شطح: یہ ایک تصوف کی اصطلاح جس کی جمع شطحیات ہے
اس سے مراد ایسی بات ہے جس میں بڑائی کا اظہار اور دعویٰ پایا جائے او ریہ سالکین کی لغزشوں میں سے ایک لغزش ہے۔[1]
بعض صوفیا کے نزدیک ’’شطحیات‘‘ سے مراد وہ اقوال ہیں جو شرع کے خلاف ہوں اور کسی صوفی سے حالت وجد میں اُن کا اظہار ہوا ہو۔ صوفیاء کی ایک جماعت اِن اقوال کی عجیب وغریب تاویلات کر کے انھیں شرع کے مطابق بتلانے کی کوشش کرتی ہے۔
شیخ ابو نصر سراج طوسی نے شطح پر اپنی کتاب ’’اللمع‘‘ میں مفصل بحث کی ہے ۔
’’صوفی کے قلب پر حالت وجد میں جو انوار و تجلیاتِ الٰہی کا ورود ہوتا ہے ان کے غلبہ کی کیفیت کو وہ ایسی غیر معروف زبان میں ادا کرتا ہے جو سننے والوں کے فہم میں نہیں آسکتے۔ البتہ جو اس کے اہل ہوتے ہیں وہ اسے سمجھ جاتے ہیں مگر جو شخص سلوک و معرفت اور اس کی واردات کی حقیقت سے بے خبر ہو اس کی سلامتی اسی میں ہے کہ وہ ان کلمات پر گفتگو نہ کرے اور اس معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دے ‘‘۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. سیر السلوک الی ملک الملوک ،مولانا القاسم متی
  2. کتاب اللمع فی التصوف ،ابونصرسراج ،ص 537،پیر محمد حسن، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی، اسلام آباد