میاں محمد بخش

انیسویں صدی کے عظیم پنجابی صوفی شاعر

میاں محمد بخش (تقریباً 1830 – 22 جنوری 1907) ایک پنجابی مسلم شاعر تھے جو کھڑی شریف، کشمیر سے تعلق رکھتے تھے۔[2] انھوں نے اپنی 77 سالہ زندگی میں 18 کتابیں تصنیف کیں۔ وہ بالخصوص اپنی رومانوی مثنوی "سیف الملوک" کے لیے مشہور ہیں، جس میں انھوں نے داستانِ عرب شہزادہ سیف الملوک کو شعری انداز میں قلمبند کیا۔[3] انھوں نے رومانوی المیہ "مرزا صاحباں" بھی تحریر کیا۔[4] ان کا بیشتر کلام لہندی پنجابی میں ہے، سوائے ایک کتاب "یاری" کے جو فارسی میں لکھی گئی۔

میاں محمد بخش
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 1830ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کھڑی شریف   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 22 جنوری 1907ء (76–77 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کھڑی شریف   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان پنجابی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں سیف الملوک   ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

میاں صاحب کو پنجاب، ہزارہ اور کشمیر میں برابر طور پر معزز اور مکرم مانا جاتا ہے۔ انھیں قرون وسطیٰ اور ابتدائی جدید پنجابی ادب کے درمیان پل سمجھا جاتا ہے۔

ابتدائی زندگی

ترمیم

میاں صاحب 1830ء میں کھڑی شریف، کشمیر (موجودہ آزاد کشمیر، پاکستان) میں خالصہ دور حکومت میں پنجابی گجروں کے پسوال خاندان میں پیدا ہوئے، جس کا آبائی علاقہ گجرات، پنجاب (موجودہ پنجاب، پاکستان) ہے۔[5][6] ان کی پیدائش کے سال کے بارے میں کچھ اختلاف ہے۔ محبوب علی فقیر قادری، سیف الملوک کے متن کے ضمیمہ کے طور پر چھپی ہوئی سوانح عمری میں میاں صاحب کی تاریخ پیدائیش 1246 ہجری (1830 عیسوی) بتاتے ہیں، اسی کو شاہکار اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ دیگر حوالہ جات میں 1830ء کس ساتھ 1843ء بھی تجویز کی گئی ہے۔ میاں محمد بخش خود اپنی عظیم الشان تصنیف سیف الملوک میں فرماتے ہیں کہ انھوں نے یہ کام رمضان المبارک 1279ھ (1863ء) میں مکمل کیا اور اس وقت ان کی عمر تینتیس برس تھی۔ اس لیے وہ 1829 یا 1830 میں پیدا ہوئے ہوں گے۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

ان کی پرورش انتہائی مذہبی ماحول میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ بعد میں انھیں اپنے بڑے بھائی میاں بہاول کے ساتھ حافظ محمد علی کے مدرسہ میں مذہبی علوم بالخصوص علوم حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے قریبی گاؤں سموال شریف بھیج دیا گیا۔ ان کے استاد حافظ غلام حسین تھے۔ حافظ محمد علی کا ایک بھائی حافظ ناصر تھا جو مجذوب تھا اور دنیاوی معاملات کو ترک کر چکا تھا۔ یہ درویش اس وقت مسجد سموال شریف میں مقیم تھا۔ میاں محمد کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا اور خاص طور پر نور الدین عبد الرحمٰن جامی کا "یوسف و زلیخا" پڑھنے کا شوق تھا۔ مدرسہ میں اپنے زمانے میں حافظ ناصر اکثر ان سے جامی کی شاعری کی کچھ سطریں سنانے کی التجا کرتے تھے اور میاں صاحب کے کمال مہارت سے سنانے پر وہ رومانی وجد میں مبتلا ہوجاتے تھے۔

میاں محمد ابھی پندرہ سال کے ہی تھے کہ ان کے والد شدید بیمار پڑ گئے اور انھیں یہ احساس ہوا کہ وہ بستر مرگ پر ہیں، اپنے تمام طلبہ اور مقامی مصاحبین کو ان سے ملنے کے لیے بلایا۔ میاں شمس الدین نے اپنے مہمانوں کو بتایا کہ یہ ان کا فرض ہے کہ وہ اس روحانی نسب کو آگے بڑھائیں جو انھیں اپنے خاندان کے ذریعے پیرا شاہ غازی دمڑی والی سرکار سے ملا تھا۔ انھوں اپنے بیٹے میاں محمد کی طرف اشارہ کیا اور جمع ہونے والوں سے کہا کہ انھیں اس سے زیادہ موزوں کوئی نہیں مل سکتا جسے وہ یہ اعزاز عطا کریں۔ سب نے اتفاق کیا، نوجوان کی شہرت پہلے ہی دور دور تک پھیل چکی تھی۔ تاہم میاں محمد نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے بڑے بھائی میاں بہاول کو اس اعزاز سے محروم ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ بوڑھے باپ کو اپنے بیٹے کے لیے اتنی محبت تھی کہ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بستر چھوڑ کر بیٹے کو بازوؤں سے پکڑ لیا۔ اس نے انھیں ایک کونے میں لے جا کر بغداد کی طرف رخ کیا اور پھر انھوں ان کے صوفی نظام کے بانی شیخ عبد القادر گیلانی کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنے روحانی جانشین کے طور پر پیش کیا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ میاں محمد مزید چار سال تک اپنے خاندانی گھر میں مقیم رہے، پھر انیس سال کی عمر میں وہ خانقاہ میں چلے گئے، جہاں وہ ساری زندگی رہے۔ ان کے دونوں بھائیوں نے اپنی زندگی میں دین اور دنیاوی دونوں معاملات کو یکجا کیا، لیکن وہ صرف روحانیت میں دلچسپی رکھتے تھے اور ان کے برعکس کبھی شادی نہیں کی۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

ابتدائی تعلیم کھڑی کے قریب سموال کی دینی درسگاہ میں حاصل کی جہاں آپ کے استاد غلام حسین سموالوی تھے آپ نے بچپن میں ہی علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی اور ابتدا ہی سے بزرگان دین سے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے سیر و سیاحت کی کشمیر کے جنگلوں میں کئی ایک مجاہدے کیے شیخ احمد ولی کشمیری سے اخذ فیض کیا ۔چکوتری شریف گئے جہاں دریائے چناب کے کنارے بابا جنگو شاہ سہروردی مجذوب سے ملاقات کی ان کی بیعت میاں غلام محمد کلروڑی شریف والوں سے تھی۔

سلسلہ طریقت

ترمیم

آپ کا سلسلہ طریقت قادری قلندری اور حجروی ہے

شادی

ترمیم

آپ نے زندگی بھر شادی نہیں کی بلکہ تجردانہ زندگی بسر کی

وفات

ترمیم

وفات 1907ء بمطابق 1324ھ اپنے آبائی وطن کھڑی شریف ضلع میر پورمیں ہوئی اور وہاں پر ہی مزار بھی ہے.

شاعری

ترمیم

میاں محمد بخش کی شخصیت ایک ولیء کامل اور صوفی بزرگ کی تھی. آپ نے اپنے کلام میں سچے موتی اور ہیرے پروئے ہیں۔ ایک ایک مصرعے میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ ان کی شاعری زبان زد عام ہے۔

مطبوعہ کلام

ترمیم
  • سیف الملوک ان کی شاہکار نظم ہے۔ جس کا اصل نام سفر العشق ہے اور معروف نام سیف الملوک و بدیع الجمال ہے
  • تحفہ میراں کرامات غوث اعظم
  • تحفہ رسولیہ معجزات جناب سرور کائنات
  • ہدایت المسلمین
  • گلزار فقیر
  • نیرنگ عشق
  • سخی خواص خان
  • سوہنی میہنوال،
  • قصہ مرزا صاحباں،
  • سی حرفی سسی پنوں
  • قصہ شیخ صنعان
  • نیرنگ شاہ منصور
  • تذکرہ مقیمی
  • پنج گنج جو سی حرفیوں کی کتاب ہے جس میں پانچ سی حرفیاں اور سی حرفی مقبول شامل ہے۔[7][8]
  • ان کی شاعری کی کچھ مثالیں:

نیچاں دی اشنائ کولوں فیض کسے نہ پایا

ککر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھا زخمایا

خاصاں دی گل عاماں آگے تے نئیں مناسب کرنی

مٹھی کھیر پکا محمد ـ کتیاں اگے دھرنی

روح درود گھنن سب جاسن آپو اپنے گھر نوں

تیرا روح محمد بخشا تکسی کیڑے در نوں

اول حمد ثناء الہی جو مالک ہر ہر دا

اس دا نام چتارن والا ہر میدان نہ ہردا

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/1898758 — بنام: Muḥammad Bak̲h̲sh — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  2. "میاں محمد بخش"۔ Folk Punjab
  3. "شہزادہ سیف الملوک اور بدیع الجمال کا سفر عشق"۔ ہم سب
  4. حمید اللہ شاہ ہاشمی (1988)۔ پنجابی زبان و ادب۔ لاہور: انجمن ترقی اردو پاکستان۔ ص 207۔ ISBN:9789694030029
  5. حمید اللہ شاہ ہاشمی (1988)۔ پنجابی زبان و ادب۔ لاہور: انجمن ترقی اردو پاکستان۔ ص 203–204۔ ISBN:9789694030029
  6. صابر آفاقی (1977)۔ اقبال اور کشمیر۔ لاہور: اقبال اکادمی پاکستان۔ ص 170
  7. کلام محمد بخش، میاں محمد بخش، ناشر چوہدری برادرز دینہ جہلم
  8. تذکرہ مشائخ قادریہ محمد دین کلیم قادری،صفحہ 227 تا 229،مکتبہ نبویہ لاہور۔ اگست 1975