سیٹھ عابد حسین
سیٹھ عابد حسین (1933ء - 8 جنوری 2021ء) پاکستان کے ایک کروڑ پتی اور سونے کے سوداگر مخیر شخصیت تھے جو 2021ء میں انتقال کر گئے۔ [1] [2] [3] [4]
سیٹھ عابد حسین | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 1933ء |
تاریخ وفات | 8 جنوری 2021ء (87–88 سال) |
شہریت | پاکستان |
عملی زندگی | |
پیشہ | انسان دوست ، کاروباری شخصیت |
درستی - ترمیم |
کہا جاتا ہے کہ جب امریکی حکومت نے پاکستان کو جوہری ریپروسیسنگ پلانٹس کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی تو یہ سیٹھ عابد ہی تھے جنھوں نے بحری راستے سے فرانس سے پاکستان تک ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ پہنچایا تھا۔ [5] [6]
سیٹھ عابد جو 85 برس کی عمر میں وفات پا چکے ہیں، انھیں پاکستان میں ’گولڈ بادشاہ‘ کی حیثیت سے بھی جانا جاتا ہے اور ان کا شمار ان امیر ترین افراد میں بھی کیا جاتا ہے جن کی دولت کا انحصار سونے کی سمگلنگ پر تھا۔
وہ قصور کے سرحدی علاقے میں پیدا ہوئے اور وہیں پر پلے بڑھے، جہاں ان کے شیخ تجارتی قبیلے کے ارکان ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کلکتہ سے چمڑے کی تجارت کرتے تھے۔
سیٹھ عابد 1950ء میں اس وقت کراچی منتقل ہو گئے جب ان کے والد نے کراچی کے صرافہ بازار میں سونے اور چاندی کا کاروبار شروع کیا۔ کچھ ایسے ماہی گیر جو دبئی سے کراچی سونے کی سمگلنگ کرتے تھے، ان سے ملاقات کے بعد سیٹھ عابد نے سونے کی سمگلنگ کی دنیا میں قدم رکھا۔
50ء کی دہائی کے اختتام تک انھوں نے ایک ماہی گیر قاسم بھٹی کے ساتھ مل کر پاکستان میں سونے کی سمگلنگ میں اپنی اجارہ داری قائم کی۔
لندن، دلی اور دبئی میں عبوری رابطوں کے ساتھ سیٹھ عابد نے 1950ء سے 1980ء کے دوران انڈیا کی سونے کی سمگلنگ پر قائم اجارہ داری کو ختم کر دیا۔
سیٹھ عابد یہ تمام تر صلاحیتیں 1950ء کی دہائی کے اواخر تک حاصل کر چکے تھے، جب ان کا سمگلنگ کا نظام لندن، دلی اور کراچی میں ایجنٹس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے اور پاکستان اور انڈیا کے مابین پنجاب کے سرحدی علاقوں تک پھیل چکا تھا۔
ابتدائی طور پر یہ نظام قریبی رشتہ داروں کے نیٹ ورک پر مشتمل تھا۔ ان کے بھائی حاجی اشرف جو بہت فراوانی سے عربی زبان بول سکتے تھے، دبئی میں مقیم تھے، جبکہ ان کے داماد غلام سرور اکثر و بیشتر دلی جاتے تھے اور سونے کے سمگلر ہربنس لال سے ملاقات کرتے تھے۔
سیٹھ عابد کا نام پہلی بار انڈین پریس میں اس وقت سامنے آیا جب 1963ء میں ٹائمز آف انڈیا نے خبر دی کہ پاکستان کے ’گولڈ کنگ‘ کے انڈیا میں ’روابط‘ ہیں جبکہ ان کے بہنوئی کو دلی میں سونے کی 44 اینٹوں کے ساتھ گرفتار کیا گیا ،
برٹش ایئرویز میں کام کرنے والے چارلس میلونی کو سیٹھ عابد کا برطانیہ میں ’سہولت کار‘ فرض کیا گیا۔ سیٹھ عابد ہر برس حج پر بھی جاتے اور اس کے ساتھ ہی عرب شیخ آپریٹرز کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بناتے۔
1970ء کی دہائی میں سیٹھ عابد کی سمگلنگ کی وسیع کارروائیوں کو ذو الفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران کچھ رکاوٹوں کا سامنا بھی رہا اور ان کے کچھ اثاثوں پر قبضہ کر لیا گیا۔
1974ء میں لاہور شہر میں سیٹھ عابد کی رہائش گاہ پر پولیس کے ایک بڑے چھاپے میں پاکستانی کرنسی جس کی مالیت تقریباً 12.5 ملین تھی برآمد ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ چالیس لاکھ مالیت کا سونا، 20 لاکھ مالیت کی سوئس گھڑیاں بھی قبضے میں لی گئیں۔ اس چھاپے میں لاہور پولیس نے تین گاڑیاں اور درجن بھر گھوڑوں کو بھی اپنی تحویل میں لیا جنھیں غیر قانونی سامان کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اخبارات نے اس خبر کی سرخی کچھ ایسے لگائی: ’پاکستان کی تاریخ کا سمگلنگ کا سب سے بڑا کیس‘ اور ’پاکستان کے گولڈ کنگ‘، سیٹھ عابد پر عالمی سطح پر سمگلنگ کارروائیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔
وزیر اعظم بھٹو نے ’سیٹھ عابد انٹرنیشنل سمگلنگ کیس‘ کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا۔ اس ٹریبونل نے درجنوں گواہان کے بیان ریکارڈ کیے جبکہ متعدد وارننگ کے باوجود سیٹھ عابد ٹریبونل کے سامنے پیش نہ ہوئے۔
ستمبر 1977ء میں سیٹھ عابد نے اپنی مرضی سے ضیا کی فوجی حکومت کے سامنے 'رضاکارانہ طور پر' ہتھیار ڈال دیے اور اپنے ضبط اثاثوں کی واپسی کے لیے بات چیت کی
کراچی میں سیٹھ عابد کی رہائش گاہ پر بھی چھاپہ مارا گیا جہاں سے بڑی تعداد میں غیر ملکی کرنسی اور سونے کی اینٹیں برآمد کی گئیں۔ 1977ء میں جب کراچی کوسٹل گارڈر کو یہ اطلاع ملی کہ کہ سیٹھ عابد نارتھ ناظم آباد میں اپنی ’گرل فرینڈ‘ کو ملنے آ رہے ہیں، تو وہاں بھی چھاپہ مارا گیا لیکن اس سے پہلے ہی سیٹھ عابد وہاں سے فرار ہو چکے تھے۔
اس سال دسمبر میں فوجی حکومت کی پریس نے بتایا کہ سیٹھ نے لیفٹیننٹ جنرل جہانزیب ارباب کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سنٹر ہسپتال (جے پی ایم سی) کے تعمیراتی منصوبے اور عباسی شہید ہسپتال کے برن وارڈ کے لیے 151،000 روپے کی بڑی امداد دی ہے۔
’سیٹھ عابد بین الاقوامی سمگلنگ کیس‘ پر 1985ء-86 میں پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث ہوئی اور اس کے بعد چوہدری نثار علی کی سربراہی میں قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی (ایس سی این اے) نے اس کیس کی ذمہ داری اٹھائی۔ 1986ء میں پاکستان سینٹر بورڈ آف ریونیو نے 3100 تولے سونے کی واپسی کی اجازت دی جسے 1958ء میں کسٹم حکام نے کراچی ایئرپورٹ پر سیٹھ عابد سے اپنی تحویل میں لیا تھا۔
دوست اور سب سے بڑھ کر رئیل سٹیٹ کا ایک بہت بڑا نام۔
1990 کی دہائی تک، وہ لاہور کے مختلف مقامات پر وسیع پراپرٹی رکھنے کی وجہ سے شہر کے سب سے زیادہ وسائل رکھنے والے پراپرٹی ڈویلپر بن کر ابھرے۔
وہ کراچی میں بھی کئی جائیدادوں کے مالک تھے اور پاناما لیک میں نام آنے کے بعد انھوں نے اپنے اثاثے برٹش ورجن آئی لینڈ میں منتقل کر دیے تھے۔
فلاحی کام
ترمیمسیٹھ عابد نے لاہور میں، بہروں کے لیے حمزہ فاؤنڈیشن اکیڈمی بنائی اور عمران خان کے مطابق شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اور ریسرچ سنٹر کے ابتدائی معاون تھے۔ [7] [8]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ "PM Imran Khan expresses sorrow over demise of Seth Abid Hussain"۔ January 10, 2021
- ↑ "Seth Abid passes away"۔ www.thenews.com.pk
- ↑ "Seth Abid Hussain Passes Away In Karachi"۔ UrduPoint
- ↑ "Seth Abid Hussain passes away at 85"۔ Daily Pakistan Global۔ January 8, 2021
- ↑ Recorder Report (January 9, 2021)۔ "Seth Abid dies"۔ Brecorder
- ↑ "PM Imran condoles death of Real Estate Magnate Seth Abid Hussain"۔ January 10, 2021۔ 12 جنوری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2021
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ 01 دسمبر 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جنوری 2021
- ↑ Imran Khan [@] (January 9, 2021)۔ "Saddened to learn of the passing of Seth Abid Hussain. He was one of the early donors of SKMT. Condolences and prayers go to his family." (ٹویٹ) (بزبان انگریزی)۔ January 12, 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ January 22, 2021 – ٹویٹر سے