانے اندر رہ کے

انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں میاں محمد بخش کی تصنیف سیف الملوک کی اشاعت شمال مغربی ہندوستان کے ادب کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیف الملوک سے قبل برصغیر کے دوسرے صوفی شعرا کی تصانیف سے برصغیر کے بڑے حصے نے استفادہ کیا۔ لیکن سیف الملوک نے برصغیر میں کشمیر، پنجاب اور صوبہ سرحد کے دور افتادہ علاقوں کے باسیوں تک رسائی کر کے بڑی خدمت انجام دی۔ بالخصوص ریاست جموں کشمیر میں اس تصنیف کا اثر باقی تمام تصانیف کے مجموعی اثر سے بھی بڑھ کر ہوا۔ سیف الملوک کی اشاعت تک ان علاقوں میں علم و ادب صرف پڑھے لکھے لوگوں تک محدود رہا جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ سیف الملوک ایک دہماکے کی مانند وارد ہوئی اور خاص کر ناخواندہ لوگوں میں ایک جادو اثر تشہیر کی حامل ہوئی۔ چند ہی برسوں میں یہ کتاب ہر گرہستی کا ضروری جزو بن گئی۔ اس کتاب کے ہر دلعزیز ہونے کی کئیی وجوہ تھیں، اول یہ کہ چونکہ مصنف نے مختلف مقامی زبانوں مثلا پہاڑی، پوٹھوہاری، پنجابی اور ہندکو کے امتزاج کو ذریعہ اظہار بنایا، چنانچہ ضروری ہوا کہ اسی طور اس کے قارئین کا حلقہ بھی وسیع ہوا۔ علاوہ ازیں کتاب چونکہ شاعری میں لکھی گئی جس کی کہانی ایک اچھوتے رومانی پلاٹ پہ محیط ہوئی، لہٰذا قارئین کا حلقہ ایک دہماکے کی طرح پھیلا۔ سیف الملوک کی اشاعت سے پہلے تمام رومانی لوک کہانیوں کی بنیاد خالصتا انسانی رومان پر محیط رہیں لیکن سیف الملوک کے مصنف نے اس کتاب کے پلاٹ میں ایک جدت کا اضافہ کیا اور ایک انسان شہزادے اور پری شہزادی کی رومانی داستان انتہائی مہارت کے ساتھ پیش کی، چنانچہ مصنف نے اس کی تائید میں دو الہامی کتابوں کا حوالہ بھی پیش کیا اور اس رومانی داستان کی تائید دو انبیا یعنی حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کی زبانی پیش کی[1][2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. کلام محمد بخش، میاں محمد بخش، ناشر چوہدری برادرز دینہ جہلم
  2. تذکرہ مشائخ قادریہ محمد دین کلیم قادری، صفحہ 229،مکتبہ نبویہ لاہور۔ اگست 1975