شبث بن ربعی اسلام سے پہلے کے دور میں ایک نمایاں شخصیت تھی۔ وہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں مسلمان ہوا لیکن ان کے ساتھیوں میں سے نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد اس نے مرتد ہو کر نبوت کی دعوے دار سجاح بنت حارث کا ساتھ دیا اوط اس کا موذن بن گیا اور اس کے بعد خلیفہ دوم کے زمانے میں توبہ کی اور اس نے مسلمانوں میں اپنا سابقہ ​​مقام دوبارہ حاصل کر لیا۔ عثمان کے زمانے میں انھیں خلیفہ کا حامی سمجھا جاتا تھا یا یہ کہا جاتا تھا کہ وہ خلیفہ کے خلاف باغیوں میں سے تھا اور بعد میں اسے اپنے عمل پر افسوس ہوا۔

پھر وہ علی کا ساتھی بن گیا اور علی کی فوج میں جنگوں میں بڑا کردار ادا کیا ، لیکن نہروان کی جنگ میں پیچھے ہٹ گیا اور خارجیوں میں شامل ہو گیا ، لیکن جنگ میں حصہ نہیں لیا۔

شیعہ مورخین انھیں حسن ابن علی کی مختصر خلافت کے دوران ایک کمزور حلیف سمجھتے ہیں ، جو حسن ابن علی کے صلح کے بعد معاویہ کے پاس چلے گئے تھے۔

اس نے زمانہ جاہلیت درک کیا تھا اور اسلام کے زمانے کو بھی درک کیا مگر صحابی شمار نہیں ہوتا۔تابعین میں ہی شمار ہو گالیکن مخضرمین میں سے شمار ہو گا۔

بہت سی کتابوں میں اس کا ذکر ہے:

وہ سجاح بنت حارث کا موذن تھا ، جو اس کی نبوت پر ایمان رکھتا تھا اور پھر توبہ کر لی تھی اور مسلمان ہو گیا۔

وہ ان لوگوں میں سے تھا جنھوں نے عثمان بن عفان کے خلاف بغاوت کی اور اسے قتل کیا اور پھر توبہ کی۔

وہ معاویہ سے لڑتے ہوئے علی بن ابی طالب کے ساتھ ہو گیا۔

وہ علی بن ابی طالب کے خارجیوں کے ساتھ نکلا اور پھر واپس آگیا۔

امام حسین کو خط لکھنے والوں میں سے تھا۔

وہ اس فوج کے پیدل دستے کا سردار تھا جسے عبید اللہ بن زیاد نے امام حسین سے لڑنے کے لیے بھیجا تھا ، چنانچہ انھوں نے حسین کو قتل کر دیا۔ پھر توبہ کی۔

وہ مختار بن ابو عبید ثقفی عبید الثقفی کا پیروکار بن گیا اور پھر پیچھے ہٹ گیا۔

وہ بعد میں مختار ثقفی سے لڑنے والوں میں سے ایک بن گیا۔ مصعب بن زبیرکے ساتھ مل کر مختار بن ابی عبیدهٔ ثقفی کا مقابلہ کیا۔

حوالہ جات

ترمیم