شجرہ طریقت
شجرہ طریقت شجرہ نسب کی طرح تصوف و سلوک کی اصطلاح میں شجرہ طریقت بھی استعال ہوتا ہے جسے شجرہ شریف، شجرہ نسبت کہا جاتا ہے۔
رائج طریقہ
تمام مشائخ و صوفیا میں اپنی نسبت کی حفاظت کے لیے ایک عام طریقہ رائج ہے کہ وہ وقتِ بیعت اپنے مریدین یاطالبین کو تحریر شدہ اپنے سلسلہ طریقت کا شجرہ شریف بھی دیتے ہیں، جس میں ان سے اوپر کے تمام مشائخ عظام کے نام ترتیب وار درج ہوتے ہیں اور ضروری وظائف کے ساتھ مخصوص ہدایات بھی درج ہوتی ہیں۔
عمومی انداز
شجرہ طریقت میں مشائخ اکرام کے نام بالترتیب اس طرح لکھے ہوتے ہیں کہ یہ کڑی در کڑی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جا پہنچتا ہے اسی طرح ہرشیخ طریقت جب اپنے مرید کامل کو اپنی خلافت عطا کرتا ہے تو وہ اس کے نام کا اندراج بھی اپنے اس شجرہ میں کردیتا ہے اور اس کو بھی اس کڑی میں شامل کرلیتا ہے۔ جس طرح محدثین اکرام احادیث شریفہ کو اُمت تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کے لیے اپنی سندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی سندوں کو اس ترتیب سے روایت کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک روایت پہنچی ہوتی ہے اسی طرح صوفیا اکرام بھی اپنی نسبت کو اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک نسبت پہنچی ہوتی ہے۔ نسبت کی یہی ترتیب شجرہ ِطریقت کہلاتی ہے۔بعض صوفیا حضرات اپنا شجرہ طریقت منظوم انداز میں طبع کراتے ہیں جو دعائیہ ہوتا ہے اور دعا کی قبولیت کے لیے نسبت کو بطور وسیلہ اشعار میں استعمال کرتے ہیں۔
شجرہ کی ترتیب
شجراتِ طریقت ترتیب کے لحاظ سے دو طرح کے ہوتے ہیں
- 1 ترتیب عروجی۔ (اپنے شیخ طریقت کے نام سے شروع کرکے حضور اکرم ﷺ کے اسم مبارک تک)۔
- 2 ترتیب نزولی ِ (حضور اکرم ﷺ کا نام مبارک سے شروع کرکے اپنے شیخ کے مبارک نام تک )۔
یہ دو اسلوب منظوم شجرات میں بھی مستعمل ہیں۔ مشائخ چشت کے شجرات میں اسلوب اول یعنی بطور سلسلہ روایت مستعمل ہے اور دوسرا اُسلوب سلسلہ نقشبدیہ اور سلسلہ قادریہ کے بعض مشائخ نے اختیار کیا ہے۔ ہر دو اسلوب افادیت میں برابر ہیں اور اسلوب کا اختلاف ہر سلاسل کے امام کا اپنا اپنا ذوق ہے۔[1]