شرما جانا
شرما جانا (انگریزی: Blushing) عام طور سے شرمانا سے اس معاملے میں مختلف ہے کہ اس میں کسی جھجک یا تردد سے کہیں زیادہ ایک نفسیاتی کیفیت ہے جس میں عمومًا کسی شخص کا چہرہ لال ہو جاتا ہے۔ یہ عام طور سے غیر رضا کارانہ طور پر ہوتا ہے اور یہ جذباتی تناؤ کی وجہ سے ہوتا ہے، جس میں حد سے زیادہ الفت، شرمندگی، شرمیلاپن، غصہ یا کوئی اور رومانی زاویہ ممکن ہے۔
حد سے زیادہ شرما جانا ان لوگوں میں عام ہے جو بہت زیادہ اور مسلسل سماجی تجسس یا ذاتی تجسس محسوس کرتے ہیں اور کسی صورت حال کا حصہ بنتے ہیں۔
کچھ لوگ افسانوں اور ادب میں عمومًا کھل کر محبت، انسانی تعلقات، رومانیت اور جنسی تعلقات پر بحث کے موضوع پر شرما جاتے ہیں اور اس کے لزوم کو کے ممنوع موضوع بحث سمجھتے ہیں۔ تاہم سماجی موضوعات پر لکھنے والے اہل قلم اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ ان میں اردو زبان کے معروف افسانہ نگار ناصر صدیقی بھی ہیں، جو اس شرما جانے کے احساس کے بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:
” | کیا ایک اٹھارہ سال کا لڑکا، جو ایسے معاشرے میں قید تھا جہاں "عورت" دیکھنا اتنا آسان نہ تھا جب اسے کسی حادثے کے طور پر کچھ عرصے کے لیے اترائیاں، چڑھائیاں اور جسمانی ساختیں دیکھنے کو ملیں تو وہ شرما جائے گا یا اس کی جنسی فطرت جاگ جائے گی؟ میرا بچپن اور لڑکپن ایک بند اور باپردہ معاشرے میں گذرا تھا۔بعد میں ایک بڑے شہر نے بہت کچھ دکھلادیا اور بتلا بھی دیا[1]! | “ |
سماج میں عام موضوعات جن میں لوگ شرما جاتے ہیں
ترمیمسماج میں ایسے کئی موضوعات ہیں جن میں لوگ شرما جاتے ہیں۔ خاص طور پر مشرقی سماج میں پیار محبت کے معاملات کو سماج میں زیادہ قبولیت حاصل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ نجی زندگی کے بہت سے معاملات پر بھی لوگ عوامی گفتگو کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ مثلًا جہاں ایک جانب حکومت آبادی کے اضافے کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہیں دوسری جانب بہت سے لوگ کوئی نہ کوئی ضبط حمل کی ترکیب اپنا تو لیتے ہیں، تاہم اس کا بر سر عام اعتراف نہیں کرتے۔
کچھ لوگوں میں شرما جانے کا جذبہ اس قدر حاوی ہوتا ہے کہ وہ اپنے متعلق کسی بھی گفتگو سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، بھلے وہ کتنی ہی عام کیوں نہ ہو اور ان کے موقف یا عمل سب کا جانا پہچانا ہی کیوں نہ ہو۔