غزوہ احد
جنگ احد 17 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان احد کے پہاڑ کے دامن میں ہوئی۔ مشرکین کے لشکر کی قیادت ابوسفیان کے پاس تھی اور اس نے 3000 سے زائد افراد کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ کی ٹھانی تھی جس کی باقاعدہ تیاری کی گئی تھی۔ مسلمانوں کی قیادت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کی۔ اس جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔
غزوہ احد | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ مہمات نبوی کی فہرست | |||||||
عمومی معلومات | |||||||
| |||||||
متحارب گروہ | |||||||
مسلمانانِ مدینہ | قریشِ مکہ | ||||||
قائد | |||||||
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حمزہ ابن عبد المطلب علی ابن ابی طالب | ابو سفیان خالد بن ولید | ||||||
قوت | |||||||
1000 سے کم | 3200 | ||||||
نقصانات | |||||||
70 شہادتیں[1] | 27 ہلاکتیں | ||||||
درستی - ترمیم |
پس منظر
غزوہ بدر میں مسلمانوں کو شاندار فتح ہوئی تھی۔ اس کے بعد علاقے کی قوتوں بشمول قریشِ مکہ اور یہودیوں کو اندازہ ہوا کہ اب مسلمان ایک معمولی قوت نہیں رہے۔ شکست کھانے کے بعد مشرکینِ مکہ نہایت غصے میں تھے اور نہ صرف اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے بلکہ ان تجارتی راستوں پر دوبارہ قبضہ کرنا چاہتے تھے جن کی ناکہ بندی مسلمانوں نے غزوہ بدر کے بعد کر دی تھی۔ جنگ کے شعلے بھڑکانے میں ابوسفیان، اس کی بیوی ہندہ اور ایک یہودی کعب الاشرف کے نام نمایاں ہیں۔ ہندہ نے اپنے گھر محفلیں شروع کر دیں جس میں اشعار کی صورت میں جنگ کی ترغیب دی جاتی تھی۔ ابو سفیان نے غزوہ احد سے کچھ پہلے مدینہ کے قریب ایک یہودی قبیلہ کے سردار کے پاس کچھ دن رہائش رکھی تاکہ مدینہ کے حالات سے مکمل آگاہی ہو سکے۔ ابوجہل غزوہ بدر میں مارا گیا تھا جس کے بعد قریش کی سرداری ابوسفیان کے پاس تھی جس کی قیادت میں مکہ کے دارالندوہ میں ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جنگ کی تیاری کی جائے۔ اس مقصد کے لیے مال و دولت بھی اکٹھاکی گئی۔ جنگ کی بھر پور تیاری کی گئی۔ 3000 سے کچھ زائد سپاہی جن میں سے سات سو زرہ پوش تھے تیار ہو گئے۔ ان کے ساتھ 200 گھوڑے اور 300 اونٹ بھی تیار کیے گئے۔ کچھ عورتیں بھی ساتھ گئیں جو اشعار پڑھ پڑھ کر مشرکین کو جوش دلاتی تھیں۔ ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے یہ ارادہ کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا حمزہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا کلیجا چبائے گی چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے حمزہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کے قتل کے لیے اپنے ایک غلام کو خصوصی طور پر تیار کیا۔ بالآخر مارچ 625ء میں یہ فوج مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہو گئی۔ ۔[2][3]
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چچا عباس نے، جو مکہ ہی میں رہتے تھے، انھیں مشرکین کی اس سازش سے آگاہ کر دیا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے انصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ دوسری صورت میں ہوا یعنی باہر نکل کر جنگ لڑی جائے چنانچہ 6 شوال کو نمازِ جمعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اصحاب کو استقامت کی تلقین کی اور 1000 کی فوج کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ اشواط کے مقام پر ایک منافق عبد اللہ بن ابی 300 سواروں کے ساتھ جنگ سے علاحدہ دہ ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ جنگ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ ہفتہ 7 شوال 3ھ (23 مارچ 625ء) کو دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آ گئیں۔ احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ وہاں ایک درہ پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عبد اللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کو مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدانِ جنگ میں نہ آ سکے۔[3]۔[4]
جنگ
جنگ کا آغاز مشرکین کی طرف سے ہوا جب ابوعامر نے تیر اندازی کی۔ اس مرحلہ پر نو افراد مشرکین کی طرف سے آئے جو سب قتل ہوئے۔ دوسرے مرحلے میں مشرکینِ مکہ نے اکٹھا بھر پور حملہ کر دیا۔ اس دوران ان کی کچھ عورتیں ان کو اشعار سے اشتعال دلا رہی تھیں تاکہ وہ غزوہ بدر کی عبرتناک شکست کا داغ دھو سکیں۔ ابتدا کی زبردست جنگ میں مسلمانوں نے مشرکین کے کئی لوگوں کو قتل کیا جس پر مشرکین فرار ہونے لگے۔ مسلمان یہ سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں چنانچہ درہ عینین پر تعینات اصحاب نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ ہدائت فراموش کر دی کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا اور درہ چھوڑ کر میدان میں مالِ غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ صرف دس افراد درہ پر رہ گئے۔ خالد بن ولید (جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے) نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہِ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یکدم پیچھے سے وار کر دیا۔ اسی اثناء میں یہ افواہ گرم ہوئی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں۔ یہ سن کر اکثر اصحاب نے ہمت ہار دی اور راہِ فرار اختیار کی۔ کچھ لوگ میدان جنگ سے فرار ہو گئے اور تیسرے دن واپس آئے۔[5]۔ کچھ ارد گرد کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے اور افسوس کیا کہ وہ عبد اللہ بن ابی کے ساتھ کیوں نہ چلے گئے۔ کچھ لوگوں نے یہ سوچا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد زندگی کسی کام کی نہیں کچھ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ رہ گئے اور ان کی بھر پور حفاظت کی۔ اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے علی کرم اللہ وجہہ کو ایک تلوار بھی عنایت کی جو 'ذو الفقار' کے نام سے مشہور ہے۔ اس دوران حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دانت شہید ہوئے۔ حمزہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ بھی شہید ہو گئے۔[5]۔[6] اس بارے میں اللہ نے قران میں فرمایا۔
جب تم (افراتفری کی حالت میں) بھاگے جا رہے تھے اور کسی کو مڑ کر نہیں دیکھتے تھے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جماعت میں (کھڑے) جو تمھارے پیچھے (ثابت قدم) رہی تھی تمھیں پکار رہے تھے پھر اس نے تمھیں غم پر غم دیا (یہ نصیحت و تربیت تھی) تاکہ تم اس پر جو تمھارے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس مصیبت پر جو تم پر آن پڑی رنج نہ کرو اور اللہ تمھارے کاموں سے خبردار ہے۔
سورۃ آل عمران آیت 153
کچھ وقفے بعد اصحاب میدان میں واپس آنا شروع ہو گئے۔ چونکہ مشرکین اپنے بھاری سامانِ جنگ مثلاً زرہ بکتر کی وجہ سے احد کے پہاڑ پر چڑھ نہ سکے اس لیے کئی مسلمانوں کی جان بچ گئی۔ ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور اس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مسلمان شہداء کے ناک اور کان کاٹے اور ہندہ نے حمزہ رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا کلیجا نکال کر چبایا جس کا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بے حد رنج رہا۔ کچھ مسلمانوں کے واپس آنے اور یہ معلوم ہونے کے بعد کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید نہیں ہوئے، مشرکین نے جنگ سے مکہ کی طرف واپسی اختیار کی۔[7]
نتائج
بعض لوگ اس جنگ کو مسلمانوں کی شکست خیال کرتے ہیں اور بعض کے خیال کے مطابق اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ نہیں نکلا۔ بہرحال یہ واضح ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہدایات کو فراموش کرنے یا عسکری نظم و ضبط کو ترک کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ اگر درہ عینین پر تعینات لوگ درہ نہ چھوڑتے تو مسلمان فتحیاب ہو چکے تھے۔ اس جنگ میں ستر مسلمان شہید ہوئے جبکہ ستائیس مشرکین ہلاک ہوئے۔ مسلمانوں نے اپنے شہداء کو وہیں پر دفن کیا۔
پیش منظر
اس غزوہ میں کسی حد تک شکست ایک تعمیری شکست ثابت ہوئی کیونکہ مسلمانوں کو کچھ سبق ملے جو اگلی جنگوں میں کام آئے۔ مسلمانوں کو اپنی غلطیوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ خدا نے قرآن میں یقین دلایا کہ حزن و ملال نہ کرو کیونکہ بالآخر مومنین ہی غالب آئیں گے۔
حوالہ جات
- ↑ شوقی ابو خلیل (2004)۔ غزوہ احد۔ لاہور: دارالسلام۔ صفحہ: 245۔ ISBN 9960-899-06-3۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 جولائی 2016
- ↑ المغازی جلد اول صفحہ 213۔214
- ^ ا ب السیرۃ النبویۃ از ابن ہشام
- ↑ تاریخِ طبری جلد دوم
- ^ ا ب تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 514
- ↑ السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام
- ↑ السیرۃ النبویۃ از ابن ھشام جلد 2صفحہ 129