شاہنامہ جس کا لفظی مطلب شاہ کے بارے یا کارنامے بنتا ہے، فارسی ادب میں ممتاز مقام رکھنے والی شاعرانہ تصنیف ہے جو فارسی شاعر فردوسی نے تقریباً 1000ء میں لکھی۔ اس شعری مجموعہ میں “عظیم فارس“ کے تہذیبی و ثقافتی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مجموعہ تقریباً 60000 سے زائد اشعار پر مشتمل ہے۔[1] اس ادبی شاہکار، شاہنامہ میں ایرانی داستانیں اور ایرانی سلطنت کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ واقعات شاعرانہ انداز میں بیان کیے گئے ہیں اور اس میں عظیم فارس سے لے کر اسلامی سلطنت کے قیام تک کے واقعات، تہذیب، تمدن اور ثقافت کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ایرانی تہذیب اور ثقافت میں شاہنامہ کو اب بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کو اہل دانش فارسی ادب میں انتہائی لاجواب ادبی خدمات میں شمار کرتے ہیں۔

سولہویں صدی کا ایک فن پارہ، جس میں شاہنامہ کے ایک منظر کو پیش کیا گیا ہے، جس میں شاہ سلیمان کو دکھایا گیا ہے

تفصیل

ترمیم

فارسی کی رزمیہ شاعری کا شاہکار جس کا آغاز 980ء کو ہوا اور اختتام 1009ء کو ہوا۔

اس کے مرکزی کردار بادشاہ ہیں مگر ضمناً عوامی زندگی اور مختلف قدروں پر حکیمانہ تبصرہ بھی ہے۔

شدید ایران پرستی کے باعث فردوسی نے عربی الفاظ سے پرہیز کیا مگر اس کی وجہ سے زبان مشکل ہے۔ کلام میں بہت زور ہے۔ واقعہ نگاری، منظر کشی اور جذبات نگاری میں شاعر کو غیر معمولی ملکہ حاصل ہے۔ بعض اشعار بے حد بلیغ ہیں۔

مولانا شبلی نعمانی نے اسے ایران کا انسائیکلو پیڈیا قرار دیا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. فرح لالہ نی۔ "فردوسی کے شاہنامہ کا ہزار سالہ جشن"۔ اسماعیلی ڈاٹ آرگ

بیرونی روابط

ترمیم