اردو

پاکستان کی قومی زبان اور بعض بھارتی ریاستوں کی سرکاری اور بول چال والی زبان
(اردو زبان سے رجوع مکرر)

اُردُو، برصغیر پاک و ہند کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت شدہ زبانوں میں شامل کیا جا چکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5.01 فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے ہی بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7.59 فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔[8] زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے 1846ء اور پنجاب میں 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد و شمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔ اردو زبان کو کئی ہندوستانی ریاستوں میں سرکاری حیثیت بھی حاصل ہے۔ [9] نیپال میں، اردو ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے [10] اور جنوبی افریقہ میں یہ آئین میں ایک محفوظ زبان ہے۔ یہ افغانستان اور بنگلہ دیش میں اقلیتی زبان کے طور پر بھی بولی جاتی ہے، جس کی کوئی سرکاری حیثیت نہیں ہے۔

اردوئے معلیٰ
"اردو" نستعلیق میں لکھا گیا
تلفظمعاونت:بین الاقوامی اصواتی ابجدیہ برائے اردو و ہندی: [ˈʊrd̪u] ( سنیے)
مستعملپاکستان اور بھارت[1]
مقامی متتکلمین
6 کروڑ 5 لاکھ (80% بھارت میں) (2007)ne2007
زبان دوم: 14 کروڑ 4 لاکھ پاکستان میں (2011)۔[2]
  • بھارتی اشارتی نظام (ISS)[4]
  • اشارتی اردو[5]
باضابطہ حیثیت
سرکاری زبان
نظمیت از
رموزِ زبان
آیزو 639-1ur
آیزو 639-2urd
آیزو 639-3urd
گلوٹولاگurdu1245[7]
لسانی اثرات59-AAF-q(مع ہندی،
بشمول 58 تنوع: 59-AAF-qaa to 59-AAF-qil)
  وہ خطے جہاں اردو کو سرکاری یا مقامی زبان کا درجہ حاصل ہے
  (دیگر)علاقے جہاں صرف ایک علاقائی زبان سرکاری ہے

1837ء میں، اردو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرکاری زبان بن گئی، کمپنی کے دور میں پورے شمالی ہندوستان میں فارسی کی جگہ لی گئی۔ فارسی اس وقت تک مختلف ہند-اسلامی سلطنتوں کی درباری زبان کے طور پر کام کرتی تھی۔ [11] یورپی نوآبادیاتی دور میں مذہبی، سماجی اور سیاسی عوامل پیدا ہوئے جنھوں نے اردو اور ہندی کے درمیان فرق کیا، جس کی وجہ سے ہندی-اردو تنازعہ شروع ہوا ۔

اٹھارویں صدی میں اردو ایک ادبی زبان بن گئی اور اس کی دو معیاری شکلیں دہلی اور لکھنؤ میں وجود میں آئیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد سے پاکستانی شہر کراچی میں ایک تیسرا معیار پیدا ہوا ہے۔ [12] [13] دکنی، ایک پرانی اردو کی شکل ہے جو دکن میں استعمال ہوتی تھی، سولہویں صدی تک دکن سلاطین کی درباری زبان بن گئی۔ [14] [13]

اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے۔ جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو زبان سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔ اردو زبان دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے کے باوجود اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوب ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔

تسمیہ

 
اردو اور ہندوستانی یہ دو الفاظ 20ویں صدی کی پہلی تین دشکوں تک ہم معانی ہوئی کرتی تھیں.

اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس ہندوستانی زبان کے لیے استعمال کیا تھا۔ [15] حالانکہ اس نے خود بھی اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی اصطلاح استعمال کی تھی۔ [16] اردو کا مطلب ترک زبان میں فوج ہے۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں، اسے زبانِ اُرْدُوئے مُعَلّٰی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کا مطلب بلند کیمپ کی زبان ہے ۔ [17] [18] [19] پہلے اسے ہندوی، ہندی، ہندوستانی اور ریختہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ [15] [20]

تاریخ

 
نستعلیق خطاطی پر لشکری زبان کا عنوان

اردو ہندی زبان کی طرح فارسی، عربی، ترک زبان کی ایک قسم ہے۔[21][22] یہ شورسینی زبان (یہ زبان وسطی ہند آریائی زبان تھی جو موجودہ کئی زبانوں کی بنیاد سمجھی جاتی ہے، ان میں پنجابی زبان بھی شامل ہے) کی ذیلی قسم کے طور پر اپ بھرنش سے قرون وسطٰی (چھٹی سے تیرھویں صدی) کے درمیان وجود میں آئی۔[23][24] اردو زبان کی ابتدا کے بارے میں ایک خیال یہ بھی ہے کہ یہ ہریانوی زبان سے شروع ہوئی۔[25]

تیرھویں صدی سے انیسویں صدی کے آخر تک اردو زبان کو بیک وقت ہندی، [26] ہندوستانی اور ہندوی کہا جاتا تھا۔[27]

اگرچہ لفظ اردو بذات خود ترک زبان کے لفظ اوردو (لشکر، فوج) یا اوردا سے نکلا ہے، اسی سے انگریزی لفظ horde کا ظہور ہوا، تاہم ترک زبان سے اردو میں کم ہی الفاظ آئے ہیں۔ عرب اور ترک الفاظ اردو میں پہنچ کر فارسی قسم کے بن گئے ہیں، جیسے ة کو اکثر اوقات ہ میں بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً عربی تائے مربوطہ (ة) کو (ہ) یا (ت) میں بدل دیا جاتا ہے۔

بھلے آج کے دور میں اردو کو ایک مستقل زبان کی شناخت حاصل ہے لیکن عظیم اردو قلمکار اُنیسویں صدی کی کچھ ابتدائی دہائیوں تک اردو زبان کو ہندی یا ہندوی کی شکل میں ظاہر کرتے رہے ہیں۔[28]

جیسے غلام حمدان مصحفی نے اپنی ایک شاعری میں لکھا ہے: -

مصحفی فارسی کو طاق پہ رکھ،

اب ہیں اشعارِ ہندوی کا رواج"[29]


اور شاعر مير تقی میر نے کہا ہے:

نہ جانے لوگ کہتے ہے کس کو سرورِ قلب،

آیا نہیں یہ لفظ تو ہندی زبان کے بیچ[30]


 
نستعلیق رسم الخط میں لکھا ہوا جملہ زبانِ اردو مُلّا ("بلند کیمپ زبان")

اردو زبان کو ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ منصوب کیا جاتا ہے اور اسی حوالے سے کئی نظریات بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ممتاز محقق حافظ محمود شیرانی کے نزدیک یہ زبان محمود غزنوی کے حملہ ہندوستان کے ادوار میں پنجاب میں پیدا ہوئی، جب فارسی بولنے والے سپاہی پنجاب میں بس گئے، نیز ان کے نزدیک یہ فارسی متکلمین دہلی فتح کرنے سے قبل دو سو سال تک وہیں آباد رہے، یوں پنجابی اور فارسی زبانوں کے اختلاط نے اردو کو جنم دیا، پھر ایک آدھ صدی بعد جب اس نئی زبان کا آدھا گندھا خمیر دہلی پہنچا تب وہاں اس نے مکمل زبان کی صورت اختیار کی، اس حوالے سے انھوں نے پنجابی اور اردو زبان میں کئی مماثلتیں بھی پیش کی ہیں۔ شیرانی کے اسی نظریہ کو پنجاب میں اردو نامی مقالے میں لکھا گیا، جس نے اردو زبان دانوں میں کافی شہرت پائی اور اسی کو دیکھ کر بہت سے محققین نے اردو کے آغاز کو مسلمانوں کی آمد سے جوڑنا شروع کر دیا، اس طرح "دکن میں اردو"، "گجرات میں اردو"، "سندھ میں اردو"، "بنگال میں اردو "حتیٰ کہ "بلوچستان میں اردو" کے نظریات بھی سامنے آنے لگے۔ (حقیقتاً شیرانی سے قبل بھی سنیت کمار چترجی، محی الدین قادری زور جیسے بعض محققین اردو پنجابی تعلق کے بارے میں ایسے خیالات رکھتے تھے، البتہ اسے ثابت کرنے میں وہ دوسروں سے بازی لے گئے) حافظ شیرانی کے نظریہ کی مخالفت کرنے والوں میں مسعود حسین خان اور سبزواری جیسے محققین شامل ہیں، جنھوں نے ان کے نظریے کو غلط ثابت کیا۔

برطانوی راج میں فارسی کی بجائے ہندوستانی کو فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا اور ہندو مسلم دونوں اس پر عمل کرتے تھے۔ لفظ اردو کو شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس سب سے پہلے استعمال کیا تھا۔ انھوں نے خود اپنی شاعری میں زبان کی تعریف کے لیے ہندوی لفظ بھی استعمال کیا۔[31] تیرہویں سے اٹھارویں صدی تک اردو کو عام طور پر ہندی ہی کے نام سے پکارا جاتا رہا۔ اسی طرح اس زبان کے کئی دوسرے نام بھی تھے، جیسے ہندوی، ریختہ یا دہلوی۔ اردو اسی طرح علاقائی زبان بنی رہی، پھر 1837ء میں فارسی کی بجائے اسے انگریزی کے ساتھ دفتری زبان کا درجہ دیا گیا۔ اردو زبان کو برطانوی دور میں انگریزوں نے ترقی دی، تاکہ فارسی کی اہمیت کو ختم کیا جا سکے۔ اس وجہ سے شمال مشرقی ہندوستان کے ہندوؤں میں تحریک اٹھی کہ فارسی رسم الخط کی بجائے اس زبان کو مقامی دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے۔ نتیجتاً ہندوستانی کی نئی قسم ہندی کی ایجاد ہوئی اور اس نے 1881ء میں بہار میں نافذ ہندوستانی کی جگہ لے لی۔ اس طرح اس مسئلہ نے فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہندوستانی کو دو زبانوں اردو (برائے مسلم) اور ہندی (برائے ہندو) میں تقسیم کر دیا۔ اور اسی فرق نے بعد میں ہندوستان کو دو حصوں بھارت اور پاکستان میں تقسیم کرنے میں اہم کردار ادا کیا (اگرچہ تقسیم سے پہلے اور بعد میں بھی بہت سے ہندو شعرا و مصنفین اردو زبان سے جڑے رہے، جن میں معروف منشی پریم چند، گلزار، گوپی چند نارنگ اور آزاد وغیرہ شامل ہیں۔)

ابتدائی تاریخ

 
غالب کے اردو دیوان کے ابتدائی صفحات، 1821

ہندوستان کے دہلی کے علاقے میں مقامی زبان کھوری بولی تھی، جس کی ابتدائی شکل پرانی ہندی (یا ہندوی) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ [32] [33] [34] [35] اس کا تعلق وسطی ہند آریائی زبانوں کے مغربی ہندی زبان سے ہے۔[36][37][38]

دہلی جیسے شہروں میں، قدیم ہندی اور فارسی کا اثر و رسوخ تھا اور اسے "ہندوی" اور بعد میں "ہندوستانی" بھی کہا جانے لگا۔ [39] [40] [41] [42] [43] ہندوی کی ایک ابتدائی ادبی روایت کی بنیاد امیر خسرو نے تیرھویں صدی کے آخر میں رکھی تھی۔ [44] [45] [46] [47] دکن کی فتح کے بعد اور اس کے بعد عظیم مسلم خاندانوں کی جنوب میں ہجرت کے بعد، زبان کی ایک شکل قرون وسطی کے ہندوستان میں شاعری کے طور پر پروان چڑھی۔ [48] اور اسے دکنی کے نام سے جانا جاتا ہے، جس میں تیلگو زبان اور مراٹھی زبان کے الفاظ شامل ہیں۔ [49] [50] [51] تیرھویں صدی سے اٹھارویں صدی کے آخر تک جو زبان اب اردو کے نام سے جانی جاتی ہے اسے ہندی، [52] ہندوی، ہندوستانی، [53] دہلوی، [54] لاہوری اور لشکری کہا جاتا تھا۔ [55] دہلی سلطنت نے فارسی کو ہندوستان میں اپنی سرکاری زبان کے طور پر قائم کیا، یہ پالیسی مغل سلطنت کی طرف سے جاری رہی، جس نے سولہویں سے اٹھارویں صدی تک شمالی جنوبی ایشیا کے بیشتر حصوں میں توسیع کی اور ہندوستانی پر فارسی اثر کو مضبوط کیا۔ [56] [57]

خان آرزو کے نوادر الفاز کے مطابق، "زبانِ اردو شاہی"[58] کو عالمگیر کے زمانے میں خاص اہمیت حاصل تھی۔ 1700ء کی دہائی کے اوائل میں اورنگزیب عالمگیر کے دورِ حکومت کے اختتام تک، دہلی کے آس پاس کی عام زبان کو زبانِ اردو کہا جانے لگا، [59] یہ نام ترک زبان کے لفظ اوردو (فوج) یا اوردا سے ماخوذ ہے اور کہا جاتا ہے۔ "کیمپ کی زبان" کے طور پر پیدا ہوا ہے یا زبانِ اردو کا مطلب ہے: "اونچے کیمپوں کی زبان"[60] یا مقامی طور پر "لشکری زبان" کا مطلب ہے " فوج کی زبان[61] اگرچہ اردو کی اصطلاح مختلف ہے۔ اس وقت کے معنی [62] یہ ریکارڈ کیا گیا ہے کہ اورنگزیب عالمگیر ہندوی زبان میں بولتا تھا، جو غالباً فارسی زبان میں تھی، کیونکہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ہندوی اس دور میں فارسی رسم الخط میں لکھی گئی تھی۔ [63]

اس عرصے کے دوران اردو کو "مورس" کہا جاتا تھا، جس کا مطلب صرف مسلمان تھا، [64] یورپی مصنفین نے [65] جان اوونگٹن نے 1689ء میں لکھا: [66]

موروں کی زبان ہندوستان کے قدیم اصلی باشندوں سے مختلف ہے لیکن اپنے کرداروں کے لیے ان غیر قوموں کی پابند ہے۔ کیونکہ اگرچہ مورز بولی اپنے لیے مخصوص ہے، پھر بھی اس کے اظہار کے لیے خطوط سے محروم ہے۔ اور اس لیے، اپنی مادری زبان میں اپنی تمام تحریروں میں، وہ اپنے خطوط ہیتھنز یا فارسیوں یا دیگر اقوام سے مستعار لیتے ہیں۔

1715 میں ریختہ میں ایک مکمل ادبی دیوان نواب صدرالدین خان نے لکھا۔ [67] ایک اردو فارسی لغت خان آرزو نے 1751ء میں احمد شاہ بہادر کے دور میں لکھی تھی۔ [68] اردو کا نام سب سے پہلے شاعر غلام ہمدانی مصحفی نے 1780ء کے آس پاس متعارف کرایا تھا [69] ایک ادبی زبان کے طور پر اردو نے درباری، اشرافیہ کے ماحول میں شکل اختیار کی۔ [70] جبکہ اردو نے مقامی ہندوستانی بولی کھڑ بولی کی گرامر اور بنیادی ہند آریائی الفاظ کو برقرار رکھا، اس نے نستعلیق تحریری نظام کو اپنایا [71] [72] – جسے فارسی خطاطی کے انداز کے طور پر تیار کیا گیا تھا۔ [73]

دیگر تاریخی نام

اردو زبان کی پوری تاریخ میں، اردو کو کئی دوسرے ناموں سے بھی جانا گیا ہے: ہندی، ہندوی، ریختہ، اردو-ملا، دکھینی، مورس اور دہلوی وغیرہ۔ 1773 میں سوئس فرانسیسی سپاہی اینٹون پولیئر نے نوٹ کیا کہ انگریزوں نے اردو کے لیے "مورس" کا نام استعمال کرنا پسند کیا:[74]

مجھے ہندوستان کی عام زبان کے بارے میں گہرا علم ہے، جسے انگریز مورس کہتے ہیں اور اس سرزمین کے باشندے ہیں ۔

اشرف جہانگیر سمنانی جیسے صوفی مصنفین کی کئی تخلیقات نے اردو زبان کے لیے اسی طرح کے نام استعمال کیے ہیں۔ شاہ عبدالقادر رائے پوری پہلے شخص تھے جنھوں نے قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا۔ [75] شاہ جہاں کے زمانے میں دار الحکومت کو دہلی منتقل کر دیا گیا اور اس کا نام شاہجہان آباد رکھا گیا اور اس قصبے کے بازار کا نام اردوئے معلیٰ رکھا گیا۔[76] [77]

نوآبادیاتی دور میں اردو

نوآبادیاتی انتظامیہ میں اردو کو معیاری بنانے سے پہلے، برطانوی افسران اکثر اس زبان کو "مُور" کہتے تھے۔ جان گلکرسٹ برطانوی ہندوستان میں پہلے شخص تھے جنھوں نے اردو پر ایک منظم مطالعہ شروع کیا اور "ہندوستانی" کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کی جسے یورپیوں کی اکثریت "مُور" کہتی تھی۔[78]

بعد میں برطانوی پالیسیوں کے ذریعے نوآبادیاتی ہندوستان میں اردو کو فروغ دیا گیا تاکہ فارسی پر سابقہ زور کا مقابلہ کیا جا سکے۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں، "انیسویں صدی میں متحدہ صوبوں میں عام مسلمان اور ہندو یکساں طور پر ایک ہی زبان بولتے تھے، یعنی ہندوستانی، خواہ اس نام سے پکارا جائے یا ہندی، اردو یا برج یا اودھی جیسی علاقائی بولیوں میں سے ایک۔" [79] مسلم برادریوں کے اشراف کے ساتھ ساتھ ہندو اشراف کی ایک اقلیت، جیسا کہ ہندو نسل کے منشی،[80] نے عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں فارسی عربی رسم الخط میں زبان لکھی، حالانکہ ہندو بعض ادبیات میں دیوناگری رسم الخط کو استعمال کرتے رہے۔ اور مذہبی سیاق و سباق۔ [79] [81] انیسویں صدی کے آخر تک، لوگ اردو اور ہندی کو دو الگ الگ زبانوں کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، حالانکہ شہری علاقوں میں، معیاری ہندستانی زبان کو تیزی سے اردو کہا جاتا تھا اور فارسی عربی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ اردو اور انگریزی نے 1837ء میں ہندوستان کے شمالی حصوں میں فارسی کو سرکاری زبانوں کے طور پر بدل دیا [82] نوآبادیاتی ہندوستانی اسلامی اسکولوں میں، مسلمانوں کو ہند اسلامی تہذیب کی زبانوں کے طور پر فارسی اور عربی پڑھائی جاتی تھی۔ انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں خواندگی کو فروغ دینے اور انھیں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنے کے لیے ان سرکاری تعلیمی اداروں میں فارسی عربی رسم الخط میں لکھی ہوئی اردو پڑھانا شروع کی اور اس وقت کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں اردو کو بطور خاص نظر آنے لگا۔ [79] شمال مغربی ہندوستان میں ہندوؤں نے، آریہ سماج کے تحت فارسی عربی رسم الخط کے استعمال کے خلاف احتجاج کیا اور دلیل دی کہ زبان کو مقامی دیوناگری رسم الخط میں لکھا جانا چاہیے، [83] جس نے دیوناگری میں لکھی گئی ہندی کے استعمال کو جنم دیا۔ انجمن اسلامیہ لاہور [83] دیوناگری رسم الخط میں ہندی اور فارسی-عربی رسم الخط میں لکھی گئی اردو نے مسلمانوں کے لیے "اردو" اور ہندوؤں کے لیے "ہندی" کی فرقہ وارانہ تقسیم قائم کی، یہ تقسیم نوآبادیاتی ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہندوستان میں تقسیم ہو گئی۔ پاکستان کی آزادی کے بعد (حالانکہ ایسے ہندو شاعر ہیں جو اردو میں لکھتے رہتے ہیں، جن میں گوپی چند نارنگ اور گلزار ) تھے۔ [84] [85]

تقسیم کے بعد

 
متحدہ عرب امارات میں عربی ، انگریزی اور اردو میں سہ زبانی سائن بورڈ ۔ اردو جملہ انگریزی کا براہ راست ترجمہ نہیں ہے ("آپ کا خوبصورت شہر آپ کو اسے محفوظ رکھنے کی دعوت دیتا ہے۔" ) یہ کہتا ہے، "اپنی شہر کی خوشصورتی کو برقرار رکھیے یا "براہ کرم اپنے شہر کی خوبصورتی کو محفوظ رکھیں۔"

اردو کو بمبئی پریزیڈنسی ، بنگال ، صوبہ اڑیسہ ، [86] اور ریاست حیدرآباد کے نوآبادیاتی ہندوستانی مصنفین کے لیے بطور ادبی ذریعہ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ [87] 1973 میں، اردو کو پاکستان کی واحد قومی زبان کے طور پر تسلیم کیا گیا تھا۔ [88] 1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے اور اس کے بعد لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد کے بعد جو کئی دہائیوں سے پاکستان میں مقیم ہیں، [89] نے بھی ہندی-اردو میں عبور حاصل کر لیا ۔ ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ہندی-اردو بالی ووڈ فلمیں اور گانے اردو زبان میں ہوتے ہیں۔ [90] [91] اردو کو پراکرت اور سنسکرت کے مقامی الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ہندی کو فارسی کے الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی گئی ہے - نئی لغت بنیادی طور پر فارسی اور عربی سے اردو کے لیے اور سنسکرت سے ہندی سے نکالی گئی ہے۔ [92] [93] انگریزی نے ایک مشترکہ سرکاری زبان کے طور پر دونوں پر بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔ بروس (2021ء) کے مطابق، اٹھارویں صدی سے اردو نے انگریزی الفاظ کو ڈھال لیا ہے۔[94] پاکستان میں 1947ء میں اپنی آزادی کے بعد سے ایک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی طرف ایک تحریک ابھری جو ہندوستان میں ابھرنے والی ہائپر سنسکرت زدہ ہندی کی طرح "مصنوعی" ہے۔ [95] ہندی کے بڑھتے ہوئے سنسکرتائزیشن سے کچھ حد تک اردو کی ہائپر فارسائزیشن کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ [96] پاکستان میں روزمرہ کی بنیاد پر بولی جانے والی اردو کا انداز غیر جانبدار ہندستانی کے مشابہ ہے جو برصغیر کے شمالی حصے کی زبان ہے۔ [97] [98]

1977 کے بعد سے، [99] صحافی خشونت سنگھ جیسے کچھ مبصرین نے اردو کو "مرتی ہوئی زبان" قرار دیا ہے، حالانکہ دیگر، جیسے کہ ہندوستانی شاعر اور مصنف گلزار (جو دونوں ممالک میں مقبول ہیں، نے اس تشخیص سے اختلاف کیا اور کہا کہ اردو ہندوستان میں "سب سے زندہ زبان ہے اور وقت کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے"۔ [100] [101] [102] [99] [103] [104] [105] یہ رجحان دیگر زبانوں کے بولنے والوں کے مقابلے میں مقامی اردو بولنے والوں کی نسبتاً اور مطلق تعداد میں کمی سے متعلق ہے۔[106][107] اردو کے فارسی عربی رسم الخط، اردو ذخیرہ الفاظ اور گرامر کے بارے میں کم ہوتی ہوئی (جدید) علم؛ [106] [108] اردو سے اور ادب کے ترجمے اور نقل کا کردار۔ [106] اردو کی بدلتی ثقافتی تصویر اور اردو بولنے والوں کے ساتھ منسلک سماجی و اقتصادی حیثیت (جس سے دونوں ممالک میں خاص طور پر ان کے روزگار کے مواقع پر منفی اثر پڑتا ہے)، [108] [106] اردو کی قانونی حیثیت اور حقیقی سیاسی حیثیت، [108] اردو کو تعلیم کی زبان کے طور پر کتنا استعمال کیا جاتا ہے اور طلبہ نے اعلیٰ تعلیم میں اس کا انتخاب کیا ہے، [108] [106] [107] [105] اور کس طرح اردو کی دیکھ بھال اور ترقی کو حکومتوں اور این جی اوز کی مالی اور ادارہ جاتی مدد حاصل ہے۔ [108] [106] ہندوستان میں، اگرچہ اردو صرف مسلمانوں کے ذریعہ استعمال نہیں کی جاتی ہے اور نہ کبھی ہوتی ہے (اور ہندی کبھی خصوصی طور پر ہندوؤں کے ذریعہ نہیں)، [105] [109] جاری ہندی-اردو تنازعہ اور دونوں مذاہب کے ساتھ ہر زبان کی جدید ثقافتی وابستگی کی وجہ سے بہت کم اضافہ ہوا ہے۔ ہندو اردو استعمال کرتے ہیں۔ [105] [109] 20ویں صدی میں، ہندوستانی مسلمانوں نے بتدریج اجتماعی طور پر اردو کو اپنانا شروع کیا [109] (مثال کے طور پر، ' بہار کی آزادی کے بعد کی مسلم سیاست نے اردو زبان کے ارد گرد ایک متحرک دیکھا جو اقلیتوں کو بااختیار بنانے کے آلے کے طور پر خاص طور پر کمزور سماجی و اقتصادی پس منظر سے آنے والی ہے'۔ [106] )، لیکن 21 ویں صدی کے اوائل میں ہندوستانی مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی نے سماجی و اقتصادی عوامل کی وجہ سے ہندی کو تبدیل کرنا شروع کیا، جیسے کہ ہندوستان کے بیشتر حصوں میں اردو کو تدریسی زبان کے طور پر چھوڑ دیا گیا، [107] [106] [105] ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 2001ء اور 2011ء کے درمیان 1.5 فیصد کم ہوئی (اس وقت 5.08 ملین اردو بولنے والے تھے)، خاص طور پر سب سے زیادہ اردو بولنے والی ریاستوں اتر پردیش (c. 8% سے 5%) اور بہار (c. 11.5% سے 8.5%)، حالانکہ ان دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی تعداد میں اسی عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔ [107] اگرچہ 21 ویں صدی کے اوائل کے ہندوستانی پاپ کلچر میں اردو اب بھی بہت نمایاں ہے، بالی ووڈ [104] سے لے کر سوشل میڈیا تک، اردو رسم الخط اور اردو میں کتابوں کی اشاعت میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ [106] چونکہ پاکستانی حکومت نے تقسیم کے وقت اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، اس لیے ہندوستانی ریاست اور کچھ مذہبی قوم پرستوں نے جزوی طور پر اردو کو ایک 'غیر ملکی' زبان کے طور پر دیکھنا شروع کر دیا۔ [103] ہندوستان میں اردو کے حامی اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ اسے دیوناگری اور لاطینی رسم الخط ( رومن اردو ) میں لکھنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔[105] [110] [106]

وولہ بھائی آفتاب نے دلیل دی کہ اردو اصل میں روشن خیالی، ترقی اور آزادی کی ایک بہترین اشرافیہ زبان ہے، جس نے تحریک آزادی کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ [111] لیکن 1947ء کی تقسیم کے بعد، جب اسے پاکستان کی قومی زبان کے طور پر منتخب کیا گیا، تو اسے بنیادی طور پر بنگالی سے سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا (جو کل آبادی کا 56 فیصد بولی جاتی ہے، زیادہ تر مشرقی پاکستان میں۔ آزادی کے حامی دونوں اشرافیہ جنھوں نے پاکستان میں مسلم لیگ اور ہندوستان میں ہندو اکثریتی کانگریس پارٹی کی قیادت کی تھی، برطانوی نوآبادیاتی دور میں انگریزی میں تعلیم حاصل کی گئی تھی اور انگریزی میں کام کرتے رہے اور اپنے بچوں کو انگریزی میڈیم اسکولوں میں بھیجتے رہے۔ [111] اگرچہ پاکستان میں اشرافیہ نے مختلف درجات کے ساتھ تعلیم کی اردوائزیشن کی کوششیں کی ہیں، لیکن سیاست، قانونی نظام، فوج اور معیشت کو اردو میں کرنے کے لیے کوئی بھی کامیاب کوشش نہیں کی گئی۔ [111] یہاں تک کہ جنرل ضیاء الحق کی حکومت (1977-1988)، جو ایک متوسط پنجابی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور ابتدائی طور پر پاکستانی معاشرے کی تیز اور مکمل اردوائزیشن کی بھرپور حمایت کرتے تھے (انھیں 'سرپرست اردو' کا اعزازی خطاب دیا گیا تھا۔ [111] 1960ء کی دہائی سے، اردو پاکستان میں اردو زبان مذہبی اسلام پسندی اور سیاسی قومی قدامت پرستی (اور آخر کار نچلے اور نچلے متوسط طبقے، علاقائی زبانوں جیسے کہ پنجابی، سندھی اور بلوچی) کے ساتھ منسلک رہی ہے، جبکہ انگریزی۔ بین الاقوامی سطح پر سیکولر اور ترقی پسند بائیں بازو (اور آخر کار بالائی اور اعلیٰ متوسط طبقے) سے وابستہ رہی۔ [111]

آبادیاتی اور جغرافیائی تقسیم

ہندوستان اور پاکستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 100 ملین سے زیادہ ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد 50.8 ملین تھی (کل آبادی کا 4.34%)۔ [112] [113] 2006 میں پاکستان میں تقریباً 16 ملین [114] برطانیہ، سعودی عرب، امریکا اور بنگلہ دیش میں بولنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔ تاہم، اردو زبان بہت وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے، جو دنیا میں مینڈارن چینی اور انگریزی کے بعد تیسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ [115] نحو (گرامر)، اردو اور ہندی کے بنیادی الفاظ بنیادی طور پر یکساں ہیں - اس طرح ماہر لسانیات انھیں عام طور پر ایک زبان کے طور پر شمار کرتے ہیں، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ انھیں سماجی و سیاسی وجوہات کی بنا پر دو مختلف زبانوں کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ [116] دوسری زبانوں کے ساتھ تعامل کی وجہ سے، اردو جہاں کہیں بھی بولی جاتی ہے، بشمول پاکستان میں مقامی ہو گئی ہے۔ پاکستان میں اردو میں تبدیلیاں آئی ہیں اور اس نے علاقائی زبانوں کے بہت سے الفاظ کو شامل کیا ہے۔ اسی طرح، ہندوستان میں بولی جانے والی اردو کو کئی بولیوں میں بھی پہچانا جا سکتا ہے جیسے کہ لکھنؤ اور دہلی کی معیاری اردو کے ساتھ ساتھ جنوبی ہندوستان کی دکنی بولی وغیرہ۔ [117] [118] اردو کی ہندی سے مماثلت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے آسانی سے ایک دوسرے کو سمجھ سکتے ہیں۔[119]

پاکستان میں اردو

 
پاکستان کی 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ہر پاکستانی ضلع میں ان کی مادری زبان اردو والے لوگوں کا تناسب

اردو پورے پاکستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، [120] لیکن پاکستان کی صرف 7 فیصد آبادی اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر بولتی ہے۔ [121] پاکستان میں پچیس سال سے زائد عرصے تک رہنے والے مختلف نسلی (جیسے پشتون ، تاجک ، ازبک ، ہزاروی اور ترکمان ) کے تقریباً تیس لاکھ افغان مہاجرین میں سے زیادہ تر اردو زبان بولتے ہیں۔ [122] [123] یہ مدرسوں میں اعلیٰ ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کی طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے ایسے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کر دیے ہیں، جن کی مادری زبان پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی، سرائیکی اور چترالی وغیرہ میں سے کوئی ایک ہوتی ہے۔ پاکستان میں اردو میں بہت سے اخبارات شائع ہوتے ہیں جن میں روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ ملت شامل ہیں۔ پاکستان میں ڈیجیٹل میڈیا ویب سائٹس جیسا کہ ڈیلی پاکستان اور اردو پوائنٹ اردو زبان میں مواد فراہم کرتی ہیں۔ پاکستان میں کوئی بھی خطہ اردو کو اپنی مادری زبان کے طور پر استعمال نہیں کرتا۔ پاکستان کی پنجابی اشرافیہ نے اردو کو مادری زبان کے طور پر اپنایا ہے اور وہ اردو بولنے والے کے ساتھ ساتھ پنجابی شناخت دونوں سے پہچانے جاتے ہیں۔ [124] [125] اردو کو 1947ء میں پاکستان کی نئی ریاست کے لیے اتحاد کے طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ یہ پاکستان کے تمام صوبوں/علاقوں میں لکھی، بولی اور استعمال کی جاتی ہے۔ [126] انگریزی اور اردو دونوں میڈیم اسکولوں میں ہائر سیکنڈری اسکول تک اردو کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، جس نے لاکھوں دوسری زبان کے بولنے والوں کو اردو سکھائی۔ [127] جبکہ کچھ اردو الفاظ کو پاکستان کی علاقائی زبانوں نے بھی ضم کر لیا ہے۔ [128] [129] 8 ستمبر 2015ء بروز منگل کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے متعلقہ حکام کو فوری طور پر سرکاری دفاتر میں اردو بطور سرکاری زبان کے نفاذ کے لیے حکم دے رکھا ہے۔ [130]

بھارت

 
بھارت اور پاکستان میں اردو بولنے والے علاقے۔
  علاقے جہاں اردو سرکاری یا علاقائی سرکاری زبان سے مشترکہ سرکاری زبان ہے۔
  (دیگر) علاقے جہاں صوبائی زبان سرکاری زبان ہے۔

بھارت میں، اردو ان جگہوں پر بولی جاتی ہے جہاں بڑی مسلم اقلیتیں یا شہر ہیں جو ماضی میں مسلم سلطنتوں کے علاقے تھے۔ ان میں اتر پردیش، مدھیہ پردیش، بہار، تلنگانہ، آندھرا پردیش، مہاراشٹرا (مراٹھواڑہ اور کونکنی)، کرناٹک اور حیدرآباد، لکھنؤ، دہلی، ملیرکوٹلہ، بریلی، میرٹھ، سہارنپور، مظفر نگر، روڑکی، مورا آباد، اعظم گڑھ، بجنور، نجیب آباد، رام پور، علی گڑھ، الہ آباد، گورکھپور، آگرہ، فیروز آباد، کانپور، بدایوں، بھوپال، حیدرآباد، اورنگ آباد، سمستی پور،[131] بنگلور، کولکاتا، میسور، پٹنہ، دربھنگہ، مدھوا، سمبھوانی، گانو پور سہرسہ، سپول، مظفر پور، نالندہ، مونگیر، بھاگلپور، ارریہ، گلبرگہ، پربھنی، ناندیڑ، مالیگاؤں، بیدر، اجمیر اور احمد آباد جیسے شہر شامل ہیں۔[132] بھارت کے تقریباً 800 اضلاع میں ایک بہت بڑی تعداد میں اردو بولنے والی اقلیت میں ہیں۔ ارریہ ضلع، بہار میں، اردو بولنے والوں کی کثرت ہے اور حیدرآباد ضلع، تلنگانہ (43.35 فیصد تلگو بولنے والے اور 43.24 فیصد اردو بولنے والے) میں تقریباً کثرت ہے۔

کچھ بھارتی مسلم اسکول (مدرسہ) اردو کو پہلی زبان کے طور پر پڑھاتے ہیں اور ان کا اپنا نصاب اور امتحانات ہوتے ہیں۔ درحقیقت بالی ووڈ فلموں کی زبان میں فارسی اور عربی الفاظ کی ایک بڑی تعداد ہوتی ہے اور اس طرح اسے ایک لحاظ سے "اردو" سمجھا جاتا ہے،[133] خاص طور پر گانوں میں۔ [134] بھارت میں 3,000 سے زیادہ اردو اشاعتیں ہیں جن میں 405 روزانہ اردو اخبارات بھی شامل ہیں۔ [135] اخبارات جیسے کہ نشاط نیوز اردو، سہارا اردو، روزنامہ سالار، ہندوستان ایکسپریس، روزنامہ پاسبان، روزنامہ سیاست، روزنامہ منصف اور انقلاب بنگلور، مالیگاؤں، میسور، حیدرآباد اور ممبئی میں شائع اور تقسیم کیے جاتے ہیں۔[136]

دیگر ممالک

جنوبی ایشیا سے باہر، یہ خلیج فارس کے ممالک کے بڑے شہری مراکز میں نقل مکانی کرنے والے جنوب ایشیائی کارکنوں کی بڑی تعداد کے ذریعہ بولی جاتی ہے۔ برطانیہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا، جرمنی، نیوزی لینڈ، ناروے اور آسٹریلیا کے بڑے شہری مراکز میں بڑی تعداد میں تارکین وطن اور ان کے بچے بھی اردو بولتے ہیں۔ [137] عربی کے ساتھ ساتھ، کاتالونیا میں سب سے زیادہ بولنے والے تارکین وطن کی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔[138]

سرکاری حیثیت

پاکستان میں

 
پاکستان ریلویز صدر دفتر کے اوپر لکھی ہو اردو تحریر

اُردو پاکستان کی قومی زبان ہے اور یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ یہ تعلیم، اَدب، دفتر، عدالت، وسیط اور دینی اِداروں میں مستعمل ہے۔ یہ ملک کی سماجی و ثقافتی میراث کا خزانہ ہے۔

اردو پاکستان میں واحد قومی زبان ہے اور پاکستان کی دو سرکاری زبانوں میں سے ایک (انگریزی کے ساتھ)۔[139] یہ پورے ملک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے، جبکہ ریاستی زبانیں (مختلف خطوں میں بولی جانے والی زبانیں) صوبائی زبانیں ہیں، حالانکہ صرف 7.57 فیصد پاکستانی اپنی پہلی زبان کے طور پر اردو بولتے ہیں۔[140] اس کی سرکاری حیثیت کا مطلب یہ ہے کہ اردو دوسری یا تیسری زبان کے طور پر پورے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سمجھی اور بولی جاتی ہے۔ یہ تعلیم، ادب، دفتر اور عدالت کے کاروبار میں استعمال ہوتا ہے،[141] حالانکہ عملی طور پر حکومت کے اعلیٰ عہدوں میں اردو کی بجائے انگریزی استعمال ہوتی ہے۔[142] پاکستانی آئین کے آرٹیکل 251(1) میں کہا گیا ہے کہ اردو کو حکومت کی واحد زبان کے طور پر لاگو کیا جائے، حالانکہ پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر انگریزی سب سے زیادہ استعمال ہونے والی زبان ہے۔ [143]

بھارت میں

 
نئی دہلی ریلوے اسٹیشن میں ہمہ زبانوں میں لکھا ہوا بورڈ۔

اردو بھارت میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے اور اسے بھارتی ریاستوں آندھرا پردیش، اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، تلنگانہ اور قومی دار الحکومت دہلی میں "اضافی سرکاری زبان" کا درجہ بھی حاصل ہے۔[144] جموں و کشمیر کی پانچ سرکاری زبانوں میں سے ایک کے طور پر بھی ہے۔[145]

بھارت نے 1969ء میں اردو کے فروغ کے لیے سرکاری بیورو قائم کیا، حالانکہ سنٹرل ہندی ڈائریکٹوریٹ اس سے قبل 1960ء میں قائم کیا گیا تھا اور ہندی کی ترویج کے لیے بہتر مالی امداد اور زیادہ ترقی دی گئی ہے، [146] جب کہ فروغ سے اردو کی حیثیت کو نقصان پہنچا ہے۔[147] اردو کی نجی بھارتی تنظیمیں جیسے انجمنِ طریقت اردو، دینی علمی کونسل اور اردو مصحف دستہ اردو کے استعمال اور تحفظ کو فروغ دیتی ہیں، انجمن نے کامیابی کے ساتھ ایک مہم کا آغاز کیا جس نے 1970ء کی دہائی میں بہار کی سرکاری زبان کے طور پر اردو کو دوبارہ متعارف کرایا۔[146] سابقہ جموں و کشمیر ریاست میں، کشمیر کے آئین کے سیکشن 145 میں کہا گیا ہے: "ریاست کی سرکاری زبان اردو ہوگی لیکن انگریزی زبان جب تک قانون سازی کے ذریعہ دوسری صورت میں فراہم نہیں کرتی، ریاست کے تمام سرکاری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہے گی۔ وہ ریاست جس کے لیے اسے آئین کے آغاز سے فوراً پہلے استعمال کیا جا رہا تھا۔[148]

بولیاں

 
مینار پاکستان پر مختلف زبانوں میں تحریر

اردو میں چند تسلیم شدہ بولیاں ہیں، جن میں دکھنی، ڈھاکیہ، ریختہ اور ماڈرن ورناکولر اردو (دہلی کے علاقے کی کوروی بولی بولی پر مبنی) شامل ہیں۔ دکنی، جنوبی ہندوستان کے علاقے دکن میں بولی جاتی ہے۔ یہ مراٹھی اور کوکنی زبان کے الفاظ کے مرکب کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور چغتائی کے الفاظ کے مرکب سے الگ ہے جو اردو کی معیاری بولی میں نہیں ملتی۔ دکھنی مہاراشٹر، تلنگانہ، آندھرا پردیش اور کرناٹک کے تمام حصوں میں بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ اردو ہندوستان کے دوسرے حصوں کی طرح پڑھی اور لکھی جاتی ہے۔ ان ریاستوں میں اردو کے کئی روزنامے اور کئی ماہانہ رسائل شائع ہوتے ہیں۔

ڈھاکیہ اردو بنگلہ دیش کے پرانے ڈھاکہ شہر کی ایک بولی ہے جو مغل دور سے شروع ہوتی ہے۔ تاہم، اس کی مقبولیت، یہاں تک کہ مقامی بولنے والوں میں بھی، 20ویں صدی میں بنگالی زبان کی تحریک کے بعد سے بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ اسے بنگلہ دیش کی حکومت نے سرکاری طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی بولی جانے والی اردو اس بولی سے مختلف ہے۔

اردو کی وہ بولیاں جن کی شناخت کی گئی ہے، یہ ہیں:

  • دکنی - اس کو دکھنی، دیسیا، مرگان نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ زبان دکن بھارت میں بولی جاتی ہے۔ مہاراشٹر میں جائیں تو مراٹھی اور کونکنی زبانوں کا اثر ملے گا، آندھرا پردیش جائیں تو تیلگو کا اثر ملے گا۔
  • ریختہ
  • کھری بولی: (کھڑی بولی)

پاکستان میں اردو پر پشتو، پنجابی، سرائیکی، بلوچی، سندھی زبانوں کا اثر پایا جاتا ہے، مقامی زبانوں کے اثر کی وجہ سے اردو کے حروف تہجی عربی اور فارسی سے زیادہ ہیں، بنیادی طور پر پاکستان کی اردو پر فارسی اور عربی کا اثر نمایاں محسوس کیا جا سکتا ہے۔

ہندی کے ساتھ موازنہ

 
ہندوستان میں سڑک کے نشان پر اردو اور ہندی۔ اردو ورژن انگریزی کا براہ راست ترجمہ ہے۔ ہندی ایک حصہ نقل حرفی ہے ("پارسل" اور "ریل") اور جزوی ترجمہ "کاریالے" اور "ارکشن کیندر"

معیاری اردو کا اکثر معیاری ہندی سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ [149] اردو اور ہندی دونوں، جو ایک ہی زبان، ہندوستانی کے بنیادی الفاظ اور گرامر کا اشتراک کرتے ہیں۔[150] [151] [152] [153] مذہبی انجمنوں کے علاوہ، اختلافات زیادہ تر معیاری شکلوں تک ہی محدود ہیں: معیاری اردو روایتی طور پر فارسی حروف تہجی کے نستعلیق انداز میں لکھی جاتی ہے اور فنی اور ادبی الفاظ کے ماخذ کے طور پر فارسی اور عربی پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے،[154] جبکہ معیاری ہندی روایتی طور پر دیوناگری میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت سے عبارت ہے۔[155] تاہم، دونوں مقامی سنسکرت اور پراکرت سے ماخوذ الفاظ کی بنیادی ذخیرہ الفاظ اور عربی اور فارسی کے الفاظ کی ایک خاصی مقدار کا اشتراک کرتے ہیں، ماہرین لسانیات کے اتفاق کے ساتھ کہ وہ ایک ہی زبان کی دو معیاری شکلیں ہیں[156] اور فرق پر غور کریں۔ سماجی لسانی ہونا؛[157] کچھ ان کی الگ الگ درجہ بندی کرتے ہیں۔[158] دونوں زبانوں کو اکثر ایک زبان (ہندوستانی یا ہندی-اردو) سمجھا جاتا ہے جس میں فارسی سے لے کر سنسکرت کے الفاظ تک کے تسلسل میں بولی جاتی ہے،[159] لیکن اب وہ سیاست کی وجہ سے الفاظ میں زیادہ سے زیادہ مختلف ہیں۔ [160] پرانی اردو لغات میں سنسکرت کے زیادہ تر الفاظ اب ہندی میں موجود ہیں۔[161] صوتیاتی سطح پر، دونوں زبانوں کے بولنے والے اپنے الفاظ کے انتخاب کی فارسی-عربی یا سنسکرت کی اصل سے اکثر واقف ہوتے ہیں، جو ان الفاظ کے تلفظ کو متاثر کرتا ہے۔[162] اردو بولنے والے اکثر سنسکرت کے الفاظ میں پائے جانے والے حرفوں کے جھرمٹ کو توڑنے کے لیے حرف داخل کرتے ہیں، لیکن عربی اور فارسی کے الفاظ میں ان کا صحیح تلفظ کریں گے۔[163] برٹش انڈیا کی تقسیم کے بعد سے مذہبی قوم پرستی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں، ہندی اور اردو دونوں کے مقامی بولنے والے اکثر اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ الگ الگ زبانیں ہیں۔

اردو بولنے والے ممالک

درج ذیل فہرست میں کچھ ممالک میں اردو بولنے والوں کی تعداد دکھائی گئی ہے۔

ملک آبادی مقامی زبان بولنے والے % مقامی بولنے والے اور دوسری زبان بولنے والے %
  بھارت 1,296,834,042 [164] 50,772,631 [165] 3.9 12,151,715 [166] 0.9
  پاکستان 207,862,518 [167] 14,700,000 [168] [169] 7 164,000,000 77%
  سعودی عرب 33,091,113 [170] - 2.3 930,000 [171] -
  نیپال 29,717,587 [172] 691,546 [173] 2.3 - -
  افغانستان 38,347,000 [174] - - 733,000 [175] -
  بنگلادیش 159,453,001 [176] 300,000 [177] 0.1 - -
  برطانیہ 65,105,246 [178] 269,000 0.4 - -
  ریاستہائے متحدہ 329,256,465 [179] 397,502 [180] 0.1 - -
  متحدہ عرب امارات 9,890,400 300,000 3.0 1,500,000 15.1
  کینیڈا 35,881,659 [181] 243,090 [182] 0.6 - -
  بحرین (اقلیتی)
  فجی (ہندستانی، انگریزی اور فجی کے ساتھ شریک سرکاری زبان)
  موریشس (اقلیتی زبان)
  سلطنت عمان (اقلیتی زبان)
  قطر (اقلیتی زبان)
  جنوبی افریقا (اقلیتی زبان)

ذخیرہ الفاظ

سید احمد دہلوی، انیسویں صدی کے ایک لغت نگار جنھوں نے فرہنگِ آصفیہ[183] اردو لغت مرتب کی، اندازہ لگایا کہ 75% اردو الفاظ کی جڑیں سنسکرت اور پراکرت میں ہیں، [184] [185] [186] اور تقریباً اردو کے 99% فعل کی جڑیں سنسکرت اور پراکرت میں ہیں۔[187] [188] اردو نے فارسی سے الفاظ مستعار لیے ہیں اور کچھ حد تک عربی فارسی کے ذریعے،[189] تقریباً 25% [184] [185] [186] [190] اردو کی ذخیرہ الفاظ کا 30% تک۔[191] چیپل ہل میں یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے ماہر لسانیات افروز تاج کی طرف سے بیان کردہ جدول اسی طرح ادبی اردو میں سنسکرت سے ماخوذ الفاظ کے فارسی ادھار کی مقدار کو 1:3 کے تناسب پر مشتمل بیان کرتا ہے۔[186]"فارسیائزیشن کی طرف رجحان" 18ویں صدی میں اردو شاعروں کے دہلی اسکول سے شروع ہوا، حالانکہ دیگر مصنفین، جیسے میراجی ، نے زبان کی سنسکرت شکل میں لکھا۔ [192] 1947 کے بعد سے پاکستان میں ہائپر فارسائزیشن کی طرف پیش قدمی جاری ہے، جسے ملک کے بیشتر مصنفین نے اپنایا ہے۔ [193] اس طرح، کچھ اردو عبارتیں 70% فارسی-عربی قرضوں پر مشتمل ہو سکتی ہیں جس طرح کچھ فارسی متن میں 70% عربی الفاظ ہو سکتے ہیں۔[194] کچھ پاکستانی اردو بولنے والوں نے ہندوستانی تفریح کی نمائش کے نتیجے میں ہندی الفاظ کو اپنی تقریر میں شامل کیا ہے۔ ہندوستان میں ہندی سے اردو اتنی نہیں بدل گئی جتنی پاکستان میں ہے۔[195]اردو میں زیادہ تر مستعار الفاظ اسم اور صفت ہیں۔ [196] عربی اصل کے بہت سے الفاظ فارسی کے ذریعے اختیار کیے گئے ہیں، [197] اور عربی کے مقابلے میں مختلف تلفظ اور معنی اور استعمال کی باریکیاں ہیں۔ پرتگالیوں سے ادھار کی تعداد بھی کم ہے۔ اردو میں مستعار پرتگالی الفاظ کے لیے کچھ مثالیں چابی ("chave": key)، گرجا ("igreja": church)، کمرہ ("cámara": room)، قمیض ("camisa": shirt) ہیں۔ [198]

اگرچہ اردو کا لفظ ترکی کے لفظ ordu (army) یا orda سے ماخوذ ہے، جس سے انگریزی horde بھی ماخوذ ہے، [199] اردو میں ترک ادھار کم سے کم ہے[200] اور اردو کا تعلق جینیاتی طور پر بھی ترک زبانوں سے نہیں ہے۔ چغتائی اور عربی سے نکلنے والے اردو الفاظ فارسی سے مستعار لیے گئے تھے اور اس لیے یہ اصل الفاظ کے فارسی نسخے ہیں۔ مثال کے طور پر، عربی ta' marbutaة اس میں تبدیلیاں ( ه> ) یا teت )۔ [201][note 1] بہر حال، عام خیال کے برخلاف، اردو نے ترکی زبان سے نہیں لیا، بلکہ چغتائی سے لیا، جو وسطی ایشیا کی ایک ترک زبان ہے ۔ اردو اور ترکی دونوں عربی اور فارسی سے مستعار ہیں، اس لیے بہت سے اردو اور ترکی الفاظ کے تلفظ میں مماثلت ہے۔

رسمیت

اردو کو اس کے کم باضابطہ رجسٹر میں rek̤h̤tah ( ریختہ ، [reːxtaː] ) کہا گیا ہے، جس کا مطلب ہے "کھردرا مرکب"۔ اردو کے زیادہ باضابطہ رجسٹر کو بعض اوقات zabān-i Urdū-yi muʿallá ( زبانِ اُردُوئے معلّٰى [zəbaːn eː ʊrdu eː moəllaː] )، "بلند کیمپ کی زبان" کہا جاتا ہے، جس کا حوالہ دیتے ہوئے لشکری زبان فوج [202] میں مقامی یا لاشری کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ʃkəɾi ləʃkəɾi: zɑ:bɑ:n ]) [203] یا صرف لشکری۔[204] اردو میں استعمال ہونے والے لفظ کی تشبیہات ، زیادہ تر حصے کے لیے، فیصلہ کرتی ہیں کہ کسی کی بات کتنی شائستہ یا بہتر ہے۔ مثال کے طور پر، اردو بولنے والے پانی اور آب آب کے درمیان فرق کریں گے، دونوں کے معنی "پانی" کے ہیں: سابقہ بول چال میں استعمال ہوتا ہے اور اس کی سنسکرت کی اصل ہے، جب کہ مؤخر الذکر فارسی نژاد ہونے کی وجہ سے رسمی اور شاعرانہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔

اگر کوئی لفظ فارسی یا عربی زبان کا ہو تو تقریر کی سطح زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اسی طرح، اگر فارسی یا عربی گرامر کی تعمیرات، جیسے کہ اِضافات ، کو اردو میں استعمال کیا جائے، تو تقریر کی سطح بھی زیادہ رسمی اور عظیم تر سمجھی جاتی ہے۔ اگر کوئی لفظ سنسکرت سے وراثت میں ملا ہے تو تقریر کی سطح کو زیادہ بول چال اور ذاتی سمجھا جاتا ہے۔[205]

تحریری نظام

 
اردو نستعلیق حروف تہجی، دیوناگری اور رومن رسم الخط میں ناموں کے ساتھ

اردو کا تحریری نظام فارسی حروف تہجی کی توسیع ہے جو دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے اور یہ نظام خود عربی حروف تہجی کی توسیع ہے۔ اردو کا تعلق فارسی خطاطی کے نستعلیق طرز سے ہے، جب کہ عربی عام طور پر ناسخ یا رقہ کے انداز میں لکھی جاتی ہے۔ نستعلیق کو ٹائپ سیٹ کرنا بدنام زمانہ مشکل ہے، لہٰذا 1980ء کی دہائی کے آخر تک اردو اخبارات کو خطاطی کے ماہروں کے ہاتھ سے لکھا جاتا تھا، جنہیں کاتب یا خُوش نویس کہا جاتا تھا۔ ایک ہاتھ سے لکھا ہوا اردو اخبار، دی مسلمان ، اب بھی چنئی میں روزانہ شائع ہوتا ہے۔ [206]

 
ٹیکسلا کے قریب سرکپ کے آثار قدیمہ کے مقام پر انگریزی-اردو دو لسانی نشان۔ اردو کہتی ہے: (دائیں سے بائیں) دو سروں والے عقاب کی شبيہ والا مندر ، dō sarōñ wālé uqāb kī shabīh wāla mandir۔ "دو سروں کے ساتھ عقاب کی تصویر والا مندر۔"

اردو کی ایک انتہائی فارسی اور تکنیکی شکل بنگال اور شمال مغربی صوبوں اور اودھ میں برطانوی انتظامیہ کی قانونی عدالتوں کی زبانی تھی۔ 19ویں صدی کے آخر تک، اردو کے اس رجسٹر میں تمام کارروائیاں اور عدالتی لین دین سرکاری طور پر فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔ 1880ء میں، نوآبادیاتی ہندوستان میں بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر سر ایشلے ایڈن نے بنگال کی عدالتوں میں فارسی حروف تہجی کے استعمال کو ختم کر دیا اور اردو اور ہندی دونوں کے لیے استعمال ہونے والی مقبول رسم الخط کیتھی کے خصوصی استعمال کا حکم دیا۔ صوبہ بہار میں عدالتی زبان اردو تھی جو کیتھی رسم الخط میں لکھی جاتی تھی۔[207] [208] [209][210] کیتھی کا اردو اور ہندی کے ساتھ تعلق بالآخر ان زبانوں اور ان کے رسم الخط کے درمیان سیاسی مقابلے کے باعث ختم ہو گیا، جس میں فارسی رسم الخط کو یقینی طور پر اردو سے جوڑا گیا تھا۔

حال ہی میں ہندوستان میں، اردو بولنے والوں نے اردو رسالوں کی اشاعت کے لیے دیوناگری کو اپنایا ہے اور دیوناگری میں اردو کو دیوناگری میں ہندی سے الگ نشان زد کرنے کے لیے نئی حکمت عملیوں کو اختراع کیا ہے۔ ایسے ناشرین نے اردو الفاظ کی فارسی عربی تشبیہات کی نمائندگی کرنے کے مقصد سے دیوناگری میں نئی آرتھوگرافک خصوصیات متعارف کروائی ہیں۔ ایک مثال ہندی آرتھوگرافک قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ع ( 'عین ) کے سیاق و سباق کی نقل کرنے کے لیے حرفی علامات کے ساتھ ا (دیوناگری a ) کا استعمال ہے۔ اردو پبلشرز کے لیے، دیوناگری کا استعمال انھیں زیادہ سامعین فراہم کرتا ہے، جب کہ آرتھوگرافک تبدیلیاں انھیں اردو کی ایک الگ شناخت کو برقرار رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

بنگال کے کچھ شاعروں، یعنی قاضی نذر الاسلام ، نے تاریخی طور پر بنگالی رسم الخط کو اردو شاعری لکھنے کے لیے استعمال کیا ہے جیسے پریم نگر کا ٹھکانہ کرلے اور میرا بیٹی کی خیلہ ، نیز دو لسانی بنگالی اردو نظمیں جیسے الگا کورو گو کھوپر بندھن ، جبوکر چھولونا اور میرا دل بیت کیا۔[211] [212] [213] ڈھاکہ اردو اردو کی ایک بول چال کی غیر معیاری بولی ہے جو عام طور پر نہیں لکھی جاتی تھی۔ تاہم، بولی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرنے والی تنظیموں نے بولی کو بنگالی رسم الخط میں نقل کرنا شروع کر دیا ہے۔ [note 2] [214]

اردوحروف تہجی

جدول 1: درج ذیل جدول میں حروف تہجی ، قابلِ طق (clickable) ہیں اور متعلقہ ابجد کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ ہر ابجد کے نیچے اسکا انگریزی تلفظ ، غیراردو (یا طالب اردو) صارفین کو مدنظر رکھ کر دیا گیا ہے؛ جبکہ (قوسین) میں موجود انگریزی متبادل ابجدیہ ، بصورت ضرورت لاطینی اردو (roman urdu) تلفظ کی ادائگی میں یکسانیت قائم رکھنے کے مقصد سے درج ہیں۔
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح
Alif (a) Bay (b) Pay (p) tey (t) Tey (T) sey (s) Jiim (j) chey (ch) Hey (H)
خ د ڈ ذ ر ڑ ز ژ س
Khey (Kh) daal (d) Daal (D) zaal (z) rey (r) Rey (R) zey (z) zhey (zh) siin (s)
ش ص ض ط ظ ع غ ف ق
shiin (sh) Suad (S) Zuad (Z) toy (t) zoy (z) ain (a) Ghain (Gh) fey (f) qaaf (q)
ک گ ل م ن و ہ ی ے
kaaf (k) gaaf (g) laam (l) miim (m) noon (n) wao (w,v) hey (h) yei (y) Yei (Y)

ادب

 
حضرت امیر خسرو کی فارسی شاعری۔ (1253–1325)۔

اردو ادب نے حالیہ صدیوں میں حقیقی مقام پایا، اس سے کئی صدیوں پہلے تک سلاطین دہلی پر فارسی کا غلبہ تھا۔ فارسی کی جگہ اردو نے بڑی آسانی سے پالی اور یہاں تک کہ لوگوں کو شک ہوتا ہے کہ فارسی کبھی سرکاری زبان تھی بھی کہ نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ اردو کے مصنفین اور فنکار ہیں۔

نثری ادب

مذہبی

اردو زبان میں اسلامی ادب اور شریعت کی کئی تصانیف ہیں۔ اس میں تفسیر القران، قرآنی تراجم، احادیث، فقہ، تاریخ اسلام، روحانیت اور صوفی طریقہ کے بے شمار کتب دستیاب ہیں۔ عربی اور فارسی کی کئی کلاسیکی کتب کے بھی تراجم اردو میں ہیں۔ ساتھ ساتھ کئی اہم، مقبول، معروف اسلامی ادبی کتب کا خزینہ اردو میں دستیاب ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پنڈت روپ چند جوشی نے اٹھارویں صدی میں ایک کتاب لکھی، جس کا نام لال کتاب ہے۔ اس کا موضوع فالنامہ ہے۔ یہ کتاب برہمنوں کے اُن خاندانوں میں جہاں اردو عام زبان تھی، کافی مشہور کتاب مانی گئی۔

ادبی

 
میر تقی میر (1723–1810) مغل سلطنت کے دور میں 18 ویں صدی میں اودھ کے نوابی دور کے مشہور شاعر۔

غیر مذہبی ادب کو پھر سے دو اشکال میں دیکھ سکتے ہیں۔ ایک فکشن ہے تو دوسرا غیر فکشن۔

نظم

 
مرزا غالب کی ایک یادگار تصویر۔
 
علامہ اقبال۔

ادب کی دوسری قسم نظم ہے۔ نظم کے معنی موتی پرونا ہے۔ یعنی کلام کو ایک ترتیب وار ہیئت کے ساتھ پیش کریں تو وہ صنف نظم کہلاتی ہے۔ اس ادب کو اردو نظمی ادب کہتے ہیں۔ لیکن آج کل اس کو اردو شاعری یا شاعری کے نام سے بھی جانا جانے لگا ہے۔

جنوبی ایشیا میں اردو ایک اہم زبان ہے۔ بالخصوص نظم میں اردو کے مقابلہ میں دوسری زبان نہیں۔ اردو کی روایات میں کئی اصناف ہیں جن میں غزل نمایاں ترین حیثیت کی حامل ہے۔

نظمی اردو (اردو شاعری) میں ذیل کے اصناف ہیں:

  • نظم: مربوط اور مکمل شاعرانہ کلام۔
  • غزل: دو مصرعوں پر مشتمل مکمل، بامعنی اور جداگانہ اشعار کی لڑی
  • مثنوی: ایک لمبی نظم جس میں کوئی قصہ یا داستان کہی گئی ہو۔
  • مرثیہ: شہیدوں کے واقعات کو بیان کرنے والی نظم۔ بالخصوص شہیدانِ کربلا کی شہادت کو بیان کرنے والی نظم۔
  • قصیدہ: قصیدہ اردو نظم کی وہ صنف ہے جسے کسی کی تعریف میں کہی گئی نظمی شکل کہہ سکتے ہیں۔ اس کے چار اقسام ہیں
  • حمد: اللّٰہ کی تعریف میں کہا گیا قصیدہ۔
  • نعت: پیغمبر اسلام حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • منقبت: بزرگوں کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • مدح: بادشاہوں، نوابوں کی شان میں کہا گیا قصیدہ۔
  • نوحہ: معرکۂ کربلا میں ہوئے شہیدوں کے واقعات کو بیان کرنے والی صنف نوحہ ہے۔ مرثیہ اور نوحہ لکھنے میں شہرت یافتہ شعرا میر ببر علی انیس اور مرزا سلامت علی دبیر ہیں۔

مزید دیکھیے

بیرونی روابط

حوالہ جات

  1. "Ethnologue: Languages of the World, Seventeenth edition, Urdu"۔ Ethnologue۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 مارچ 2013 
  2. اردو at ایتھنولوگ (18th ed., 2015)
  3. W. YATES (1847)۔ A DICTIONARY, HINDUSTANI AND ENGLISH۔ Calcutta, British India: Baptist Mission Press۔ صفحہ: iv 
  4. Gaurav Takkar۔ "Short Term Programmes"۔ punarbhava.in۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2015 
  5. "Indo-Pakistani Sign Language"، Encyclopedia of Language and Linguistics
  6. "National Council for Promotion of Urdu Language"۔ Urducouncil.nic.in۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2011 
  7. ہرالڈ ہیمر اسٹورم، رابرٹ فورکل، مارٹن ہاسپلمتھ، مدیران (2017ء)۔ "Urdu"۔ گلوٹولاگ 3.0۔ یئنا، جرمنی: میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ فار دی سائنس آف ہیومین ہسٹری 
  8. احتشام حسین (1956)۔ "اُردو زبان کی ابتدا"۔ اردو کی کہانی۔ اردو گاہ 
  9. Urdu has some form of official status in the Indian states of Bihar, Jharkhand, Telangana, Uttar Pradesh and West Bengal, as well as the national capital territory of Delhi and the Union Territory of Jammu and Kashmir. (ہندوستانی ریاستوں بہار، جھارکھنڈ، تلنگانہ، اترپردیش اور مغربی بنگال کے ساتھ ساتھ دہلی کے قومی دار الحکومت علاقہ اور جموں و کشمیر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اردو کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔)
  10. "National Languages Policy Recommendation Commission" (PDF)۔ MOE Nepal۔ 1994۔ صفحہ: Appendix one۔ 26 مارچ 2023 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2021 
  11. Barbara D. Metcalf (2014)۔ Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900۔ Princeton University Press۔ صفحہ: 207–۔ ISBN 978-1-4008-5610-7۔ اس تبدیلی کی بنیاد حکومت کی طرف سے 1837ء میں ملک کی مختلف مقامی زبانوں کی طرف سے فارسی کو عدالتی زبان کے طور پر تبدیل کرنے کا فیصلہ تھا۔ اردو کی شناخت بہار، اودھ، شمال مغربی صوبوں اور پنجاب میں علاقائی زبان کے طور پر کی گئی تھی، اور اسی لیے اسے بالائی ہندوستان میں حکومت کی زبان بنایا گیا۔ 
  12. Ruth Laila Schmidt (8 December 2005)۔ Urdu: An Essential Grammar (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-134-71319-6۔ تاریخی طور پر، اردو دہلی کے علاقے کی ذیلی علاقائی زبان سے تیار ہوئی، جو اٹھارویں صدی میں ایک ادبی زبان بن گئی۔ زبان کی دو بالکل ملتی جلتی معیاری شکلیں دہلی میں اور جدید اتر پردیش کے لکھنؤ میں تیار ہوئیں۔ 1947ء کے بعد سے، کراچی کی معیاری اردو، ایک تیسری شکل تیار ہوئی ہے۔ 
  13. ^ ا ب B. P. Mahapatra (1989)۔ Constitutional languages (بزبان انگریزی)۔ Presses Université Laval۔ صفحہ: 553۔ ISBN 978-2-7637-7186-1۔ جدید اردو کافی حد تک یکساں زبان ہے۔ ایک پرانی جنوبی شکل، دکنی اردو، اب متروک ہو چکی ہے۔ تاہم، دو قسموں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ دہلی کی اردو اور لکھنؤ کی اردو۔ دونوں تقریباً ایک جیسے ہیں، صرف چند معمولی نکات میں مختلف ہیں۔ یہ دونوں قسمیں بعض معمولی اختلافات کے ساتھ 'معیاری اردو' سمجھی جاتی ہیں۔ 
  14. Rachel Dwyer (27 September 2006)۔ Filming the Gods: Religion and Indian Cinema (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-134-38070-1 
  15. ^ ا ب Tariq Rahman (2001)۔ From Hindi to Urdu: A Social and Political History (PDF)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 1–22۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2014 
  16. "A Historical Perspective of Urdu | National Council for Promotion of Urdu Language"۔ 15 اکتوبر 2022۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2022 
  17. Rekhta Dictionary (5 April 2022)۔ "Meaning of Urdu"۔ ریختہ لغت۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2022 
  18. Michael G. Clyne (1992)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 383۔ ISBN 9783110128550 
  19. "Meaning of urdu-e-mualla in English"۔ Rekhta Dictionary (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2022 
  20. M. Ashraf Bhat (2017)۔ The Changing Language Roles and Linguistic Identities of the Kashmiri Speech Community (بزبان انگریزی)۔ Cambridge Scholars Publishing۔ صفحہ: 72۔ ISBN 978-1-4438-6260-8۔ اگرچہ اس نے بڑی تعداد میں لغوی اشیاء فارسی سے اور کچھ ترکی سے مستعار لی ہیں، لیکن یہ ہندوی (جسے ابتدائی اردو بھی کہا جاتا ہے) سے ماخوذ ہے، جو کہ جدید ہندی اور اردو دونوں کی مادر ہے۔ اس کی ابتدا دہلی کی ایک نئی، عام زبان کے طور پر ہوئی، جسے امیر خسرو نے ہندوی یا دہلوی کہا ہے۔ ہندوستانی تاریخ کے اسٹیج پر مغلوں کی آمد کے بعد، ہندوی زبان کو زیادہ جگہ اور قبولیت حاصل ہوئی۔ فارسی الفاظ و محاورات کا رواج ہوا۔ اس دور کی ہندوی کو ریختہ یا ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا اور بعد میں اردو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کامل دوستی اور رواداری نے ریختہ یا اردو کو فروغ دیا، جو تنوع میں اتحاد کے اصول کی نمائندگی کرتا ہے، اس طرح ہندوستانی زندگی کی بہترین خصوصیت کو نشان زد کرتی ہے۔ عام بولا جانے والا ورژن ('بازار اردو') ہندی کے مقبول بولے جانے والے ورژن سے تقریباً ایک جیسا تھا۔ ہندوستان کے سب سے ممتاز علماء کا خیال ہے کہ اردو نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی ہندو کی زبان ہے۔ یہ ایک کثیر الثقافتی اور کثیر مذہبی تصادم کا نتیجہ ہے۔ 
  21. Dua, Hans R. (1992).
  22. Azad Qalamdaar (27 December 2010)۔ "Hamari History" (بزبان انگریزی)۔ Hamari Boli Foundation۔ 27 دسمبر 2010 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ تاریخی طور پر، ہندوستانی نے 12ویں صدی کے بعد کے عرصے میں آنے والے افغانوں اور ترکوں کے اثرات کے تحت شمال مغربی ہندوستان کے ذیلی علاقائی اپ بھرنشوں سے ایک لسانی طریقہ کار کے طور پر ترقی کی۔ اس کا پہلا بڑا لوک شاعر عظیم فارسی استاد، امیر خسرو (1253–1325ء) تھا، جس نے نئی تشکیل شدہ تقریر میں دوہے (جوڑے) اور پہیلیاں لکھی تھیں، جسے پھر 'ہندوی' کہا جاتا تھا۔ قرون وسطیٰ کے دوران، اس مخلوط تقریر کو مختلف تقریری ذیلی گروہوں نے مختلف طور پر 'ہندوی'، 'زبانِ ہند'، 'ہندی'، 'زبانِ دہلی'، 'ریختہ'، 'گجری' 'دکھنی'، 'زبانِ اردوئے معلی'، 'زبانِ اردو'، یا صرف 'اردو' کے نام سے پکارا تھا۔ 11ویں صدی کے آخر تک، 'ہندوستانی' نام کا رواج تھا اور یہ شمالی ہندوستان کے بیشتر علاقوں میں زبان کی زبان بن گیا تھا۔ کھڑی/کھری بولی نامی ایک ذیلی بولی 13ویں صدی کے آغاز میں دہلی کے علاقے میں اور اس کے آس پاس بولی جاتی تھی جب دہلی سلطنت قائم ہوئی تھی۔ کھری بولی آہستہ آہستہ ہندوستانی (ہندی-اردو) کی وقار کی بولی بن گئی اور جدید معیاری ہندی اور اردو کی بنیاد بن گئی۔ 
  23. Schmidt, Ruth Laila. "1 Brief history and geography of Urdu 1.1 History and sociocultural position."
  24. Malik, Shahbaz, Shareef Kunjahi, Mir Tanha Yousafi, Sanawar Chadhar, Alam Lohar, Abid Tamimi, Anwar Masood et al.
  25. سہیل احمد صدیقی (2021-05-23)۔ "رُہتکی رانگھڑی یا ہریانوی یعنی کھڑی بولی اُردو کی ماں | Express News"۔ ایکسپریس اردو (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2024 
  26. Tariq Rahman (2011)۔ From Hindi to Urdu : a social and political history۔ Karachi۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ OCLC 731974235 
  27. M. Ashraf Bhat (2017)۔ The changing language roles and linguistic identities of the Kashmiri speech community۔ Newcastle upon Tyne, UK۔ ISBN 978-1-4438-6260-8۔ OCLC 991595607 
  28. "A Historical Perspective of Urdu National Council for Promotion of …"۔ 2022-10-15۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  29. "A Historical Perspective of Urdu National Council for Promotion of …"۔ 2022-10-15۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  30. "A Historical Perspective of Urdu National Council for Promotion of …"۔ 2022-10-15۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  31. "اردو کا ایک تاریخی تناظر"۔ National council for Promotion of Urdu language۔ Urdu council India۔ 15 اکتوبر 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 Oct, 2022 
  32. Sujata Sudhakar Mody (2008)۔ Literature, Language, and Nation Formation: The Story of a Modern Hindi Journal 1900-1920 (بزبان انگریزی)۔ University of California, Berkeley۔ صفحہ: 7۔ ...Hindustani, Rekhta, and Urdu as later names of the old Hindi (a.k.a. Hindavi). 
  33. English-Urdu Learner's Dictionary (بزبان انگریزی)۔ Multi Linguis۔ 6 March 2021۔ ISBN 978-1-005-94089-8۔ ** تاریخ (آسان کردہ) ** اولی ہند یورپی > اولی ہند ایرانی > اولی ہند آریائی > ویدک سنسکرت > کلاسیکی سنسکرت > شورسینی پراکرت > شورسینی اپ بھرنش > پرانی ہندی > ہندوستانی > اردو 
  34. B. S. Kesavan (1997)۔ History Of Printing And Publishing in India (بزبان انگریزی)۔ National Book Trust, India۔ صفحہ: 31۔ ISBN 978-81-237-2120-0۔ یہاں یہ یاد کرنا مفید ہو گا کہ قدیم ہندی یا ہندوی جو کہ قدرتی طور پر فارسی کی سب سے بڑی زبان تھی، یہ کردار پہلے بھی، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، پانچ یا چھ صدیوں سے ادا کر چکے ہیں۔ 
  35. Sisir Kumar Das (2005)۔ History of Indian Literature (بزبان انگریزی)۔ Sahitya Akademi۔ صفحہ: 142۔ ISBN 978-81-7201-006-5۔ ہندی اردو کی تاریخ کا سب سے اہم رجحان ایک طرف فارسی کا عمل ہے اور دوسری طرف سنسکرت کا عمل۔ امرت رائے یہ ظاہر کرنے کے لیے ثبوت پیش کرتے ہیں کہ اگرچہ ہندی/ہندوی یا پرانی ہندی جیسی زبان کے لیے فارسی عربی رسم الخط کا استعمال اردو کی علیحدہ شناخت کے قیام کی طرف پہلا قدم تھا؛ لیکن اسے طویل عرصے تک ہندی کہا جاتا رہا۔ ... "نئے نام میں حتمی اور مکمل تبدیلی اس وقت ہوئی جب زبان کے مواد میں زبردست تبدیلی آئی۔" وہ مزید لکھتے ہیں: "ہم تک جو ادب آیا ہے، اس کی روشنی میں، تقریباً چھ سو سالوں سے، ہندی/ہندوی کی ترقی بڑی حد تک دو زبانوں کے بنیادی اتحاد کے نظریے کو ثابت کرتی ہے۔ اٹھارویں صدی کی پہلی سہ ماہی میں ایسا لگتا ہے کہ دراڑ شروع ہو گئی ہے۔" رائے صادق سے نقل کرتے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ یہ اٹھارویں صدی کے "شاعروں اور علماء کی ایک منظم پالیسی" بن گئی، جسے وہ "بے ہودہ الفاظ" کہتے اور سوچتے تھے۔ اس گھاس کو ختم کرنے کا مطلب یہ تھا کہ "کچھ کھردرے اور غیر موسیقی والے عام الفاظ کے ساتھ ہندی الفاظ کی ایک بڑی تعداد کا خاتمہ اس وجہ سے تھا کہ فارسی روایات میں پرورش پانے والے لوگوں کے نزدیک وہ غیر مانوس اور بے ہودہ لگتے تھے۔ صادق نے نتیجہ اخذ کیا: اس لیے یہ تضاد ہے کہ فارسی ظلم کے خلاف یہ صلیبی جنگ، اردو کو مقامی عنصر کے قریب لانے کے بجائے، حقیقت میں اس اور مقبول تقریر کے درمیان ایک وسیع خلیج پیدا کرنا تھی۔ لیکن جس چیز نے اردو کو مقامی بولیوں سے اب بھی زیادہ ممتاز کیا وہ فارسی سے مسلسل درآمد کا عمل تھا۔ یہ عجیب لگ سکتا ہے کہ فارسی کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے اردو کے ادیبوں کو فارسی الفاظ، محاورات، صورتوں اور جذبات پر بہت زیادہ توجہ دینے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ ... 1875ء کے لگ بھگ اپنے کلام ’’اردو صرف و نحو‘‘ میں اس نے ایک متوازن نقطہ نظر پیش کیا جس کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ مولویوں کی فارسی اور پنڈتوں کی زبان کو سنسکرت بنانے کی کوششیں نہ صرف ایک غلطی تھی؛ بلکہ لسانیات کے فطری قوانین کے خلاف ورزی تھی۔ انھوں نے کہا کہ عام آدمی نے فارسی اور سنسکرت دونوں الفاظ بغیر کسی جھجھک کے استعمال کیے۔ 
  36. مسعود حسین خان (1984ء)۔ اردو زبان کی تاریخ کا خاکہ۔ علی گڑھ: سر سید بک ڈپو، جامعہ اردو۔ صفحہ: 4، 19 
  37. "Urdu language | History, Origin, Script, Words, & Facts | Britannica"۔ www.britannica.com (بزبان انگریزی)۔ 2024-08-23۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2024 
  38. کولن پی. مسیکا (1991)۔ The Indo-Aryan languages [ہند آریائی زبانیں] (بزبان انگریزی)۔ انٹرنیٹ آرکائیو۔ کیمبرج، نیویارک: کیمبرج یونیورسٹی پریس۔ صفحہ: 27–30۔ ISBN 978-0-521-23420-7 
  39. B. S. Kesavan (1997)۔ History Of Printing And Publishing in India (بزبان انگریزی)۔ National Book Trust, India۔ صفحہ: 31۔ ISBN 978-81-237-2120-0۔ یہاں یہ یاد کرنا مفید ہو گا کہ قدیم ہندی یا ہندوی جو کہ قدرتی طور پر فارسی کی سب سے بڑی زبان تھی، یہ کردار پہلے بھی، جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، پانچ یا چھ صدیوں سے ادا کر چکے ہیں۔ 
  40. M. Ashraf Bhat (2017)۔ The Changing Language Roles and Linguistic Identities of the Kashmiri Speech Community (بزبان انگریزی)۔ Cambridge Scholars Publishing۔ صفحہ: 72۔ ISBN 978-1-4438-6260-8۔ اگرچہ اس نے بڑی تعداد میں لغوی اشیاء فارسی سے اور کچھ ترکی سے مستعار لی ہیں، لیکن یہ ہندوی (جسے ابتدائی اردو بھی کہا جاتا ہے) سے ماخوذ ہے، جو کہ جدید ہندی اور اردو دونوں کا مادر ہے۔ اس کی ابتدا دہلی کی ایک نئی، عام زبان کے طور پر ہوئی، جسے امیر خسرو نے ہندوی یا دہلوی کہا ہے۔ ہندوستانی تاریخ کے اسٹیج پر مغلوں کی آمد کے بعد، ہندوی زبان کو زیادہ جگہ اور قبولیت حاصل ہوئی۔ فارسی الفاظ و محاورات کا رواج ہوا۔ اس دور کی ہندوی کو ریختہ یا ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا اور بعد میں اردو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کامل دوستی اور رواداری نے ریختہ یا اردو کو فروغ دیا، جو تنوع میں اتحاد کے اصول کی نمائندگی کرتا ہے، اس طرح ہندوستانی زندگی کی بہترین خصوصیت کو نشان زد کرتی ہے۔ عام بولا جانے والا ورژن ('بازار اردو') ہندی کے مقبول بولے جانے والے ورژن سے تقریباً ایک جیسا تھا۔ ہندوستان کے سب سے ممتاز علماء کا خیال ہے کہ اردو نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی ہندو کی زبان ہے۔ یہ ایک کثیر الثقافتی اور کثیر مذہبی تصادم کا نتیجہ ہے۔ 
  41. Jaroslav Strnad (2013)۔ Morphology and Syntax of Old Hindī: Edition and Analysis of One Hundred Kabīr vānī Poems from Rājasthān (بزبان انگریزی)۔ Brill Academic Publishers۔ ISBN 978-90-04-25489-3۔ اسموں کا کافی مختلف گروپ جو دیر میں آخر -a کے ساتھ ہوتا ہے۔ جمع عربی یا فارسی اصل کے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے جو پرانی ہندی نے اپنے فارسی جمع کے اختتام کے ساتھ لیا تھا۔ 
  42. Tariq Rahman (2001)۔ From Hindi to Urdu: A Social and Political History (PDF)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 1–22۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2014 
  43. Afroz Taj (1997)۔ "About Hindi-Urdu" (بزبان انگریزی)۔ The University of North Carolina at Chapel Hill۔ 15 اگست 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2019 
  44. "Amīr Khosrow - Indian poet" 
  45. Jaswant Lal Mehta (1980)۔ Advanced Study in the History of Medieval India۔ 1۔ Sterling Publishers Pvt. Ltd۔ صفحہ: 10۔ ISBN 9788120706170 
  46. Shiri Ram Bakshi، Sangh Mittra (2002)۔ Hazart Nizam-Ud-Din Auliya and Hazrat Khwaja Muinuddin Chisti (بزبان انگریزی)۔ Criterion۔ ISBN 9788179380222 
  47. "Urdu language"۔ Encyclopædia Britannica 
  48. Culture and Circulation: Literature in Motion in Early Modern India۔ Brill۔ 2014۔ ISBN 9789004264489 
  49. Abdul Rashid Khan (2001)۔ The All India Muslim Educational Conference: Its Contribution to the Cultural Development of Indian Muslims, 1886-1947 (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 152۔ ISBN 978-0-19-579375-8۔ دکن کی فتح کے بعد اردو کو گولکنڈہ اور بیجاپور کے درباروں کی آزاد خیال سرپرستی حاصل ہوئی۔ نتیجتاً، اردو نے مقامی زبانوں تلگو اور مراٹھی کے ساتھ ساتھ سنسکرت سے الفاظ مستعار لیے۔ 
  50. Bhanwarlal Nathuram Luniya (1978)۔ Life and Culture in Medieval India (بزبان انگریزی)۔ Kamal Prakashan۔ صفحہ: 311۔ گولکنڈہ اور بیجاپور کی عدالتوں کی آزادانہ سرپرستی میں، اردو نے مقامی زبانوں جیسے تیلگو اور مراٹھی کے ساتھ ساتھ سنسکرت سے الفاظ مستعار لیے، لیکن اس کے موضوعات کو فارسی کے نمونوں پر ڈھالا گیا۔ 
  51. Bellary Shamanna Kesavan (1985)۔ History of Printing and Publishing in India: Origins of printing and publishing in the Hindi heartland (بزبان انگریزی)۔ National Book Trust۔ صفحہ: 7۔ ISBN 978-81-237-2120-0۔ دکن کے مسلمان اس طرح اپنی ہندوستانی زبان کو دکھنی (دکھنی)، گجری یا بھاکا (بھکا) کہتے تھے جو دکن اور جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کے فاتح اور حکمران گروہ سے تعلق کی علامت تھی جہاں ہندوؤں کی بڑی تعداد مراٹھی، کنڑ، تیلگو اور تامل زبانیں بولتی تھی۔ 
  52. Tariq Rahman (2001)۔ From Hindi to Urdu: A Social and Political History (PDF)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 1–22۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2014 
  53. M. Ashraf Bhat (2017)۔ The Changing Language Roles and Linguistic Identities of the Kashmiri Speech Community (بزبان انگریزی)۔ Cambridge Scholars Publishing۔ صفحہ: 72۔ ISBN 978-1-4438-6260-8۔ اگرچہ اس نے بڑی تعداد میں لغوی اشیاء فارسی سے اور کچھ ترکی سے مستعار لی ہیں، لیکن یہ ہندوی (جسے ابتدائی اردو بھی کہا جاتا ہے) سے ماخوذ ہے، جو کہ جدید ہندی اور اردو دونوں کا مادر ہے۔ اس کی ابتدا دہلی کی ایک نئی، عام زبان کے طور پر ہوئی، جسے امیر خسرو نے ہندوی یا دہلوی کہا ہے۔ ہندوستانی تاریخ کے اسٹیج پر مغلوں کی آمد کے بعد، ہندوی زبان کو زیادہ جگہ اور قبولیت حاصل ہوئی۔ فارسی الفاظ و محاورات کا رواج ہوا۔ اس دور کی ہندوی کو ریختہ یا ہندوستانی کے نام سے جانا جاتا تھا اور بعد میں اردو کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کامل دوستی اور رواداری نے ریختہ یا اردو کو فروغ دیا، جو تنوع میں اتحاد کے اصول کی نمائندگی کرتا ہے، اس طرح ہندوستانی زندگی کی بہترین خصوصیت کو نشان زد کرتی ہے۔ عام بولا جانے والا ورژن ('بازار اردو') ہندی کے مقبول بولے جانے والے ورژن سے تقریباً ایک جیسا تھا۔ ہندوستان کے سب سے ممتاز علماء کا خیال ہے کہ اردو نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی ہندو کی زبان ہے۔ یہ ایک کثیر الثقافتی اور کثیر مذہبی تصادم کا نتیجہ ہے۔ 
  54. Mazhar Yusuf (1998)۔ Sind Quarterly:Volume 26, Issues 1-2۔ صفحہ: 36 
  55. Malik, Muhammad Kamran, and Syed Mansoor Sarwar.
  56. First Encyclopaedia of Islam: 1913–1936 (بزبان انگریزی)۔ Brill Academic Publishers۔ 1993۔ صفحہ: 1024۔ ISBN 9789004097964۔ جب کہ ہندوستان کے محمدی حکمران فارسی بولتے تھے، جسے ان کی درباری زبان ہونے کا اعزاز حاصل تھا، ملک کی عام زبان ہندی ہی رہی، جو سنسکرت سے پراکرت کے ذریعے اخذ کی گئی۔ عام لوگوں کی اس بولی پر فارسی زبان کی پیوند کاری کی گئی جس سے ایک نئی زبان اردو وجود میں آئی۔ سر جارج گریئرسن، لسانی سروے آف انڈیا میں، اردو کو کوئی الگ مقام نہیں دیتے، بلکہ اسے مغربی ہندی کی شاخ سمجھتے ہیں۔ 
  57. Jaroslav Strnad (2013)۔ Morphology and Syntax of Old Hindī: Edition and Analysis of One Hundred Kabīr vānī Poems from Rājasthān (بزبان انگریزی)۔ Brill Academic Publishers۔ ISBN 978-90-04-25489-3۔ اسموں کا کافی مختلف گروپ جو دیر میں آخر -a کے ساتھ ہوتا ہے۔ جمع عربی یا فارسی اصل کے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے جو پرانی ہندی نے اپنے فارسی جمع کے اختتام کے ساتھ لیا تھا۔ 
  58. Am.rta Rāya، Amrit Rai، Amr̥tarāya (1984)۔ A House Divided: The Origin and Development of Hindi/Hindavi۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 240۔ ISBN 978-0-19-561643-9 
  59. Michael G. Clyne (1992)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 383۔ ISBN 9783110128550 
  60. Rekhta Dictionary (5 April 2022)۔ "Meaning of Urdu"۔ Rekhta dictionary۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 اپریل 2022 
  61. Alyssa Ayres (23 July 2009)۔ Speaking Like a State: Language and Nationalism in Pakistan۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 19۔ ISBN 9780521519311 
  62. "Urdu's origin: it's not a 'camp language' - Newspaper - DAWN.COM"۔ 17 May 2023۔ 17 مئی 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  63. Language Problem in India۔ Institute of Objective Studies۔ 1997۔ صفحہ: 138۔ ISBN 9788185220413 
  64. sir Richard Francis Burton, Luis Vaz de Camoens (1881)۔ Camoens: his life and his Lusiads, a commentary: Volume 2۔ Oxford University۔ صفحہ: 573۔ کیموئنز کا "مور"، جس کا مطلب صرف "مسلم" ہے، اینگلو انڈینز کی ایک پچھلی نسل نے استعمال کیا تھا، جو اردو یا ہندوستانی بولی کو "مور" کہتے تھے۔ 
  65. Henk W. Wagenaar، S. S. Parikh، D. F. Plukker، R. Veldhuijzen van Zanten (1993)۔ Allied Chambers transliterated Hindi-Hindi-English dictionary۔ Allied Publishers۔ ISBN 9788186062104 
  66. John Ovington (1994)۔ A Voyage to Surat in the Year 1689۔ Asian Educational Services۔ صفحہ: 147 
  67. Zahiruddin Malik (1977)۔ The Reign Of Muhammad Shah 1919-1748 
  68. Deutsche Morgenländische Gesellschaft (1969)۔ Zeitschrift der Deutschen Morgenländischen Gesellschaft:Volume 119۔ Kommissionsverlag F. Steiner۔ صفحہ: 267 
  69. Tariq Rahman (2001)۔ From Hindi to Urdu: A Social and Political History (PDF)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 1–22۔ ISBN 978-0-19-906313-0۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 07 اکتوبر 2014 
  70. John Coatsworth (2015)۔ Global Connections: Politics, Exchange, and Social Life in World History۔ United States: Cambridge Univ Pr۔ صفحہ: 159۔ ISBN 9780521761062 
  71. Afroz Taj (1997)۔ "About Hindi-Urdu" (بزبان انگریزی)۔ The University of North Carolina at Chapel Hill۔ 15 اگست 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جون 2019 
  72. Richard Delacy، Shahara Ahmed (2005)۔ Hindi, Urdu & Bengali۔ Lonely Planet۔ صفحہ: 11–12۔ ہندی اور اردو کو عام طور پر دو مختلف ادبی روایات کے ساتھ ایک بولی جانے والی زبان سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندی اور اردو بولنے والوں کو جو ایک ہی بازاروں میں خریداری کرتے ہیں (اور ایک ہی بالی ووڈ فلمیں دیکھتے ہیں) کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی -- وہ دونوں یہ کہتے ہیں 'کتنے' کا ہے 'کتنے کا ہے؟' -- لیکن ہندی کی تحریری شکل یہ ہوگی कि यह कितने का है? اور اردو یہ کتنی ہوگی؟ ہندی دیوناگری رسم الخط میں بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہے، اور انگریزی کے ساتھ ہندوستان کی سرکاری زبان ہے۔ دوسری طرف، اردو کو نستعلیق رسم الخط (عربی رسم الخط کی ایک ترمیم شدہ شکل) میں دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے اور یہ پاکستان کی قومی زبان ہے۔ یہ بھارتی ریاستوں بہار اور جموں و کشمیر کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ ایک کے طور پر سمجھا جاتا ہے، یہ زبانیں دنیا کی دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہیں، جسے کبھی کبھی ہندوستانی بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں، ہندی اور اردو بولنے والے اپنی 'مختلف' زبانوں میں بغیر کسی بڑی پریشانی کے بات چیت کرتے ہیں۔ ... ہندی اور اردو دونوں کی ترقی کلاسیکی سنسکرت سے ہوئی، جو عام دور کے آغاز میں وادی سندھ (جدید پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان) میں نمودار ہوئی۔ پہلی پرانی ہندی (یا اپ بھرنش) شاعری 769 عیسوی میں لکھی گئی تھی، اور یورپی قرون وسطی سے یہ 'ہندوی' کے نام سے مشہور ہوئی۔ مسلم ترکوں نے 1027ء میں پنجاب پر حملہ کیا اور 1193ء میں دہلی پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے اسلامی مغل سلطنت کے لیے راہ ہموار کی، جس نے 16ویں صدی سے لے کر 19ویں صدی کے وسط میں برطانوی راج کے ہاتھوں شکست تک شمالی ہندوستان پر حکومت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کتاب کی زبان عربی، فارسی اور ترکی کے الفاظ کے ساتھ ہندوی گرامر کا مرکب بننا شروع ہوئی۔ ہندوی کے مسلمان بولنے والوں نے عربی رسم الخط میں لکھنا شروع کیا، اردو تخلیق کی، جب کہ ہندو آبادی نے نئے الفاظ شامل کیے لیکن دیوناگری رسم الخط میں لکھنا جاری رکھا۔ 
  73. P. M. Holt، Ann K. S. Lambton، Bernard Lewis، مدیران (1977)۔ The Cambridge History of Islam۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحہ: 723۔ ISBN 0-521-29138-0 
  74. Sanjay Subrahmanyam (2017)۔ Europe's India: Words, People, Empires, 1500–1800۔ Harvard University Press۔ ISBN 9780674977556 
  75. Christine Everaert (2010)۔ Tracing the Boundaries Between Hindi and Urdu۔ ISBN 978-9004177314 
  76. Siddheshwar Varma (1973)۔ G. A. Grierson's Linguistic Survey of India 
  77. Abdul Jamil Khan (2006)۔ Urdu/Hindi: An Artificial Divide: African Heritage, Mesopotamian Root۔ ISBN 9780875864372 
  78. David Prochaska, Edmund Burke III (July 2008)۔ Genealogies of Orientalism: History, Theory, Politics۔ Nebraska Paperback 
  79. ^ ا ب پ John Hutchinson، Anthony D. Smith (2000)۔ Nationalism: Critical Concepts in Political Science (بزبان انگریزی)۔ Taylor & Francis۔ ISBN 978-0-415-20112-4۔ شمالی ہندوستان میں انیسویں صدی میں، سرکاری اسکولوں کے برطانوی نظام کی توسیع سے پہلے، اردو کو اپنی تحریری شکل میں روایتی اسلامی اسکولوں میں ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا تھا، جہاں مسلمان بچوں کو فارسی اور عربی پڑھائی جاتی تھی، جو کہ کی روایتی زبانیں ہیں۔ اسلام اور مسلم ثقافت۔ یہ تب ہی تھا جب شمالی ہند کے مسلم اشرافیہ اور انگریزوں نے یہ فیصلہ کیا کہ مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں تعلیم میں پسماندہ ہیں اور انہیں سرکاری اسکولوں میں جانے کی ترغیب دی جانی چاہیے کہ اس کے لیے فارسی عربی رسم الخط میں اردو پڑھنا ضروری سمجھا گیا۔ مسلمان سکولوں میں حاضری دیں۔ اور ہندی-اردو تنازعہ کے پیدا ہونے کے بعد ہی اردو، جسے کبھی شمالی ہندوستان میں مسلم اشرافیہ نے حقیر سمجھا اور انیسویں صدی کے اوائل میں مسلم مذہبی اسکولوں میں بھی نہیں پڑھایا جاتا تھا، خود اسلام کے بعد دوسرے نمبر پر مسلم شناخت کی علامت بن گئی۔ شمالی ہندوستان میں ہندی-اردو تنازعہ سے سامنے آنے والا دوسرا نکتہ یہ ہے کہ علامتوں کا استعمال ان لوگوں کو الگ کرنے کے لیے کیسے کیا جا سکتا ہے جو درحقیقت ثقافت کے پہلوؤں کو بانٹتے ہیں۔ یہ بات مشہور ہے کہ عام مسلمان اور ہندو انیسویں صدی میں متحدہ صوبوں میں ایک ہی زبان بولتے تھے، یعنی ہندوستانی، چاہے اس نام سے پکارا جائے یا ہندی، اردو، یا برج یا اودھی جیسی علاقائی بولیوں میں سے کوئی ایک۔ اگرچہ انیسویں صدی میں مختلف سماجی طبقات اور اسٹیٹس گروپس کے درمیان ہندی-اردو کے مختلف انداز استعمال میں تھے، لیکن عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں قانونی اور انتظامی اشرافیہ، ہندو اور مسلمان یکساں، فارسی-عربی رسم الخط میں اردو کا استعمال کرتے تھے۔ 
  80. Sachchidananda Sinha (1911)۔ The Hindustan Review: Volume 23۔ University of Wisconsin- Madison۔ صفحہ: 243 
  81. Richard Delacy، Shahara Ahmed (2005)۔ Hindi, Urdu & Bengali۔ Lonely Planet۔ صفحہ: 11–12۔ ہندی اور اردو کو عام طور پر دو مختلف ادبی روایات کے ساتھ ایک بولی جانے والی زبان سمجھا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندی اور اردو بولنے والوں کو جو ایک ہی بازاروں میں خریداری کرتے ہیں (اور ایک ہی بالی ووڈ فلمیں دیکھتے ہیں) کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی -- وہ دونوں یہ کہتے ہیں 'کتنے' کا ہے 'کتنے کا ہے؟' -- لیکن ہندی کی تحریری شکل یہ ہوگی कि यह कितने का है? اور اردو یہ کتنی ہوگی؟ ہندی دیوناگری رسم الخط میں بائیں سے دائیں لکھی جاتی ہے، اور انگریزی کے ساتھ ہندوستان کی سرکاری زبان ہے۔ دوسری طرف، اردو کو نستعلیق رسم الخط (عربی رسم الخط کی ایک ترمیم شدہ شکل) میں دائیں سے بائیں لکھا جاتا ہے اور یہ پاکستان کی قومی زبان ہے۔ یہ بھارتی ریاستوں بہار اور جموں و کشمیر کی سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ ایک کے طور پر سمجھا جاتا ہے، یہ زبانیں دنیا کی دوسری سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہیں، جسے کبھی کبھی ہندوستانی بھی کہا جاتا ہے۔ اپنی روزمرہ کی زندگی میں، ہندی اور اردو بولنے والے اپنی 'مختلف' زبانوں میں بغیر کسی بڑی پریشانی کے بات چیت کرتے ہیں۔ ... ہندی اور اردو دونوں کی ترقی کلاسیکی سنسکرت سے ہوئی، جو عام دور کے آغاز میں وادی سندھ (جدید پاکستان اور شمال مغربی ہندوستان) میں نمودار ہوئی۔ پہلی پرانی ہندی (یا اپبھرنشا) شاعری 769 عیسوی میں لکھی گئی تھی، اور یورپی قرون وسطی سے یہ 'ہندوی' کے نام سے مشہور ہوئی۔ مسلم ترکوں نے 1027 میں پنجاب پر حملہ کیا اور 1193 میں دہلی پر قبضہ کر لیا۔ انہوں نے اسلامی مغل سلطنت کے لیے راہ ہموار کی، جس نے 16ویں صدی سے لے کر 19ویں صدی کے وسط میں برطانوی راج کے ہاتھوں شکست تک شمالی ہندوستان پر حکومت کی۔ یہ وہ وقت تھا جب اس کتاب کی زبان عربی، فارسی اور ترکی کے الفاظ کے ساتھ ہندوی گرامر کا مرکب بننا شروع ہوئی۔ ہندوی کے مسلمان بولنے والوں نے عربی رسم الخط میں لکھنا شروع کیا، اردو تخلیق کی، جب کہ ہندو آبادی نے نئے الفاظ شامل کیے لیکن دیوناگری رسم الخط میں لکھنا جاری رکھا۔ 
  82. Syed Ameer Ali (1989)۔ The Right Hon'ble Syed Ameer Ali: Political Writings (بزبان انگریزی)۔ APH Publishing۔ صفحہ: 33۔ ISBN 978-81-7024-247-5 
  83. ^ ا ب Michael Clyne (24 May 2012)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ ISBN 978-3-11-088814-0 
  84. Christopher Rolland King (1999)۔ One Language, Two Scripts: The Hindi Movement in Nineteenth Century North India (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 78۔ ISBN 978-0-19-565112-6۔ برطانوی زبان کی پالیسی دونوں بڑے سیاسی عملوں کے نتیجے میں اور اس میں حصہ ڈالی جس کے نتیجے میں برطانوی ہندوستان کو ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کیا گیا، جس کا نتیجہ ہندی-اردو تسلسل کی لسانی تقسیم کے بالکل متوازی طور پر انتہائی سنسکرت زدہ ہندی اور اعلیٰ فارسی اردو میں ہوا۔ 
  85. Irfan Ahmad (20 November 2017)۔ Religion as Critique: Islamic Critical Thinking from Mecca to the Marketplace (بزبان انگریزی)۔ UNC Press Books۔ ISBN 978-1-4696-3510-1۔ بہت سے بڑے ہندو شاعر ہوئے ہیں اور ہیں جنہوں نے اردو میں لکھا ہے۔ اور انہوں نے ہندو مذہب کو اردو میں اس کی مذہبی کتابیں پڑھ کر سیکھا۔ گلزار دہلوی - جن کا غیر ادبی نام آنند موہن زوتشی (پیدائش 1926) ہے - بہت سی مثالوں میں سے ایک ہے۔ 
  86. Aijazuddin Ahmad (2009)۔ Geography of the South Asian Subcontinent: A Critical Approach (بزبان انگریزی)۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 119۔ ISBN 978-81-8069-568-1 
  87. Rahman Tariq۔ Urdu in Hyderabad State (PDF)۔ The Annual of Urdu Studies 
  88. Ali Raj (30 April 2017)۔ "The case for Urdu as Pakistan's official language"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2019 
  89. Walter Hakala (2012)۔ "Languages as a Key to Understanding Afghanistan's Cultures" (PDF)۔ Afghanistan: Multidisciplinary Perspectives۔ 14 مارچ 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 جولا‎ئی 2023 
  90. Rajeshwari Krishnamurthy (28 June 2013)۔ "Kabul Diary: Discovering the Indian connection" (بزبان انگریزی)۔ Gateway House: Indian Council on Global Relations۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مارچ 2018۔ ملک میں ہندوستانی سنیما کی مقبولیت کی بدولت کابل میں زیادہ تر افغان ہندی سمجھتے اور/یا بولتے ہیں۔ 
  91. "Who Can Be Pakistani?"۔ thediplomat.com (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2019 
  92. R. Vanita (2012)۔ Gender, Sex, and the City: Urdu Rekhti Poetry in India, 1780-1870 (بزبان انگریزی)۔ |Springer۔ ISBN 978-1-137-01656-0۔ غیر جنس پرستی کی مہمیں اردو کو سنسکرت اور پراکرت الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اسی وقت شروع ہوئیں جب ہندی کے ادیبوں نے ہندی کو فارسی اور عربی الفاظ سے پاک کرنے کی کوشش کی۔ انیسویں صدی کے اواخر میں اردو اور ہندی کی سیاست، جو بعد میں ہندوستان اور پاکستان کے لوگوں نے بڑھا دی، اس کا بدقسمتی سے نتیجہ یہ نکلا کہ بعض شاعروں کو کینن سے نکال دیا گیا۔ 
  93. Laetitia Zecchini (31 July 2014)۔ Arun Kolatkar and Literary Modernism in India: Moving Lines (بزبان انگریزی)۔ A&C Black۔ ISBN 9781623565589 
  94. Bruce, Gregory Maxwell. "2 The Arabic Element".
  95. C. Shackle (1990)۔ Hindi and Urdu Since 1800: A Common Reader (بزبان انگریزی)۔ Heritage Publishers۔ ISBN 9788170261629 
  96. A History of Indian Literature: Struggle for freedom: triumph and tragedy, 1911–1956 (بزبان انگریزی)۔ Sahitya Akademi۔ 1991۔ ISBN 9788179017982 
  97. Braj Kachru (2015)۔ Collected Works of Braj B. Kachru: Volume 3 (بزبان انگریزی)۔ Bloomsbury Publishing۔ ISBN 978-1-4411-3713-5۔ اردو کا انداز، یہاں تک کہ پاکستان میں بھی، "اعلی" اردو سے بول چال کی اردو میں تبدیل ہو رہا ہے (زیادہ ہندوستانی کی طرح، جس سے ایم کے گاندھی خوش ہوتے)۔ 
  98. Harry S. Ashmore (1961)۔ Encyclopaedia Britannica: a new survey of universal knowledge, Volume 11 (بزبان انگریزی)۔ Encyclopædia Britannica۔ صفحہ: 579۔ ہندوستان کے شمال اور مغربی پاکستان میں تمام برادریوں کے 50,000,000 سے زیادہ افراد کی روزمرہ کی تقریر ایک مشترکہ زبان ہندوستانی کا اظہار ہے۔ 
  99. ^ ا ب Oh Calcutta, Volume 6۔ 1977۔ صفحہ: 15۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021۔ عام طور پر تسلیم کیا جاتا ہے کہ اردو ایک دم توڑتی ہوئی زبان ہے۔ جسے عام طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا وہ یہ ہے کہ یہ ایک دم توڑتی ہوئی قومی زبان ہے۔ جسے ہندوستانی کہا جاتا تھا، ہندوستانیوں کی سب سے بڑی تعداد کی بولی جانے والی زبان، سنسکرت کے ماہرین تعلیم سے زیادہ اردو کے عناصر پر مشتمل ہے، لیکن یہ اب بھی لوگوں کی زبان ہے۔ 
  100. "Urdu Is Alive and Moving Ahead With Times: Gulzar" (بزبان انگریزی)۔ Outlook۔ 13 February 2006۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 ستمبر 2021 
  101. Gulzar (11 June 2006)۔ "Urdu is not dying: Gulzar" (بزبان انگریزی)۔ The Hindustan Times 
  102. Shoaib Daniyal (1 June 2016)۔ "The death of Urdu in India is greatly exaggerated – the language is actually thriving" (بزبان انگریزی)۔ Scroll.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 ستمبر 2021 
  103. ^ ا ب Ali Husain Mir، Raza Mir (2006)۔ Anthems of Resistance: A Celebration of Progressive Urdu Poetry۔ New Delhi: Roli Books Private Limited۔ صفحہ: 118۔ ISBN 9789351940654۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021۔ 'مرتی ہوئی زبان' جیسے جملے اکثر ہندوستان میں اردو کی حالت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں اور 'اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد' جیسے اشارے موجودہ حالات اور زبان کے مستقبل کے حوالے سے بری خبروں کا ایک جھلک پیش کرتے ہیں۔ 
  104. ^ ا ب Journal of the Faculty of Arts, Volume 2۔ Aligarh Muslim University۔ 1996۔ صفحہ: 42۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021۔ اروند کالا اس وقت زیادہ نشان زد نہیں ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ 'اردو ایک مرتی ہوئی زبان ہے (ہندوستان میں)، لیکن یہ ہندی فلموں کے ڈائیلاگ ہیں جنہوں نے ہندوستان میں اردو کی تعریف میں اضافہ کیا ہے۔ ہندی فلموں کی بدولت، اردو کے علم کو شمال کے جاننے والوں میں نفاست کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔' 
  105. ^ ا ب پ ت ٹ ث Khushwant Singh (2011)۔ Celebrating the Best of Urdu Poetry۔ Penguin UK۔ صفحہ: 9–10۔ ISBN 9789386057334۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  106. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ Hanan Irfan (15 July 2021)۔ "The Burden of Urdu Must Be Shared"۔ LiveWire۔ 28 اپریل 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  107. ^ ا ب پ ت Shoaib Daniyal (4 July 2018)۔ "Surging Hindi, shrinking South Indian languages: Nine charts that explain the 2011 language census"۔ Scroll.in۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  108. ^ ا ب پ ت ٹ John Willoughby & Zehra Aftab (2020)۔ "The Fall of Urdu and the Triumph of English in Pakistan: A Political Economic Analysis" (PDF)۔ PIDE Working Papers۔ Pakistan Institute of Development Economics۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  109. ^ ا ب پ Paul R. Brass (2005)۔ Language, Religion and Politics in North India۔ Cambridge: Cambridge University Press۔ صفحہ: 136۔ ISBN 9780595343942۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021۔ ہندی اور اردو کے درمیان تفریق کا باعث بننے والی تیسری قوت ہندو اور مسلم احیاء اور فرقہ وارانہ دشمنی کی متوازی اور منسلک ترقی تھی، جس کا نتیجہ ہندی-اردو تنازعہ کے نتیجے میں اردو کو مسلمانوں اور ہندی کی زبان کے طور پر شناخت کرنے کے رجحان کو تقویت دینے کے لیے نکلا۔ ہندوؤں کی زبان کے طور پر اگرچہ معروضی طور پر یہ آج بھی پوری طرح سے درست نہیں ہے، لیکن یہ ناقابل تردید ہے کہ تاریخی رجحان اس طرف رہا ہے۔ (...) بہت سے ہندو بھی اردو میں لکھتے رہتے ہیں، ادب اور ذرائع ابلاغ دونوں میں۔ تاہم، اردو میں ہندو مصنفین ایک دم توڑتی ہوئی نسل ہیں اور ہندی اور اردو تیزی سے موضوعی طور پر الگ الگ زبانیں بن گئی ہیں جن کی شناخت مختلف مذہبی برادریوں سے ہوتی ہے۔ 
  110. Christine Everaert (2010)۔ Tracing the Boundaries Between Hindi and Urdu: Lost and Added in Translation Between 20th Century Short Stories۔ Leiden: Brill۔ صفحہ: 77–79۔ ISBN 9789004177314۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  111. ^ ا ب پ ت ٹ John Willoughby & Zehra Aftab (2020)۔ "The Fall of Urdu and the Triumph of English in Pakistan: A Political Economic Analysis" (PDF)۔ PIDE Working Papers۔ Pakistan Institute of Development Economics۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2021 
  112. "Statement – 1: Abstract of speakers' strength of languages and mother tongues – 2001"۔ Government of India۔ 2001۔ 04 اپریل 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 04 اکتوبر 2016 
  113. ORGI۔ "Census of India: Comparative speaker's strength of Scheduled Languages-1951, 1961, 1971, 1981, 1991 ,2001 and 2011" (PDF) 
  114. "Government of Pakistan: Population by Mother Tongue" (PDF)۔ Pakistan Bureau of Statistics۔ 10 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  115. "Hindustani"۔ Columbia University press۔ encyclopedia.com۔ 29 جولا‎ئی 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  116. e.g.
  117. Ruth Laila Schmidt (8 December 2005)۔ Urdu: An Essential Grammar (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-134-71319-6۔ تاریخی طور پر، اردو دہلی کے علاقے کی ذیلی علاقائی زبان سے تیار ہوئی، جو اٹھارویں صدی میں ایک ادبی زبان بن گئی۔ زبان کی دو بالکل ملتی جلتی معیاری شکلیں دہلی میں اور جدید اتر پردیش کے لکھنؤ میں تیار ہوئیں۔ 1947 کے بعد سے، کراچی کی معیاری اردو، ایک تیسری شکل تیار ہوئی ہے۔ 
  118. Abdul Rashid Khan (2001)۔ The All India Muslim Educational Conference: Its Contribution to the Cultural Development of Indian Muslims, 1886-1947 (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 152۔ ISBN 978-0-19-579375-8۔ دکن کی فتح کے بعد اردو کو گولکنڈہ اور بیجاپور کے درباروں کی آزاد خیال سرپرستی حاصل ہوئی۔ نتیجتاً، اردو نے مقامی زبانوں تلگو اور مراٹھی کے ساتھ ساتھ سنسکرت سے الفاظ مستعار لیے۔ 
  119. Jan Gube، Fang Gao (2019)۔ Education, Ethnicity and Equity in the Multilingual Asian Context (بزبان انگریزی)۔ Springer Publishing۔ ISBN 978-981-13-3125-1۔ ہندوستان اور پاکستان کی قومی زبان 'معیاری اردو' 'معیاری ہندی' کے ساتھ باہمی طور پر قابل فہم ہے کیونکہ دونوں زبانیں ایک ہی ہندی بنیاد رکھتی ہیں اور سب کچھ ہیں لیکن صوتیات میں الگ نہیں ہیں۔ 
  120. "PAKISTAN"۔ Official U.S. Marine Corps۔ 31 جنوری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 فروری 2022 
  121. The World Factbook (بزبان انگریزی)۔ Central Intelligence Agency۔ 1992۔ صفحہ: 264 
  122. "Who Can Be Pakistani?"۔ thediplomat.com (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2019 
  123. M. Rieker، K. Ali (26 May 2008)۔ Gendering Urban Space in the Middle East, South Asia, and Africa (بزبان انگریزی)۔ Springer۔ ISBN 978-0-230-61247-1 
  124. Nikky-Guninder Kaur Singh (30 November 2012)۔ Of Sacred and Secular Desire: An Anthology of Lyrical Writings from the Punjab (بزبان انگریزی)۔ Bloomsbury Publishing۔ ISBN 978-0-85772-139-6 
  125. "Why Punjabis in Pakistan Have Abandoned Punjabi"۔ Fair Observer۔ 14 July 2020 
  126. "EDUCATION SYSTEM PROFILES Education in Pakistan"۔ World Education Services۔ 25 February 2020۔ انگریزی نوآبادیاتی دور سے ابتدائی اور ثانوی سطحوں پر تعلیم کی بنیادی زبان رہی ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں میں یہ تدریس کی بنیادی زبان ہے لیکن سرکاری اسکولوں میں اسے تیزی سے اردو سے بدل دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر صوبہ پنجاب نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ وہ 2020ء سے اسکولوں میں اردو کو خصوصی ذریعہ تعلیم کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دے گا۔ مقام کے لحاظ سے اور بنیادی طور پر دیہی علاقوں میں، علاقائی زبانیں بھی استعمال کی جاتی ہیں، خاص طور پر ابتدائی تعلیم میں۔ اعلیٰ تعلیم میں تدریس کی زبان زیادہ تر انگریزی ہے، لیکن کچھ پروگرام اور ادارے اردو میں پڑھاتے ہیں۔ 
  127. Aijazuddin Ahmad (2009)۔ Geography of the South Asian Subcontinent: A Critical Approach (بزبان انگریزی)۔ Concept Publishing Company۔ ISBN 978-81-8069-568-1 
  128. Hans Henrich Hock، Elena Bashir (24 May 2016)۔ The Languages and Linguistics of South Asia: A Comprehensive Guide (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter GmbH & Co KG۔ ISBN 978-3-11-042330-3 
  129. Ali Raj (30 April 2017)۔ "The case for Urdu as Pakistan's official language"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 اکتوبر 2019 
  130. SC orders immediate implementation of Urdu as official language | Pakistan | Dunya News
  131. "National Languages Policy Recommendation Commission" (PDF)۔ MOE Nepal۔ 1994۔ صفحہ: Appendix one۔ 26 مارچ 2023 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مارچ 2021 
  132. "Urdu".
  133. "Is Urdu losing its charm in Bollywood films?"۔ Deccan Herald (بزبان انگریزی)۔ 27 February 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مئی 2023 
  134. Jayson Beaster-Jones (9 October 2014)۔ Bollywood Sounds: The Cosmopolitan Mediations of Hindi Film Song (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ ISBN 978-0-19-999348-2 
  135. "Urdu newspapers: growing, not dying"۔ asu.thehoot.org۔ 26 فروری 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 ستمبر 2020 
  136. "Highest Circulated amongst ABC Member Publications Jan - Jun 2017" (PDF)۔ Audit Bureau of Circulations۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 ستمبر 2020 
  137. "Most Pakistanis and Urdu speakers live in this Australian state"۔ SBS Your Language (بزبان انگریزی)۔ sbs.com.au 
  138. "Árabe y urdu aparecen entre las lenguas habituales de Catalunya, creando peligro de guetos"۔ Europapress.es۔ 29 June 2009۔ 18 جنوری 2012 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 دسمبر 2011 
  139. Ali Raj (30 April 2017)۔ "The case for Urdu as Pakistan's official language"۔ Herald Magazine (بزبان انگریزی)۔ 28 اکتوبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2019 
  140. "Government of Pakistan: Population by Mother Tongue" (PDF)۔ Pakistan Bureau of Statistics۔ 17 فروری 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  141. پاکستان کی نچلی عدالتوں میں، اردو میں کارروائی ہونے کے باوجود، دستاویزات انگریزی میں ہیں، جب کہ اعلیٰ عدالتوں، یعنی ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں، دستاویزات اور کارروائی دونوں انگریزی میں ہیں۔
  142. Tariq Rahman (2010)۔ Language Policy, Identity and Religion (PDF)۔ Islamabad: Quaid-i-Azam University۔ صفحہ: 59۔ 21 اکتوبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اکتوبر 2014 
  143. Faqir Hussain (14 July 2015)۔ "Language change"۔ DAWN.COM (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 دسمبر 2019 
  144. Akhtarul Wasey (16 July 2014)۔ "50th Report of the Commissioner for Linguistic Minorities in India (July 2012 to June 2013)" (PDF)۔ 08 جولا‎ئی 2016 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 اکتوبر 2016 
  145. Devika Paliwal (24 September 2020)۔ "Parliament Nod to Bill for Declaration of 5 Official Languages for J&K"۔ Law Times Journal۔ اخذ شدہ بتاریخ 24 جون 2022 
  146. ^ ا ب Michael Clyne (24 May 2012)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 395۔ ISBN 978-3-11-088814-0 
  147. Christine Everaert (2010)۔ Tracing the Boundaries Between Hindi and Urdu: Lost and Added in Translation Between 20th Century Short Stories (بزبان انگریزی)۔ BRILL۔ صفحہ: 225۔ ISBN 978-90-04-17731-4 
  148. "The Constitution of Jammu and Kashmir" (PDF)۔ 07 مئی 2012 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ 
  149. "Hindi and Urdu are classified as literary registers of the same language"۔ 02 جون 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  150. Rakesh Peter-Dass (2019)۔ Hindi Christian Literature in Contemporary India (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ ISBN 978-1-00-070224-8۔ ایک ہی زبان کی دو شکلیں، نگرائی ہندی اور فارسی ہندی (اردو) کی گرامر ایک جیسی تھی، مشترک الفاظ اور اصول تھے، اور مختلف رسم الخط استعمال کیے گئے تھے۔ 
  151. Manisha Basu (2017)۔ The Rhetoric of Hindutva۔ Cambridge University Press۔ ISBN 9781107149878۔ اردو، ہندی کی طرح، ہندوستانی زبان کا ایک معیاری رجسٹر تھا جو دہلوی بولی سے ماخوذ تھا اور اٹھارویں صدی میں مغلوں کے دور حکومت میں ابھرا۔ 
  152. Jan Gube، Fang Gao (2019)۔ Education, Ethnicity and Equity in the Multilingual Asian Context (بزبان انگریزی)۔ Springer Publishing۔ ISBN 978-981-13-3125-1۔ ہندوستان اور پاکستان کی قومی زبان 'معیاری اردو' 'معیاری ہندی' کے ساتھ باہمی طور پر قابل فہم ہے کیونکہ دونوں زبانیں ایک ہی ہندی بنیاد رکھتی ہیں اور سب کچھ ہیں لیکن صوتیات میں الگ نہیں ہیں۔ 
  153. Kathleen Kuiper (2010)۔ The Culture of India (بزبان انگریزی)۔ Rosen Publishing۔ ISBN 978-1-61530-149-2۔ اردو کا ہندی سے گہرا تعلق ہے، ایک ایسی زبان جس کی ابتدا اور ترقی برصغیر پاک و ہند میں ہوئی۔ وہ ایک ہی ہندی بنیاد رکھتے ہیں اور صوتیات اور گرامر میں اس قدر مماثلت رکھتے ہیں کہ وہ ایک ہی زبان لگتے ہیں۔ 
  154. "Bringing Order to Linguistic Diversity: Language Planning in the British Raj"۔ Language in India۔ 26 مئی 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2008 
  155. "A Brief Hindi – Urdu FAQ"۔ sikmirza۔ 02 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2008 
  156. "Hindi/Urdu Language Instruction"۔ University of California, Davis۔ 03 جنوری 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 جنوری 2015 
  157. "Urdu and its Contribution to Secular Values"۔ South Asian Voice۔ 11 نومبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2008 
  158. The Annual of Urdu studies, number 11, 1996, "Some notes on Hindi and Urdu", pp. 203–208.
  159. Christine Everaert (2010)۔ Tracing the Boundaries Between Hindi and Urdu: Lost and Added in Translation Between 20th Century Short Stories (بزبان انگریزی)۔ BRILL۔ صفحہ: 225۔ ISBN 978-90-04-17731-4 
  160. "Is Urdu losing its charm in Bollywood films?"۔ Deccan Herald (بزبان انگریزی)۔ 27 February 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مئی 2023 
  161. Michael C. Shapiro، Harold F. Schiffman (2019)۔ Language and Society in South Asia (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter GmbH & Co KG۔ صفحہ: 53۔ ISBN 978-3-11-085763-4 
  162. Michael Clyne (24 May 2012)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ صفحہ: 391۔ ISBN 978-3-11-088814-0 
  163. "A Brief Hindi – Urdu FAQ"۔ sikmirza۔ 02 دسمبر 2007 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2008 
  164. "South Asia :: India – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 11 جون 2008 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2019 
  165. "Urdu | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  166. "Urdu | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  167. "South Asia :: Pakistan – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 24 مئی 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2019 
  168. Carl Skutsch (7 November 2013)۔ Encyclopedia of the World's Minorities۔ Taylor & Francis۔ صفحہ: 2234–۔ ISBN 978-1-135-19395-9 
  169. "Pakistan: population by language 2017"۔ Statista (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 مارچ 2023 
  170. "Middle East :: Saudi Arabia – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 08 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2019 
  171. "Urdu | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  172. "South Asia :: Nepal – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2019 
  173. "Nepal Census" (PDF) 
  174. "Afghanistan | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  175. "Afghanistan | Ethnologue Free"۔ Ethnologue (Free All) (بزبان انگریزی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 مارچ 2023 
  176. "South Asia :: Bangladesh – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 29 دسمبر 2017 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 نومبر 2019 
  177. "Bangladesh: Urdu-Speaking 'Biharis' Seek Recognition, Respect and Rights" (بزبان انگریزی)۔ International Republican Institute۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2022 
  178. "Europe :: United Kingdom – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2019 
  179. "North America :: United States – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 26 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2019 
  180. "Detailed Languages Spoken at Home and Ability to Speak English for the Population 5 Years and Over for United States: 2009-2013" 
  181. "North America :: Canada – The World Factbook – Central Intelligence Agency"۔ www.cia.gov۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 نومبر 2019 
  182. "Linguistic diversity and multilingualism in Canadian homes"۔ Statistics Canada۔ 2 August 2017 
  183. "Farhang-e-Asifiya" [فرہنگِ آصفیہ]۔ Urdu Gah 
  184. ^ ا ب Aijaz Ahmad (2002)۔ Lineages of the Present: Ideology and Politics in Contemporary South Asia (بزبان انگریزی)۔ Verso۔ صفحہ: 113۔ ISBN 9781859843581۔ اس پر آبادی کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ قابل اعتماد اعدادوشمار ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ عام اتفاق سے اردو کی سب سے معتبر لغت ہے۔ اسے انیسویں صدی کے اواخر میں ایک ہندوستانی اسکالر نے مرتب کیا تھا جو برطانوی یا مستشرقین کے اسکالرشپ سے بہت کم واقف تھا۔ زیر بحث لغت نگار، سید احمد دہلوی، اردو کے فارسی کے تعلق کو کم کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ ان کی لغت کے عنوان سے بھی ظاہر ہے۔ اس کا اندازہ ہے کہ اس نے اپنی لغت میں جو 55,000 اردو الفاظ مرتب کیے ہیں ان میں سے تقریباً 75 فیصد سنسکرت اور پراکرت سے ماخوذ ہیں، اور زبان کے بنیادی الفاظ کا پورا ذخیرہ، بغیر کسی استثنا کے، انہی ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے۔ جو چیز اردو کو بہت سی دوسری ہندوستانی زبانوں سے ممتاز کرتی ہے... وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے الفاظ کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہندوستان کے مغرب کی زبانوں سے حاصل کیا ہے، جیسے فارسی، ترکی اور تاجک۔ عربی سے جو کچھ لیا گیا ہے اس میں سے زیادہ تر براہ راست نہیں بلکہ فارسی کے ذریعے آیا ہے۔ 
  185. ^ ا ب Vasudha Dalmia (31 July 2017)۔ Hindu Pasts: Women, Religion, Histories (بزبان انگریزی)۔ SUNY Press۔ صفحہ: 310۔ ISBN 9781438468075۔ الفاظ کے مسئلے پر، احمد سید احمد دہلوی کا حوالہ دیتے ہیں جب وہ انیسویں صدی کے اواخر میں فرہنگِ آصفیہ، جو ایک اردو لغت، مرتب کرنے لگے تھے۔ سید احمد کو فارسی کے ساتھ اردو کا رشتہ کم کرنے کی کوئی خواہش نہیں تھی جیسا کہ ان کی لغت کے عنوان سے ظاہر ہے۔ اس کا اندازہ ہے کہ اس نے اپنی ڈکشنری میں جو 55.000 اردو الفاظ مرتب کیے ہیں ان میں سے تقریباً 75 فیصد سنسکرت اور پراکرت سے ماخوذ ہیں، اور زبان کے بنیادی الفاظ کا پورا ذخیرہ، بغیر کسی استثنا کے، انہی ذرائع سے ہے' (2000)  : 112–13)۔ جیسا کہ احمد بتاتے ہیں، سید احمد، دہلی کی اشرافیہ کے ایک رکن کے طور پر، فارسی اور عربی کی طرف واضح تعصب رکھتے تھے۔ اردو میں پراکیٹک الفاظ کی فیصد کے بارے میں ان کے اندازے کو زیادہ قدامت پسند سمجھا جانا چاہیے۔ روزمرہ کی زبان میں پراکیٹک الفاظ کا اصل تناسب واضح طور پر بہت زیادہ ہوگا۔ 
  186. ^ ا ب پ Afroz Taj (1997)۔ "About Hindi-Urdu" (بزبان انگریزی)۔ University of North Carolina at Chapel Hill۔ 15 اگست 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مارچ 2018 
  187. "Urdu's origin: it's not a "camp language""۔ dawn.com۔ 17 December 2011۔ 24 ستمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 05 جولا‎ئی 2015۔ اردو اسم اور صفت کی مختلف قسمیں ہو سکتی ہیں، جیسے عربی، فارسی، ترکی، پشتو اور یہاں تک کہ پرتگالی، لیکن ننانوے فیصد اردو فعل کی جڑیں سنسکرت/پراکرت میں ہیں۔ لہذا یہ ایک ہند آریائی زبان ہے جو ہند-ایرانی خاندان کی ایک شاخ ہے، جو بدلے میں زبانوں کے ہند-یورپی خاندان کی شاخ ہے۔ ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق، ہند آریائی زبانوں کے ارتقاء کے تین مراحل تھے جو تقریباً 1500 قبل مسیح سے شروع ہوئے اور ویدک سنسکرت، کلاسیکی سنسکرت اور پالی کے مراحل سے گزرے۔ انہوں نے پراکرت اور اپبھرنش میں ترقی کی، جس نے بعد میں مقامی بولیوں کی تشکیل کی بنیاد کے طور پر کام کیا۔ 
  188. India Perspectives, Volume 8 (بزبان انگریزی)۔ PTI for the Ministry of External Affairs۔ 1995۔ صفحہ: 23۔ اردو میں تمام فعل سنسکرت سے ہیں۔ لغت نگاروں کے مطابق اردو لغت میں صرف 25 فیصد الفاظ فارسی یا عربی کے ہیں۔ 
  189. Kees Versteegh، C. H. M. Versteegh (1997)۔ The Arabic Language (بزبان انگریزی)۔ Columbia University Press۔ ISBN 9780231111522۔ ... مقامی زبانوں میں بہت سے عربی قرات کے الفاظ، جیسا کہ اردو اور انڈونیشیائی زبان میں، بنیادی طور پر فارسی کے ذریعے متعارف کرائے گئے تھے۔ 
  190. Iqtidar Husain Khan (1989)۔ Studies in Contrastive Analysis (بزبان انگریزی)۔ The Department of Linguistics of Aligarh Muslim University۔ صفحہ: 5۔ ایک اندازے کے مطابق اردو ذخیرہ الفاظ کا تقریباً 25% فارسی اور عربی زبان کے الفاظ پر مشتمل ہے۔ 
  191. American Universities Field Staff (1966)۔ Reports Service: South Asia series (بزبان انگریزی)۔ American Universities Field Staff۔ صفحہ: 43۔ The Urdu vocabulary is about 30% Persian. 
  192. Sisir Kumar Das (2005)۔ History of Indian Literature: 1911–1956, struggle for freedom : triumph and tragedy (بزبان انگریزی)۔ Sahitya Akademi۔ ISBN 9788172017989۔ پروفیسر گوپی چند کے بیان کے مطابق؛ اردو میں فارسی کی طرف رجحان کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کا آغاز اٹھارویں صدی میں دہلی کے شعراء کے اسکول سے معیاری کاری کے نام پر ہوا۔ اقبال کے عروج کے ساتھ نارنگ لکھتے ہیں کہ یہ عرب فارسی اثرات کی طرف مزید جھک گیا۔ فیض احمد فیض کا وہ کلام جو اقبال کی وفات کے بعد منظر عام پر آیا اس میں بھی فارسی کاری کا نشان ہے۔ تو یہ ن ایم راشد کا قول ہے جنہوں نے اردو شاعری میں آزاد نظم کو مقبول بنایا۔ ایک اور رجحان ساز میراجی کے مقابلے راشد کی زبان پر تازہ ایرانی اثرات واضح طور پر نمایاں ہیں۔ میراجی دوسری انتہا پر ہیں کیونکہ انہوں نے ہندی زدہ اردو استعمال کی۔' 
  193. C. Shackle (1 January 1990)۔ Hindi and Urdu Since 1800: A Common Reader (بزبان انگریزی)۔ Heritage Publishers۔ ISBN 9788170261629 
  194. Alan S. Kaye (30 June 1997)۔ Phonologies of Asia and Africa: (including the Caucasus) (بزبان انگریزی)۔ Eisenbrauns۔ ISBN 9781575060194 
  195. Michael Clyne (24 May 2012)۔ Pluricentric Languages: Differing Norms in Different Nations (بزبان انگریزی)۔ Walter de Gruyter۔ ISBN 978-3-11-088814-0 
  196. Danesh Jain، George Cardona (26 July 2007)۔ The Indo-Aryan Languages (بزبان انگریزی)۔ Routledge۔ صفحہ: 294۔ ISBN 978-1-135-79711-9 
  197. Aijaz Ahmad (2002)۔ Lineages of the Present: Ideology and Politics in Contemporary South Asia (بزبان انگریزی)۔ Verso۔ صفحہ: 113۔ ISBN 9781859843581۔ اس پر آبادی کے اعداد و شمار سے کہیں زیادہ قابل اعتماد اعدادوشمار ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ عام اتفاق سے اردو کی سب سے معتبر لغت ہے۔ اسے انیسویں صدی کے اواخر میں ایک ہندوستانی اسکالر نے مرتب کیا تھا جو برطانوی یا مستشرقین کے اسکالرشپ سے بہت کم واقف تھا۔ زیر بحث لغت نگار، سید احمد دہلوی، اردو کے فارسی کے تعلق کو کم کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ ان کی لغت کے عنوان سے بھی ظاہر ہے۔ اس کا اندازہ ہے کہ اس نے اپنی لغت میں جو 55,000 اردو الفاظ مرتب کیے ہیں ان میں سے تقریباً 75 فیصد سنسکرت اور پراکرت سے ماخوذ ہیں، اور زبان کے بنیادی الفاظ کا پورا ذخیرہ، بغیر کسی استثنا کے، انہی ذرائع سے اخذ کیا گیا ہے۔ جو چیز اردو کو بہت سی دوسری ہندوستانی زبانوں سے ممتاز کرتی ہے... وہ یہ ہے کہ اس نے اپنے الفاظ کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ ہندوستان کے مغرب کی زبانوں سے حاصل کیا ہے، جیسے فارسی، ترکی اور تاجک۔ عربی سے جو کچھ لیا گیا ہے اس میں سے زیادہ تر براہ راست نہیں بلکہ فارسی کے ذریعے آیا ہے۔ 
  198. Paul Teyssier: História da Língua Portuguesa, S. 94.
  199. Peter Austin (1 September 2008)۔ One thousand languages: living, endangered, and lost۔ University of California Press۔ صفحہ: 120–۔ ISBN 978-0-520-25560-9۔ 09 مئی 2013 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 دسمبر 2011 
  200. InpaperMagazine (13 November 2011)۔ "Language: Urdu and the borrowed words"۔ dawn.com۔ 02 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 29 مارچ 2015 
  201. John R. Perry, "Lexical Areas and Semantic Fields of Arabic" in Éva Ágnes Csató, Eva Agnes Csato, Bo Isaksson, Carina Jahani, Linguistic convergence and areal diffusion: case studies from Iranian, Semitic and Turkic, Routledge, 2005. pg 97: "عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرکزی، متصل ایرانی، ترکی اور ہندی زبانوں میں عربی الفاظ کا بڑا حصہ اصل میں نویں اور تیرہویں صدی کے درمیان ادبی فارسی میں لیا گیا تھا۔"
  202. Colin P. Masica, The Indo-Aryan languages.
  203. Khan, Sajjad, Waqas Anwar, Usama Bajwa, and Xuan Wang.
  204. Aijazuddin Ahmad (2009)۔ Geography of the South Asian Subcontinent: A Critical Approach۔ Concept Publishing Company۔ صفحہ: 120–۔ ISBN 978-81-8069-568-1۔ The very word Urdu came into being as the original Lashkari dialect, in other words, the language of the army. 
  205. "About Urdu"۔ Afroz Taj (University of North Carolina at Chapel Hill)۔ 15 اگست 2009 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 فروری 2008 
  206. India: The Last Handwritten Newspaper in the World · Global Voices .
  207. Anshuman Pandey (13 December 2007)۔ "Proposal to Encode the Kaithi Script in ISO/IEC 10646" (PDF) (بزبان انگریزی)۔ Unicode۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2020۔ کیتھی کو بہار کی عدالتوں میں اردو لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جب اس نے 1880ء کی دہائی میں فارسی عربی کو سرکاری رسم الخط کے طور پر بدل دیا۔ برطانوی دور سے بہار سے موجود زیادہ تر قانونی دستاویزات کیتھی میں لکھی گئی اردو میں ہیں۔ ایسے مخطوطات کی کافی تعداد موجود ہے، جن کے نمونے شکل 21، شکل 22 اور تصویر 23 میں دیے گئے ہیں۔ 
  208. Christopher Rolland King (1999)۔ One Language, Two Scripts: The Hindi Movement in Nineteenth Century North India (بزبان انگریزی)۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 67۔ ISBN 978-0-19-565112-6 
  209. Ali Ashraf (1982)۔ The Muslim Elite (بزبان انگریزی)۔ Atlantic Publishers & Distributors۔ صفحہ: 80۔ سرکاری زبان کے طور پر انگریزی کے استعمال کے باوجود عدالتی زبان 'کیتھی' رسم الخط میں اردو تھی۔ 
  210. K. K. Varma، Manohar Lal (1997)۔ Social Realities in Bihar (بزبان انگریزی)۔ Novelty & Company۔ صفحہ: 347۔ ایسٹ انڈیا کمپنی سے پہلے بہار میں سیکھنے اور انتظامیہ کی زبان فارسی تھی اور بعد میں اس کی جگہ انگریزی نے لے لی۔ تاہم عدالتی زبان کیتھی رسم الخط میں لکھی جانے والی اردو ہی رہی۔ 
  211. "বিদ্রোহী কবি নজরুল ; একটি বুলেট কিংবা কবিতার উপাখ্যান" (بزبان بنگالی)۔ 1 June 2014۔ 26 مارچ 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولا‎ئی 2023 
  212. Islam, Rafiqul (1969)۔ নজরুল নির্দেশিকা (بزبان بنگالی) 
  213. Khan, Azahar Uddin (1956)۔ বাংলা সাহিত্যে নজরুল [Nazrul in Bengali literature] (بزبان بنگالی) 
  214. Muhammad Shahabuddin Sabu، Nazir Uddin، مدیران (2021)۔ বাংলা-ঢাকাইয়া সোব্বাসী ডিক্সেনারি (বাংলা - ঢাকাইয়া সোব্বাসী অভিধান) (بزبان بنگالی)۔ Bangla Bazar, Dhaka: Takiya Mohammad Publications