شاکر تونسوی
شاکر تونسوی سرائیکی زبان کا ایک گمنام مگر نمائندہ شاع رہے۔
شاکر تونسوی مشاعروں کی جان سمجھے جاتے تھے۔ ان کا لکھنے کا انداز جداگانہ ان کے پڑھنے کا انداز نرالا تھا۔ شاکر تونسوی کی زندگی مصائب و آلام سے عبارت ہے اور غربت کے دکھ درد بھی نس نس میں سرایت کیے ہوئے ہیں لیکن یہ حصار ذات توڑ کر کائنات میں پھیلے نظر آتے ہیں کیونکہ انھوں نے انسانی سماج کا فرد ہوتے ہوئے دنیا کے مجبور و مقہور اور مظلوم طبقہ کی نمائندگی کی اور ان کے ساتھ ہونے والی ہر نا انصافی اور ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی اور ان کو سماجی شعور دے کر نئے عزم سے جینے کا حوصلہ دیا۔ جہاں ان کی شاعری میں دکھی انسانیت سے محبت کے جذبے فراواں ہیں وہاں انھوں نے اپنی شاعری میں جا بجا استحصالی طبقہ کو سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ ان کی شاعری میں جذبے کی صداقت، خیالات کی ندرت، سوزو گداز اور تغزل نمایاں ہے۔ شاکر تونسوی کا اسلوب سادہ مگر پر درد، پر تاثیر ہے۔
- ظالم کنوں انصاف دی کوئی آس نئیں شاکر
- یار اے تجربہ تساں ہر بار کرو
شاکر تونسوی | ||
---|---|---|
ادیب | ||
پیدائشی نام | شاکر | |
قلمی نام | شاکر تونسوی | |
تخلص | شاکر تونسوی | |
ولادت | تونسہ شریف | |
ابتدا | ڈیرہ غازی خان، پاکستان | |
وفات | ڈیرہ غازی خان (پنجاب) | |
اصناف ادب | شاعری | |
ذیلی اصناف | غزل، سرائیکی | |
ویب سائٹ | / آفیشل ویب گاہ |
ان کی ایک بلا عنوان طویل نظم ہے جس کے تقریباً اڑتالیس بند ہیں جس میں ظالمانہ نظام حیات پر سخت تنقید کی گئی ہے جس میں غریب عوام بھوک، پیاس کی آگ میں نہ صرف سلگتے نظر آتے ہیں بلکہ ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا گیا ہے۔
- محبت وچ قدم رکھناں کوئی آسان نئیں ہوندا
- اُڈو پتھر وی آ لگدن جڈو امکان نئیں ہوندا[1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ تذکرہ شعرائے تونسہ شریف حصہ اول۔ صفحہ 105،جسارت خیالی، رنگ ادب پبلیکیشنز کراچی