شادی کی عمر
اسلام کے نقطۂ نظر میں
ترمیمشریعت اسلامیہ کے تمام احکام انسان کی مصلحت اور اس کی فلاح و بہبود پر قائم ہے۔ فقہ اسلامی میں ایک بنیادی قاعدہ ہے کہ الاحکام تتغیر بالزمان و المکان یعنی زمان و ماکن کے بدلنے سے بہت سارے احکام بدل جاتے ہیں۔ جیسا کہ زمانۂ رسالت میں صحابۂ کرام چپل پہن کر مسجد میں داخل ہوتے تھے مگر آج ایسا کرنا عرف کے موافق و مطابق نہیں معلوم ہوتا ہے کیونکہ زمانہ کے تقاضا بدل گیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ اس زمانہ میں ایک الگ قسم کا چپل پہنا جاتا تھا۔فی الحال شادی کی عمر کو لے کر ہمارے ملک ہندوستان میں بہت بحث و مباحثہ ہورہا ہے۔ ہندوستان میں بھی زمانہ کے تقاضے کے مطابق شادی کی عمر تبدیلیاں ہوتی رہی ہے۔ اگر دور حاضر کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں خواہ وہ اسلامی ملک ہو یا غیر اسلامی لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر متعین ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں لڑکوں کے لیے 21سال اور لڑکیوں کے لیے 18 سال کی عمر متعین ہے مگر اب دونوں کے لیے 21سال کی عمر کرنے کا فیصلہ ہورہا ہے۔ زیر نظر مضمون میں شادی کی عمر کے متعلق اسلام کا نقطۂ نظر معلوم کرے گے اور یہ بھی جاننے کی کوشش کرے گی کہ کیا شادی کی عمر متعین کرنا اسلام کے مخالف ہے؟
اسلام میں شادی کی عمر
ترمیمقرآن و حدیث میں کہیں بھی صراحتا طور پر لڑکے اور لڑکیوں کے لیے شادی کی عمر کا ذکر نہیں ہے۔ اس سے یہ بات اظہر من الشمش ہوجاتا ہے کہ شادی کی عمر متعین کرنے کا مسئلہ نصوص قطعیہ میں سے نہیں ہے۔ لیکن ایسی بہت ساری آیت اور حدیث ہے جس سے فقہا کرام استدلال کرتے ہیں۔ مثلا دور حاضر کے بعض علما کرام اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
یا معشر الشباب من استطاع منکم الباءۃ فلیتزوج فإنہ أغص للبصر و أحصن للفرج و من لم یستطع فعلیہ بالصوم فإنہ لہ وجاء۔[1]
مذکورہ بالا حدیث میں رسول اکرم ﷺ نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرما رہے ہیں جس کے پاس گھر بسانے کی طاقت ہو وہ شادی کرے۔ نوجوان کتنی عمر والے کو کہتے ہیں اس میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ19سے 21سال کی عمر والے کو نوجوان کہتے ہیں۔ چونکہ عام طور پر چھوٹے بچے اور پچیاں گھر بسانے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔
کم سنی میں نکاح فقہا کی نظر میں
ترمیمفقہائے کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو کم عمری میں شادی کرواسکتے ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ کو لے کر فقہ اسلامی میں تین نقطۂ نظر ہے:
اول: صغیر و صغیرہ کا نکاح کروانا جائز ہے۔ اس کے قائل مذاہب اربعہ کے فقہائے کرام ہیں۔ ان کے دلائل حسب ذیل ہے۔
1۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالی کا راشاد ہے کہ: و الائی یئسن من المحیض من نسائکم إن ارتبتم فعدتھن ثلاثۃ أشھر۔[2] یعنی جن عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے ان کی عدت تین مہینہ ہے۔ اس سے استدلال کرتے ہیں کہ جو عورتوں کو حیض نہیں آتا ہے اس میں صغیرہ بھی شامل ہے۔ اگر نکاح کے بعد طلاق ہو گیا تو اس کی عدت تین مہینہ ہے۔ فقہا فرماتے ہیں کہ اگر صغیرہ سے نکاح کرنا درست نہیں ہوتا تو ان کے اس آیت مبارکہ میں ذکر نہیں کی جاتی۔
2۔ صحیح مسلم شریف کی حدیث شریف ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا حالانکہ ان کی عمر چھ سال تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کم ستی میں نکاح کرنا جائز ہے۔[3]
3۔ ایسی بہت ساری حدیثیں ہیں جس میں صحابۂ کرام کے بارے میں ذکر کیا گیا ہے کہ انھوں نے صغیرہ سے نکاح فرمایا ہے۔
دوم: صغیر اور صغیرہ کا نکاح کروانا جائز نہیں ہے۔ اس کے قائل ابوشبرمۃ‘ ابوبکر اصم اور عثمان البتی ہیں۔ انھوں نے درج ذیل آیت و حدیث سے استدلال فرمایا ہے۔
1۔ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے کہ: و ابتلوا الیتامی حتی إذا بلغوا النکاح فإن آنستم منھم رشدا فادفعوا إلیھم أموالھم۔[4]
اس آیت میں خدا تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ یتیموں کو آزماؤ یہاں تک وہ نکاح کی عمر تک پہنچ جائے اور جب تم دیکھوں کہ ان کے اندر رشد آگیا ہے تب ان کے اموال لوٹادو۔ اس سے انھوں نے استدلال کیا ہے کہ بلوغت سے قبل جب ان کے اموال میں تصرف نہیں کیا جائے گا تو اس سے بھی زیادہ مناسب ہے کہ اولیاء کو صغیر و صغیرہ کے نکاح کروانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
2۔ باپ‘دادا کو ولایت کا جو حق دیا گیا ہے و ہ حاجت کے ما تحت دیا گیا ہے۔ اور بچپن میں صغیر و صغیرہ کو نکاح کے کوئی حاجت نہیں ہے اس وجہ سے ان کا نکاح کروانا جائز نہیں ہے۔ شادی کا مقصود قضاء شہوت اور اولاد حاصل کرنا ہوتا ہے اور یہ دونوں باتیں لڑکپن میں مفقود ہوتی ہے۔[5]
3۔ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کم سنی میں جو نکاح فرمایا وہ ان کی خصوصیت میں سے ہے۔(اس کا ایک جواب آگے آئے گا)
سوم: ابن خزم فرماتے ہیں کہ بلوغ سے پہلے صغیرہ کا نکاح کروانا جائز ہے البتہ بالغ ہونے سے پہلے صغیر کا نکاح کروانا جائز نہیں ہے۔ ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک قیاس درست نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ فرماتے ہیں کہ صغیر کو صغیرہ پر قیاس کرنا درست نہیں ہے کیونکہ احناف کے علاوہ باقی تمام فقہا کرام کے نزدیک صغیر کو بالغ ہونے کے بعد بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کرنا جائز ہے۔ پر بلوغ کے بعد بھی صغیرہ کو ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے وہ فرماتے ہیں کہ جب صغیرہ کو بلوغ کے بعد نکاح کرنے میں صغیر پر قیاس کرنا درست نہیں ہے تو اسی طرح صغیر کو بلوغ سے پہلے صغیرہ پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔حضور ﷺ اور صحابۂ کرام سے جتنے بھی آثار مروی ہے وہ سب صغیرہ کے نکاح کے جواز میں ہے۔ حضور ﷺ سے کوئی ایسی حدیث مروی نہیں ہے جو صغیر کے نکاح کے اوپر دلالت کرتی ہو۔[6]
مذکورہ بالا تینوں اقوال کو اگرموازنہ کرتے ہیں تو یہ بات کھل کر کے سامنے آتی ہے کہ دلیل کے اعتبار سے قول اول راجح ہے۔ اور اگر دور حاضر کے تقاضوں کے مد نظر رکھتے ہوئے موازنہ کرتے ہیں تو قول دوم زیادہ مناسب لگتا ہے۔ دنیا کے اکثر اسلامی ملکوں میں قول دوم ہی کو لے کر کے شادی کی عمر متعین کیا گیا ہے۔ چونکہ قول دوم کے مطابق شادی کے لیے بالغ ہونا شرط ہے۔
اسلامی ملکوں میں شادی کی عمر
ترمیمدنیا کے اکثر ممالک میں مرد و عورت دونوں کے لیے شادی کی عمر متعین ہے۔ اسلامی ملکوں کی بات کرے تو ہمارا پڑوسی ملک پاکستان میں لڑکوں کیلئے18سال اور لڑکیوں کے لیے 16سال کی عمر متعین ہے۔ یہ عمر متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک بلوغیت کے آثار اگر مفقود ہوتو (سال کے اعتبار سے حد بلوغ) لڑکوں کیلئے18سال اور لڑکیوں کے لیے 17سال کی عمر حد بلوغ ہے۔ لڑکیوں کے عمر میں پاکستان کی حکومت نے ایک سال کم رکھاہے۔
انڈونیشیا میں مرد کے لیے 19 سال اور عورت کے لیے 16 سال کی عمر متعین ہے اس سے پہلے شادی نہیں کرسکتے۔ یہ عمر متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں شادی کی عمر لڑکے اور لڑکی کے لیے گھر والوں پر موقوف ہے جس عمر میں چاہے شادی کرادیں اور وہاں کے اکثر اہل خانہ کو یہ عمر پسند ہے۔
فلیپئن (Philippines) میں مسلمانوں کے لیے 15 سال کی عمر متعین۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر امام شافعی اور اکثر فقہا کرام کے نزدیک سال کے اعتبار سے حد بلوغ 15سال ہے۔[7] دلیل آپ ﷺ کی حدیث ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
عرضت علی النبي ﷺ یوم أحد و أنا ابن أربع عشرۃ سنۃ فلم یجزني و لم یرني بلغت‘ و عرضت علیہ یوم الخندق و أنا ابن خمس عشرۃ سنۃ فأجازني و رآني بلغت۔[8]
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عمر غزوہ احد میں شریک ہونے کے لیے آپ ﷺ سے اجازت طلب کیا تو آپ نے منع فرمادیا حالانکہ اس ان کی عمر چودہ برس تھی۔ غزوہ خندق میں جب انھوں نے شریک ہونے کی اجازت طلب فرمائی تو انھوں نے اجازت دے دی حالانکہ اس وقت میری عمر 15برس تھی اور رسول نے یہ دیکھ کے اجازت دے دی کہ اس وقت حضرت عبد اللہ ابن عمر بالغ ہو چکے تھے۔ اسی طرح کم عمری کی بنا پر آپ ﷺ نے زید بن ثابت اور رافع بن خدیج کو جنگ میں شریک ہونے سے منع فرمادیا تھا حالانکہ ان سب کی عمر اس وقت 14برس تھی۔
شادی کی عمر میں کفؤ کا اعتبار
ترمیمفقہ اسلامی میں شادی کے لیے کفؤ کا ہونا ایک امر مسلم ہے۔ اکثر فقہا کرام نے نکاح میں کفؤ کا اعتبار کیا ہے حتی کہ بعض فقہا نے کفؤ کو شرط کے طور پر مانا ہے اوراس کے لیے خاص طور فقہ کی کتابوں میں ایک باب باندھا ہے۔ نکاح کفؤ میں کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ ایسب و اولی یہ ہے کہ کفؤ کا اعتبار کیا جائے۔ اکثر فقہا کارم نے دینداری‘ حسب و نسب‘ مال و دولت اور حرفت و صنعت میں کفؤ کا اعتبار کرنے کو کہا ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے عمر میں بھی کفؤ کا اعتبار ہونا چاہیے۔ دلیل امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ایک باب باندھا ہے (باب تزویج المرأۃ مثلھا فی السن) یعنی لڑکی کو اس کے ہم عمر والوں سے شادی کروانی چاہیے۔اس باب کے تحت امام ترمذی حدیث روایت کرتے ہیں کہ:
عن عبد اللہ بن بریدۃ عن أبیہ رضی اللہ عنہ قال: خطب أبوبکر و عمر رضی اللہ عنہما فاطمۃ فقال رسول اللہ ﷺ: إنھا صغیرۃ فخطبھا علي فزوجھا منہ۔[9]
مذکورہ بالا حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے آپ ﷺ سے حضر فاطمہ کا ہاتھ طلب کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حضرت فاطمہ ابھی چھوٹی ہے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ سے حضرت فاطمہ کو طلب فرمایا تو آپ ﷺ نے شادی کروادی۔
امام سندی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے عمر کے حساب سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو صغیرہ فرمایا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمر کے حساب سے فاطمہ رضی اللہ عنہا صغیرہ نہیں تھی۔ چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولادت 995 ء میں ہوئی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ولادت 506ء میں ہوئی اور دونوں کی عمر میں صرف پانچ سال کا فرق ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان اتنا عمر کا فرق رہنا ایک معمولی بات ہے۔ خیر والدین کو چاہیے کہ اپنے بیٹے اور بیٹیوں کی شادی کرتے وقت عمر میں کفؤ کا اعتبار کریں۔[10]
عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی عمر
ترمیمکتب حدیث میں ذکر ہے کہ آپ ﷺ جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو اس وقت آپ کی عمر چھ برس تھی اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی عمر کتنی تھی یہ ایک محل بحث ہے اس کے لیے مستقل طور پر ایک مضمون درکار ہے۔ یہاں صرف ایک جواب سے اکتفا کیا گیا ہے۔
کتب سیرت میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رکے بارے میں ذکر ہے کہ آپ حضرت عائشہ سے دس سال بڑی تھیں۔ ہجرت مدینہ کے وقت اسماء بنت ابی بکر کی عمر27سال تھی۔ اب اس کے مطابق حساب لگایا جائے تو تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حضرت عائشہ کی عمر ہجرت مدینہ کے وقت سترہ سال تھی کیونکہ آپ کی بہن کی عمر اس وقت 27سال تھی۔ اس حساب سے حضرت اسماء بنت ابی بکر کی پیدائش 596ء میں ہوئی اور آپ کے دس سال بعد یعنی 606ء میں حضرت عائشہ صدیقہ کی پیدائش ہوئی۔ بعثت نبوی سے چار سال پہلے چونکہ آپ ﷺ کو 610ء میں نبوت ملی۔
شادی میں عمر کی قید کیا اسلام کے مخالف ہے؟
ترمیمشادی میں عمر کی قید اسلام کے روح کے مخالف نہیں ہے۔ لیکن کسی ملک کا یہ قانون کہ اس سے پہلے نکاح کرنا جرم ہے اس پر حکومت کی طرف سی پکڑ ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی لگ سکتا ہے یہ بیشک اسلام کے شرعی قوانین کے مخالف ہے۔ دور حاضر کے بعض علما کرام کا کہنا ہے کہ شادی میں عمر کی قید اسلام کے مخالف نہیں ہے کیونکہ جن ممالک میں اسلامی قوانین چلتے ہیں وہاں الو الامر کو یہ اختیار رہتا ہے کہزمان و مکان کے حساب سے علما کرام سے مشورہ طلب کرکے اس پر قانون وغیرہ بنا سکتا ہے۔ دنیا کے اکثر اسلامی ملکوں میں اسی پر عمل کیا گیا ہے۔ [11]
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام میں شادی کی عمر متعین نہیں ہے۔ اس لیے والدین کی ذمہ داری ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو ایک مناسب عمر شادی کروائیں۔ دور حاضر کے تقاضے کے مطابق کم سنی میں نکاح کروانا درست معلوم نہیں ہوتا ہے۔ چونکہ جس طرح غلامی کا سلسلہ سماج سے آہستہ آہستہ ختم ہو گیا اسی طرح کم عمری میں شادی کروانے کا عرف بھی ختم ہورہا ہے۔ اور مزید اس پر حکومت کی حانب سے پابندی بھی عائد کردی گئی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنی شریکۂ حیات کے ساتھ کامیاب زندگی گزارنے کے لیے حد بلوغ کے بعد ایک مناسب عمر میں نکاح کریں۔
مصادر و مراجع
ترمیم- ↑ صحیح مسلم شریف‘ باب استحباب النکاح لمن استطاع
- ↑ سورہ طلاق‘ آیت 4
- ↑ صحیح مسلم شریف‘ باب جواز تزویج الاب البکر الصغیرۃ
- ↑ سورۃ النساء‘ آیت 6
- ↑ الأحوال الشخصیۃ‘ امام محمد ابو زھرۃ‘ ص 108سے 109
- ↑ أحکام الزواج في الفقہ الإسلامي‘ عبد الحمان الصابوني‘ ص214
- ↑ Marriage and Divorce under Islamic Law, P.8-11
- ↑ الفقہ الإسلامي و أدلتہ‘ وھبۃ زحیلی‘ ص 4473
- ↑ سنن الترمذی‘ باب تزویج المرأۃ مثلھا في السن
- ↑ المرأۃ بین تکریم الإسلام و إھانۃ الجاھلیۃ‘ الدکتور محمد بن احمد اسماعیل المقدم‘ ص 368
- ↑ الأحوال الشخصیۃ‘ امام ابو زھرۃ‘ ص124